8مارچ، محنت کش خواتین کا عالمی دن۔۔۔سرمایہ داری اور پدرشاہانہ جبر کے خلاف بغاوت کا دن!

|تحریر: انعم خان|



سال 2023ء کا محنت کش خواتین کا عالمی دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں غیر معمولی حالات کی ایک اہم کڑی کے طور پر آ رہا ہے کہ جہاں طبقاتی جنگ کے میدان سجنے کا آغاز ہوچکا ہے۔ ایک بحران سے نکلنے کے لیے دوسرے بحران کے حالات تیار کرتا سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے پالیسی ساز و مالکان اپنے ہر بحران کا خمیازہ اور بوجھ محنت کش عوام پر ڈال رہے ہیں۔

اب تک کے طبقاتی سماجوں اورخود سرمایہ داری کی معراج عالمگیریت یعنی عالمی منڈی، اجناس کی پیداوار کی عالمگیریت، عالمی تجارت وغیرہ سب نجی ملکیت کی حدود میں رہتے ہوئے اپنا عروج دیکھ کہ اب واپسی کا سفر شروع کرچکے ہیں۔ اسی سرمایہ دارانہ عالمگیر معیشت کے نامیاتی بحران سے اپنی منڈیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے معاشی قوم پرستی کے تحت دوسروں پر تجارتی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں جو کہ مزید خلفشار پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ مالیاتی نظام کو انہدام سے روکنے کے لیے مصنوعی طور پر پیسہ چھاپ کر عارضی اور مصنوعی قوت خرید تو پیدا کی گئی لیکن اس عمل میں آنے والے افراط زِر کا طوفان نہ دیکھا گیا جو اب خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔ شرح سود کو بڑھا کر اب افراط زر کو قابو میں لانے کی کوشش کے نتیجے میں قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ آسان الفاظ میں بوسیدہ چادر کو ایک طرف کھینچا جاتا ہے تو وہ دوسری جانب سے پھٹنے لگ جاتی ہے۔

ان سب حالات میں بھی سرمایہ دار طبقہ منافعے نچوڑ رہا ہے اور اکثریتی محنت کش عوام پر معیار زندگی میں کٹوتیوں کی صورت میں تمام بوجھ ڈالا جارہا ہے، لیکن اب انہیں نہ صرف عوام بلکہ منظم محنت کش طبقے کی جانب سے بھی بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ برطانیہ میں مہنگائی کے خلاف اور اجرتوں میں اضافے کے لیے ہونے والی پانچ لاکھ محنت کشوں کی ہڑتال، فرانس میں پینشن پر کٹوتیوں، سپین میں شعبہ صحت پر ہونے والے حملوں، ڈنمارک میں تعطیل کے خاتمے کے خلاف بننے والی احتجاجی تحریکیں جدید سرمایہ دارانہ ممالک میں مزدور تحریک کے نئے آغاز کا عندیہ دے رہی ہیں۔

منظم و جدید محنت کش طبقہ جو کہ سرمایہ دارانہ منظم جبر کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، کی از سر نو صف بندیوں کا آغاز ہوتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ان تمام تحریکوں میں محنت کش خواتین اپنے ساتھی مرد محنت کشوں کے شانہ بشانہ چلتی نظر آرہی ہیں جو کہ اس بات کا اظہار ہے کہ مزدور تحریک اپنے ابتدائی قدموں کے ساتھ ہی صنفی تقسیم جیسے مزدور دشمن نظریات کو جھٹک کر دور پھینک دیتی ہے۔

نہ صرف جدید سرمایہ دارانہ ممالک میں بلکہ ایران، افغانستان اور پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں بھی خواتین مزاحمت کی جانب بڑھتی نظر آ رہی ہیں۔ گزشتہ عرصے میں افغانستان میں طالبان کی مذہبی رجعتیت اور جبر کے خلاف خواتین کی جانب سے شاندار احتجاج ہوئے ہیں، جو کہ اب بھی وقتاََ فوقتاََ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اسی طرح ایران میں حکمران ملاں اشرافیہ کے سماجی جبر کے خلاف بننے والی تحریک ملک گیر صورت اختیار کر گئی جو کہ ایرانی معاشرے میں نہ صرف خواتین پر مذہب کی آڑ میں ہونے والے سماجی جبر کے خلاف بغاوت ہے بلکہ ایرانی معاشرے کی معاشی بد حالی کے خلاف بھی عمومی سماجی بغاوت ہے، جس میں محنت کشوں کی کچھ پرتوں نے بھی آنا شروع کر دیا۔ خواتین پر ملائیت کے جبر کے خلاف بننے والی اس تحریک میں نہ صرف خواتین بلکہ ایرانی مرد و خواتین مل کر اس جبر کے خلاف تحریک میں متحرک ہوئے ہیں۔ 

گزشتہ عرصے میں افغانستان میں طالبان کی مذہبی رجعتیت اور جبر کے خلاف خواتین کی جانب سے شاندار احتجاج ہوئے ہیں، جو کہ اب بھی وقتاََ فوقتاََ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

پاکستان میں جہاں خواتین پر موجود سماجی جبر کی ہولناکیوں میں اضافہ ہورہا ہے وہیں اس کے خلاف نفرت بھی بڑھتی چلی جارہی ہے جو کہ احتجاجوں کی صورت میں اپنا اظہار بھی کرتی ہے۔ تیزی سے بد تر ہوتے معاشی حالات پورے سماجی ڈھانچے کو برباد کر رہے ہیں۔ پاکستان میں غریب عوام، کسانوں، محنت کشوں اور اب تو درمیانے طبقے کے لیے بھی معاشی حالات تیزی سے دیوالیہ پن کی جانب بڑھ رہے ہیں، جبکہ سیاسی و عسکری و معاشی حکمرانوں کی عیاشیوں اور دولت میں تیز ترین اضافے کا عمل جاری ہے۔

سال 2021ء میں الجزیرہ ویب سائٹ پر یو این ڈی پی کی شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی امیر ترین کارپوریٹ، جاگیردار، سیاسی حکمران اور فوجی اشرافیہ کو سالانہ مجموعی طور پر 17.4 ارب ڈالر کی معاشی مراعات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ اعداد و شمار اسی وقت کے ہیں کہ جب یہاں کی عوام اور محنت کشوں کے لیے ”معاشی بحران“ موجود ہے جس کی قیمت صرف ہمیں ہی ادا کرنی ہے۔ یعنی ملک کی معیشت جو کہ مراعات یافتہ حاکموں کی معیشت ہے اس کے دیوالیہ پن کی قیمت، اسے چلائے رکھنے کے لیے تاکہ امیر مزید امیر ہوسکیں، اس غرض سے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا جارہا ہے جس کی واپسی عوام کی جیبوں سے کی جارہی ہے۔

جہاں عوام کے لیے بجلی کی قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں وہیں پر بزنس ریکارڈر جریدے کی 31 جنوری 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق فوجی ’افسران‘ کے لیے بجلی کے نرخوں میں پچاس فیصد کٹوتی کی گئی ہے۔ دوسری جانب عوام کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت بجلی کے نرخوں میں فوری طور 33 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے جس میں آگے چل کر مزید 20 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔

عوام کے لیے عمومی مہنگائی کی ”سرکاری“ شرح 33 فیصد ہوچکی ہے لیکن در حقیقت یہ 45 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اور یہ سب ابھی اس مہنگائی کی فلم کا ٹیزر ہے۔ پوری کہانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ معاشی ماہرین کے مطابق معیشت کی موجودہ حالت کے پیش نظر جولائی 2023ء میں ایک اور آئی ایم ایف کا پروگرام لینا پڑے گا۔

یہ حالات پاکستان کے غریب عوام اور محنت کشوں کے لیے تو موت کے پیغام کے مترادف ہیں لیکن یہاں کے امیروں پر اس کے کوئی معاشی اثرات نہیں ہوں گے۔ ان کی عیاشیوں کا عالم تو یہ ہے کہ ان کے تفریحی مراکز کے اخراجات بھی عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے پورے کئے جاتے ہیں۔ مثلاََ لاہور جم خانہ کلب کی عمارت جس کا موجودہ ماہانہ کمرشل کرایہ پچاس کروڑ بنتا ہے جو کہ یہاں آکر محظوظ ہونے والوں کے لیے انتہائی معمولی رقم ہے، لیکن حکومت اس کلب سے کرائے کی مد میں محض پانچ ہزار ماہانہ وصول کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشی دیوالیہ پن کے پاکستان جیسے پسماندہ ملک کی سماجی بنت پر خوفناک اثرات مرتب ہورہے ہیں جس کا شکار معاشرے کی اکثریت پر مبنی عوام اور محنت کش تو بن ہی رہے ہیں لیکن صنفی جبر کی بڑھتی ہولناکیوں کی صورت میں یہ ملک خواتین کے لیے ایک اذیت گاہ بنتا جارہا ہے۔

خواتین کے لیے پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے خطرناک ملک اور گھریلو تشدد کے واقعات میں دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر موجود ہے (رائیٹرز فاؤنڈیشن)۔ مختلف سرویز کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صرف صوبہ پنجاب میں ستر سے نوے فیصد شادی شدہ خواتین اپنے شوہروں کے ہاتھوں کسی نہ کسی طرز کے جسمانی، نفسیاتی یا معاشی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ صرف جنوری کے مہینے میں چوبیس گھنٹوں کے اندر دہلا دینے والے واقعات کا تسلسل چلا، جس میں دارالحکومت کے ایف نائن پارک میں نوجوان لڑکی سے بندوق کے زور پر ریپ کیا گیا، اسی دن خبر آئی کہ میلسی میں چلتی ہوئی بس میں اٹھارہ سالہ بس ہوسٹس کا ریپ کیا گیا، مظفرگڑھ میں ایک خاتون کو برہنہ کرکے گھمایا گیا، کراچی میں بلدیہ کے علاقے میں کم سن بچی کا ریپ کرکے اسے قتل کر دیا گیا، اسی ہفتے سکھر میں ایک بیوروکریٹ نے برقعے میں موجود بزرگ خاتون کو سربازار تشدد کا نشانہ بنایا اور اس معمر خاتون کا برقع اتار کر اسے گھسیٹتا رہا۔

ایسے ہولناک واقعات آئے روزیہاں ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد ان کے متعلق لوگوں کو بے حس یا لاپرواہ کرنے کی بجائے ان کے ذہنوں میں غصے اور نفرت کو مسلسل بڑھاتی جارہی ہے جو کہ کسی بھی وقت اور کسی بھی واقعے پر بڑے سماجی دھماکے کی صورت میں اپنا اظہار کرسکتی ہے۔ ریپ، گینگ ریپ، غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی، کم عمری کی شادی، تعلیم، نوکری اور صحت کی سہولیات سے محروم رکھے جانا یہاں کی خواتین کی زندگیوں کا معمول بن چکا ہے، وہ بھی اس خام خیالی کے تحت کہ گھر کے ”باہر کا ماحول“ محفوظ نہیں ہے۔ جبکہ ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ عورت پر ہر طرح کے جبر و تشدد کا آغاز خود گھر اور خاندان کے اندر سے ہی ہوتا ہے۔

اسی طرح ملائیت کا جبر بھی یہاں سب سے زیادہ خواتین پر ہی مسلط کیا جاتا ہے۔ ضیا الباطل کے دور میں مسلط کردہ عورت دشمن حدود آرڈیننس سے لے کر کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل تک یہاں موجود تمام تر سماجی روایات، قوانین اور ملائیت مل کر خواتین کی زندگیوں کو مسلسل زہر آلود کرتے رہتے ہیں۔

علاج اور تعلیم کی سہولیات سے جہاں آبادی کی اکثریت محروم ہوتی جارہی ہے وہاں اس میں خواتین کا تناسب مردوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ اس سماج میں عورت ہونا اتنا بڑا جرم بن چکا ہے کہ الٹرا ساؤنڈ کی جدید تکنیک کے استعمال سے اس مملکت خداداد میں گزشتہ دو دہائی کے عرصے میں لاکھوں بچیوں کو پیدائش سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا ہے۔ جوٹیکنالوجی انسان کی فلاح وبہبود اور زچہ و بچہ کی بہتر صحت اور تندرستی کے لیے استعمال ہونی چاہیے تھی وہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے تحت بربریت کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

اسی طرح بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری سے بھی محنت کش خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ گھروں میں خواتین کی غذائی ضروریات سے لے کر علاج اور تعلیم پر مہنگائی کے باعث سب سے پہلے کٹوتی لگائی جاتی ہے اور عام طور پر انہیں انسان سے کمتر درجے پر فائز کیا جاتا ہے۔ ریاستی اداروں کا بھی خواتین کی جانب رویہ انتہائی تذلیل آمیز اور انسانیت سوز ہوتا ہے۔ عدلیہ اور تھانوں سے لے کر کام کی جگہوں پر ہر جگہ ہمیں جنسی ہراسانی، ریپ اور عورت دشمن اقدامات کا ایک تسلسل نظر آتا ہے۔ خاص کر وہ ادارے جہاں خواتین اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف دادرسی کے لیے جا سکیں وہاں خواتین کا جنسی استحصال سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔

ملاؤں سے لے کر عدلیہ کے ججوں اور یونیورسٹی کے پروفیسروں تک سب نام نہاد ”معززین“ پر خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور تذلیل کے سینکڑوں الزامات لگ چکے ہیں اور ہزاروں ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں لیکن آج تک کسی کو بھی کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔

اسی طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں سے لے کر مقامی صنعتوں تک ہر جگہ خواتین کا بد ترین استحصال بھی جاری ہے جہاں انہیں انتہائی کم اجرتیں دی جاتی ہیں جبکہ کام کے اوقات کار اور جنسی ہراسانی مسلسل بڑھتی چلی جاتی ہے۔

اس تمام ظلم اور استحصال کا خاتمہ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے، جس میں اس ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کو ہی اکھاڑ پھینکا جائے جو خواتین پر جبر سمیت تمام تر ظلم اور استحصال کی بنیاد ہے۔اس نظام کی موجودگی میں خواتین پر جبر اور استحصال کے خاتمے کا راگ الاپنا بیوقوفی ہے۔ کسی بھی قانونی ترمیم یا اخلاقی تبلیغ سے یہ ظلم و جبر ختم نہیں ہوگا اور نہ ہی اس نظام میں موجود پدر شاہی کا جبر رضاکارانہ طور پر ختم ہو سکتا ہے۔

سرمایہ داری کے تحت جہاں خود مردوں کی اکثریت بھی سرمایہ دارانہ معاشی غلامی کا شکار ہے وہاں خواتین کے حالات کی بہتری کی امید کرنا احمق ہونے کے مترادف ہے کیونکہ صنفی استحصال کے خاتمے کا سوال محض خواتین سے نہیں بلکہ یہ سماج کی اس طبقاتی بنتر سے جڑا ہوا ہے جس میں معاشرے کی اکثریتی محنت کش آبادی معاشی استحصال کا شکار ہے اور اس میں عورت کی حیثیت بھی ذرائع پیداوار کی طرح ملکیت میں رکھے جانے والی بے جان شے کے مترادف ہے۔ اسی سماجی بنتر جسے ہم ’نظام‘ کہتے ہیں، جس کا بنیادی یونٹ خاندان ہے، جہاں ہم انسانوں کو سرمایہ داری کے لیے ”قابل استعمال“ بنانے کی ابتدائی تربیت کی جاتی ہے، اس ادارے میں مرد کا طاقتور اور جابر ہونا اتنا ہی غیر انسانی ہے جتنا کہ عورت کا مظلوم اور کمزور ہونا۔ اس ’نظام‘ میں جو کہ اب اپنا انسان دشمن کردار واضح کر چکا ہے، اس کے مکمل خاتمے کے بغیر مرد و خواتین کے لیے بہتر انسانی معاشرے کی تکمیل ناممکن ہے جس کے لیے دونوں کو ہی مل کر اس کے خاتمے کی جدوجہد کرنا ہوگی۔

 

پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں جہاں سرمایہ دارانہ نظام کی ہولناکیوں میں خاص کر اضافہ ہوا ہے، وہیں پر سامراجی ممالک اور اداروں سے ”خواتین کے حالات بہتر کرنے اور ان کی آزادی“ کے نام پر چندے حاصل کر کے مختلف شہروں میں سالانہ ”عورت مارچ“ منعقد کیے جارہے ہیں۔ مارچ کا مہینہ قریب آتے ہی کونوں کھدروں سے ”عورتوں کے حقوق کا دفاع“ کرنے والے مرد و خواتین نکلنا شروع ہو جا تے ہیں جوکہ باقی سارا سال کہیں نظر نہیں آتے۔ اس عرصے میں کارپوریٹ میڈیا بھی مالی معاونت کے سبب ان کا بھرپور ساتھ دیتا ہے، ٹی وی چینلز پر خواتین پر تشدد کے واقعات کو پرائم ٹائم میں زیادہ جگہ اور اہمیت دی جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے باقی سارا سال تو خواتین پر کوئی تشدد ہوتا ہی نہیں ہے۔

گزشتہ دنوں کے واقعات میں ایک یہ بھی تھا کہ کراچی میں ایک ”خاتون“ نے اپنے گیارہ سالہ گھریلو ملازم کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ جہاں خواتین پر ہونے والا تشدد ناقابل برداشت اور قابل مذمت ہے وہیں بورژوا اور پیٹی بورژوا خواتین کی جانب سے ہونے والے ایسے تشدد کے واقعات بھی اتنے ہی قابل مذمت اور قابل مزاحمت بھی ہیں کیونکہ جہاں کہیں بھی معاشی طور پر طاقتور مرد یا خاتون کا بس چلتا ہے تو وہ اپنے سے کمزور پر جبر کرتے ہیں اور یہ معاشی طاقت سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادہے، جہاں ظلم و بربریت کرنے والے مرد ہی نہیں ہیں بلکہ ایسی درندہ صفت خواتین کی بھی کمی نہیں۔ لیکن یہاں ان فیمینسٹ خواتین اور مرد حضرات کا دوسری انتہا پر مبنی تعصب واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے کہ ایسے واقعات پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر کے یہ اپنا کردار واضح کردیتے ہیں کہ خواتین پر ہونے والے صنفی جبر کے متعلق ان کا تمام شور دراصل ان کی معاشی دکانداری کے تحت ہوتا ہے نہ کہ سماجی حالات کو بدلنے کی کسی سنجیدہ کاوش کے تحت۔

عورت ہونے پر خوشی کا اظہار کرنے والے ان میلوں میں پاکستان کی اکثریتی محنت کش اور گھریلو خواتین کی نمائندگی تو دور، ان کے حالات اور مسائل پر بات تک نہیں کی جاتی۔ امیر اور اَپر مڈل کلاس کی خواتین ہر بار کسی بات پر عورت مارچ کو متنازعہ بنا کر اسے میڈیا کی زینت بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں لیکن ان مارچوں سے خواتین کے حالات بہتر کرنا تو درکنار پدرشاہانہ جبر سے پیدا ہونے والے صنفی جبر جیسے گمبھیر اور اہم مسئلے کو ہی معاشرے میں متنازعہ بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ اسی سبب خواتین پر ہونے والے معاشی و صنفی جبر کے خلاف پنپنے والا غصہ اور نفرت آگے بڑھنے کی بجائے مذاق بن کر رہ جاتا ہے۔

این جی اوز کو سامراجی ممالک سے ملنے والے فنڈز کے ساتھ پاکستانی معاشرے کی خواتین کی اذیتوں کی دکانداری کرکے چند نوجوان لڑکیوں کو اپنے گرد عارضی طور پر کھینچا جا سکتا ہے لیکن اس سے اذیتوں کا مداوا اور حل ممکن نہیں ہے۔

پدرشاہی کی سماجی بنیادیں فراہم کرنے والے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے بغیر محض مردوں کے تسلط کی نشاندہی کرنا اور اس سے نفرت کرنا ایسے ہی ہے جیسے آپ بیماری کی تشخیص کیے بغیر محض تکلیف دہ علامات کا بس شور مچاتے رہیں، لیکن مکمل تشخیص اور اس کے بعد کے علاج سے انکاری ہوں۔

خواتین کو انسان کی بجائے ملکیت میں رکھے جانے والی بے شعور شے کا درجہ دینے والا سرمایہ دارانہ نظام گزشتہ تمام طبقاتی نظاموں کی طرح ہی خواتین کے صنفی جبر و استحصال کا حقیقی سبب ہے۔

خواتین کے عالمی دن کو منانے کا آغاز درحقیقت ’محنت کش خواتین کے عالمی دن‘ کے طور پر 1909ء میں امریکہ میں منعقد ہونے والی انٹرنیشنل سوشلسٹ وومن کانفرنس میں کیا گیا تھا۔ لیکن پاکستان سمیت پوری دنیا میں محنت کش خواتین کے عالمی دن کو عالمی و ملکی سرمایہ داروں اور حکمرانوں کی خدمت گزاری کے تحت لبرل و فیمینسٹ خواتین و حضرات کی جانب سے گزشتہ دہائیوں کی بھرپور کاوشوں سے محض خواتین کے عالمی دن کے طور پر تشہیر کر کے خواتین میں موجود طبقاتی تقسیم کو اپنے تئیں زائل کرنے کی ناکام کوششیں کی جاتی ہیں۔

اس کاوش کا مقصداس دن کو منانے کی انقلابی جدوجہد پر مبنی اس کی اساس کو ختم کر کے اسے (خاص کر حکمرانوں کے لیے) قابل قبول بنانا ہے۔ دنیا کی پہلی باقاعدہ مزدور حکومت بنانے والی انقلابی تحریک کا آغاز ہی محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موقع پر 1917ء میں روس میں محنت کش خواتین کے احتجاج سے ہوا تھا جس نے پھیل کر انقلاب کی صورت اختیار کر لی تھی اور لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے ایک سوشلسٹ نظام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ لیکن آج خواتین کا عالمی دن ان این جی اوز نے تفریح کی علامت بنا دیا ہے جس سے اس نظام کے رکھوالوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اسی لیے وہ اس کی بھرپور مالی معاونت کرتے ہیں تاکہ خاص کر محنت کشوں اور عمومی طور پر سماج کو صنفی بنیادوں پر تقسیم کیے جانے کا عمل جاری رہے، جبکہ ’محنت کش خواتین کا عالمی دن‘ اپنے نام سے ہی مزاحمت اور انقلابی جدوجہد کا استعارہ ہے، جو کہ اس نظام کے حکمرانوں اور ان کے حواریوں کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجاتا ہے۔ اسی لیے ہم انقلابیوں کا فریضہ ہے کہ ہم اس دن کی انقلابی اساس کو بحال اور اجاگر کرتے ہوئے ہر جگہ اسے اس کے اصل نام سے دوبارہ منظر عام پر لے کر آئیں۔

پاکستان کے محنت کش، کسان، نوجوان اور غریب عوام یہاں کے ہر طرح کے حکمرانوں کی سیاسی نوٹنکی اور ان کے عوام دشمن کردار پر اب پہلے سے کہیں زیادہ واضح رائے بنا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے دور میں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے جوکرز بھی اب ہمیں نان ایشوز میں بہکانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ حکمرانوں کے کسی بھی دھڑے کے پاس ہمارے مسائل کاحل تو دور، حل کے لیے ان کی استطاعت اور نیت ہی وجود نہیں رکھتی ہے۔ کیونکہ جس سرمایہ دارانہ نظام کے یہ حکمران ہیں وہ نظام پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ناکام ہوچکا ہے، اسے پھر سے تھوڑا بہت درست کر کے چلانے کے تمام حربے بھی ختم ہوچکے ہیں۔ اور اب اس کی جگہ ایک متبادل نظام وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے جو کہ انسانوں کی اکثریت کے لیے بہتر مستقبل کا راستہ بن سکے۔

سرمایہ داروں اور ان کے آج تک کے حواریوں کے تمام تر بہتانوں کے باوجود بھی سوشلزم ہی اس طبقاتی تفریق کے مکمل خاتمے کا پورا پروگرام رکھتا ہے، جہاں نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے معیشت کو منافعوں کی بجائے انسانی ترقی کے غرض سے ترتیب دیا جائے گا۔ اسی سے ہی وہ معاشرہ تعمیر ہوگا جو کہ خواتین کے متعلق پدرشاہانہ جبر کا خاتمہ یعنی انہیں ملکیت میں رکھے جانے والے شے کی بجائے واپس انسانی درجہ اور وقار فراہم کرے گا۔

ایک سوشلسٹ سماج میں خواتین پر ہر طرح کا جبر اور امتیازی سلوک مکمل طور پر ختم ہو جائے گا اور روٹی، کپڑا اور مکان کے علاوہ علاج اور تعلیم بھی ہر ایک کو مفت فراہم کی جائے گی۔ خواتین کو گھریلو غلامی سے بھی نجات ملے گی اور گھریلو کاموں کو صنعتی پیمانے پر سر انجام دینے کی ذمہ داری بھی مزدور ریاست پر عائد ہوگی اور کپڑے دھونے، کھانا پکانے اور دیگر روز مرہ کاموں کے لیے اجتماعی لانڈریاں اور کھانا گھر ہر گلی اور محلے کی سطح پر ریاست کی جانب سے فراہم کیے جائیں گے۔ اسی طرح بچوں کی نگہداشت کے لیے نرسریاں بھی سرکاری طور پر فراہم کی جائیں گی۔

اس سب کے بعد خواتین سماج کی تعمیر و ترقی میں فعال کردار ادا کر سکیں گی اور گھریلو و سماجی جبر سے بھی آزاد ہوں گی۔ حاملہ خواتین کے لیے پوری تنخواہ کے ساتھ چھ ماہ کی رخصت اور دیگر بہت سی بنیادی سہولیات بھی مزدور ریاست کی جانب سے فراہم کی جائیں گی جبکہ بچوں کے تمام اخراجات اور تعلیم اور علاج کی ذمہ داری بھی اسی مزدور ریاست کی ہو گی۔

لیکن اس سب کو حاصل کرنے کے لیے اس ملک کے محنت کش طبقے کو ایک انقلاب برپا کرنا ہوگا تا کہ اس انسان دشمن حکمران طبقے کو اکھاڑ پھینکا جا سکے اور اس کی جگہ مزدور طبقہ خود اقتدار سنبھالے۔

اس کے لیے آج سرمایہ داری اور طبقاتی نظام کی پیدا کردہ پدر شاہانہ سماجی بدکاری، نجکاری، اجرتوں و پنشنز میں کٹوتیوں، قومی جبر، ہراسمٹ مخالف اور فیسوں میں اضافے کے خلاف ہونے والی تمام تر لڑائیوں کو آپس میں جوڑتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور اس کے واحد متبادل سوشلزم کی تعمیر کی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا۔

Comments are closed.