مارکسی تعلیم (قسط نمبر 1)

سوال (1): کمیونزم کیا ہے؟

جواب: پرولتاریہ (محنت کش) کی غیر استحصالی اور غیر طبقاتی سماج (جس میں امیر اور غریب نہ ہوں) کیلئے کی جانے والی جدوجہد اور مارکسی انقلابی نظریے (سائنسی سوشلزم) کی بنیاد پر استوار ہونے والے نظام کو کمیونزم کہتے ہیں۔ اس میں دوسرے کا استحصال کرنے والی ملکیت یعنی نجی ملکیت (مثلاً فیکٹریاں، ملز، بنک، جاگیریں، معدنی وسائل وغیرہ) کسی کے پاس نہیں ہوتی یعنی کوئی سرمایہ دار ان ذرائع پیداوار کا مالک نہیں ہوتا۔ ذرائع پیداوار محنت کش عوام کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں۔ اس نظام میں ہر ایک سے اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیا جاتا ہے اور اس کی ضرورتوں کے تحت اس کو دیا جاتا ہے۔ ذہنی اور جسمانی محنت میں پائی جانے والی تفریق کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ چونکہ معیشت کے محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں آنے کے کارن پیداوار منافع کے لئے نہیں بلکہ انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے چلائی جاتی ہے لہٰذا معاشرے کے ہر فرد کی ضروریات بشمول غذا ‘لباس‘ رہائش ‘تعلیم‘ صحت وغیرہ بلا تخصیص سب کو یکساں بنیادوں پر حاصل ہوتی ہیں۔ اس نظام میں بیروزگاری اور بے کاری کے الفاظ سے عوام نا آشنا ہوتے ہیں۔ بیماری، بھوک، جہالت، غربت اور دیگر تمام سماجی برائیاں جو سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہیں ختم ہو جاتی ہیں۔ آزاد، خوشحال اور حقیقی انسانی سماج درحقیقت اسی نظام میں تشکیل پا سکتا ہے۔

سوال (2): پرولتاریہ (محنت کش طبقہ) کیا ہے؟

جواب: پرولتاریہ سماج کا وہ طبقہ ہوتا ہے جو ذرائع پیداوار (دولت پیدا کرنے کے ذرائع یعنی فیکٹریاں، ملز، بنک، جاگیریں، معدنی وسائل وغیرہ) کی ملکیت سے محرو م اپنی بقاء اور ضروریات زندگی کے حصول کیلئے اپنی قوت محنت بیچنے پر مجبور ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں وہ اپنی ہی پیدا کردہ دولت کا قطعی حقدار نہیں ٹھہرایا جاتا۔ اس کی خوشی و غم، زندگی اور موت غرضیکہ اس کی بقاء کا انحصار محنت کی طلب و رسد، اچھے یا برے کاروباری حالات اور منڈی کی بے لگام مسابقت کی غیر یقینی کیفیات پر ہوتا ہے۔ گویا پرولتاریہ یا پرولتاری طبقہ محنت کش عوام کو کہتے ہیں جو صنعتوں یا دیگر شعبوں میں جا کر سرمایہ دار کے پاس اپنی قوت محنت بیچتے ہیں۔ یہ اصطلاح 19 ویں صدی میں ضبط تحریر میں لائی گئی۔

سوال (3): پرولتاریہ (محنت کش طبقہ) کا جنم کیسے ہوا؟

جواب: پرولتاریہ نے اس صنعتی انقلاب میں جنم لیا جو 18 ویں صدی کے وسط میں انگلینڈ میں رونما ہوا اور بعد ازاں دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی پھیل گیا۔ بھاپ کے انجن کی ایجاد، سپننگ مشین، پاور لوم، اور دوسرے تکنیکی آلہ جات اور مشینیں صنعتی انقلاب کا پیش خیمہ بنیں۔ ایک تو ایجاد شدہ مشینیں زیادہ لاگت کی حامل تھیں اور انہیں اس وقت صرف بڑے سرمایہ دار ہی تیار کروا اور خرید سکتے تھے۔ ان مشینوں نے قدیم ذرائع پیداوار اور پیداواری عمل کی جگہ لی۔ کھڈی اور چرخہ کے مقابلے میں سپننگ مشین اور پاور لوم نے زیادہ پیداوار دینا شروع کی تو پیداوار کا پرانا طریقہ (دستکاری وغیرہ) بتدریج ختم ہو گیا۔ اگرچہ نئے نظام کی وجہ سے جدت اور پیداوار میں اضافہ ہوا لیکن ان مشینوں پر بورژوا (سرمایہ دار) طبقے کے تصرف کے باعث پوری صنعت سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں چلی گئی اور محنت کشوں کی معمولی نوعیت کی ملکیت (کھڈی اور اوزار وغیرہ) بے کار ہوگئی۔ اس کے بعد تمام چیزوں اور صنعتی عمل کو سرمایہ داروں نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اور محنت کشوں کو ہر طرح کے آلات پیداوار اور ذرائع پیداوار سے محروم کر دیا۔ یوں کھڈی پر بنے جانے والی کپڑے کے نظام کی جگہ ٹیکسٹائل انڈسٹری نے لی اور اس طرح صنعتی نظام کا آغاز ہوا۔

کپڑے کی تیاری میں صنعتی نظام کے آ جانے سے دوسرے شعبوں کی بھی تیزی سے کایا پلٹ گئی اور وہ بھی صنعتی نظام کا حصہ بن گئے۔ جن میں فوری طور پر کتابوں کی پرنٹنگ، پوٹری اور دھات سازی کے کارخانے شامل تھے۔ پیداوار میں تقسیم محنت کے عمل کو فروغ ملا۔ پہلے ایک ہنر مند کاریگر جو کسی بھی شے کو مکمل طورپر تیار کرنے پر قدرت رکھتا تھا اب محض اس شے کا ایک حصہ تیارکرتا تھا۔ اس سے انفرادی محنت کش کی سرگرمی نہایت سادہ اور لگاتار دہرائی جانے والی میکانکی حرکات تک محدود ہو کر رہ گئی جسے مشین من و عن بلکہ زیادہ بہتر انداز اور تیزی کیساتھ سرانجام دے سکتی ہے۔ محنت کی تقسیم کے باعث اشیاء کی تیاری اور ان کی رسد میں تیزی آگئی اور یہ کم لاگت کے باعث سستی بھی ہوتی گئیں جنہوں نے دست کاری اور انفرادی طورپر تیار کی جانے والی اشیاء کی جگہ لے لی۔ اس طرز پیداوار میں فنی اور تکنیکی صلاحیت اور عمل باآسانی اور تواتر کے ساتھ دہرائے جا سکتے تھے۔ جس کی وجہ سے پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا اور مشینوں کی بدولت اشیاء کے معیار میں بھی بہتری آئی۔ اس طرح یہ سارا پیداواری عمل صنعتی نظام کے تابع ہو کر رہ گیا اور سپننگ اور ویونگ کا عمل بھاپ کی مشینوں کا مرہون منت ہو گیا۔ تاہم دوسری طرف یہ ساری بڑی صنعتیں بڑے بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں چلی گئیں۔ اور محنت کشوں کی رہی سہی آزادی یا خود مختاری کا خاتمہ ہوگیا۔ یوں ہنر مند کاریگر اور مینوفیکچرر صنعتی نظام میں ڈھل گئے اور بعض دست کار چھوٹے مالکان سے بڑے سرمایہ داروں کی شکل اختیار کر گئے۔ انہوں نے بڑی بڑی صنعتیں اور ورکشاپیں بنالیں اور سرمایہ بچانا اور مزید سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی۔ اس طرح پیداوار اور تقسیم محنت کا ایک نیا نظام معرض وجود میں آیا۔

اس سارے عمل کے نتیجے میں پہلے نسبتاً ترقی یافتہ ممالک اور بعد ازاں باقی تمام دنیا میں بھی تمام مزدور محنت فروخت کر نے پر مجبور ہوئے۔ دست کاری و مینوفیکچرنگ کے تمام شعبے وسعت اختیار کرکے بڑی صنعت کی شکل اختیار کر گئے۔ اس سارے عمل نے ایک جست لگائی اور چھوٹے دستکاروں و ہنرمندوں سمیت سابقہ مڈل کلاس یا درمیانے طبقے کو روند ڈالا۔ محنت کشوں کی پرانی شکل کی ہیت و کیفیت کو بدل کر رکھ دیا اور یوں معاشرہ دو طبقوں میں بٹ گیا۔ دو نئے طبقات نے جنم لیا۔ جنہوں نے دھیرے دھیرے معاشرے کے دوسرے افراد کو اپنے طبقے یا صفوں میں لاکھڑا کیا۔ یہ طبقات درج ذیل تھے۔

1۔ بورژوا (سرمایہ دار) طبقہ:

جو تمام ذرائع پیداوار پر قابض ہو گئے اور خام مال و آلات (مشین، فیکٹریاں) جو پیداواری عمل کیلئے ناگزیر تھیں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ طبقہ بورژوا (سرمایہ دار) کہلایا۔

2۔ پرولتاریہ (محنت کش) طبقہ:

اس طبقہ کی ملکیت میں کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ صرف اپنی قوت محنت بورژوا طبقے کے پاس فروخت کرنے پر مجبور تھے تاکہ اس کے بدلے میں زندہ رہنے کیلئے (اجرت کی صورت میں) ضروری لوازمات کا تبادلہ کرسکیں۔ اس طبقے کو پرولتاریہ (محنت کش) طبقہ کہا گیا۔

Comments are closed.