کوئٹہ سے ایک محنت کش کا خط: زرد ٹریڈ یونین ازم سے نجات کیسے ممکن ہے؟

بچپن میں جب گندم کی فصل کو زردی کی بیماری لگتی تو فصل کے نقصان کی خبریں سننے کو ملتیں۔ وقت گزرا تو یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کے مضمون میں ”زرد صحافت“ کی اصطلاح سے واسطہ پڑا، جس کی تعریف یوں بیان کی گئی کہ: ”زرد صحافت وہ پست ترین شکل ہے، جس میں کسی خبر کو سنسنی خیز بنانے کے لیے اس کی اصل حقیقت کو اس قدر مسخ کر دیا جاتا ہے کہ خبر کا اہم پہلو قاری کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔“آج جب میں ملک کی نامور ٹریڈ یونین قیادت کے عملی کردار کا جائزہ لیتا ہوں، تو وہی زردی کی بیماری مجھے ان پر طاری دکھائی دیتی ہے۔ بالکل ویسی ہی بیماری، جیسی کبھی فصلوں کو لگتی تھی، اور بالکل ویسی ہی شکل، جیسی زرد صحافت میں سنوار کر اصل مسئلے کو چھپا دیا جاتا ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے ہماری ٹریڈ یونین قیادت بھی ”زرد ٹریڈ یونین ازم“ کا شکار ہو چکی ہے۔

اصل مسائل، جیسے نجکاری، ٹھیکیداری، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، مستقل نوکریوں پر پابندی، اور پنشن میں تبدیلی جیسے اہم سوالات؛ جن سے محنت کشوں کا روزگار اور مستقبل جڑا ہے۔ ان سے توجہ ہٹا کر غیر اہم اور سطحی مسائل کو ابھارا جا رہا ہے۔ وہ مزدور، جنہوں نے اپنی جوانیاں اس نظام کو چلانے میں قربان کر دیں، آج ان سے آخری سہارا یعنی پنشن بھی چھینی جا رہی ہے۔ ملک بھر میں ایسی مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف ٹریڈ یونین قیادت کی خاموشی مجرمانہ حد تک قابلِ مذمت ہے۔ محنت کشوں کو اندھیرے میں رکھ کر، یونین لیڈران گویا”زرد ٹریڈ یونین ازم“ کو ایک فریضہ سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ اس خاموشی کی وجہ سے محنت کش اصل خطرات سے نابلد رہتے ہیں۔ آج کے حالات میں زرد انجمن سازی (Yellow Trade Unionism) کے مزدور دشمن عزائم کو بے نقاب کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ محنت کشوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ ان کے نام نہاد نمائندے کس طرح ان کی اصل لڑائیوں سے منہ موڑ کر بونس اور مراعات جیسی ”سیاسی رشوتوں“ کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ ان کی ترجیحات سے اب روزگار کا تحفظ بالکل ہی خارج ہو چکا ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ ’نُور‘ ٹریڈ یونین قیادت سڑکوں سے ہٹ کر فائیو اسٹار ہوٹلوں کے سیمیناروں میں جا بیٹھی ہے، جہاں وہ غیر رسمی مزدور حقوق پر لمبی لمبی تقریریں جھاڑتی ہیں، مگر عملی سطح پر سرکاری ملازمین کو مکمل طور پر نظر انداز کر چکی ہیں۔

حال ہی میں جب ملک بھر میں ملازمین نے مراعات اور تنخواہوں میں اضافے، نجکاری، پنشن اصلاحات، اور ٹھیکیداری نظام کے خلاف تحریکیں شروع کیں، تو ان میں کہیں بھی کوئی مرکزی ٹریڈ یونین فیڈریشن یا ان کے رہنما شامل نظر نہیں آئے۔ یہ تحریکیں یا تو ایسوسی ایشنز نے چلائیں، یا مقامی سطح کے یونینسٹ، جو اپنی مرکزی قیادت کی خاموشی سے مایوس ہو کر میدان میں اُترے۔ زرد یونین قیادت کے ’مہربانیوں‘ سے یہ زردی اب یرقان کی شکل اختیار کر چکی ہے، جو محنت کشوں کی صفوں میں گھس کر انہیں اندر سے مفلوج کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر ہم نے ابھی سے اس زہریلی بیماری کا علاج نہ کیا، تو یہ تحریک بہت نقصان اٹھائے گی۔ اب ہمیں وہ وقت واپس لانا ہوگا جب مزدور تحریک صحت مند تھی، سرخ پرچم کے نیچے متحد تھی، اور انقلاب کے راستے پر گامزن تھی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ باشعور محنت کش آگے بڑھیں، زرد یونین قیادت کا محاسبہ کریں، ان کے ہاتھ سے سرخ پرچم چھین کر انہیں ان کے حقیقی رنگ یعنی زرد پرچم تھمائیں۔

کمیونسٹ نظریہ محنت کش طبقے کو اس کے طبقاتی شعور، تاریخی کردار، اور انقلابی صلاحیت سے روشناس کرانے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ زرد یونین ازم دراصل مزدور تحریک کے اندر طبقاتی غداری کی وہ شکل ہے جو سرمایہ دارانہ ریاست اور مالکان کی خدمت میں سرگرم رہتی ہے۔مارکسزم کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ ٹریڈ یونین صرف تنخواہوں اور مراعات کی بھیک مانگنے کی جگہ نہیں، بلکہ یہ مزدور طبقے کو منظم کرنے اور اسے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سیاسی جدوجہد کی جانب لے جانے کا ابتدائی مورچہ ہے۔ جب یونین قیادتیں اس مقصد سے غداری کرتی ہیں تو وہ درحقیقت محنت کشوں کو پسماندگی، غلامی، اور مایوسی کی طرف دھکیلتی ہیں۔آج جب مزدور دشمن پالیسیوں کا طوفان اٹھ چکا ہے، اور سرمایہ داری عالمی سطح پر بحران کا شکار ہے، ایسے میں ٹریڈ یونینز کا کردار مزید اہم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ کردار صرف اس وقت ادا کیا جا سکتا ہے جب یونین قیادت محنت کش طبقے کے مفادات کو ترجیح دے، نہ کہ اپنی مراعات، وزارتوں، یا بونسوں کو۔ کمیونسٹ نقطہ نظر سے زرد ٹریڈ یونین ازم کے خلاف جدوجہد ایک نظریاتی اور عملی فریضہ ہے۔ اس جدوجہد کا مقصد مزدور تحریک کو اصلاح پسندی، موقع پرستی اور طبقاتی مصالحت سے نکال کر ایک انقلابی بنیاد پر کھڑا کرنا ہے۔آخری تجویز یہی ہے: محنت کشو! زردیونین قیادت سے چھٹکارا حاصل کرو، اور سرخ جھنڈے تلے اپنی نئی انقلابی قیادت جمہوری طور پر خودتعمیر کرو!

 

Comments are closed.