|شہداد بلوچ، کراچی|

یہ 13 اگست 2020ء کی بات ہے جب سوشل میڈیا پر ایک خبر تیزی سے گردش کرتی ہے کہ تُربَت میں FC نے کراچی یونیورسٹی کے ایک نوجوان طالبعلم کو والدین کے سامنے گولیوں سے چھلّنی کر ڈالا! (شہید حیات بلوچ کے سینے پر ہاتھ باندھ کر آٹھ گولیاں ماری گئیں)۔ یہ خبر دیگر افراد کی طرح میرے بھی رونگٹے کھڑے کردیتی ہے اور میں واقعہ کو دیکھنے کے بعد اندر ہی اندر عہد کرتا ہوں کہ میں قبضہ گیریت، نیو کالونیلزم، قومی جبراور قومی محرومی کے خلاف مزاحمت کروں گا۔ اسی واقعہ کے بعد میری زندگی کا باقاعدہ سیاسی سفر شروع ہوتا ہے اس سیاسی سفر میں، میں پہلے پہل شدید قومی شاونزم کا شکار ہوتا ہوں اور بغیر کوئی سیاسی معاشی نظریے کے جذباتی طور مسلح جہدوجہد کو ہی قومی آزادی کا واحد و حتمی راستہ سمجھتا ہوں۔
اسی سیاسی سلسلے میں ساتھی کامریڈز سے ہر ملاقات میں بحث ہوتی تھی۔ طویل مدتی بحث کے بعد ساتھی کامریڈ مجھے کامریڈ یاسر ارشاد کی کتاب ”کشمیر کی آزادی: ایک سوشلسٹ حل“ کو پڑھنے کا مشورہ دیتے تھے۔ اس کتاب کے پڑھنے کے بعد میری ذہن میں موجود نفرت یا وہ دھندہ صاف ہوگئی جو شاونزم کے دور میں میرے دید و دل میں تھی۔انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی یہ کتاب اور دیگر تحریریں اور پارٹی کے ذہین کیڈرز کے ساتھ مباحثوں نے مجھے اپنے قوم اور انسانی ذات کی حقیقی ”آزادی“ کے نظریات کے ساتھ آشنا کیا۔یعنی کمیونزم کے نظریے سے!نظریہِ کمیونزم ہی وہ سچائی ہے جیسے ہر ریاست مختلف حربوں سے سبوتاژ اور مٹانے کی کوشش کرتی ہے۔ آخر کیوں؟

کیوں کہ یہ نظریہ ہر شخص کو اس غلیظ سرمایہ دارانہ نظام ا ور اس کے آقاؤں کا شیطانی چہرہ دکھاتا ہے۔ یہی شیطان ہمیں قوم، نسل، مذہب و رنگ کے نام پر تقسیم کرتے ہیں۔ یہی نظریہ سماج و انسانیت کے اصل دشمنوں، فوجی و سول اشرافیہ، حکمران، جاگیردار، سرمایہ دار، سردار، میر و پیر، وڈیرہ و درباری مُلا کے خلاف ہمیں طبقاتی بنیادوں پر جوڑنے کی بات کرتا ہے۔ یہی نظریہ پدرشاہی، ماحولیاتی تباہی، غریبی، لاچاری، بے روزگاری، محرومی، مذہبی جبر، مصنوعی باڈری تقسیم کے خلاف ایک واحد للکار ہے۔ یہی نظریہ ہر جگہ مظلوم و محکوم کا ہر ظالم و جابر کے خلاف ایک امید ہے، یہی وہ نظریہ ہے جو ایک غیر طبقاتی سماج کی بات کرتا ہے۔
اپنے قوم و وطن سے محبت کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی دوسری قوم سے نفرت کریں اور اپنی قوم کو برتر و اعلیٰ سمجھیں۔ لبرل قوم پرستی کسی بھی صورت ہمارے خوابوں کی تکمیل کار نہیں ہوسکتی، کیونکہ ہم ایک ایسا وطن و جہاں دیکھنا چاہتے ہیں جس میں دکھ و درد کوئی نہ جھیلے۔ ہمارے خوابوں کے جہان کے معاشرے میں کوئی طبقاتی فرق نہ ہو۔ امیر و غریب کے لیے سہولیات الگ الگ نہ ہوں بلکہ امیر اور غریب کی تفریق ہی ختم ہو جائے۔ جہاں تعلیم، علاج و دیگر بنیادی سہولیات ہر فرد کے لیے یکساں طور پر میسر ہوں۔ ہر فرد زندگی کے ہر غم اور محرومی سے آزاد ہو۔ یہی حقیقی آزادی ہوگی۔ جو صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک سوشلسٹ معاشرے میں ممکن ہے۔ ہر عہد کی ایک سچائی ہوتی ہے اور اس عہد کی سچائی مارکسزم ہے۔ آؤ مل کر اس ظلمت کے دن ختم کریں! آؤ مل کرایک نئی آزادی کی صبح کے لیے جدوجہدکریں!