انقلاب روس کی 105ویں سالگرہ: بالشوازم آج بھی مشعل راہ ہے

|تحریر: پارس جان|

رواں برس بالشویک انقلاب، جسے اکتوبر انقلاب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، کی ایک سو پانچویں سالگرہ ہے۔ لینن اور ٹراٹسکی کے پیروکار جتنے بھی عاجز ہو جائیں اور بالشویک انقلاب کے حاسدین اور ناقدین جس حد تک بھی لچڑ ہو جائیں، اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتے کہ یہ انقلاب بلا شک و شبہ انسانی تاریخ کا عظیم ترین واقعہ تھا۔ تاریخی ارتقا میں بے شمار قابل ذکر اور توجہ طلب واقعات درج ہیں جنہوں نے انسانی سماج کی ترقی کے سفر میں غیر معمولی کردار ادا کیا لیکن ارتقا کا عمومی طبقاتی مزاج بہرحال وہی رہا، مگر آج ہم جس انقلاب کا ذکر کر رہے ہیں اس کا بنیادی خاصہ اور انفرادیت یہ ہے کہ اس نے تاریخی ارتقا کے کردار کو ہی تبدیل کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ مذکورہ انقلاب نے تاریخ کی سائنس، جو کہ سر کے بل کھڑی تھی، اسے سیدھا کر کے، اس کا جائز مقام اور رتبہ عطا کیا۔ اس سے قبل کے مؤرخین ایسے داستان گو تھے جو ساری انسانی تاریخ کو محض عظیم انسانوں، بادشاہوں، سپہ سالاروں اور سائنسدانوں یا پروہتوں وغیرہ کے کرشماتی معجزوں کی کہانی بنا کر پیش کرتے تھے اورسماجی روایات و ریاستی ڈھانچے کے ذریعے درس گاہوں کے نیم روشن کمروں سے لے کر بوڑھی عورتوں کی گرم آغوش تک ہر جگہ یہی قصے، کہانیاں اگلی نسل کو منتقل کر دی جاتی تھیں اور ناقابل تردید حکایتوں کی شکل اختیار کر لیتی تھیں۔ کارل مارکس کا طرۂ امتیاز یہ تھا کہ اس نے فلسفے کے میدان میں تاریخ کی سائنس کے ان تمام مہا پرشوں کو چاروں شانے چت کر دیا، مگر ظاہر ہے کہ فلسفے کے میدان تک عوام الناس کی رسائی کے امکانات بہرحال محدود تھے، لیکن بالشویک انقلاب نے ایک مزدور ریاست کی شکل میں معیشت اور سماج کا نظم و نسق بظاہر ذہین و فطین اور اعلیٰ یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ماہرین کی چھوٹی سی پرت سے لے کر محنت و مشقت کرنے والی بھاری اکثریت کے حوالے کر کے کارل مارکس کی علمی تحقیق کو مادی حقیقت میں تبدیل کر دیا۔ مارکس نے کہا تھا کہ تاریخ سپہ سالاروں اور عظیم انسانوں کے معجزوں سے نہیں بلکہ طبقاتی کشمکش سے آگے بڑھتی ہے اور انقلابات تاریخ کا انجن ہوتے ہیں، پرولتاریہ کی شکل میں سرمایہ داری اپنے گورکن خود تیار کر رہی ہے اور کمیونزم تاریخ کی پہیلی کا منطقی حل ہے۔ فکری دلائل کی بجائے مادی و ثقافتی ترقی کی سریلی زبان میں بالشویک انقلاب نے کارل مارکس کی نظریاتی برتری کی فتح کا ترانہ گا کر ساری دنیا کو اپنی جانب مائل کر لیا۔ اگر روس میں اور اس کے بعد کہیں بھی پرولتاری انقلاب برپا نہ ہوتا تو شاید آج دنیا کارل مارکس کا نام تک فراموش کر چکی ہوتی۔

آج بھی لبرل مؤرخین کی اکثریت اپنے طبقاتی پس منظر کے پیش نظر ماضی کی اسی روش سے چپکے رہنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کی متروکیت اور فروعیت بہت جلد عریاں ہو جاتی ہے۔ یونیورسٹیوں میں آج بھی اسی قسم کے گھٹیا اور متعصب نظریات نوجوانوں کے دماغوں میں انڈیلے جا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان تعلیمی اداروں کی سماجی افادیت کی گراوٹ اور نئی نسل کی اس پورے ڈھانچے سے بیزاری انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ انقلاب کے لفظ کو جتنا بھی شجر ممنوعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، انقلاب کی معروضیت اتنی ہی شدت سے ابھرتی ہے اور نوجوانوں کے سامنے ان درسگاہوں کے مدرسین کوسرکس کے بندر بنا کر پیش کرتی ہے۔ اور اگر یہ خواتین و حضرات بادل نخواستہ انقلاب کا لفظ اپنی زبان پر لے بھی آتے ہیں تو اس کی انتہائی بھونڈی تشریح اور تعبیر کی جاتی ہے تا کہ نئی نسل اس سے خائف ہو جائے یا اسے خارج از امکان تسلیم کر لے۔ سب سے پہلے تو انقلاب کی منظر کشی آگ اور خون کی ایسی ہولی کے طور پر کی جاتی ہے، جہاں انسانوں کو بے دریغ گاجر، مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہو۔ یہ درست ہے کہ انقلاب متشدد ہو سکتا ہے مگر یہ تشدد سماج کی طفیلی اقلیت کی طرف سے مسلط کیا جاتا ہے۔ اکثریتی عوام تو اپنے دفاع میں خودکو مسلح کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔کسی بھی اخلاقی و سیاسی بنیاد پر اپنی حفاظت کے لیے اٹھائے گئے انتہائی اقدام کوغلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نام نہاد امن کے وکلا ( (pacifistsکی توجیحات کے برخلاف حتیٰ کہ خود بورژوا آئین بھی سیلف ڈیفنس کو غیر قانونی قرار نہیں دیتا۔ اور انقلابی عمل سے، جس کا بنیادی کردار ہی رائج الوقت آئینی ڈھانچے کا استرداد ہوتا ہے، اس کے برعکس توقع رکھنا سراسرحماقت ہو گی۔ درحقیقت اس واویلے کی آڑ میں نہتے عوام کے قتل عام کو جواز فراہم کرنے اور اسے تہذیب و تمدن کے بقا کی ناگزیر ضرورت بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے۔ ہم ان امن جوؤں کے برعکس انقلابی عمل کے مخصوص مرحلے پر محنت کش عوام کے خود کو مسلح کرنے کو تہذیب و تمدن کی بقا کی واحد ضمانت سمجھتے ہیں۔ محنت کش عوام جتنے متحد، منظم، مسلح اور مستعد ہوتے ہیں، دوران انقلاب خون خرابہ اتنا ہی محدود اور غیر ضروری ہو جاتا ہے۔ بالشویک انقلاب بہت سے اہم تاریخی اہمیت کے حامل واقعات کے مقابلے میں ایک نسبتاً پرامن معاملہ تھا، اصل قتل و غارت تو اس انقلاب کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور اس کے نام لیواؤں کو نشان عبرت بنانے کے لیے سامراجی افواج اور ان کے گماشتوں نے انقلاب کے بعد مسلط کی تھی۔ لیون ٹراٹسکی کے الفاظ میں ”انقلاب کی سب سے مسلمہ اور اٹل خاصیت تاریخی عمل میں عوام کی براہ راست مداخلت ہوتی ہے۔۔۔ہمارے لیے انقلاب کی تاریخ سب سے پہلے اپنی تقدیر کی سلطنت میں عوام کی بھرپور طاقت سے جراتمندانہ آمد ہوتی ہے“۔ (انقلاب روس کی تاریخ، دیباچہ)۔بالشویک انقلاب ان انمول الفاظ کی عملی تفسیر تھا اور بالشوازم اس انقلاب کی کامیابی کی کنجی۔

بالشوازم ہے کیا؟

ہمارا دعویٰ ہے کہ بالشوازم نہ صرف اکتوبر انقلاب کی کامیابی کی ضمانت تھا، بلکہ سرمائے کی آمریت کے خاتمے کے لیے آج بھی ہر انقلابی سرکشی کی فتح کا واحد معیار ہے۔ اس سے قبل کہ ہم اپنے اس دعوے کی صداقت کو تاریخی مثالوں اور نظری حوالوں سے ثابت کریں، اس کے حق میں یہی دلیل بادی النظر میں کافی مؤثر ہے کہ بورژوا مفکرین اور ان کے وظیفہ خوار آج بھی بالشوازم کے خلاف چرب زبانی سے باز نہیں آتے۔ گویا وہ خود بھی کامل یقین رکھتے ہیں کہ اگر یہ ’شر پسند‘ یعنی بالشویک کیڈرز نہ ہوتے تو لاکھوں لوگوں کی تحریک بھی بالآخر تھک کر پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی اور بورژوازی، چاہے اپنی ہی نام نہاد سیاسی اخلاقیات کو قربان کر کے یعنی فسطائیت کے ذریعے ہی، لیکن سرمائے کی آمریت کو ’نظم و ضبط‘ کی آڑ میں دوبارہ روسی عوام پر مسلط کرنے میں کامیاب ہو جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد انہوں نے روسی انقلاب کے تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے ہرممکن کوشش کی کہ بالشوازم کو عالمی مزدور تحریک سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بے دخل کر دیا جائے۔ بعد ازاں روسی و چینی بیوروکریسی کے مارکسزم سے انحراف کے باعث سرمایہ داری کی لا شعوری معاونت سے سرمائے کے پالیسی ساز کئی دہائیوں تک اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوتے رہے۔ انہوں نے دنیا بھر کی مزدور تحریک پر انقلابی نظریات کے نام پر اصلاح پسند قیادتیں مسلط کر دیں۔ ایسا’مارکسزم‘ آج بھی سرمایہ داروں اور سامراجیوں کے لیے قابل قبول ہے جو بالشوازم کے وائرس سے پاک ہو۔ مزدور تحریک سے بھی اگر بالشویک نظریات کو نکال باہر کیا جائے تو آخری تجزیئے میں یہ سرمایہ داروں کے لیے خطرہ بننے کی بجائے طبقاتی کشمکش کو نیوٹرلائز کرنے کا ذریعہ ہی بن کر رہ جاتی ہے۔ سماج کی انقلابی جراحی کے پروگرام سے عاری انقلابی لفاظی کسی ڈراؤنی (ہارر) فلم کے بیک گراؤنڈ میوزک سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اس قسم کے ریاست کے منظور نظر ’آفیشل لیفٹ‘ کی مثالیں بآسانی دستیاب ہیں۔ اصلاح پسندی سرمائے کے پالیسی سازوں کی وہ آزمودہ ویکسین ہے، جس کے ذریعے مزدور تحریک سے بالشوازم کی آخری رمق کو بھی نکال باہر کیا گیا۔ لیکن سامراجی ماہرین کا المیہ یہ ہے کہ یہ ویکسین صرف سرمایہ داری کے معاشی ابھار میں ہی مؤثر ہوتی ہے اور زوال کے دنوں میں یہ الٹ اثرات مرتب کرنا شروع کر دیتی ہے۔ آج ہم جب یہ الفاظ رقم کر رہے ہیں تو سرمایہ داری اپنی تاریخ کے بدترین بحران میں داخل ہو چکی ہے۔ ایسے میں مزدور تحریک کو زیادہ عرصے تک بالشوازم کے وائرس سے پاک رکھنا ممکن نہیں رہا۔ اس لیے انقلابیوں کی نئی نسل کے لیے ضروری ہے کہ وہ بالشوازم کی سمجھ بوجھ اور اس کے اطلاق پر فکری و عملی عبور حاصل کریں تاکہ سرمائے کے خلاف محنت کی فیصلہ کن فتح کی راہ ہموار ہو سکے۔

زیرنظر مضمون میں ہم انقلاب روس کی مادی و ثقافتی حاصلات پر بات نہیں کریں گے، اس پر ہماری ویب سائٹ پر پہلے ہی بہت مواد موجود ہے، صرف محنت کش طبقے کی اس عظیم فتح کے موضوعی پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔ یہ فتح جس پارٹی کے مرہون منت تھی، اس پارٹی کے خال و خد، ڈھانچے، ارتقا اور داخلی محرکات کے اصولوں کی آفاقیت کا نقشہ کھینچ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ یہ کیسے اور کیونکر آج بھی عالمی مزدور تحریک کے لیے مشعل راہ ہے۔ روس میں اس پارٹی کا نام اتفاقی طور پر بالشویک پارٹی پڑ گیا تھا، اسی نسبت سے اس مظہر کے لیے بالشوازم کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ یوں بالشوازم کی اگر تعریف کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب کے مقصد کے لیے بنائی جانے والی انقلابی پارٹی کی تعمیر کی سائنس ہے جس کا کسی بھی مخصوص ثقافتی پس منظر کے حامل معاشرے پر فنکارانہ اطلاق محنت کش طبقے کو انقلاب کے مقصد میں کامیاب ہونے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ بالشویک روسی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب عام طور پر اکثریت سمجھا جاتا ہے، کیونکہ 1903ء میں رشین سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی میں پڑنے والی پھوٹ میں لینن کا دھڑا اکثریت میں تھا لہٰذا اس دھڑے کا نام بالشویک پڑ گیا جو بعد ازاں 1912-13ء میں ایک الگ پارٹی کی بنیاد بنا۔ لیکن اس معنی سے اس سیاسی اصطلاح کے محض مقداری پہلو کی وضاحت ہوتی ہے۔ دراصل اس لفظ کا ایک اور معنی سخت گیر یا انتہا پسند بھی ہے،جو بالشوازم کے جوہر کی مناسب ترجمانی کرتا ہے۔ لینن کے مخصوص نظریاتی پس منظر کے باعث انتہا پسند کی بجائے سخت زیادہ مناسب ترجمہ ہے۔ یعنی اپنے نظریات اور اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے والا۔مذکورہ بالا پھوٹ چونکہ نظریاتی سے زیادہ تنظیمی نوعیت کے سوالات پر سامنے آئی تھی لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آہنی ڈسپلن کی حامل انقلابی پارٹی ہی بالشویک پارٹی کہلانے کی اہل ہو گی۔

چونکہ ہم نے بالشوازم کی تعریف کرتے ہوئے اسے ایک سائنس قرار دیا تھا، لہٰذا یہ احتمال اپنی جگہ موجود ہے کہ اسے غیر متغیر اور اٹل اصول و ضوابط کا مجموعہ نہ تصور کر لیا جائے۔ لینن اور اس کے رفقا نے پہلے کہیں جمع ہو کر یہ اصول و ضوابط وضع نہیں کیے تھے بلکہ سوشلسٹ انقلاب کی عملی جدوجہد میں ان کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا، اور انہوں نے کن مخصوص حالات میں کون سے اقدامات اٹھائے، جس نے انہیں عوام کی اکثریت کوجیتنے کے قابل بنایا، بالشوازم اس انقلابی سفر کے نشیب و فراز کے داخلی ربط کا سائنسی مطالعہ ہے۔ بالشویکوں کے پاس بنے بنائے اصولوں اور فارمولوں کی بجائے مارکسزم کا سائنسی نظریہ تھا، جس کی روح یعنی جدلیاتی مادیت کے میتھڈ کو استعمال کرتے ہوئے وہ سماج کی نبض شناسی کے قابل ہو سکے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کارل مارکس جدلیاتی مادیت کے فلسفے کا خالق ہے مگر ’جدلیاتی مادیت‘ کے موضوع پر کارل مارکس کی الگ سے کوئی کتاب موجود نہیں ہے، بلکہ مارکس اور اینگلز کی سیاسی معاشیات اور فلسفے پر تمام تصانیف سے رجوع کر کے ہی جدلیاتی مادیت کی اساس تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے، ایسے ہی لینن بالشوازم کا باوا آدم ہے مگر اس کی کوئی ایک کتاب پڑھ کر بالشوازم کی تفہیم خارج از امکان ہو گی۔ اس مقصد کے لیے لینن اور ٹراٹسکی کی جملہ کتب اور مجموعہ ہائے مضامین کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ہو گا۔ لینن کی تحریروں کیساتھ بالخصوص لیون ٹراٹسکی کی کتب’’انقلابِ روس کی تاریخ“ اور’’سٹالن“ اس ضمن میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ مگر اس حوالے سے تیس سال سے بھی زائد عرصے کی تحقیق اور نصف صدی کی عملی انقلابی جدوجہد کے بعد لکھی گئی کامریڈ ایلن ووڈز کی کتاب ’بالشویزم، راہ انقلاب‘ آج کے انقلابیوں کے لیے بیش قیمت سرمایہ ہے جس میں ان آفاقی اصولوں کی اسی مارکسی میتھڈ کے دقیق استعمال سے تدوین کی گئی ہے جس میتھڈ کے ذریعے یہ سائنس تخلیق ہوئی تھی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب ’لال سلام پبلیکیشنز‘ کی طرف سے ایک بار پھر اردو میں شائع کی جا رہی ہے۔ برصغیر میں مزدور تحریک میں سرگرم ہر انقلابی نوجوان اور محنت کش کو انقلابی فریضہ سمجھ کر اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

لال سلام پبلیکیشنز کی جانب سے عالمی سطح پر مشہور مارکسی راہنما ایلن ووڈز کی انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب ’’بالشویزم: راہِ انقلاب‘‘ کا شائع کردہ اردو ترجمے کا سرورق۔

بالشوازم جہاں محنت کش طبقے کو جیتنے میں انقلابیوں کی رہنمائی کرتا ہے، وہیں محنت کش طبقے کی عوام (طلبہ، کسان وغیرہ) کو جیتنے میں بھی رہنمائی کرتا ہے۔ یوں صرف انقلابیوں کو ہی نہیں بلکہ ٹریڈ یونین کے سرگرم کارکنوں کو بھی بالشوازم سے رجوع کرنا چاہیے اور انقلابی پارٹی کے سرگرم کارکنان کو محنت کش طبقے کی ہراول پرتوں میں بالشوازم کے رہنما اصولوں پر وقتاً فوقتاً بحث مباحثوں کاا نعقاد کرتے رہنا چاہیے۔ لینن نے ’کہاں سے شروع کیا جائے‘ اور ’کیا کیا جائے‘ جیسی اہم تصانیف میں اس خیال کو رد کیا کہ ڈھیلے ڈھالے سٹرکچر کی پڑھے لکھے ہم خیال لوگوں کی تنظیم سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ یا پھر محنت کش طبقے کی ایک ’خود رو‘ تحریک سوشلسٹ معاشرے کی تشکیل کی اہل ہو سکتی ہے۔ بلکہ لینن نے وضاحت کی کہ سرمایہ دارانہ ریاست ایک سنٹرلائزڈ اور منظم قوت ہے جس کے ذریعے وہ محض محنت کشوں کے روزمرہ معمولات پر ہی نہیں بلکہ انکی روحوں، شعور اور ضمیر پر بھی سرمائے کی آمریت مسلط کرتی ہے۔ اور محنت کش طبقہ بھی ایک یکسانیت سے مزین طبقہ نہیں ہوتا بلکہ پرولتاریہ کی بہت سی پرتیں ہوتی ہیں جو ایک وقت میں مختلف شعوری کیفیات میں نہ صرف موجود ہو سکتی ہیں بلکہ کہیں کہیں لاشعوری طور پر ایک دوسرے کے خلاف بھی خام مال کے طور پر استعمال ہو سکتی ہیں، لہٰذا ایک ایسی پارٹی کا ہونا ایک معروضی لازمہ ہے جو محنت کش طبقے کے مشترکہ طبقاتی مفادات کی ترجمان ہو اور طبقے کی مختلف پرتوں کو ایک مربوط سیاسی پروگرام اور بینر کے گرد جوڑ کر اس قابل بنا سکے کہ وہ عوام کی بھاری اکثریت کی قیادت کا تاریخی فریضہ سر انجام دینے کے اہل ہو سکے۔ مارکس کے خیال میں محنت کش طبقہ اپنے اندر یعنی اپنے جوہر میں ایک طبقہ ضرور ہوتا ہے مگر عام طور پر وہ اپنے لیے یعنی اپنے طبقاتی مفادات کے لیے سرگرم ایک طبقہ نہیں ہوتا۔ صرف انقلابی حالات میں ہی وہ اپنی تقدیر بدلنے کے لیے میدان عمل میں اترتا ہے۔ مگر مخصوص حالات زندگی اور پیداواری تعلقات میں معین کردار کی بابت پرولتاریہ لا امتناعی طور پر انقلابی جدوجہد میں سرگرم نہیں رہ سکتا۔ اس لیے اسکی ہمہ گیر سرگرمی کا یہ مختصر دورانیہ جو ایک استثنائی دور ہوتا ہے، ان فیصلہ کن لمحات پر مشتمل ہوتا ہے جو مستقبل کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ ایک انقلابی پارٹی اس فیصلہ کن وقت سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو اقتدار حاصل کرنے میں معاونت کرتی ہے۔ مگر اس قابل ہونے کے لیے اس پارٹی کو دہائیوں پر محیط طویل آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ مختلف چھوٹی چھوٹی تحریکوں میں اپنے نعروں اور پروگرام کے ذریعے محنت کش طبقے پر اپنی سیاسی اتھارٹی بنانی ہوتی ہے۔ محض درست نظریات اور سیاسی پروگرام ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ محنت کش طبقے کی وسیع تر پرتوں میں بالعموم اور طبقے کی ہراول پرتوں کے لاشعور میں گہری جڑیں رکھنے والی پارٹی ہی انقلاب کے استثنائی لمحات میں محنت کش طبقے کی رہنمائی کا حق جیت سکتی ہے۔ اس لیے بالشوازم عوام کی وسیع تر پرتوں تک رسائی کے اس طویل اور صبر آزما سفر میں مختلف ادوار اور معروض میں درست حکمت عملی اور لائحہ عمل کی تشکیل کے پر پیچ عمل میں انقلابی پارٹی کے لیے کارگر نسخہ کیمیا بھی ہے۔مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ حکمت عملی پر غیر لچکدار رویہ اپنا لیا جائے بلکہ بالشوازم نظریاتی اصولوں پر غیر متزلزل رہتے ہوئے مختلف معروضی کیفیات میں نت نئے تجربات کرنے کی جرات اور پہل گامی سے نوازتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو پارٹیاں حکمت عملی کے سوال پر سخت گیر ہو جاتی ہیں، وہ ڈسپلن اور نظریاتی اصولوں پر سمجھوتہ کرنے میں رتی بھر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔ اس لیے روسی بالشویک پارٹی کی تاریخ سے انقلابی رہنما اصول اخذ کرنے کے لیے بھی جدلیاتی اپروچ کا ہونا بڑا ضروری ہے۔ مطلب ایک وقت میں جن وجوہات کی بنا پر پارلیمانی جدوجہد کا حصہ بننا ضروری ہوتا ہے، عین ممکن ہے انہی وجوہات کی بنیاد پر ایک مختلف معروضی کیفیت میں پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ کر دینا ناگزیر ہو جائے۔ قومی مسئلے سمیت کسی بھی جمہوری مطالبے کے گرد ابھرنے والی تحریک کی طرف انقلابی پارٹی کے رویے کے تعین کے لیے بھی اسی لچکدار روش کو اختیار کرنا ہوتا ہے۔ بائیں بازو کے بہت سے لوگ ’بائیں بازو کا کمیونزم، ایک طفلانہ بیماری‘ میں الٹرا لیفٹ اسٹوں اور انتہا پسندوں کے خلاف لینن کے ٹھوس دلائل کو اپنی موقع پرستی اور نظریاتی انحراف کے جواز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح لینن نے بارہا موقع پرستوں کے خلاف دوسری انتہا پر جا کر اس مخصوص وقت میں مزدور طبقے کے آفاقی مفادات کی ترجمانی کی۔ اس لیے لینن یاکسی بھی مارکسی استاد کے محض الفاظ کو رٹ لینا کافی نہیں بلکہ ان الفاظ یا ان اقدامات کے اصل محرکات کی تشخیص اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اور اس حوالے سے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ بالشویک پارٹی کی تعمیر کے دوران بالشویکوں سے بہت سی غلطیاں بھی سرزد ہوئیں، اس لیے بالشوازم روسی بالشویک پارٹی کی اندھی تقلید کا نام نہیں ہے بلکہ ان غلطیوں سے اخذ شدہ اسباق کو کسی بھی معروضی صورتحال پر اس کے مخصوص تقاضوں کے مطابق منطبق کرنے کا نام ہے۔ بالشویک پارٹی کسی سیدھی لکیر میں تعمیر نہیں ہوئی تھی، بلکہ اس سفر میں بے شمار حوصلہ افزا کامرانیوں کے ساتھ ساتھ ان گنت حوصلہ شکن پسپائیاں بھی تھیں۔ ان پسپائیوں اور کامرانیوں کے باہمی تعلق سے ہی وہ راہنما اصول اخذ کیے جانے چاہیئیں جو ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کی رفتار کو تیز کر سکیں۔

کیڈر پارٹی اور ٹوٹ پھوٹ

ایک سخت گیر ڈسپلن کی حامل بالشویک پارٹی میں کارکنوں اور قیادت کے مابین وہ میکانکی تعلق نہیں ہوتا جو روایتی سیاسی پارٹیوں کا وطیرہ ہے۔ انقلابی کارکن اندھے مقلدین نہیں ہوتے جنہیں مالک (لیڈر) بھیڑ بکریوں کی طرح کسی بھی کھونٹے سے باندھ دے۔ بلکہ بالشوازم اجتماعی قیادت پر مشتمل پارٹی کی تشکیل پر زور دیتا ہے۔ بالشویک پارٹی نظریات سے لیس جرات مند انقلابی کارکنوں پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں کیڈر کہا جاتا ہے۔ ہر اہم مدعے پر پارٹی کے کارکنان کی سیاسی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے فعال ڈھانچے تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ غرضیکہ ایک کیڈر پارٹی کے بغیر سوشلسٹ انقلاب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بالشوازم کے پیٹی بورژوا ناقدین ایک کیڈر پارٹی کے بالشویک تصور کا تمسخر اڑاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں اسی وجہ سے کمیونسٹ پارٹیوں میں بار بار ٹوٹ پھوٹ بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ حتی کہ بائیں بازو کے اندر بھی نو زائیدہ دانشوروں کی بھاری اکثریت کیڈر پارٹی کے تصور کو ’حقیقت پسندی‘ کے مطابق کالعدم قرار دے چکی ہے۔ یہ پیٹی بورژوا رومانوی خواتین وحضرات برملا کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ صرف مقصد یعنی ’سوشلزم‘ کا اجتماعی ’خواب‘ یا تصورہی ایک تنظیم میں مل کر کام کر لینے کے لیے کافی ضابطہ ہے، اسکے لیے کسی خاص ٹھوس نظریے کی ضرورت نہیں۔ ایک ہی پارٹی میں کسی بھی خاص سیاسی ایشو پر مختلف اور متضاد آرا بیک وقت نہ صرف پائی جا سکتی ہیں بلکہ انہیں جمہوری مباحثے کے بعد حل کرنا بھی غیر ضروری ہوتا ہے۔ مزید برآں وہ خیالات کی اس نیرنگی کو پارٹی کا حسن، مضبوطی اور پائیداری کی ضمانت قرار دیتے ہیں۔ پارٹی کا یہ نیم انارکسٹ خیال بالشویک پارٹی سے یکسر متصادم ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ایک لبرل پارٹی اور سوشلسٹ انقلابی پارٹی میں کیا فرق ہوا۔ گویا اگر ایک لبرل پارٹی کی قیادت حادثاتی طور پر کسی سوشلسٹ کے ہاتھ لگ جائے یا کوئی لینن اسٹ کسی لبرل پارٹی کا جمہوری طور پر سربراہ منتخب ہو جائے (جو اگرچہ ناممکن ہے) تو وہ اس پارٹی کے ذریعے انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ یہ انتہائی احمقانہ تصور ہے۔ ایک انقلابی پارٹی ڈھانچے، انفراسٹرکچر اور دفاتر وغیرہ کا نام نہیں ہوتی بلکہ سب سے پہلے ایک انقلابی نظریہ ہوتی ہے۔ کوئی بھی رومانوی انقلابی یا انارکسٹ یہ سوال کر سکتا ہے کہ ساری انسانی تاریخ تو انقلابات سے عبارت ہے اور بقول مارکس انقلابات تاریخ کا انجن ہیں تو ان انقلابات میں کونسی پارٹی یا مخصوص نظریہ کارفرما تھا؟ اگر وہ انقلابات کسی مخصوص نظریئے اور اس پر عبور رکھنے والے کیڈرز کے بغیر رونما ہو سکتے ہیں تو سوشلسٹ انقلاب کے معاملے میں ایسا کیوں ممکن نہیں؟ اس سوال کا جواب سمجھنے کے لیے سوشلزم اور ماضی کے تمام نظاموں کے مابین معیاری فرق کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔

یہ درست ہے کہ غلام داری نظام کا خاتمہ غلاموں کی انقلابی تحریکوں کے ذریعے ہی ہوا تھا اور اسی طرح جاگیردارانہ مطلق العنانیت کو بھی بورژوا انقلابات کے ذریعے اکھاڑ پھینکا گیا تھا اور ان انقلابات میں فقید المثال قربانیاں دینے والے ان انقلابات کے قائدین اگرچہ ایک عمومی سماجی، معاشی و سیاسی رجحان رکھتے تھے لیکن کسی مخصوص نظریئے سے وابستہ نہیں تھے اور اسی طرح انقلابی طبقے کی واضح شعوری مداخلت کے بغیر ہی پرانے سماج کے بطن سے نیا نظام نمودار ہوتا رہا تھا۔ جاگیردارانہ سماج کی کوکھ سے اسی طرح سرمایہ داری کا ظہور ہوا۔ مگر سوشلزم بطور نظام اور سوشلسٹ انقلاب اپنے کردار میں ماضی کے نظاموں اور انقلابات سے معیاری طور پر مختلف ہیں۔ ایک سادہ سی وجہ تو یہ ہے کہ سوشلزم معلوم انسانی تاریخ کا پہلا نظام ہو گا جس میں ایک طبقات سے پاک معاشرہ تشکیل دیا جائے گا۔ اس سے قبل جاگیرداری میں غلام اور آقا تو بطور طبقات معدوم ہو گئے مگر ان کی جگہ جاگیردار اور مزارعے نے لے لی، اسی طرح سرمایہ داری میں مزدور اور سرمایہ دار کا طبقاتی تضاد بہرحال موجود رہا۔ سوشلزم میں پہلی مرتبہ اکثریت اقلیت کو فتح کر کے نہ صرف طبقات کا خاتمہ کرے گی بلکہ تاریخ کے دھارے کا رخ تبدیل کر دے گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس سوچ، نفسیات، رسوم و رواج اور طور اطوار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے جن کی اپنی جڑیں صدیوں نہیں بلکہ ہزاریوں پر محیط تاریخی ارتقا میں پیوست ہیں۔ یہ تاریخی کارنامہ محنت کش طبقے کی بھرپور شعوری مداخلت کے بغیر سرانجام دینا ناممکن ہے۔ اور آبادی کی بھاری اکثریت میں اشتراک عمل کے ساتھ ساتھ فکری اشتراک کے لیے ایک منظم اور مربوط نظریہ ناگزیر ہو جاتا ہے جس کے تحت مختلف پرتیں رکھنے والے پرولتاریہ اور پھر اس کے گرد غیر یکساں عوام کو متحد اور منظم کیا جا سکے۔

سرمایہ دارانہ سماج خود بھی ماضی کے تمام سماجوں سے معیاری طور پر مختلف تھا۔ جہاں دو تین صدیوں میں گزشتہ کئی ہزار سال سے زیادہ برق رفتار مادی ترقی دیکھنے میں آئی وہیں سائنس، تکنیک، فلسفے اور دیگر فنون میں بھی کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے گئے۔ سیاست باقاعدہ ایک سماجی ذمہ داری کے طور پر ابھر کر سامنے آئی اور سیاسی پارٹیوں کی تشکیل نیا سماجی معمول بن گیا۔ اسی طرح پیشہ ورانہ صحافت کا آغاز ہوا اور نت نئے اخبارات، رسائل و جرائد کی اشاعت ایک منافع بخش کاروبار بن گئی۔ اب حکمران طبقات کے پاس عوام کو مطیع رکھنے کے لیے جہاں جاگیر داری یا غلام داری جیسا ننگا جبر کرنا بظاہر مشکل یا غیر ضروری ہو گیا تھا اور مذہب کو ریاست سے علیحدہ کر دیا گیا تھا مگر اب رعایا کے دماغوں اور روحوں پر حکومت کرنے کے لیے سرمایہ دار طبقے کو پیشہ ور ماہرین کی بیش بہا خدمات میسر آگئی تھیں جو اطاعت کو مذہبی پیشواؤں کی طرح روحانی بنیادوں پر نہیں بلکہ عقلی بنیادوں پر اور سماجی فلاح کے لیے بلکہ خود محکوموں کی فلاح کے لیے عین فطری قرار دینے میں مہارت رکھتے تھے۔ گزشتہ نصف صدی میں تو یہ عمل اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے اور پروفیسروں کے روپ میں سرمایہ داروں کے سدھارے ہوئے بندر جامعات میں اہم منصبوں پر تعینات ہیں۔ ایسے میں ریاست کی اکھاڑ پچھاڑ کے لیے پہلے ایک ایسا سائنسی نظریہ درکار ہو گا جو نئی سماجی، معاشی وسیاسی اخلاقیات کی بنیادیں استوار کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اس نظریئے پر کامل اور سائنسی یقین اور عبور رکھنے والے کیڈرز محنت کش عوام کے دلوں اور روحوں کو فتح کر کے ایک یکسر نئے انسانی معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

ایک طرز پیداوار کے طور پر بھی سوشلزم سرمایہ داری سے یکسر مختلف ہے۔ سرمایہ داری منڈی کے قوانین کے مرہون منت ہوتی ہے، اس لیے اس کو چلانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضروری نہیں ہوتی بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ سرمایہ داری میں کوئی خاص منصوبہ بندی ممکن ہی نہیں ہوتی۔لیکن اس کے برعکس سوشلزم کا بغیر منصوبہ بندی کے تصور بھی محال ہے۔ سوشلزم میں تمام تر پیداواری عمل اور تقسیم کار محنت کش طبقے کے شعوری کنٹرول کا متقاضی ہوتا ہے۔ اس طرح سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دار طبقے کی تاریخ کے کوڑے دان میں منتقلی محنت کش طبقے کی شعوری مداخلت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ یوں اس طبقے کی ہراول پرتوں کا ایک نظریاتی اساس پر مبنی پارٹی میں منظم ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے، جو اس کی سیاسی، نظریاتی و اخلاقی تربیت کرے۔ لینن نے انقلابی پارٹی کی تعریف میں اسے ریاست کے اندر ریاست بھی قرار دیا تھا یعنی ایک بالشویک انقلابی پارٹی میں محنت کش طبقے کی ہراول پرتوں کو سوشلسٹ سماج کی منصوبہ بندی کے اہل بھی بنایا جاتا ہے۔ محنت کش طبقہ اپنے اندر بلاشبہ اس سوشلسٹ ریاست کا نظم و نسق سنبھالنے کا پوٹینشل رکھتا ہے مگر وہ پوٹینشل ایک سوشلسٹ سماج میں ہی حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے اور اس کے لیے ایک ایسی مزدور ریاست درکار ہوتی ہے جو اس سوشلسٹ سماج کی تعمیر کی کلید سنبھال سکے اور اس مزدور ریاست کی تخلیق ایک کیڈرپارٹی کے بغیر ناممکن ہے۔ اس کیڈر پارٹی کی تیاری ایک سیدھی لکیر میں ممکن نہیں۔ مزدور تحریک کے ارتقا کے ہر مرحلے میں ہراول پرت کے مابین سیاسی اختلاف کا ابھرنا ایک ناگزیر عمل ہے۔ لیکن انقلابی پارٹی ایک ڈسکشن کلب نہیں ہوتی بلکہ واقعات میں بر وقت اور اجتماعی مداخلت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ مناسب بحث مباحثے کے بعد جمہوری طور پر اختلافات کو ووٹ کے ذریعے حل کیا جائے۔ اس ضمن میں بعض اوقات اختلافات کی نوعیت اتنی سنگین ہو سکتی ہے جو تمام پارٹی کارکنان اور قیادت کی خواہشات کے برعکس پھوٹ پر منتج ہو۔ یہ بھی بے شمار دیگر سماجی حقیقتوں کی طرح ایک ایسی ہی حقیقت ہے جس سے روگردانی تمام تر خواہشات کے باوجود ناممکن ہے۔ مگر اس سے پارٹی کی تعمیر کا عمل رکنے کی بجائے آگے بڑھتا ہے۔ کارل مارکس کے قریب ترین ساتھی فریڈرک اینگلز نے اسے پارٹی کی تطہیر کا عمل قرار دیا تھا۔ وقتی نقصانات اپنی جگہ مگر اسی پراسیس میں ایثار اور سرفروشی کے جذبے سے محروم محض باتونی کارکنوں کی بجائے پارٹی کی صفوں میں تازہ دم لڑاکا عناصر کی گنجائش پیدا ہوتی رہتی ہے۔ بعض اوقات اس کے برعکس بھی ممکن ہوتا ہے مگر یہ وہ قیمت ہے جو سماج کی انقلابی جراحی کے لیے بہر حال چکانی پڑتی ہے۔

غیر متزلزل انٹرنیشنلزم

محنت کش طبقے کے اقتدار اور سوشلزم کی تعمیر کے علاوہ بالشویک پارٹی کا کوئی اور مقصد نہیں ہوتا۔ محنت کش طبقہ اپنے جوہر میں ایک بین الاقوامی طبقہ ہوتا ہے، اس لیے اس طبقے کی رہنمائی کرنے والی پارٹی کو ہر صورت میں انٹرنیشنلسٹ پالیسی اپنانی ہوتی ہے۔ محض بینرز پر ’دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ‘ لکھ دینا اور دنیا میں کسی بھی سامراج مخالف تحریک کی حمایت میں بیان داغ دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ معاشی بحران سے لے کر جنگ تک اور عام انتخابات سے لے کر قومی سوال تک ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے سیاسی ایشو پر مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے انٹرنیشنلسٹ نقطہ نظراختیار کرنا ہی بالشوازم کی حقیقی روح ہے۔ سوشلزم اگر انٹرنیشنلزم نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ مارکسزم اپنی انتہا میں نہیں بلکہ اپنی ابتدا میں انٹرنیشنلزم ہے۔ جب کوئی کارکن کسی بالشویک پارٹی کی کسی بھی مقامی تنظیم کو جوائن کرتا ہے تو اسی دن وہ عالمی مزدور تحریک کا ایک سپاہی بن جاتا ہے۔ اگر کسی کارکن سے کسی پارٹی میں شمولیت کے وقت اس اہم نظریاتی معاملے پر سیر حاصل بحث نہیں کی گئی تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ وقت کا ضیاع کر رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ بسا اوقات خود محنت کش طبقے کی ہراول پرتوں میں بین الاقوامیت پسندی کی بجائے قومی توہمات غالب آ جائیں، تو ایسے میں بالشویکوں کا فرض ہے کہ وہ اس صورتحال میں موقع پرستانہ خاموشی اختیار کرنے کی بجائے سیاسی دھارے کے خلاف اپنے انٹرنیشنلسٹ مؤقف پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔ پہلی عالمی جنگ کے موقع پر لینن اور ٹراٹسکی نے جس طرح اکثریت کی موقع پرستی کے خلاف مارکسزم کی اساس کا دفاع کیا، وہ بالشوازم کی میراث میں اہم ترین سیاسی قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ یقیناً مارکسزم کا احیا تھا،ان مٹھی بھر اساتذہ نے دیو ہیکل شخصیات، عالمی شہرت یافتہ لیڈران اور لاکھوں کی رکنیت رکھنے والی پارٹیوں کی رعونت کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر کے انقلابیوں کی آئندہ نسلوں کو یہ سبق دیا کہ مصالحت پسند اور شخصیت پرست کبھی انقلابی نہیں ہو سکتے۔

پارٹی اگر انٹر نیشنلزم کے سوال پر ثابت قدم نہ ہو تو لامحالہ وہ حکمران طبقے سے مصالحت کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم سوال انقلاب میں مختلف طبقات کے کردار کا ہوتا ہے۔ مارکسسٹوں نے جب روس جیسے پسماندہ معاشرے میں انقلابی قوتوں کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا تھا تو اس وقت بھی ان کے سامنے سب سے اہم سوال روس میں مختلف طبقات کے سیاسی پوٹینشل کا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ چونکہ روس میں ابھی تک سرمایہ دارانہ انقلاب کے فرائض کی تکمیل نہیں ہو سکی لہٰذا انقلاب کا کردار بورژوا جمہوری ہو گا جس کی قیادت ترقی پسند بورژوازی کو کرنا ہو گی۔ دوسرا نقطہ نظر یہ تھا کہ یہ درست ہے کہ انقلاب کا کردار بورژوا جمہوری ہو گا مگر اس کی قیادت کا فریضہ مزدور اور کسان ادا کریں گے (جس میں قائدانہ کردار محنت کشوں کا ہو گا)۔ تیسرا مؤقف یہ تھا کہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود پرولتاریہ تمام مظلوم عوام کے لیڈر کے بطور انقلاب کی قیادت کرتے ہوئے بیک وقت جمہوری اور سوشلسٹ فرائض کی تکمیل کرے گا۔ ہم ان تینوں نقطہ ہائے نظر کے نظری پہلوؤں پر یہاں تفصیلی بحث نہیں کر سکتے، صرف یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایک انٹرنیشنلسٹ اپروچ سے عاری رجحان ہی قومی بورژوازی سے ’خیر سگالی‘ کی توقعات وابستہ کر سکتا ہے۔ روس میں منشویکوں کا رجحان اس مؤقف کی وکالت کر رہا تھا، لینن کی وفات کے بعد جوزف اسٹالن کی قیادت میں بیوروکریسی نے اسی رجحان کی طرف مراجعت کی۔ بدقسمتی سے آج بھی بائیں بازو میں یہ رجحان غالب ہے، جس کا بالشوازم کی انقلابی روایات سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ مؤقف عالمی تقسیمِ محنت، سرمائے کے ارتکاز اور سامراجیت کے مظہر کی عدم تفہیم کی غمازی کرتا ہے، جس میں پرولتاریہ کی اپنی معاشی زنجیروں سے آزادی کی جدوجہدکو ایک عالمگیر طبقاتی تشخص کی بجائے مخصوص ثقافتی و نفسیاتی محرکات تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ لیون ٹراٹسکی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے سب سے پہلے اس سوال کو ایک مربوط نظریے کی شکل میں اجاگر کیا اور ’مسلسل انقلاب‘ کا تصور پیش کیا۔ لینن اگرچہ فوراً اس نظریئے کی صداقت کا قائل نہیں ہو گیا تھا مگر وہ متواتر بورژوازی کی ترقی پسندی کے رجعتی نظریئے کی مخالفت کرتا رہا اور آزادانہ طبقاتی پالیسی کی ضرورت پر زور دیتا رہا۔ اسی غیر متزلزل طبقاتی نکتہ نظر کی وجہ سے ہی لینن ٹراٹسکی کے نظریہ مسلسل انقلاب سے فروعی اختلافات کے باوجود اپنے پورے سیاسی سفر میں ایک ناقابلِ مصالحت انٹرنیشنلسٹ رہا۔ بالکل ویسے ہی جیسے ٹراٹسکی کو ایک سخت گیر اور آہنی ڈسپلن کی حامل انقلابی پارٹی کی ناگزیریت کو سمجھنے میں ضرورت سے زیادہ وقت لگ گیا، ایسے ہی لینن کو انقلاب روس کے مسلسل کردار سے متفق ہونے میں تاخیر ضرور ہوئی مگر عین انقلاب سے قبل فیصلہ کن وقت میں وہ اپنے راستے سے انہی نتائج تک پہنچ گیا جن تک ٹراٹسکی1905-06ء میں نظریہ انقلاب مسلسل کے ذریعے پہنچا تھا۔ اس نے کبھی یہ واہیات تصور پیش نہیں کیا کہ تیسری دنیا میں پہلے مرحلے میں بورژوا جمہوری انقلاب ہو گا جس کی قیادت ترقی پسند بورژوازی کرے گی یا کسی ایک ملک کی حدود میں، اور خاص کر روس جیسے پسماندہ ملک میں، ایک مکمل سوشلسٹ سماج کی تعمیر ممکن ہے۔

یوں نظریہ مسلسل انقلاب کو بالشوازم کی روح قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ آج بھی پاکستان سمیت دنیا بھر کے انقلابیوں کے لیے واحد قابل تقلید نظریہ ہے۔ اس کی رو سے سامراج کے عہد میں ’ترقی پسند‘ بورژوازی نامی کوئی مخلوق اس کرۂ ارض پر موجود نہیں ہے۔ کسان اپنے مخصوص پیداواری کردار کی نوعیت کی وجہ سے سرمایہ داری کو اکھاڑنے کے لیے قائدانہ کردار ادا نہیں کر سکتے، اس لیے پرولتاریہ کسانوں، مظلوم اقوام، اقلیتوں اور دیگر محکوم پرتوں کی قیادت کرتے ہوئے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے گا اور جمہوری اور سوشلسٹ فرائض کی تکمیل کا آغاز کرے گا۔ کسی بھی ایک ملک کا پرولتاریہ سوشلزم کی تعمیر کا محض آغاز ہی کر سکتا ہے۔ سوشلسٹ سماج کی تشکیل عالمی سطح پر ہی ممکن ہے، اس لیے کسی ایک ملک میں پرولتاریہ کے اقتدار میں آ جانے کے بعد نہیں بلکہ جدوجہد کے آغاز میں ہی بالشویکوں کو محنت کشوں کی ایک بین الاقوامی پارٹی کی بنیادیں ڈالنی ہوں گی۔ کسی بھی ایک ملک میں پرولتاریہ کی فتح اس بین الاقوامی تنظیم کو عالمی مزدور طبقے کی اکثریتی پارٹی میں تبدیل کرنے میں کلیدی کردارا دا کرے گی۔ اگر کوئی تنظیم یا پارٹی ان خطوط پر استوار نہیں کی گئی تو وہ ایک سوشل ڈیموکریٹ یا اصلاح پسند پارٹی تو ہو سکتی ہے مگر اسے لینن اسٹ یا بالشویک پارٹی کسی صورت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیون ٹراٹسکی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ مارکسزم عمل میں (Marxism in action) لینن ازم ہے۔ اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ لینن ازم اور ٹراٹسکی ازم اشتراکِ فکر و عمل میں بالشوازم ہے۔

سٹالنزم اور بالشوازم

ٹراٹسکی ازم کو لینن ازم سے الگ ایک ازم بنا کر پیش کرنا روسی بیوروکریسی کے اپنے ناجائز اور انقلاب دشمن اقتدار کو طول دینے کے لیے مجبوری بن گیا تھا، کیونکہ لینن پہلا شخص تھا جس نے ہنگری، اٹلی اور جرمنی کے انقلابات کی ناکامی کے بعد ایک پسماندہ ملک میں انقلاب کی تنہائی کے ناگزیر نتیجے کے طور پر افسر شاہی کے ابھار کے امکانات کو بھانپ لیا تھا، یہی نہیں بلکہ اس نے سٹالن کو اس ممکنہ بیوروکریسی کے ابھار کے مرکزی کردار کے طور پر شناخت بھی کر لیا تھا، اس سے بھی بڑھ کر اس نے یہ بھی سمجھ لیا تھا کہ اس کے بعد ٹراٹسکی ہی وہ واحد شخص ہے جو اس رد انقلابی رجحان کے خلاف ناقابل مصالحت لڑائی لڑنے کا اہل ہے، مگر زندگی نے اس سے وفا نہیں کی۔ اس کی وصیت کو چھپا لیا گیا، اس کی وفات کے بعد ٹراٹسکی نے ہر محاذ پر اس رجحان کا مقابلہ کیا، نو مولود بیوروکریسی کے پاس شروع شروع میں اتنی سیاسی اتھارٹی نہیں تھی، جو بعدازاں برق رفتار معاشی شرح نمو کی بدولت اسے میسر آئی اور جس کوبنیاد بنا کر دنیا بھر کے انقلابات کو بیدردی سے خون میں ڈبو دیا گیا، اسی لیے لینن ازم کے لبادے میں ہی یہ فرسودہ تصورات پیش کیے گئے اور ٹراٹسکی اور لینن کے ماضی کے نظری مباحث اور اختلافات کی بنیاد پر ٹراٹسکی ازم کا بھوت کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔ روس کے محنت کشوں پر طویل لڑائیوں کے بعد غالب آنے والی تھکن، عالمی مزدور تحریک کی پسپائی اور بین الاقوامی تعلقات کے اتھل پتھل کے باعث ٹراٹسکی تمام تر جدوجہد کے باوجود اس رد انقلاب کا راستہ نہیں روک سکا تاہم اس نے ایک نئی انٹر نیشنل تنظیم کی بنیاد رکھی اور اس نظریاتی جدوجہد میں انقلابیوں کی آئندہ نسل کے لیے وہ ورثہ چھوڑا جس کے باعث مارکسزم کا یہ ان ٹوٹ دھارا آج بھی قائم ہے اور عالمی واقعات میں ایک دفعہ پھر کمیونزم کا بھوت بن کر جدید دنیا کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔



سوویت یونین میں پیداواری قوتوں کی بے پناہ ترقی اور دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنی پر فتح کے باعث عالمی مزدور تحریک میں سوویت بیوروکریسی کی مضبوط سیاسی اتھارٹی بن گئی۔ بعد ازاں چینی افسر شاہی بھی اسی راہ پر چل نکلی اور لینن کے خیال کے برعکس سوویت یونین کے پھیلاؤ کی بجائے روس اور چین کے انقلابات الگ الگ قومی انقلابات بن گئے۔ تیسری انٹرنیشنل کو تو پہلے ہی روز ویلٹ اور ونسٹن چرچل کے ساتھ ہونے والے بقائے باہمی کے معاہدوں کی بلی چڑھا دیا گیا تھا، یوں کچھ دہائیوں کے لیے روسی افسر شاہی ایک ناقابل تسخیر قوت بن گئی۔ دنیا میں ہر انقلاب کی ناکامی کے بعد یہ پہلے سے مضبوط ہوتی گئی اور مطلق العنانیت کی شکل اختیار کر گئی۔ لینن کے ’ایک باورچی وزیر اعظم بن سکتا ہے اور وزیر اعظم باورچی بن سکتا ہے‘ کے ریاستی تصور کے برعکس سٹالن تاحیات حکمران بن گیا۔ فیصلہ سازی میں مزدوروں کی شمولیت بڑھنے کی بجائے ناپید ہوتی چلی گئی اور بالآخر معدوم ہوگئی۔سوشلزم کے ناقدین آج بھی سوویت افسرشاہی کو سوشلزم کے آمرانہ طرز حکمرانی کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، حالانکہ ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ سوشلزم کے لیے (مزدور) جمہوریت اتنی ہی ضروری ہے جتنی زندہ جسم کے لیے آکسیجن۔ دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں نے بھی روسی بیوروکریسی کے زیر اثر یہی وطیرہ اپنا لیا اور پارٹیاں دیو ہیکل افسرشاہانہ اپریٹس میں تبدیل ہو گئیں۔ اکثر سٹالنسٹ خواتین و حضرات یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر سٹالن نظریاتی طور پر اتنا کمزور تھا تو لینن نے اپنی زندگی میں اسے پارٹی کا جنرل سیکرٹری کیوں منتخب ہونے دیا؟ درحقیقت یہ سوال کرتے ہوئے ان کامریڈز کے خیال میں پارٹی اور جنرل سیکرٹری کا بھی خالصتاً سٹالنسٹ تصور ہوتا ہے۔ اس کی وجہ دہائیوں تک دنیا بھر کے بائیں بازو کی بتدریج ہونے والی سٹالنائزیشن ہے۔ ایک انقلابی پارٹی کا بالشویک تصور بائیں بازو کے لیے آج اتنا بیگانہ ہے کہ وہ خیالات تک میں اس کا نقشہ کھینچنے کے اہل نہیں ہیں۔ پارٹی کا لفظ سنتے ہی ان کے خیال میں بڑے بڑے دفاتر، کانفرنس ہال اور مخصوص وضع قطع والی بزرگ شخصیات گردش کرنے لگتی ہیں۔ نوجوانوں کو تو وہ پارٹی دفاتر کی صفائی ستھرائی کرتے ہوئے ہی دیکھ سکتے ہیں، جبکہ سیکرٹری جنرل کا نام سنتے ہی ان کے دماغ میں ایک رعب دار اور جا ہ و جلال والی شکل گھومنے لگتی ہے۔ ایک حقیقی بالشویک پارٹی اس کے بالکل الٹ ہوتی ہے۔داخلی جمہوریت اس پارٹی کا خاصہ ہوتی ہے۔ نوجوان اس پارٹی کے کرتے دھرتے ہوتے ہیں اور تمام انتظامی امور میں ان کی براہ راست مداخلت ہوتی ہے۔ سیاسی اتھارٹی کے علاوہ کسی دوسری اتھارٹی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ باہمی تعاون اور انحصار پر مبنی ایک مثالی ثقافت ہوتی ہے اور عہدے محض فرائض کی بطور احسن انجام دہی کے لیے کارکنان کی اہلیت اور تجربے کی بنیاد پر بطور ذمہ داری تفویض کیے جاتے ہیں۔ سٹالن کو بھی محض ایک منتظم کے طور پر ہی سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا تھا۔ لیکن یہ سٹالن کی شخصیت نہیں تھی جس نے افسر شاہی کے ابھار کو جنم دیا بلکہ مخصوص معروضی محرکات کے باعث افسر شاہانہ ابھار ہونا ہی تھا، سٹالن نہ ہوتا تو کوئی اور اس خلا کو پر کرتا۔ آج انڈیا اور چین کی کمیونسٹ پارٹیوں سمیت دنیا کی زیادہ تر کمیونسٹ پارٹیاں سٹالنسٹ پارٹیاں ہیں جن کے لیے بالشوازم مکڑی کے جالوں میں لپٹی ایک بند کتاب سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ سٹالنزم اور بالشوازم میں باہم کوئی قدر بھی مشترک نہیں۔ بالشوازم اگر مزدور تحریک کی کامیابی کی کنجی ہے تو سٹالنزم زہر قاتل ہے۔

انقلابی پروفیشنلزم

ایک بالشویک کیڈر کو گوناگوں خصوصیات کاحامل ہونا پڑتا ہے، بورژوا معیارات کے برعکس انقلابی پارٹیوں میں تقسیمِ کار یکسر مختلف ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص محض کسی ایک مخصوص کام (لکھنا، بولنا، ترجمہ کرنا وغیرہ) میں مہارت حاصل کر کے ایک بالشویک کیڈر نہیں بن جاتا۔ وقتاً فوقتاً ذمہ داریوں کی منتقلی معمول ہوتا ہے اور مختلف معروضی حالات میں مختلف نوعیت کے فرائض ادا کرنے ہوتے ہیں۔ جہاں کچھ صلاحیتیں فطری طور پر ہر شخص میں موجود ہوتی ہیں وہاں انقلابی فرائض کی تکمیل میں وہ صلاحیتیں بھی سخت محنت سے حاصل کرنی پڑتی ہیں جو فطرت سے ودیعت کردہ نہ ہوں۔ یہ صرف اور صرف سماج کی تبدیلی کی جستجو اور انقلابی جذبات کی شدت سے ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ اسی طرح ایک کیڈرپارٹی کو بحیثیت مجموعی بے پناہ، کثیر الجہت اور مختلف انواع و اقسام کے فرائض سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر نظریاتی محاذ پر ایک مستقل حالتِ جنگ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ لبرلز، مذہبی شعبدے باز، ریاستی وظیفہ خوار نام نہاد پیٹریاٹس، انارکسٹس، قوم پرست، سوشل ڈیموکریٹس وغیرہ اخبارات، الیکٹرانک میڈیا اور اپنے جرائد وغیرہ کے ذریعے محنت کشوں کے شعور پر مسلسل حملے کرتے رہتے ہیں۔ ہر قابلِ ذکر حملے کا جواب دینا اور مسلسل بدلتی ہوئی عالمی و ملکی صورتحال کا مارکسی تجزیہ محنت کشوں تک پہنچاتے رہنا کیڈر پارٹی کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسی طرح مزدوروں کے معاشی مطالبات کے گرد ہونے والی روزمرہ کی جدوجہدوں میں اپنے بینر اور پروگرام کے ساتھ عملی طور پر شریک ہونا اور انکی فوری ڈیمانڈز کو ایک عبوری پروگرام کے ذریعے سماج کی انقلابی جراحی کے پروگرام سے جوڑنا ہوتا ہے۔ محنت کشوں سے مستقل رابطہ بحال رکھنے کے لیے جہاں اپنے پارٹی دفاتر کو باقاعدہ رکھنا ضروری ہوتا ہے، وہیں مزدوروں کی کام اور رہائش کی جگہوں پر متواتر وزٹ کرنا اور ان کے روزمرہ کے معاملات میں شریک ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ طلبہ اور کسانوں کی تحریکوں میں بھی محنت کش طبقے کے نقطہ نظر سے مداخلت کرنی ہوتی ہے اور ان پیٹی بورژوا پرتوں کو ایک پرولتاری پروگرام کے گرد منظم بھی کرنا ہوتا ہے۔ وقتاً فوقتًامختلف جمہوری مطالبات کے گرد عوامی کیمپینیں بھی منعقد کرنی ہوتی ہیں اور ان کے لیے لاکھوں کی تعداد میں پمفلٹس کی اشاعت کرنی ہوتی ہے۔ ہر قسم کے قومی، صنفی و ریاستی جبر کی مذمت کرتے ہوئے مزاحمتی تحریکوں میں طبقاتی یکجہتی کے پروگرام کے ساتھ شرکت کرنا ہوتی ہے۔ مزدوروں، طلبہ اور کسانوں کے سٹڈی سرکلز کا انعقاد کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ان تمام فرائض کی ادائیگی میں بسا اوقات براہ راست ریاستی جبر کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ انتہائی شدید ریاستی جبر کی حالت میں بھی مارکسزم کا پرچم سر بلند رکھنے کے لیے قانونی کے ساتھ ساتھ، غیر قانونی یا انڈر گراؤنڈ میٹنگز اور سرکلز کو باقاعدگی سے منظم کرنا ہوتا ہے۔اورانقلابی پارٹی محنت کشوں کے لیے محض سیاسی متبادل ہی نہیں ہوتی بلکہ جمالیاتی افزودگی اور تسکین کا پلیٹ فارم بھی ہوتی ہے، کیونکہ بورژوا سماج مسلسل ان کے دماغوں میں مسابقت اور انفرادیت پر مبنی مواد انڈیلنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، اس لیے سب سے بڑھ کر نہ صرف پارٹی کارکنوں بلکہ طلبہ اور محنت کشوں کے لیے بلند پایہ ثقافتی سرگرمیاں، کھیلوں کے مقابلے اور محافل موسیقی، مووی سرکلز، تھیٹر اور مشاعروں وغیرہ کا انعقاد کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر بے شمار کام ہوتے ہیں جو ایک پارٹی کی تعمیر کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام امور سر انجام دینے کے لیے کیا ایک ایسی پارٹی کافی ہو گی جو محض ایسے رضاکاروں پر مشتمل ہو جو سماج کو بدلنے کے خواہشمند تو ہوں مگر انکی پہلی ترجیح ان کی نجی زندگی، کیریئر اور دیگر سماجی معمولات ہوں اور وہ انقلابی جدوجہد کو فرصت کے اوقات کاایک مشغلہ سمجھتے ہوں؟ ہر گز نہیں۔ ایسا سوچنا بھی حماقت ہوگی۔ لینن کے بقول ان تمام فرائض کی ادائیگی کے لیے ایک پیشہ ور انقلابی پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک پیشہ ور یعنی پروفیشنل انقلابی یا فل ٹائمرکون ہوتا ہے؟ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ ایک ایسا انقلابی کارکن جو انقلاب کوبطور پیشہ اختیار کرے۔ انقلاب کا پیشہ بورژوا سماج کے دیگر پیشوں سے معیاری طور پر مختلف ہوتا ہے۔ دیگر ہر پیشے کا مقصد اپنے شعبے میں ترقی کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ جائیداد، دولت، بڑا گھر اور سماجی رتبے کا حصول ہوتا ہے اور اس کی بنیاد مقابلہ بازی میں سب کو پیچھے پچھاڑ کے آگے بڑھتے جانا ہوتی ہے۔ یوں بورژوا سماج میں ایک کامیاب شخص عام طور پر خود غرض، مکار، بد دیانت، بے حس اور خبطی قسم کا انسان ہوتا ہے۔ انقلاب کے پیشے کا مقصد رائج الوقت غیر انسانی اقدار سے مفاہمت نہیں بلکہ اس کی جراحت ہوتی ہے جو اجتماعی جدوجہد سے ہی ممکن ہے، اس لئے اس میں مقابلے بازی کی بجائے باہمی تعاون اور انحصار پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کی پہلی شرط ہوتی ہے۔ اس لیے ایک مستعد اور با اعتماد انقلابی کیڈر اور بالخصوص ایک پیشہ ور انقلابی ملنسار، دیانت دار، مخلص، نرم خو اور سرفروش ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کا انقلاب کے علاوہ اور کوئی مقصد ہوتا ہی نہیں۔ اس کی نجی زندگی کی ہر شاہراہ انقلاب کی منزل کی طرف ہی کھلتی ہے۔ یعنی ایک ایسا انقلابی جو اپنی تمام تر صلاحیتوں اور وسائل سمیت خود کو انقلابی جدوجہد میں غرق کر دے، ایک پروفیشنل انقلابی ہوتا ہے۔ انقلابی پارٹی اس کو ان خدمات کے عوض لگ بھگ اتنا ہی معاوضہ ادا کرتی ہے، جتنا کہ اس سماج میں ایک تربیت یافتہ مزدور کی کم از کم اجرت ہوتی ہے۔ تو کیا ایک کیڈر پارٹی میں ہر کیڈر ایک پیشہ ور انقلابی ہونا چاہیے؟ ہونا تو چاہیے لیکن یہ سراسر خیال پرستی ہو گی۔ کیونکہ اول تو ایک انقلابی پارٹی کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں ہوتے کہ وہ ہزاروں یا لاکھوں خاندانوں کی کفالت کر سکے اور دوم کیڈرز اور پارٹی کارکنان کی بھاری اکثریت لوئر مڈل کلاس اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھتی ہے جن پر بے شمار سماجی ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتا ہے اور وہ چاہ کر بھی ان سے راہ فرار اختیار نہیں کر سکتے۔اس لیے وہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق تنظیمی امور سرانجام دیتے ہیں۔ تاہم ایک پیشہ ور انقلابی پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ہر کارکن کوئی نہ کوئی تنظیمی ذمہ داری ضرور نبھائے تاکہ اس کی زندگی میں انقلابی مقصد کی فوقیت کسی صورت بھی ماند نہ پڑنے پائے۔

لیکن پارٹی کی مرکزی قیادت کا بہر حال پیشہ ور انقلابی ہونا ہر صورت میں لازمی ہوتا ہے۔ وہ محض انقلابی پارٹی کے ہی قائد نہیں ہوتے بلکہ واقعی مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔ انقلاب چونکہ ماضی اور مستقبل میں فیصلہ کن معرکے کا نام ہوتا ہے، اس لیے وہی لوگ اس معرکے میں محنت کش طبقے کی قیادت کر سکتے ہیں جنہوں نے ماضی سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہو۔ ضرب المثل ہے کہ دو کشتیوں کے مسافر کا ڈوبنا ناگزیر ہوتا ہے۔ یہ بالکل درست ہے اور انقلابی پارٹی کی قیادت کے معاملے میں ایسے لوگ اکیلے نہیں ڈوبتے اور نہ صرف پارٹی بلکہ تحریک کو بھی ساتھ ہی لے ڈوبتے ہیں۔ اس کے علاوہ پارٹی امور میں تقسیم کار کے حوالے سے یہ سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ کسی بھی کیڈر کا کردار (role) وہ بھلے پروفیشنل انقلابی ہو یا نہ ہو، جامد (static) نہیں ہوتا۔ جوں جوں تنظیم کی عددی بڑھوتری ہوتی رہتی ہے توں توں ہر کیڈر کے اندر بھی معیاری تبدیلی وقوع پذیر ہوتی رہتی ہے اور پارٹی میں نئے شعبہ جات کی تخلیق ہوتی رہتی ہے، اسی حوالے سے ہر کیڈر کا کردار بھی ارتقا پذیر رہتا ہے۔ ایسے میں ہر کیڈر کو اپنے ترقی یافتہ کردار کی ادائیگی کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ اپنے نئے کردار کی ادائیگی میں چوں چراں یا حیل و حجت سے کام لینا کیڈر کی تیاری اور انفرادی کمٹمنٹ پر بہت بڑا سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ اسی طرح کیڈر پارٹی کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ جس دن کوئی شخص ایک انقلابی پارٹی جوائن کرتا ہے، اسی دن وہ ایک بالشویک کیڈر بن جاتا ہے، یا جب تک کوئی کیڈر نہیں بن جاتا، تب تک وہ ایک انقلابی پارٹی کا رکن نہیں بن سکتا، بلکہ ایک پروفیشنل انقلابی پارٹی میں برانچ کی شکل میں ایسا بنیادی ادارہ ہر صورت میں فعال ہونا چاہئے جہاں نئے کارکنان کی بلا تعطل تربیت کا کام چلتا رہے۔ ساتھ ہی مخصوص شعبہ جات سے متعلقہ بیوروز اور دیگر تنظیمی ڈھانچے کی فعالیت ایک پیشہ ور انقلابی پارٹی کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی کا ایک مرکزی آرگن یعنی اخبار باقاعدگی سے شائع ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ پارٹی کے مختلف فرنٹس کے الگ الگ جرائد بھی باقاعدگی سے شائع ہونا پارٹی کی تنظیمی صحت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اور یہ تمام امور ادا کرنے کے لیے ظاہر ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں وسائل درکار ہوتے ہیں۔ کتب اور پمفلٹس کی اشاعت، دفاتر اور فل ٹائمرز کی کفالت یہ تمام امور بہت زیادہ مالی اخراجات کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اور ایک بالشویک پارٹی این جی اوز کی طرز پر فنانس جمع نہیں کر سکتی۔ ایسے میں ہر پارٹی ممبر کے لیے ماہانہ فنڈ کی ادائیگی بنیادی رکنیت کی لازمی شرط ہوتی ہے جس پر کسی صورت بھی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ چندے کی رقم کا لینن کا طے کردہ معیار برسر روزگار کارکنان کے لیے کم ازکم ایک دن کی اجرت ہے، بے روزگاروں اور طلبہ وغیرہ کے لیے انکی اپنی صوابدید کے مطابق طے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن پارٹی کے سماجی پس منظر کے باعث محض پارٹی کارکنان کے ماہانہ چندے سے مذکورہ بالا تمام فرائض کی تکمیل مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتی ہے۔ اس لیے پارٹی کو اپنے اطراف میں ہمدردوں کی ایک ایسی پرت تخلیق کرنی پڑتی ہے جو ہر سرگرمی کے انعقاد کے لیے پارٹی کی معاشی طور پر حوصلہ افزائی کرے۔ یہ پرت پارٹی کے روزمرہ کے کام کے دوران نہایت جانفشانی سے تخلیق ہوتی ہے۔ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچوں اور زیریں و بالا اداروں کے مابین ورکنگ ریلیشن شپ بھی پیشہ ورانہ بنیادوں پر ہی منظم ہو سکتا ہے۔ پارٹی میں عمومی تناظر کی تخلیق سے لے کر تمام تنظیمی امور سے متعلق فیصلہ جات اوپر سے مسلط نہیں کیے جاتے بلکہ جمہوری مرکزیت کے اصول کے تحت بروئے کار لائے جاتے ہیں۔

عہد حاضر اور بالشوازم

2007-8ء کے مالیاتی بحران کے بعد سے سرمایہ داری ابھی تک صحت یاب نہیں ہو پائی تھی کہ ایک اور نئے بحران کی تلوار سر پر لٹکنا شروع ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سربراہان خود 2023ء کے آغاز میں ہی گریٹ ڈپریشن کی طرز کے ایک عالمی بحران کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اس صورتحال میں اجتماعی عوامی شعور میں دیو ہیکل تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔2011ء کی عرب بہار نے پہلے ہی سرمایہ نواز قیادتوں کی عوامی مقبولیت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ ’ہم ننانوے فیصد ہیں‘ کے غیر معمولی نعرے کے گرد دنیا بھر کے سینکڑوں شہروں میں ایک ہی دن ہونے والے احتجاج اس بات کا اعلان تھے کہ سماج اپنی بنیادوں سے لرز رہا ہے۔ اور ان بنیادوں پر تعمیر شدہ سپر سٹرکچر

کبھی بھی منہدم ہو سکتا ہے۔ بائیں بازو کی عدم تیاری اور عددی کسر نفسی کے باعث یہ تمام سیاسی عمل دائیں بازو کی انتہا پسندی کے نئے سیاسی مظہر پر منتج ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کو استعمال کرتے ہوئے دائیں بازو کے ان قائدین نے بڑے پیمانے پر سماجی حمایت حاصل کر لی۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے لے کر عمران خان تک اس فہرست میں بہت سے نام شامل ہیں۔ بیک وقت مختلف برا عظموں میں ایک ہی قسم کا سیاسی تغیر و تبدل عہد کے کردار میں فیصلہ کن تبدیلی کو ظاہر کر رہا تھا مگر بائیں بازو کے ”دولے شاہ کے چوہے‘‘ اس مظہر کو سمجھنے میں ایک دفعہ پھر بری طرح ناکام ہوئے اور ’فسطائیت‘ کی نوید سنا کر موقع پرستی کی اسی دلدل میں ایک دفعہ پھر غوطے لگانے لگے جہاں سے عوامی تحریکوں نے انہیں باہر جھانکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ لیکن دائیں بازو کی اس انتہا پسندی یا پاپولزم کی بھی اپنی حدودو قیود ہیں اور عالمی معیشت کے مسلسل زوال کی کیفیت میں یہ اگر اقتدار میں آتے بھی ہیں تو عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دے پائیں گے اور انکی مقبولیت کا گراف بالآخر نیچے لڑھکنا شروع ہو گا۔ محنت کش طبقے کی ہراول پرتیں تو پہلے ہی دائیں بازو کی اس انتہا پسندی کو مسترد کر چکی ہیں۔ وہ درمیانے طبقے کے اس سیاسی کھلواڑ کی وجہ سے اور عرب بہار کے بے نتیجہ رہنے کے باعث تھوڑے بہت مایوس ضرور ہیں اور حکمران طبقے کی طرف سے پے در پے معاشی حملوں نے بھی ان کی کمر توڑ دی ہے مگر ان کے پاس لڑنے کے علاوہ بھی کوئی آپشن نہیں۔ حالات کے تھپیڑے انہیں ایک دفعہ پھر میدان عمل کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ بالخصوص نوجوان نسل کا سیاسی تحرک انہیں زیادہ دیر تک سیاسی گوشہ نشینی میں رہنے نہیں دے گا۔ کسی حد تک پہلے ہی ایک دہائی سے بھی زیادہ مسلسل ایک بحران کی کیفیت کے باعث نئی نسل میں شدید بے چینی کی لہرپائی جاتی ہے۔ کرونا بحران سے قبل ہی عالمی سطح پر عوام کی قوت برداشت اور بالخصوص نوجوانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔ 2019ء کا سال اس حوالے سے خاص طور پر اہمیت کا حامل تھا۔ اس سال دنیا کے درجنوں ممالک میں احتجاجی تحریکوں کی وبا پھوٹ پڑی تھی، بعد ازاں کرونا وبا نے احتجاجوں کی اس وبا کے پھیلاؤ میں رخنہ ڈال دیا مگر رواں برس کے آغاز سے ہی ہم ایک نئے اور بلند پیمانے پر پھر تحریکوں کا احیا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ان میں سری لنکا اور ابھی ایران میں جاری خواتین کی تحریک جو اب محض خواتین تک محدود نہیں رہی، خاص طور پر توجہ کی مستحق ہیں۔گزشتہ چند روز سے ایران کے محنت کش طبقے کی طرف سے بھی تحریک کی حمایت میں احتجاج دیکھے گئے ہیں جو تحریک کے حوالے سے ایک اہم معیاری پیشرفت ہے۔ ایسی ہی صورتحال ہمیں مستقبل قریب میں یورپ سمیت دیگر خطوں میں بھی نظر آئے گی۔ ترکی میں لیبر تنازعات کی شدت میں بڑے پیمانے پر اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور بالخصوص برطانیہ ایک بہت بڑی انقلابی تحریک کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ان تمام محرکات کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ہم عالمی سطح پر ایک نئے انقلابی عہد میں داخل ہو گئے ہیں۔

ایران کے نوجوانوں اور خاص طور پر خواتین نے ثابت کر دیا کہ مذہبی فسطائیت ان پر مسلط کردہ عفریت ہے اور نئی نسل ان وحشی ملاؤں سے شدید نفرت کرتی ہے اور ایک عظیم الشان بغاوت شروع کیے ہوئے ہے۔

عرب بہار سے لے کر ایران کی حالیہ تحریک تک نوجوانوں نے جرات اور سرفروشی کی نئی داستانیں رقم کی ہیں۔ ان تمام تحریکوں میں ہم نے خواتین کا غیر معمولی قائدانہ کردار دیکھا۔ بالخصوص سوڈان، لبنان اور اب ایران کی تحریک میں خواتین نے نا قابلِ یقین پہل گامی کا مظاہرہ کیا۔ یہ تحریک بالخصوص لبرلز اور قنوطی دانشوروں کے منہ پہ زوردار طمانچے سے کم نہیں۔ یہ خواتین و حضرات انقلاب کو کب کا خارج از امکان قرار دے چکے۔ ان کے خیال میں مسلم دنیا میں بالخصوص انقلاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، عوام مذہبی ہیں اور یہاں محنت کش طبقہ بھی قدامت پسند ہے۔ایران سے زیادہ بظاہر مذہبی معاشرہ شاید اس وقت اس کرۂ ارض پر کوئی بھی نہیں۔ لیکن ایران کے نوجوانوں اور خاص طور پر خواتین نے ثابت کر دیا کہ مذہبی فسطائیت ان پر مسلط کردہ عفریت ہے اور نئی نسل ان وحشی ملاؤں سے شدید نفرت کرتی ہے۔ پاکستان میں بھی ہم ان دنوں ریاستی آشیرباد سے سوات میں طالبان کی ری لانچنگ کے خلاف علاقے کے غیور عوام کی جراتمندانہ بغاوت دیکھ رہے ہیں، اس کی قیادت بھی سر پھرے نوجوان کر رہے ہیں۔ یہ وہی پشتون ہیں جن پر بنیاد پرستی کا لیبل چسپاں کر دیا گیا تھا، انہوں نے یہ لیبل اتار کر واپس لبرل اشرافیہ کے ماتھے پر چپکا دیا ہے، جو خودبنیاد پرستوں سے بھی کہیں زیادہ رجعتی اور رد انقلابی ہیں۔ یہ لبرل خواتین و حضرات اپنی خجالت کم کرنے کے لیے ہم سوشلسٹ انقلابیوں پر طنز کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں تحریکوں کے نئے دور کے باوجود کہاں ہے سوشلزم؟ کہاں ہیں بالشویک؟ ایران میں اگر زیادہ بھی ہوا توپھر ملاؤں ہی کا کوئی نسبتاً لبرل دھڑا براجمان ہو جائے گا، جیسے سری لنکا میں دوبارہ راجا پکسا یا اسی کے پروردہ سیاسی لیڈروں کی واپسی کے امکانات ہیں۔ سوشلسٹوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان کے خیال میں بالشوازم ایک ریڈی میڈ سیاسی برانڈ ہے جسے کسی بھی معروضی صورتحال میں یکدم سیاسی افق پر نمودار ہوکر اپنی صداقت کو تسلیم کروانا ہو گا، بصورت دیگر وہ ایک متروک اور نا قابل عمل نسخہ ہے۔ وہ ٹراٹسکی کے الفاظ میں انقلاب کے سالماتی عمل کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ عوامی شعور کی جدلیات بہت پیچیدہ ہوتی ہے۔ درحقیقت محنت کش عوام کی بار بار سماج کی انقلابی تبدیلی کی جستجو اور تگ و دو میں اور زندہ انقلابی اور رد انقلابی قوتوں کے تصادم میں ہی بالشوازم ایک دفعہ پھردوبارہ بلند پیمانے پر سیاسی افق پر نمودار ہو گا۔ سری لنکا اور سوڈان کے تجربات کا سبق یہی ہے کہ قلت، افلاس، بیروزگاری اور قحط کا خاتمہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں ناممکن ہے۔ اس سرمایہ دارانہ عفریت کے خاتمے کے لیے عوام پھر ایک نئے نام کے ساتھ بالشوازم کو آزمانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ سوال انقلابی قوتوں کی تیاری کا ہے۔ اور ترقی یافتہ دنیا میں تو ہم پہلے ہی سیاسی پنڈولم کا بڑے پیمانے پر بائیں طرف جھکاؤ دیکھ رہے ہیں۔ وہاں عوامی شعور کی پیشرفت میں ٹریڈ یونین اور بائیں بازو کی قیادتیں ہی حائل ہیں جو بالشوازم کی انقلابی میراث کو یکسر فراموش کر چکے ہیں۔ محنت کش عوام کو اپنے رستے کی یہ رکاوٹ صاف کرنے میں وقت لگے گا۔ انقلابیوں کو محنت کش عوام کو اس مقصد کے لیے ضروری اوزار یعنی انقلابی پارٹی سے مسلح کرنا ہوگا۔ دنیا بھر میں عالمی مارکسی رجحان کے کامریڈز ثابت قدمی سے بالشوازم کی عظیم روایات کا پرچم سربلند کیے ہوئے ہیں۔ یہ وہ واحد انقلابی رجحان ہے جو مابعد جدیدیت کی اس دقیانوسی یلغار کے عہد میں بھی دنیا بھر میں تعلیمی کیمپسز اور کام کی جگہوں پر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تفاخر کے ساتھ یہ نعرہ بلند کرتے ہیں ’بالشوازم آج بھی مشعل راہ ہے‘۔

نسلِ نو اور بالشوازم کا احیا

آج دنیا بھر میں محنت کش آبادی کی بھاری اکثریت ہیں۔ ان کے لیے سوشلزم یا بالشوازم کوئی شوقیہ آپشن نہیں ہے۔ سرمایہ داری نے اپنے نامیاتی بحران کا تمام تر بوجھ ان کے کندھوں پر منتقل کر دیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس معاشی خانہ جنگی میں شدت ہی آتی جا رہی ہے۔ محنت کش محض اپنے دفاع میں متحرک ہو رہے ہیں مگر والٹیئر کے بقول وہ جیسے ہی اپنی زنجیر ہلاتے ہیں تو انہیں اپنی غلامی کا احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ان کے شعور میں ہونے والی کایا پلٹ ان کی جدوجہد کے کردار کو معاشی سے سیاسی اور دفاعی سے جارح میں تبدیل کر دیتی ہے۔ انقلابی کارکنان جو تاریخ کے مطالعے سے سیکھتے ہیں وہی سبق محنت کش تاریخی سرگرمی سے سیکھتے ہیں۔ پہلے پہل محنت کشوں نے اسے نظام کی خرابی نہیں بلکہ کوئی بد انتظامی کا معاملہ سمجھا تھا، مگر اب وہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ کہیں نظام کی بنیادوں میں کوئی نہ کوئی خرابی ضرور ہے۔ وہ اس خرابی کی میکانیات کو جاننا چاہتے ہیں، وہ سیکھنا چاہتے ہیں کہ تمام تر سائنسی اور تکنیکی ترقی کے باوجود زندگی اتنی اجیرن کیوں ہے۔ مگران کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ فلسفے اور معاشیات کے دقیق موضوعات پر گھنٹوں بحث کر سکیں۔ لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ محنت کش سرگرم بالشویک نہیں بن سکتے۔ خاص طور پر محنت کشوں کی ہراول پرتیں انٹیلی جنشیا کی نسبت زیادہ آسانی سے اور جلدی مارکسی سائنس کو سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہیں مگر انقلابی کارکنوں کو بار بار ان کے پاس جانا ہو گا اور صبر کے ساتھ وضاحت کرنی ہو گی۔ وہ تاخیر سے آنے پر انقلابیوں سے مخلصانہ ناراضگی کا اظہار بھی کریں گے۔ اپنے حالاتِ زار کا رونا بھی روئیں گے اور شکوے شکایت بھی کریں گے۔ اس سب کے باوجود اگر اعتماد، اپنائیت اور سادگی سے ان کے سامنے سوشلسٹ متبادل کی وضاحت کی جائے گی تو وہ بالآخر اس کو قبول کرنے اور اس کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے ضرور تیار ہو جائیں گے۔

محنت کش طبقے کے ساتھ ساتھ درمیانے طبقے کی نئی نسل میں بھی بالعموم اور طلبہ میں بالخصوص نظام اور سیاسی قیادت پر شدید بد اعتمادی پائی جاتی ہے۔ یونیورسٹیوں اور کالجز میں اس وقت جو نسل موجود ہے، انہوں نے سرمایہ داری کے اچھے دن دیکھے ہی نہیں، لہٰذا ان کے خیال میں یہ بحران بد انتظامی کا ہے ہی نہیں بلکہ وہ سیدھا سیدھا ملکیتی رشتوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں انقلابیوں کو زیادہ بڑی ریکروٹمنٹ انہی سے مل سکتی ہے۔ مگر آج جہاں اس پرت میں بے پناہ انقلابی پوٹینشل موجود ہے وہیں، ان میں محنت کش طبقے سے بھی زیادہ بیگانگی اور احساسِ رائیگانی تقویت اختیار کر گیا ہے۔ ان کا نفسیاتی ہیجان اور تشخص کا بحران بھی اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ سرمایہ داری نے ان کی انفرادیت کو جتنا مسخ کیا ہے، ان کے اندر انفرادیت کا اتنا ہی خبط بھی پیدا ہو گیا ہے۔ جامعات میں پڑھائی جانے والی بکواسیات نے اس ہیجانی کیفیت میں کہیں زیادہ مہمیز دے رکھی ہے۔افراتفری کی حد تک مسابقت نے ہر نوجوان میں مردم بیزاری کا زہر گھول دیا ہے۔انتہائی بھونڈی انانیت نے نوجوانوں کی شخصیت کو اتنا مجروح کر دیا ہے کہ ان کے اندر کسی بھی قسم کے ڈسپلن کے خلاف شدید رد عمل موجود ہے۔ ایسے میں ان کو بالشوازم کے سخت گیر آہنی ڈسپلن میں منظم کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ نوجوان جب انقلابی جدوجہد کا حصہ بنتے ہیں تو اداروں میں منظم سرگرمی سے زیادہ ایک طرح کی ’فری لانسنگ‘ کی روش اختیار کرتے ہیں۔ مستقل مزاجی کے برعکس ان کے اندر ایک لا ابالی پن پایا جاتا ہے، جس کے ساتھ بالشویک ڈسپلن میں لمبے عرصے تک کام کرنا ممکن نہیں رہتا۔ انقلابی کارکنوں کے ساتھ مل کر باہمی تعاون و معاونت سے ٹیم ورک کرنا اور صبر سے نتائج کا انتظار کرنا یہ ایک بالشویک کیڈر کا بنیادی فریضہ ہوتا ہے مگر اس کو سیکھنے کے لیے لازم ہے کہ یہ نوجوان محنت کش طبقے کی طرف رجوع کریں۔ اگر ہم لینن، پلیخانوف اور ٹراٹسکی سمیت روس کے مارکسی کیڈروں کے ابتدائی کام کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ وہ گھنٹوں محنت کشوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ ان کی کالونیوں میں ان کے ساتھ سٹڈی سرکل کرتے تھے، دقیق موضوعات پر گھنٹوں گفت و شنید کرتے تھے۔ یہی آج کے بالشویک نوجوانوں کا بھی بنیادی فریضہ ہے۔ اگر انہوں نے یہ روش اختیار کر لی تو بالشوازم کی عظیم روایات کے عوامی سطح پر احیا کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔

Comments are closed.