انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھ دی گئی! فتح کی سمت متحد بڑھے چلو!

|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی|

انقلابی کمیونسٹ پارٹی قائم کر دی گئی ہے۔ یہ پارٹی پاکستانی فرسودہ نظام اور سامراج کے خلاف عوام کی ایک راہنما قوت بننے کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو پاش پاش کر دے گی۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

پاکستان کی سنگین صورتحال پر بات کرنے اور نوجوانوں، عوامی تحریکوں اور خواتین کے کام کے ذریعے اپنی قوتوں کو بڑھانے کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے پاکستان کے طول و عرض سے 322 جرأت مند کامریڈز اکٹھے ہوئے۔

نظام کے خلاف ہر ایک جگہ پر پنپتا غصہ یہ نوید سنا رہا ہے کہ حالات بغاوت کے لیے ساز گار ہیں۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں حالیہ انقلابات اور بھارت میں کسانوں کی ہڑتال ظاہر کرتی ہیں کہ پورا برصغیر زبردست جوش میں ہے! پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عوامی تحریک کے آغاز نے کانگریس کو مزید قوت بخشی۔

پاکستان کے ہر حصے سے کامریڈز لاہور پہنچے۔ گوادر اور گلگت سے لے کر راولاکوٹ اور کوئٹہ جیسے طویل ترین مسافتوں پر موجود شہروں کے ساتھ ساتھ کراچی، حیدرآباد، ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان، بھکر، سرگودہا، راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، پشاور، مالاکنڈ، جنوبی وزیرستان کے وانا اور دیگر کئی شہروں سے وفد شریک ہوئے۔

ہمارے ساتھ اٹلی سے ازوبائر ”انزو“ للاؤی، امریکہ سے کیوِن نانس، سری لنکا سے جگتھ گورو سنگھے اور سمارا ویرا، کینیڈا سے جوئل برگمین اور بین الاقوامی مرکز سے روب سیول شریک تھے۔ برطانیہ میں ایک جرأت مندانہ کمیونسٹ مہم پر حالیہ عام انتخابات میں حصہ لینے والی کامریڈ فیونا لالی نے بھی اس تاریخی کانگریس میں شرکت کی۔

پاکستان کی زوال پذیر صورتحال نے سفر کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ سامراجی لوٹ مار اور سالہا سال کی بجٹ کٹوتیوں نے سفر کو ایک بڑی رکاوٹ بنا دیا ہے جسے کامریڈز نے بڑی حد تک اپنے آہنی جذبوں سے شکست دی۔ کراچی سے آنے والے کچھ ساتھیوں کو ٹرین کے ذریعے کانگریس تک پہنچنے میں 20 گھنٹے لگے، یہ اتنا ہی وقت تھا جتنا نیو یارک سے آنے والے کامریڈ کو لگا۔

تاسیسی کانگریس کی خاص بات یہ بھی تھی کہ ٹراٹسکی کی کتاب ”انقلابِ مسلسل: نتائج و امکانات“ کا اردو ترجمہ بھی شائع کیا گیا۔ اردو زبان میں یہ کتاب پہلی بار لال سلام پبلیکیشنز کی جانب سے شائع کی گئی ہے اور اس کا ترجمہ یاسر ارشاد نے کیا ہے۔

کانگریس کی ایک اور دلچسپ خصوصیت پارٹی کے ترانے کا اجراء تھا، جسے حاضرین نے بہت سراہا۔ وقفوں کے دوران سامعین مسلسل اس کی دھن پر جھومتے اور رقص کرتے رہے۔ شاعری، دھن، آواز اور ریکارڈنگ سمیت گانے کی تیاری کا مکمل کام آر سی پی کے کامریڈوں نے کیا ہے۔ یہ گانا جلد ہی یوٹیوب پر ریلیز کیا جائے گا۔

انقلابی شاعری اور موسیقی پاکستانی کمیونسٹوں کے تمام اجتماعات کی خاص پہچان رہے ہیں، لیکن اس بار پارٹی کے ترانے کی تخلیق ایک نیا سنگِ میل ہے۔

کانگریس لاہور کے ریلوے ہال میں منعقد ہوئی۔ کامریڈ سلمیٰ ناظر نے ایک جوشیلے خطاب کے ساتھ کانگریس کا آغاز کیا، جس سے پوری کانگریس کے ماحول میں جوش کی لہر دوڑ گئی۔ انٹرنیشنل سے کامریڈ راب سیول نے عالمی منظر نامے پر گفتگو کی۔ جنوبی کوریا اور شام میں تیزی سے جنم لے رہے اور بدل رہے واقعات سے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل غیر مستحکم صورتحال واضح طور پر سامنے آئی۔ کانگریس کے آغاز سے اختتام تک مشرق وسطی میں سامراجی طاقتوں کے مابین توازن بدل گیا، کیونکہ اسلام پسند باغیوں نے اسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ جنوبی کوریا کی مقننہ کا صدر کے مارشل لاء کے اعلان کے بعد مواخذہ کرنے میں ناکامی نے اصلاح پسندوں کی کمزوری کو عیاں کر دیا جو اس کے اقتدار پر قبضے کے خلاف جدوجہد کو آگے بڑھانے میں ناکام رہے۔

امریکہ، اٹلی، سری لنکا سے آنے والے ساتھیوں اور برطانیہ سے فیونا لالی نے عالمی سیاسی صورتحال پر عمل انگیز گفتگو کی۔ یہ بالکل واضح ہے کہ پاکستان کا بحران عالمی سرمایہ داری ہی کے بحران کی ایک اور شدت یافتہ شکل ہے۔

پاکستان تناظر

پاکستان کے پیٹروگراڈ یعنی کراچی سے تعلق رکھنے والے پارس جان نے پاکستان تناظر پر روشنی ڈالی، جبکہ اس سیشن کو چیئر کوئٹہ کے کریم پرہار نے کیا۔ جب پارس جان بولتا تو آپ کے حواس خود بخود لفظوں کی تاثیر میں کھو جاتے ہیں کیونکہ ان کا ولولہ اور جوش و خروش پورے خطاب کے دوران عروج پر رہتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی سنگین صورتحال پر تفصیلی بات کی اور اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی بورژوازی اس بحران کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ درحقیقت پاکستان کی ہر سیاسی جماعت محنت کش طبقے کی دشمن ہے۔ لہٰذا اب انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا بہترین وقت ہے، جو محنت کش طبقے کے بہترین سپاہی اور بورژوازی کے سب سے سخت دشمن تیار کرے گی۔

کشمیر کی عوامی تحریک ظاہر کرتی ہے کہ دنیا بھر میں جاری واقعات اب پاکستان کی دہلیز پر بھی دستک دے رہے ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عوامی تحریک نے 100 سے زیادہ کشمیری مندوبین کے سفر کو متاثر کیا۔ ایک کالے قانون کے خلاف احتجاج کے لیے تمام شہروں میں بڑے پیمانے پر مارچ کیے گئے، جس کے تحت کسی بھی سیاسی اجتماع یا میٹنگ پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس قانون نے چند مہینوں میں ہی ایک دوسری عوامی تحریک کو جنم دے دیا، جو پچھلی تحریک سے زیادہ وسیع اور زیادہ جوش و جذبے سے بھرپور ہے۔ 5 دسمبر کو اس قانون کے خلاف جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر دسیوں ہزار لوگ سڑکوں پر نکلے۔ عام ہڑتال کا اعلان کیا گیا، اور تمام ٹرانسپورٹ، بازار اور ادارے بند ہو گئے۔ کشمیر سے آئے مندوبین اس تحریک میں شامل تھے اور اس میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔ لیکن تاسیسی کانگریس کی اہمیت کے پیش نظر کشمیر کے کچھ راہنما کامریڈز سفر کر کے کانگریس میں شریک ہوئے، جبکہ کچھ کامریڈز وہاں تحریک میں شامل رہے۔

کانگریس کے دوران کشمیر سے ملنے والی تازہ ترین خبروں کو مسلسل شریک کیا جاتا رہا اور تمام شرکاء ان خبروں پر خوشی کا والہانہ اظہار کرتے رہے۔ جیسے جیسے کانگریس آگے بڑھی، کشمیر میں جدوجہد اپنی پوری قوت کے ساتھ جاری رہی کیونکہ عوام کی بڑی تعداد کی شمولیت نے ریاست کو عوام پر حملہ کرنے سے قاصر کر دیا۔ آخری دن یہ اعلان کیا گیا کہ حکومت کے تمام حملوں کے باوجود تحریک کامیاب رہی اور نہ صرف حکومت کو یہ کالا قانون واپس لینے پر مجبور کیا گیا بلکہ مزید 17 مطالبات بھی تسلیم کیے گئے۔ اس خبر نے کانگریس کے ماحول کو مزید مہمیز دی اور کشمیر میں آر سی پی کی تعمیر کے لیے آئندہ کا لائحہ عمل زیر بحث آیا۔

راولا کوٹ کی عوامی ایکشن کمیٹی کے راہنما اراکین یاسر ارشاد، عمر ریاض اور اجمل رشید نے کانگریس کے دوران پُر جوش تقریریں کیں اور کشمیر کی صورتحال کو سرمایہ داری کے عمومی بحران سے جوڑا۔ کشمیر جیسے حالات تیزی سے پاکستان میں بھی پنپ سکتے ہیں جہاں صورتحال مختلف نہیں ہو گی۔

تاسیسی کانگریس کی جانب سے کشمیر کی عوامی تحریک کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا اعلان کیا گیا۔

پہلے دن کے سیشنز کے بعد مختلف کمیشنز کے اجلاس ہوئے، جن میں کمیونسٹ اخبار، کیمپیئنز اور خواتین کے کام پر تفصیلی بات کی گئی۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی ایک عملی قوت کے طور پر کام کر سکنے کی قوت کو مزید بڑھانے کے لیے ان کمیشنز پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں پر تفصیل سے بات کی گئی۔ اس کام کو پیشہ وارانہ بنیادوں پر آگے بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، اور ہمیں یقین ہے کہ ہم ان تمام شعبوں میں بڑی پیشرفت کریں گے۔ خاص طور پر پاکستان جیسے معاشرے میں، جہاں پدرسری شاونزم موجود ہے، خواتین کے کام کی مزید ترقی انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ خواتین کامریڈز کے ساتھ ساتھ تمام کامریڈز، نہ صرف اپنی تعداد بڑھانے بلکہ مارکسی نظریے کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

شام انقلابی غزلوں اور گیتوں سے معمور تھی۔ فیض احمد فیض اور حبیب جالب کی نظمیں گائی گئیں، جنہیں حاضرین نے والہانہ انداز میں سراہا۔ موسیقی اور رقص کا اعلیٰ معیار، انقلابی فن کے لیے شرکاء کے جوش و خروش کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

کانگریس کے دوران ایک برقی ماحول چھایا رہا۔ رپورٹس اور خطابات میں حاضرین کی طرف سے تالیاں اور ولولہ انگیز انقلابی نعرے در آتے، جو چیئر کرنے والے کے لیے دلچسپ مگر مشکل صورتحال پیدا کر دیتے کیونکہ انہیں کانگریس کو منظم طریقے سے آگے بڑھانا تھا۔ انقلابی جوش و خروش اور نعروں کے باوجود چیئر کرنے والوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور کانگریس کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہی۔ کانگریس کی روانی، بہترین کھانے اور چائے کا سہرا تنظیمی کمیٹی کی انتھک محنت کو جاتا ہے، جن کا شکریہ ادا کیا جانا چاہیے۔ ایک بڑے ایونٹ کو مسائل کے بغیر منظم کرنا آسان کام نہیں ہے لیکن یہ کامیابی سے ممکن بنایا گیا۔

انقلابی قیادت

دوسرے دن پارٹی کے منشور پر بحث ہوئی جس کا آغاز کامریڈ آدم پال نے کیا، جبکہ سیشن کو چیئر کشمیر سے یاسر ارشاد نے کیا۔ کئی لحاظ سے یہ بحث پاکستان تناظر کی گفتگو کا تسلسل تھی کیونکہ پُر جوش لیڈ آف میں انقلابی پارٹی کی ضرورت کے بارے میں قیمتی سیاسی بصیرت موجود تھی۔ کانگریس میں چھوٹی تنظیمی تفصیلات پر طویل گفتگو غیر ضروری ہوتی لہٰذا کامریڈ آدم پال نے بالشویزم کے انقلابی اصولوں کا خاکہ پیش کیا اور یہ بھی بتایا کہ یہ اصول پاکستان جیسے زوال پذیر ملک پر کیسے لاگو کیے جا سکتے ہیں۔ اس کا اثر یہ تھا کہ کامریڈز کے سامنے مستقبل کا راستہ موجود تھا۔ پارٹی کا قیام نہ صرف ملک کے سیاسی منظر نامے میں بلکہ یہاں کی کمیونسٹ تحریک کی تاریخ میں بھی ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جس نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔

آدم نے اجتماعی قیادت کی اہمیت پر زور دیا، بجائے اس کے کہ نام نہاد ”دلکش“ رہنماؤں کی پرستش کی جائے، جو جنوبی ایشیا کی سیاست میں ایک عام روایت بن چکی ہے۔ انہوں نے پارٹی کی تعمیر کے بالشویک طریقہ کار کی وضاحت کی اور بتایا کہ کس طرح انقلابی کمیونسٹ پارٹی پاکستان میں اس طریقے پر عمل کر رہی ہے۔ انہوں نے پارٹی کی تعمیر کے لیے مارکسی نظریے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا، جو اس نئی قائم شدہ پارٹی کی بنیاد ہے۔

کانگریس کا اختتام دیگر ممالک سے آنے والے کامریڈز کی رپورٹس کے ساتھ ہوا، جنہوں نے اپنے ممالک میں تنظیم کی ترقی پر روشنی ڈالی، جبکہ ولید خان نے اس سیشن کو چیئر کیا۔ شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کا حصہ ہونا ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ نظریاتی اور تنظیمی اسباق کا مسلسل تبادلہ ہماری ترقی کو ممکن بناتا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم کے بغیر ہمارا اجتماعی کام بے حد مشکل ہو جاتا۔

راب سیول نے کانگریس کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے زبردست ولولہ پیدا کر دیا اور پاکستان میں شاندار کام کرنے پر ساتھیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے شرکاء کو ہدایت دی کہ وہ اپنے علاقوں میں واپس جائیں، نوجوانوں کو جیتیں، انقلابی پارٹی کی تعمیر کریں اور سرمایہ داری کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کریں! کانگریس کا اختتام انٹرنیشنل گا کر ہوا۔

اس کے بعد لاہور پریس کلب کی جانب ایک ریلی نکالی گئی تاکہ پارٹی کے قیام کا اعلان کیا جا سکے۔ ریلی میں سرخ جھنڈے اور بینرز اٹھائے گئے جن پر کمیونسٹ مقاصد درج تھے، جن میں طبقاتی معاشرے کا خاتمہ اور سب کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنے کے مطالبات شامل تھے۔ لاہور پریس کلب میں گلگت سے احسان علی، کشمیر سے اجمل رشید اور عمر ریاض اور لاہور سے سلمیٰ ناظر اور آفتاب اشرف نے ریلی کے شرکاء سے خطاب کیا۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی زندہ باد!

انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل زندہ باد!

انقلاب زندہ باد!

Comments are closed.