انٹرنیشنلزم کیوں ضروری ہے؟

”دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!“، یہ کمیونسٹوں کا محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک طبقاتی نظریہ، ایک انقلابی فریضہ اور عالمی سطح پر محنت کش طبقے کی نجات کی سمت ایک رہنما اصول ہے۔ سرمایہ دارای چونکہ عالمی نظام ہے اس لیے اس کے خلاف محنت کش طبقے کی جدوجہد بھی عالمی سطح پر ہونی چاہیے۔ یہی انٹرنیشنلزم ہے، اور یہی آج کی تمام جدوجہد میں وہ عنصر ہے جس کے بغیر فتح ممکن نہیں۔

ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں وہ پہلے کی نسبت بہت زیادہ جُڑی ہوئی ہے۔ ایک ملک کی صنعت دوسرے ملک کے مزدوروں پر انحصار کرتی ہے؛ ایک خطے کی منڈی کسی اور خطے کی معیشت سے بندھی ہوتی ہے۔ سامراجی بینک، مالیاتی ادارے، عالمی تجارتی معاہدے، اور کثیر القومی/ ملٹی نیشنل کمپنیاں، یہ سب سرمایہ داری کو ایک بین الاقوامی نظام میں بدل چکے ہیں۔ جب سامراجی قوتیں اپنی منڈیوں، وسائل اور مزدور قوت کے لیے مختلف خطوں میں جنگیں مسلط کرتی ہیں، جب مہنگائی، بیروزگاری اور ماحولیاتی بحران کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ بن جاتا ہے تو اس کے خلاف مزاحمت بھی بین الاقوامی ہونی چاہیے۔ اس لیے انٹرنیشنلزم نہ صرف ایک اخلاقی رویہ ہے، بلکہ طبقاتی جدوجہد کی ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔

کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے اپنی پہلی انقلابی پکار میں لکھا:”دنیا بھر کے مزدورو ایک ہو جاؤ!“ کیونکہ ان کے مطابق محنت کش طبقہ کوئی قومی طبقہ نہیں بلکہ ایک عالمی طبقہ ہے، جس کے مفادات ہر ملک میں ایک جیسے ہیں۔ وہ سب سرمایہ داروں کے استحصال کا شکار ہیں اور ان کی نجات صرف مشترکہ جدوجہد سے ممکن ہے۔ انٹرنیشنلزم کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ملک کے محنت کش اپنی مقامی لڑائیاں نہ لڑیں، بلکہ ان لڑائیوں کو ایک عالمی تناظر میں دیکھتے ہوئے جوڑا جائے، تاکہ کوئی بھی تحریک تنہا نہ ہو، اور ہر جدوجہد ایک وسیع تر انقلابی تحریک کی صورت اختیار کر سکے۔ انٹرنیشنلزم کا مطلب صرف یکجہتی نہیں بلکہ مشترکہ طبقاتی مفادات کی بنیاد پر انقلابی جدوجہد کو بین الاقوامی سطح پر جوڑنا ہے تاکہ کسی ایک ملک میں فتح یاب سوشلسٹ انقلاب دوسرے ممالک کے محنت کشوں کے لیے راہ ہموار کرے اور سرمایہ دارانہ ردِانقلاب کا راستہ روکا جا سکے۔

1917ء کے بالشویک انقلاب کی قیادت کرتے ہوئے لینن اور ٹراٹسکی نے واضح کیا کہ سوشلسٹ انقلاب کو محض روس تک محدود رکھنا ایک نظریاتی اور عملی غلطی ہوگی۔ انقلاب کو یورپ، خاص طور پر جرمنی میں پھیلانے کی کوشش اس انقلابی انٹرنیشنلسٹ وژن کا حصہ تھی۔ اسی بنیاد پر کمیونسٹ انٹرنیشنل (تیسری انٹرنیشنل) قائم کی گئی، جس نے دنیا بھر کے انقلابیوں کو ایک مشترکہ پروگرام اور تنظیمی بنیاد فراہم کی۔ اور وہ واضح طور پریہ ادراک رکھتے تھے کہ انٹرنیشنلزم کے بغیر روسی انقلاب دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔

یہی وجہ ہے کہ جب عالمی انقلاب کا نظریہ ترک کیا گیا تو سٹالنزم کی شکل میں قومی تنہائی نے انقلاب کو مسخ کرتے ہوئے مارکسزم کے بنیادی اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے بدنام زمانہ مرحلہ واریت کی بنیادیں ڈال دیں۔ سٹالنزم کے غلط نظریات نے نہ صرف سویت یونین کو انہدام تک پہنچایابلکہ یورپ سمیت پوری دنیا میں محنت کش طبقے کی انقلابی تحریکوں کوسبوتاژ کیا۔

قوم پرستی اور انفرادیت سرمایہ داری کے وہ نظریاتی ہتھیار ہیں جن کے ذریعے عالمی محنت کش طبقے کو تقسیم کر کے ان کی مشترکہ طاقت کو کمزور کیا جاتا ہے۔ آج بھی سرمایہ دار طبقہ اپنے سامراجی عزائم کو چھپانے کے لیے مزدوروں کو”قومی اتحاد“ اور”دفاع وطن“ جیسے نعروں کے پیچھے لگا کر ان سے قربانیاں مانگتا ہے جبکہ حقیقت میں یہی حکمران طبقہ ان کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں یہ حکمران طبقہ شاونزم اور مذہبی منافرت کو ہوا دیتا ہے اور امریکہ و یورپ میں انفرادیت، نسل پرستی اور ”ذاتی کامیابی“ کے خواب بیچ کر طبقاتی شعور کو زہر آلود کرتا ہے۔ قوم پرستی کا ہر نظریہ درحقیقت حکمران طبقے کا نظریہ ہے جو محنت کشوں کو ایک طبقہ سمجھنے کی بجائے انہیں ”قوم“ کے جعلی مفاد میں الجھاتا ہے۔ انٹرنیشنلزم اس فریب کو بے نقاب کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ پنجابی، سندھی، پشتون محنت کش، بلوچ محنت کش (کان کن و ماہی گیر)، بھارتی مزدور و کسان، سفید فام امریکی مزدور، ایرانی تیل مزدور اور فلسطینی محنت کش سب ایک ہی طبقاتی زنجیروں میں جکڑے ہیں اور ان کی نجات صرف عالمی سوشلسٹ انقلاب اور مشترکہ طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ممکن ہے۔

فلسطین میں اسرائیلی سامراج کے خلاف جدوجہد کو اگر دنیا بھر کے نوجوانوں اور مزدوروں کی حمایت نہ ملتی، تو یہ جدوجہد کب کی کچلی جا چکی ہوتی۔ ایران میں خواتین و محنت کش طبقے کی بغاوت، امریکہ میں سیاہ فاموں کی بلیک لائیوز میٹر تحریک، فرانس میں پنشن پر حملوں کے خلاف ہڑتالیں، چین میں مزدور بغاوتیں، سب ایک ہی حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ جبر ہر جگہ ایک جیسا ہے اور مزاحمت بھی ہر جگہ جنم لے رہی ہے۔ انٹرنیشنلزم کے اسی جذبے کے تحت انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے ساتھیوں نے گلگت بلتستان عوامی ایکشن کمیٹی کے نوجوانوں کی گرفتاری کے خلاف عالمی سطح پر عملی قدم اٹھایا۔ نیویارک، لندن، پیرس، برلن اور دیگر شہروں میں پاکستانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کے سامنے احتجاج کیے گئے اور مزدور یونینوں سے حمایت حاصل کی گئی۔ اس عملنے براہِ راست پاکستانی ریاست، خاص طور پر اسلام آباد کی کرتا دھرتافوجی اشرافیہ کو عالمی سطح پر بے نقاب کیا اور انہیں دباؤ میں لا کر گرفتاریوں پر نظرثانی پر مجبور کیا۔ یہ انٹرنیشنلزم کی وہ عملی طاقت ہے جو قوم پرستانہ اپیلوں سے ممکن نہیں۔

اس کے برعکس جب پاکستان کی قوم پرست قیادتیں اپنے بیرون ملک حامیوں کے ذریعے ”اقوام متحدہ“، ”ہیومن رائٹس واچ“، یا امریکی کانگریس سے اپیلیں کرتی ہیں، تو وہ نا صرف ریاستی جبر کو چیلنج کرنے میں ناکام رہتی ہیں بلکہ اکثر سامراجی طاقتوں کی آپسی لڑائی میں بخوشی کٹھ پتلی بن رہی ہوتی ہیں۔ ایسی اپیلیں ان سامراجی اداروں کی دہلیز پر رحم کی بھیک کے مترادف ہیں جو خود اس ظلم و جبر کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔یہ تمام ادارے اور ان ممالک کی حکومتیں سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تابع ہوتی ہیں نہ کہ مظلوم اقوام یا محنت کشوں کے۔اس تضاد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صرف وہ جدوجہدمؤثر ثابت ہوسکتی ہے جو عالمی محنت کش طبقے کی انقلابی یکجہتی سے جڑی ہو نہ کہ وہ جو قوم پرستی کی بنیاد پر سامراجی اداروں سے انصاف کی بھیک مانگے۔ انٹرنیشنلزم نہ صرف ظلم کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ حقیقی دباؤ اور یکجہتی کی ایسی طاقت تخلیق کرتا ہے جو حکمران طبقے کو شکست سے دوچار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اگر ان تحریکوں کو جوڑنے والی ایک انقلابی لڑی نہ ہو، ایک بین الاقوامی نظریہ، پروگرام اور تنظیم نہ ہو، تو یہ تحریکیں یا تو تھک کر ختم ہو جاتی ہیں یا پھر ریاستی مشینری انہیں کچل دیتی ہے۔ اسی لیے ہم صرف انٹرنیشنلسٹ یکجہتی کے نعرے نہیں لگاتے بلکہ ایک حقیقی عالمی انقلابی پارٹی کی تعمیر کو بنیادی فریضہ سمجھتے ہیں اور اسی لیے انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کا پلیٹ فارم دنیا بھر میں تعمیر کر رہے ہیں۔ ایک ایسی پارٹی جو ہر ملک میں موجود محنت کش طبقے کی قیادت کرے اور ہر عوامی تحریک کو عالمی انقلاب کی جدوجہد سے جوڑ دے۔

ہماری جدوجہد صرف مقامی اصلاحات کے لیے نہیں بلکہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام ختم کرنے کے لیے ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کی بقا تب ہی ممکن ہے جب وہ عالمی سطح پر پھیلے۔ اگر ایک ملک میں انقلاب آئے اور دوسرے ملکوں میں سرمایہ دار طبقہ باقی رہے، تو وہ انقلاب کو تنہائی، ناکہ بندی، اور عسکری حملوں کے ذریعے نقصان پہنچا سکتا ہے جیسا کہ ہم نے بیسویں صدی میں روس، کیوبا اور دیگر بہت سے ممالک میں دیکھا۔اس لیے انٹرنیشنلزم محض جذباتی وابستگی نہیں بلکہ انقلابی عمل کا لازمی حصہ ہے۔ اگر ہم سرمایہ داری کو شکست دینا چاہتے ہیں، اگر ہم انسانیت کو جنگ، بھوک، بیروزگاری اور جبر سے نجات دلانا چاہتے ہیں، تو ہمیں عالمی سطح پر محنت کش طبقے کو منظم کرنا ہوگا اور ایک انٹرنیشنل انقلابی پارٹی کی تعمیر کرنی ہوگی۔

دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!
عالمی سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!
سامراج، سرمایہ داری اور قوم پرستی مردہ باد!

 

Comments are closed.