انقلابِ روس کے سو سال: سوشلزم کا نظریہ آج بھی زندہ ہے!

|تحریر: آدم پال|

1917ء میں روس میں برپا ہونے والے عظیم بالشویک انقلاب کو اس سال ایک صدی مکمل ہو گئی ہے۔ ایک سوسال قبل ہونے والے انسانی تاریخ کے ان اہم ترین واقعات میں محنت کش طبقے نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور کئی صدیوں سے جاری امیر اور غریب پر مبنی طبقاتی نظام کا مکمل خاتمہ کر دیا تھا۔ اس سے پیشتر 1871ء میں پیرس کے محنت کشوں نے چند ماہ کے لیے پہلی دفعہ انسانی تاریخ میں اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا تھا۔ اس کے بعد روس جیسے وسیع و عریض ملک میں برپا ہونے والے اس واقعہ نے پوری دنیا کو ہمیشہ کے لیے مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ اس عظیم انقلاب کے دوران ہونے والے واقعات کا جتنی گہرائی میں مطالعہ کیا جائے اتنا کم ہے۔ جہاں روس کے سماج کا تاریخی ارتقا، مزدور طبقے کی جدوجہد اور تحریکیں، انقلابی پارٹی کی تعمیر کا سفر، نظریاتی بحثیں، پہلی عالمی جنگ کے اثرات اور دیگر بہت سے موضوعات اس انقلاب کو سمجھنے میں اہم ہیں وہاں 1917ء کے پورے سال کے دوران ہونے والے مختلف واقعات کا مطالعہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ فروری 1917ء میں روس کے محنت کشوں نے صدیوں پرانی زار روس کی بادشاہت کو اکھاڑ کر پھینک دیا تھا۔ اسی دوران مزدوروں کی سوویتیں خود رو طور پر منظم ہونا شروع ہو گئی تھیں جن میں نہ صرف اہم سیاسی بحثیں کی جاتی تھیں بلکہ اکثریت رائے سے فیصلے بھی کیے جاتے تھے اور پھر ان پر عملدرآمد بھی کروایا جاتا تھا۔ اس دوران لینن اور ٹراٹسکی بھی جلا وطنی سے واپس روس پہنچ گئے تھے اور بالشویک پارٹی کی تنظیم نو کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ بالشویک پارٹی کے اندر اس دوران اہم نظریاتی بحثوں کا آغاز ہوا تھا جس میں انقلاب کے کردار پر فیصلہ کن نتائج اخذ کیے گئے۔ اس دوران لینن کا اپریل تھیسس کلیدی اہمیت کا حامل ہے جس کے بعد لینن اور ٹراٹسکی اس نکتے پر متفق ہو گئے تھے کہ روس میں انقلاب کا کردار سوشلسٹ ہو گا اور مزدور طبقہ اس کی قیادت کرے گا۔ انہیں نظریاتی بحثوں کے نتیجے میں بالشویک پارٹی نے درست نعرے سوویتوں کو دئیے جنہیں بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل ہوئی۔ امن، روٹی اور زمین کا نعرہ بالشویک پارٹی کے نظریات اور انقلابی پروگرام کو درست انداز میں واضح کرتا تھا۔ بالشویکوں نے پروگرام دیا کہ وہ اقتدار میں آ کر ہولناک تباہی پھیلانے والی جنگ کو فوری طور پر بند کریں گے جس میں لاکھوں روسی فوجی مارے جا چکے تھے۔ اس کے بعد ہر شخص کو روٹی فراہم کرنا مزدور ریاست کی ذمہ داری ہو گی جبکہ تمام جاگیریں ضبط کر کے مزارعوں میں تقسیم کی جائیں گی۔ اسی طرح سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ کرنسکی حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام اقتدار سوویتوں کو منتقل کرنے کا نعرہ لگایا گیا۔ انقلاب کے دوران حقیقی طاقت سوویتوں کے پاس ہی تھی جو سماج کا حقیقی نظم و نسق چلا رہی تھیں لیکن بادشا ہت کی باقیات اور سرمایہ دار طبقہ کسی بھی طور اقتدار سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا۔ دنیا میں موجود یگر تمام ممالک بھی اسی کرنسکی حکومت کو ہی تسلیم کر رہے تھے جو درحقیقت ہوا میں معلق تھی اور سماج سے اس کا رشتہ ختم ہو چکا تھا۔ فروری کے بعد سے اکتوبر تک بر سر اقتدار رہنے کے باوجود وہ امن قائم کرنے کی بجائے سامراجی جنگ کو جاری رکھنے کا اعلان کر چکے تھے اور اس کے علاوہ کوئی ایک بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں کر سکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود اقتدار سے چمٹے ہوئے تھے۔ اس دوہرے اقتدار کی صورتحال کو ختم کرنے کے لیے اور تمام اقتدار سوویتوں کو منتقل کرنے کے لیے ایک فیصلہ کن حملے کی ضرورت تھی۔ اس کے لیے لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے حتمی منصوبہ بندی کی اور مزدوروں اور فوجیوں کی سوویتوں کی مدد سے پیٹروگراڈ میں اہم تنصیبات پر قبضہ کر لیا۔ یہ فیصلہ کن دن پرانے روسی کیلنڈر کے مطابق 26اکتوبر اور نئے کیلنڈر کے مطابق 7نومبر تھا۔ اس وقت بالشویکوں کو سوویتوں میں اکثریت حاصل تھی۔ اورسوویتوں کی حمایت سماج میں اتنی زیادہ اور گہری تھی کہ یہ سارا عمل بغیر کسی بڑی لڑائی کے مکمل ہو گیا۔

اقتدار میں آتے ہی بالشویک پارٹی نے اپنے نعروں پر تیزی سے عملدرآمد شروع کر دیا۔ سرمایہ داری اور نجی ملکیت پر قائم امیر اور غریب کے طبقاتی نظام کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے پرانے ریاستی ڈھانچے کو تحلیل کر دیا گیا اور اس کی جگہ مزدور ریاست قائم کی گئی۔ زمینیں مزارعوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم سمیت تمام بنیادی ضروریات ہر شخص کو فراہم کرنا مزدور ریاست کی ذمہ داری قرار پایا اور اس مقصد کے لیے منصوبہ بند معیشت کا آغاز کیا گیا۔ مظلوم قومیتوں کے حق خو د ارادیت کا اعلان کیا گیا اور انہیں روسی جبر سے مکمل آزادی مل گئی۔ خواتین پر جبر اور استحصال کا مکمل خاتمہ کیا گیا اور انہیں رسوم و رواج کی صدیوں پرانی قید سے نجات ملی۔ اسی طرح سماج کے ہر شعبے میں تعمیر و ترقی کا آغاز ہوا۔

عالمی سطح پر سامراجی طاقتوں نے اس نوزائیدہ مزدور ریاست کو کچلنے کے لیے اس پر چاروں جانب سے حملہ کر دیا۔ انہیں خوف تھا کہ یہ نظام پوری دنیا میں پھیل جائے گا اور ان ممالک میں بھی حکمران طبقے کی حاکمیت کا خاتمہ کرتا ہوا امیر اور غریب پر مبنی طبقاتی نظام کا پوری دنیا سے خاتمہ کر دے گا۔ اسی طرح روس کے اندر موجود رجعتی قوتوں نے اس انقلاب کو محنت کشوں سے چھیننے کے لیے خانہ جنگی کا آغاز کر دیا۔ انہی حملوں کے باعث انقلاب کو اپنے آغاز میں شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑالیکن محنت کش طبقے کے عزم و حوصلے‘انقلابی قیادت اور منصوبہ بند معیشت کی فوقیت کے باعث سامراجی ممالک اور داخلی دشمنوں کو شکست فاش ہوئی اور سوویت یونین اس مشکل گھڑی سے سرخ رو ہو کر نکلا۔ اس دوران لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں کمیونسٹ انٹرنیشنل بھی قائم کی گئی تا کہ پوری دنیا میں انقلابی تحریکوں کو منظم کرتے ہوئے عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔ لیکن جرمنی سمیت مختلف یورپی ممالک میں انقلابی تحریکیں بالشویک پارٹی کی طرز پر انقلابی قوت نہ ہونے کے باعث کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں اور سرمایہ داری کا مکمل صفایا نہ کیا جا سکا۔ ایسے میں سوویت یونین کا انقلاب تنہائی کا شکار ہو کر زوال پذیری کی جانب بڑھنے لگا۔ لینن کی وفات کے بعد ٹراٹسکی نے اس عظیم انقلاب کے دفاع کی ہر ممکن کوشش کی لیکن حالات تبدیل ہو چکے تھے اور انقلاب کی اس زوال پذیری کے خلاف ایک سیاسی تحریک معروضی طور پر موجود نہیں تھی۔ ایسے میں سٹالن کی قیادت میں سوویت یونین کی بیوروکریسی نے اپنی گرفت بتدریج مضبوط کی اور ٹراٹسکی کو پہلے

ٹراٹسکی سرخ فوج سے خطاب کرتے ہوئے

سوویت یونین سے جلا وطن کیا گیا اور پھر جلاوطنی میں ہی اس کا قتل کروا دیا گیا۔ اسی طرح لاکھوں افراد جنہوں نے انقلاب برپا کیا تھا انہیں قید و بند کی صعوبتیں اٹھانی پڑی یا پھر کسی سازش کے جھوٹے الزام میں قتل کر دیے گئے۔ اس دوران ٹراٹسکی نے ’’انقلاب سے غداری‘‘ کے نام سے ایک اہم کتاب لکھی جس میں اس نے انقلاب کی زوال پذیری کی سائنسی وجوہات بیان کرتے ہوئے سوویت یونین کے انہدام کی پیش گوئی کی۔ ٹراٹسکی نے لکھا کہ اس تمام تر زوال پذیری کے باوجود سوویت یونین کی منصوبہ بند معیشت مسخ شدہ شکل میں بھی باقی دنیا میں موجود منڈی کی معیشت سے افضل ہے اور سامراجیت اور فاشزم کے مقابلے میں اس کا دفاع کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری عالمی جنگ میں اس منصوبہ بند معیشت کی برتری پوری دنیا پر واضح ہو گئی۔ جہاں ہٹلر کی جدید افواج کو امریکہ اور برطانیہ کے سامراجی ممالک شکست نہیں دے سکے وہاں ایک مسخ شدہ مزدور ریاست نے سٹالن کے تمام غلط فیصلوں کے باوجود ہٹلر کو شکست دے کر برلن پر سرخ پرچم لہرایا۔ اس جنگ کے بعد پوری دنیا میں طاقتوں کا توازن مکمل طور پر تبدیل ہو گیا اور دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک طرف امریکہ اور سوویت یونین میں سرد جنگ کا آغاز ہوا تو دوسری طرف پوری دنیا میں انقلابی تحریکوں کو ایک نئی اٹھان ملی۔ چین میں ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کے بعد پوری دنیا کے حکمران طبقے پر لرزا طاری ہو گیا اور وہ سوشلزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کرنے لگے۔ جہاں انقلاب کے خوف سے سرمایہ دار طبقہ پوری دنیا میں عوام کو بہت سی بنیادی سہولیات دینے پر آمادہ ہوا وہاں سوشلزم کے انقلابی نظریات کے خلاف ایک زہریلے پراپیگنڈے کو پوری دنیا میں منظم انداز میں پھیلایا گیا۔ امریکہ میں میکارتھی ازم کی قانون سازی کے ذریعے سوشلزم کے نظریات سے کسی بھی قسم کا تعلق سب سے سنگین جرم قرار دیا گیا اور اس پر سزائیں دی جانے لگیں۔ اس گھناؤنے پراپیگنڈے کو پھیلانے کے لیے دنیا کے مختلف ممالک میں مذہبی بنیاد پرستوں کو بھی خریدا گیا اور انہیں ریاستی پشت پناہی سے کمیونسٹوں کے قتل عام کی اجازت دی گئی۔ لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں کو ابھرنے سے نہیں روکا جا سکا۔ نوآبادیاتی ممالک میں آزادی کی تحریکوں میں بھی شدت آنے لگی۔ اس دوران افریقہ اور ایشیا سمیت دنیا بھر میں بہت سے ممالک نے سامراجی جبر سے آزادی حاصل کی۔ کیوبا کے انقلاب نے بھی لاطینی امریکہ سمیت دنیا بھر پر اہم اثرات مرتب کیے۔ امریکی سامراج کے پچھواڑے میں ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کا قیام مارکسزم کے نظریات کی برتری کا ثبوت تھا۔ 1968ء کے دوران دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہو ا جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک پوری دنیا میں جاری رہا۔ اس دوران پاکستان سے لے کر چلی تک اور ایران و افغانستان سے لے کر فرانس، اٹلی اور میکسیکو تک پوری دنیا عوامی تحریکوں کی لپیٹ میں تھی جس میں بائیں بازو کی قوتیں پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر سماجی بنیادیں حاصل کر رہی تھیں۔ ویت نام میں امریکی سامراج کی عبرت ناک شکست نے بھی پوری دنیا میں دائیں بازو کی قوتوں پر کاری ضرب لگائی۔

اس دوران سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے اثرات چین سمیت دنیا کی دیگر منصوبہ بند معیشتوں پر بھی مرتب ہوچکے تھے جہاں زوال پذیر سوویت یونین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ریاستی ڈھانچے تشکیل دیے گئے۔ لینن نے کہا تھا کہ جمہوریت سوشلزم کے لیے آکسیجن کی طرح ضروری ہے لیکن مشرقی یورپ سے لے کر چین اور کوریا تک جو منصوبہ بند معیشتیں قائم کی گئیں ان میں طبقاتی نظام تو ختم کر دیا گیا لیکن بیوروکریسی کی گرفت موجود رہی جس نے محنت کش عوام کے جمہوری حقوق سلب کر لیے۔ اسی طرح لینن نے کہا تھا کہ کسی سرکاری اہلکار کی تنخواہ عام ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہو گی جبکہ ان ممالک میں بیوروکریسی نے اپنے لیے وسیع تر مراعات کا حصول معمول بنا لیا۔ لینن کا ایک اور اہم اصول یہ تھا کہ عوام کے کسی بھی منتخب نمائندے کی کوئی مدت نہیں ہو گی اور اسے کسی بھی وقت واپس بلایا جا سکے گا۔ اسی طرح اس نے کہا تھا کہ سوشلزم میں باورچی وزیر اعظم بن سکے گا اور وزیر اعظم باورچی۔ لیکن سوویت یونین سمیت دیگر تمام منصوبہ بند معیشتوں میں ان اہم بنیادی اصولوں کو فراموش کر دیا گیا۔ سٹالن نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کو تحلیل کر کے اقوام متحدہ کے سامراجی طاقتوں کے کٹھ پتلی ادارے کی امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ مل کر بنیاد رکھی تھی۔ اسی طرح دنیا بھر میں ابھرنے والی تحریکوں اور انقلابات کو سوویت یونین یا سوشلسٹ چین کی خارجہ پالیسی کی بھینٹ چڑھایا گیا تا کہ عالمی سطح پر طاقتوں کا توازن برقرار رہے۔ اسی طرح کے دیگر بہت سے جرائم کے باعث 1989ء میں دیوار برلن گر ا دی گئی جبکہ ساتھ ہی سوویت یونین کا بھی انہدام ہو گیا۔ یہ بھی گزشتہ صدی کا اہم واقعہ ہے۔

سامراجی طاقتوں نے سٹالنزم کے انہدام کو جھوٹ بولتے ہوئے سوشلزم کی ناکامی بنا کر پیش کیا اور پوری دنیا میں مارکسزم کے سائنسی نظریات کے خلاف بہت بڑے پیمانے پر ایک نئے غلیظ پراپیگنڈے کا آغاز کر دیا گیا۔ کہا گیا کہ ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ ہو گیا ہے اور اب ہمیشہ دنیا میں سرمایہ داری ہی قائم رہے گی۔ ماسکو اور بیجنگ میں سرمایہ داری کو استوار ہوتے دیکھ کر پوری دنیا کی سٹالنسٹ پارٹیوں نے بچے کھچے مارکسزم کو بھی خیر باد کہہ دیا اورنیو لبرلزم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ عالمی سطح پر مزدور تحریک کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا اور محنت کش طبقے پر سرمایہ دارانہ ریاستوں کے تابڑ توڑ حملوں کا آغاز کیا گیا۔ نجکاری، لبرلائزیشن اور ڈاؤن سائزنگ کے نام پر مزدور یونینوں کو کمزور کر کے ختم کیا گیا، حقیقی اجرتوں میں بڑے پیمانے پر کمی کی گئی، بنیادی مراعات اور انقلابی تحریکوں کی حاصلات کو ختم کر دیا گیا اور استحصال کی شدت میں کئی گنا اضافہ کیا گیا۔ یورپ اور امریکہ جیسے ممالک میں بھی مزدور تحریک پر بد ترین حملے کیے گئے اور نیو لبرلزم کے تحت محنت کش طبقے کو غربت اور ذلت میں دھکیلا جانے لگا۔

منصوبہ بند معیشت کے خاتمے کے بعد روس، چین سمیت تمام سابقہ سٹالنسٹ ریاستوں کے محنت کش عوام کو بھی بد ترین بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاں پہلے علاج، تعلیم سمیت ہر بنیادی ضرورت مفت فراہم کی جاتی تھی وہاں بد ترین بیروزگاری، بھوک اور بیماری پھیل گئی۔ ان ممالک میں سرمایہ داری کی آمد نے سماج کو ترقی تو کیا دینی تھی انہیں ماضی جیسا معیار زندگی بھی نہ دے سکی۔ سابقہ بیوروکریٹ اب سرمایہ دار بن چکے تھے اور دونوں ہاتھوں سے ان سماجوں کو خونی درندوں کی طرح لوٹ رہے تھے۔ منصوبہ بند معیشت کے تحت جو صنعتیں اور ادارے محنت کشوں نے تعمیر کیے تھے وہ اب سرمایہ داروں کی ملکیت بن گئے جنہیں منافعوں کی ہوس کے لیے چلایا جانے لگا۔ اس سارے عمل میں سرمایہ داری کے لیے نفرت اور حقارت پیدا ہوئی لیکن محنت کشوں کے پاس اس کا کوئی متبادل موجود نہیں تھا۔

2008ء کے سرمایہ داری کے بدترین بحران نے پوری دنیا کو پھر ہلا کر رکھ دیا۔ بیروزگاری کا عفریت تیزی سے یورپ اور امریکہ میں پھیلا اور دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ 2011ء میں ابھرنے والے عرب انقلابات نے دہائیوں سے مسلط آمریتوں کا خاتمہ کیا اور پوری دنیا میں ایک نئے عہد کے آغاز کا نقارہ بجایا۔ اسی بحران کے بعد امریکی سامراج کسی ہم پلہ مد مقابل کی عدم موجودگی میں بھی شدید کمزور اور خصی پن کا شکار ہو چکا ہے۔ پوری دنیا میں سرمایہ داری کے خلاف لاکھوں لوگ سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ہر جگہ حکمران طبقات معاشی بحران کا بوجھ محنت کشوں پر منتقل کر رہے ہیں اور ان کی زندگیوں میں کٹوتیاں لگا رہے ہیں۔ اس ظلم اور جبر کے خلاف ہر جگہ آواز بلند ہو رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی زوال کے باعث پوری دنیا میں ریاستیں لڑکھڑا رہی ہیں۔ کیٹالونیا سے لے کر کردستان تک اور سکاٹ لینڈ سے لے کر وادی کشمیر تک ہر جگہ ان سرمایہ دارانہ ریاستوں کے جبر کو للکارا جا رہا ہے۔ امریکہ میں جہاں سرد جنگ کے دوران سوشلزم کا لفظ گالی بن گیا تھا آج لاکھوں نوجوانوں اور محنت کشوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکا ہے۔ آج امریکہ میں انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ تلاش کیے جانے والے الفاظ سوشلزم اور کمیونزم ہیں۔ گزشتہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں برنی سینڈرز کے سوشلزم کے نعرے کے گرد لاکھوں افراد متحرک ہوئے جبکہ پچاس فیصد کے قریب امریکیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک سوشلسٹ صدر کو منتخب کرنا پسند کرتے ہیں۔ برطانیہ جسے سرمایہ داری کی ماں کہا جاتا ہے وہاں جیرمی کاربن کے سوشلسٹ نعروں کے گرد لاکھوں نوجوان اور مزدور سرگرم ہیں اور اسے جلد سے جلد وزیر اعظم بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ آج دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں سرمایہ داری کیخلاف نفرت کا اظہار احتجاجوں اور تحریکوں کی شکل میں نہ کیا جا رہا ہو۔ مارکسزم کے نظریات کیخلاف جہاں امریکہ اور دیگر مغربی یورپ کی سامراجی طاقتیں سرگرم ہیں وہاں آج چین اور روس کا حکمران طبقہ بھی مارکسزم اور سوشلزم کا سب سے بڑا دشمن بن چکا ہے۔ جہاں سٹالنزم کے زوال پذیر نظریات نے مارکسزم اور سوشلزم کو نقصان پہنچایا وہاں آج ان سابقہ سٹالنسٹ ممالک کا سرمایہ دار طبقہ اور ان کے نمائندہ حکمران ان سائنسی نظریات کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔

اس تمام تر صورتحال میں ضروری ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے واقعات کا درست سائنسی انداز میں تجزیہ کیا جائے اور مستقبل کی جدوجہد کے لیے ان سے ضروری اسباق حاصل کیے جائیں۔ انقلاب روس کی سوویں سالگرہ کے موقع پر تمام انقلابیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مارکسزم کے نظریات کا بغور مطالعہ کریں اور بالشویک پارٹی کی طرز پر ایک ایسی قوت تعمیر کریں جو آج کے طوفانی واقعات میں مداخلت کرتے ہوئے اسے ایک سوشلسٹ انقلاب سے ہمکنار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس عظیم انقلاب کی سوویں سالگرہ کے موقع پر سرمایہ داروں اور سامراجی طاقتوں کی جانب سے بھی اس انقلاب کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور لینن اور ٹراٹسکی پر حملوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آج کی نسل سے ان نظریات اور ان عظیم واقعات کی حقیقی تاریخ کو چھین کو جھوٹ اور غلیظ پراپیگنڈے کے نیچے دفن کر دیا جائے تاکہ وہ ان انقلابیوں کی پیروی کرتے ہوئے آج سرمایہ داری کا خاتمہ نہ کر سکیں۔ ایسے میں ہمارا فریضہ ہے کہ ان جھوٹ کے پہاڑوں کے نیچے سے سچائی کو سامنے لائیں اور اسے مزدوروں اور طلبہ کی نئی نسل تک پہنچاتے ہوئے یہاں بھی ایک انقلابی قوت تعمیر کریں۔ داس کیپیٹل کی پہلی اشاعت کے ڈیڑھ سو سال اور انقلاب روس کے سو سال بعد آج بھی مارکسزم کے نظریات اسی طرح سچے اور کھرے ہیں جیسے یہ پہلے دن تھے۔ شاید آج انسانی سماج کو آگے بڑھنے کے لیے ان کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے ورنہ یہ سامراجی قوتیں انسانوں کو بربریت میں دھکیلنے پر پوری طرح آمادہ ہیں۔ ان سے نپٹنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ انقلاب روس کی میراث کو اجاگر کرتے ہوئے دوبارہ ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جائے اور پوری دنیا کو امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنا دیا جائے۔

Comments are closed.