کمیونسٹ سے پوچھیے! کیا پاکستان کا محنت کش طبقہ اقتدار پر قبضہ کر سکتا ہے؟

پاکستان میں محنت کش طبقے کے اقتدار پر قبضے کا سوال ایک انتہائی اہم سوال ہے۔ یہ سوال نہ صرف ہمارے عہد کے طبقاتی تضادات کو نمایاں کرتا ہے بلکہ اس کا جواب بالخصوص محنت کش عوام اور عمومی طور پر انسانیت کے مستقبل کا تعین بھی کرے گا۔ مارکسی نقطہ نظر سے، کسی بھی ملک میں محنت کش طبقے کے اقتدار پر قبضے کے لیے دو بنیادی شرائط ضروری ہوتی ہیں: پہلی شرط وہ معروضی حالات ہوتے ہیں جن میں سرمایہ داری کا بحران اتنا شدید ہو جائے کہ پرانا نظام مزید برقرار نہ رہ سکے؛ اور دوسری شرط انقلابی پارٹی کی شکل میں موضوعی عنصر ہوتا ہے کہ محنت کش طبقہ اپنے شعور اور تنظیم کاری کے ذریعے ایک متبادل انقلابی قوت بن کر ابھرے۔ اگر ہم پاکستان کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ کریں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ پہلی شرط بڑی حد تک پوری ہو چکی ہے، مگر دوسری شرط ابھی تک ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے۔

پاکستان کا سرمایہ دارانہ نظام اپنی گہری ترین بحرانی کیفیت میں داخل ہو چکا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری کے حملوں، اور سامراجی قرضوں نے عوام کو بدترین استحصال کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ صنعتی اور زرعی محنت کش طبقہ شدید غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جبکہ ملکی وسائل پر قابض سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ اپنی دولت میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی ادارے ملکی معیشت کی سمت متعین کر رہے ہیں اور ریاستی پالیسیوں کا بنیادی مقصد محنت کش عوام کے بجائے سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ ان تمام عوامل کے باعث پاکستان کے سماج میں ایک گہرا طبقاتی تضاد پیدا ہو چکا ہے، جو کسی بھی وقت ایک بڑے سماجی دھماکے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ حکمران طبقہ اپنی لوٹ مار کا تحفظ کرنے اور اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کیلئے آپس میں کتوں کی طرح لڑ رہا ہے اور اس لڑائی میں ایک دوسرے کو ننگا کرنے کے ساتھ ساتھ پورے نظام کو بھی ننگا کرتا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ عوام کے طبقاتی شعور پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے، جس کا اظہار آنے والے عہد کے طوفانی واقعات میں ہمیں نظر آئے گا۔

ظاہری طور پر دیکھا جائے تو اس وقت محنت کش طبقہ انتہائی کمزور نظر آتا ہے اور حالیہ عرصے کے اندر محنت کشوں کی کوئی بڑی ہمہ جہت تحریک بھی سطح پر نمودار نہیں ہوئی۔ سرکاری اداروں کے ملازمین کی تحریک نے پاکستان کے محنت کش طبقے کی طاقت کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی ہے۔ اگرچہ یہ تحریک قیادت کی غداری کی وجہ سے خاطر خواہ بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکی لیکن یہ تحریک بذاتِ خود محنت کش طبقے کی تحریک کے ایک انتہائی اہم مرحلے کی نشاندہی کرتی ہے۔ معروضی حالات محنت کش طبقے کو انتہائی اہم نتائج اخذ کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ نتائج محنت کش طبقے کو ایک بار پھر منظم ہونے، اپنی یونینز بنانے اور اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کے لیے متحد ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ معروضی حالات محنت کشوں کو معاشی جدوجہد کے ساتھ سیاسی جدوجہد کے میدان میں اترنے اور محنت کشوں کی انقلابی جدوجہد کی ضرورت کی سمت بھی دھکیل رہے ہیں۔

اس وقت محنت کش طبقہ مجموعی طور پر منقسم ہے اور اپنے اپنے اداروں کارخانوں میں اپنی بقا کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ پچھلی چند دہائیوں میں مزدور تحریک کی پسپائی کے عرصے میں جنم لینے والی مزدور تحریک کی عمومی کمزوریاں بھی موجود ہیں لیکن یہ تمام کمزوریاں اس نئے عہد میں تیزی سے ختم ہونے کی طرف جائیں گی۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی محنت کش طبقہ ایک منظم اور باشعور قوت کے طور پر ابھرا ہے، اس نے بڑی سے بڑی طاقت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں۔ 69-1968 ء کی تحریک میں مزدوروں، کسانوں اور طلبہ نے ایک وقت کے لیے پورے نظام کو مفلوج کر دیا تھا، مگر انقلابی قیادت کی عدم موجودگی کے باعث وہ تحریک سوشلسٹ انقلاب میں تبدیل نہ ہو سکی۔ آج بھی، اگر محنت کش طبقہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے، سرمایہ دارانہ سیاست کے چنگل سے نکل کر اپنی الگ انقلابی جماعت کے جھنڈے تلے سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کرے، اور مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کے درمیان ایک وسیع اتحاد تشکیل دے، تو اقتدار پر قبضہ کیا جا سکتا ہے اور اس سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑ کر ایک مزدور ریاست کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انقلاب خودبخود نہیں آتا، اسے منظم اور باشعور جدوجہد کے ذریعے برپا کرنا پڑتا ہے۔ محنت کش طبقے کے اقتدار پر قبضے کے لیے ضروری ہے کہ مزدور تحریک کو ازسرِنو منظم کیا جائے، سرمایہ داری کی حقیقی متبادل قیادت تشکیل دی جائے اور عوام کو یہ شعور دیا جائے کہ ان کے مسائل کا حل محض چہرے بدلنے میں نہیں بلکہ پورے نظام کے خاتمے میں ہے۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ نہ صرف اقتدار پر قبضہ کر سکتا ہے بلکہ اسے لازمی طور پر یہ قدم اٹھانا ہوگا، کیونکہ ان کے پاس کھونے کے لیے صرف اپنی زنجیریں ہیں اور پانے کے لیے ایک پورا نیا سماج۔ لیکن یہ محنت کش طبقہ یہ سب کچھ ایک انقلابی ہر اول کے طور پر ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی راہنمائی میں کر سکتا ہے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے پاکستان میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان کے نوجوان اور محنت کش اس انقلابی پارٹی کا حصہ بنیں اور نظام سے متنفر نوجوانوں اور دیگر مظلوم طبقات کو آپس میں جوڑنے کا تاریخی فریضہ سر انجام دیتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کے خاتمے کی جانب بڑھیں۔

Comments are closed.