|تحریر: زلمی پاسون |

جب کوئی سماج بحران کا شکار ہوتا ہے اور جب پرانا نظام بوسیدہ ہو چکا ہوتا ہے، مگر نیا نظام پوری طرح ابھر نہیں پاتا، تب انقلاب کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اور یہی صورتحال آج کی دنیا میں موجود ہے، جس کے خلاف عالمی طور پر محنت کش طبقے کی انقلابی تحریکیں انگڑائیاں لے رہی ہیں اور یہ انقلابی تحریکیں مستقبل میں یقیناانقلاب کو جنم دیں گی۔ لیکن کیا انقلاب ایک مخصوص مرحلے پر رک سکتا ہے؟ کیا محنت کش طبقہ پہلے ”جمہوری“ انقلاب کرے اور پھر سوشلزم کی طرف بڑھے؟ عظیم انقلابی استاد لیون ٹراٹسکی کی شہرہ آفاق تصنیف ”انقلابِ مسلسل“ انہی سوالات کا جواب فراہم کرتی ہے۔
یہ کتاب ثابت کرتی ہے کہ سرمایہ داری اور سامراجیت کے ہوتے ہوئے کسی بھی ملک میں محنت کش طبقہ اپنی آزادی مکمل طور پر حاصل نہیں کر سکتا، جب تک کہ انقلاب کو مسلسل آگے نہ بڑھایا جائے اور عالمی سطح پر مزدور راج قائم نہ ہو۔ آج جب دنیا بھر میں استحصال، جنگوں اور طبقاتی نابرابری کا غلبہ ہے، لہٰذا سرمائے کے ارتکاز میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں امارت اور غربت کے درمیان خلیج میں اضافہ ناگزیر عمل ہے۔ سرمائے کی ہوس نے ایک غیر انسانی سماج کو جنم دیا ہے، جہاں محنت کش طبقے کی عمومی پرتوں کو سانس لینے کے لیے بھی مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس غیر انسانی سماج کو ختم کرنے کی خاطر انقلابی کیڈرز اور کارکنوں کے لیے یہ کتاب پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو چکی ہے۔
آج ہم جس عہد میں رہ رہے ہیں وہاں ایک طر ف عالمی اتھل پتھل، سرمایہ داری کا زوال اور دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والے ورلڈ آرڈر کی دھجیاں بکھر رہی ہیں۔ دنیا عالمی طور پر ایک ایسی نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ہر طرف انتشار کی کیفیت موجود ہے۔ اوردوسری طرف عالمی طور پر طبقاتی جدوجہد کا آتش فشاں پھٹنے کو ہے۔ اور اس آتش فشاں کے پھٹنے پر انکو درست سمت دینا درست نظریات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اور ایسی صورتحال میں ایک سیاسی کارکن کے لیے درست نظریات کی سمجھ بوجھ اور ان درست نظریات کی بنیاد پر تاریخ کے کٹہرے میں خود کو کامران ثابت کرنے کے لیے اس کتاب کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ بالخصوص تیسری دنیا میں سرمایہ داری کے مظالم کے خلاف جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنان کے لیے اس کتاب کی اہمیت اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے۔
لیون ٹراٹسکی کی کتاب ”انقلابِ مسلسل“ مارکسی نظریے کی ایک اہم دستاویز ہے جو نہ صرف روسی انقلاب بلکہ عالمی مزدور تحریک کے لیے ایک گہرے نظریاتی اور عملی رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔ واضح رہے کہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تاسیسی کانگرس پر اس شاہکار کی پہلی بار اردو میں اشاعت ہوئی ہے۔ کتاب بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے جس کا پہلا حصہ ”نتائج اور امکانات“ 1905 ء کے انقلاب کے بعد زار شاہی کی جیل میں قید کے دوران لکھا گیاتھا، جبکہ دوسرا حصہ 1930 ء میں لکھا گیا جہاں سوویت یونین میں سٹالنزم کا قبضہ ہو چکا تھا اور”انقلابِ مسلسل“ کے نظریے کو مختلف الزامات اور جھوٹ کے پلندوں کے ساتھ تاریخ کی کسوٹی پر غلط ثابت کرنے کے لیے سٹالنسٹ بیوروکریسی سر توڑ کوشش کر رہی تھی۔ یہ حصہ انہی الزامات کے جوابات میں لکھا گیا۔
کتاب کے تعارف میں انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے راہنما کامریڈ راب سیول نے کتاب لکھنے کا پس منظر بیان کیا ہے۔ مگر یہاں ہم اپنے قارئین کے لیے کتب کا پس منظر بیان کرنے کیساتھ کتاب کی اہمیت اور آج کے عہد میں اس کی ناگزیریت پر مختصر بات رکھیں گے، کہ یہ کتاب پڑھنا ضروری کیوں ہے؟
لیون ٹراٹسکی کی کتاب ”انقلابِ مسلسل“ ایک ایسے نظریے کی وضاحت کرتی ہے جو عالمی سوشلسٹ انقلاب کی ناگزیریت پر زور دیتا ہے۔ اس کتاب کا پس منظر بنیادی طور پر 1905ء اور 1917 ء کے روسی انقلابات، سوشلسٹ تحریک میں نظریاتی مباحث اور سوویت یونین میں سٹالنزم کے عروج سے جڑا ہوا ہے۔ 1905 ء میں روس میں پہلی بار مزدوروں، کسانوں اور انقلابی قوتوں نے زار شاہی کے خلاف ایک بڑی عوامی بغاوت برپا کی۔ اس انقلاب کے دوران، محنت کشوں کی تنظیمیں، یعنی ”سوویت“ وجود میں آئیں، جو براہ راست جمہوریت کی ایک شکل تھیں۔
اس کے بعد آنے والے انقلاب کے کردارکے حوالے سے بحث مباحثے شروع ہوئے جن میں تین اہم مؤقف سامنے آرہے تھے۔ تینوں مؤقف میں ایک چیز کی مماثلت موجود تھی کہ روس میں آنے والے انقلاب کے فرائض میں زار شاہی کا خاتمہ، بورژوا جمہوریت کا قیام، زرعی سوال سمیت مظلوم قومیتوں اور دیگر جمہوری سوالات کا حل شامل تھا۔ مگر انقلاب کی قیادت کے حوالے سے اختلافات موجود تھے، کہ کون سا طبقہ انقلاب کی قیادت کرے گا۔
منشویکوں کا خیال تھا کہ چونکہ روس ایک پسماندہ زرعی ملک ہے، اس لیے اسے پہلے بورژوا جمہوری انقلاب سے گزرنا ہوگا، اور حتمی طور پر انقلاب کی قیادت روس کا سرمایہ دار طبقہ کرے گا۔ جس کے بعد کہیں جا کر مزدور طبقہ سوشلسٹ انقلاب برپا کر سکے گا۔ درحقیقت یہ میکانکی طریقہ جوکہ منشویکوں نے اپنایا تھا بعد میں سٹالنزم کا مرغوب ترین نظریہ بن گیا۔ جبکہ دوسری جانب لینن نے وضاحت کی کہ صرف محنت کش طبقہ ہی کسانوں کے ساتھ اتحاد میں آتے ہوئے بورژوا جمہوری انقلاب کے فرائض ادا کر سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ لینن نے پرولتاریہ اور کسانوں کی جمہوری آمریت کا نعرہ دیا۔
ٹراٹسکی نے منشویکوں کے”دو مراحل“ کے نظریے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ روس میں سرمایہ دار طبقہ اتنا کمزور، غلام اور رجعتی ہے کہ وہ کبھی بھی ایک حقیقی جمہوری انقلاب کی قیادت نہیں کرے گا۔ اس کے برعکس، صرف مزدور طبقہ ہی جاگیرداری اور سرمایہ داری دونوں کا خاتمہ کر سکتا ہے، اور اسے اقتدار میں آ کر براہِ راست سوشلسٹ انقلاب کی راہ پر چلنا ہوگا۔ مزید برآں، ٹراٹسکی نے کہا کہ روس کا انقلاب تنہا کامیاب نہیں ہو سکتا، اسے عالمی سطح پر پھیلنا ہوگا، ورنہ اسے شکست ہو جائے گی۔
”انقلابِ مسلسل“لیون ٹراٹسکی کی وہ تھیوری ہے جو مارکسزم کو مکمل اور عملی طور پر لاگو کرنے کا ایک سائنسی طریقہ فراہم کرتی ہے۔ اگر مارکسزم سرمایہ داری سے سوشلسٹ انقلاب تک کا عمومی نظریہ ہے، تو انقلابِ مسلسل مارکسزم کی ایک مخصوص تشریح ہے جو انقلاب کے بین الاقوامی اور غیر متواتر (non-linear) کردار کو واضح کرتی ہے۔ یہ نظریہ خاص طور پر ان خطوں میں زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا ہے جہاں سرمایہ داری اوپر سے مسلط شدہ، کمزور، غیر ترقی یافتہ، یا سامراج کے زیرِ اثر ہے۔
مارکسزم کا بنیادی مقصد طبقاتی سماج کی مکمل تحلیل اور مستقبل میں ایک غیر استحصالی، سوشلسٹ معاشرے کا قیام ہے۔ مارکس اور اینگلز نے اپنی تحریروں میں واضح کیا تھا کہ سرمایہ داری سے سوشلسٹ انقلاب کی منتقلی محض ایک ”قومی“ مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی تاریخی عمل ہے۔ ٹراٹسکی کا ”انقلابِ مسلسل“ اسی تصور کو مزید آگے بڑھاتا ہے اور سرمایہ دارانہ ترقی کے ناہموار اور مشترکہ (Uneven and Combined Development) کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے انقلاب کے امکانات اور اس کے طریقہ کار کو واضح کرتا ہے۔
کارل مارکس نے اپنی مشہور تصنیف ”لوئی بوناپارٹ کی اٹھارویں برومئیر“ (1852ء) میں ”انقلابِ مسلسل“ کے نظریے کا ذکر کیا ہے۔ اگرچہ یہ کتاب بنیادی طور پر 1848-51ء کے فرانسیسی واقعات کا تجزیہ ہے، لیکن اس میں مارکس نے واضح طور پر اس بات پر زور دیا کہ انقلاب کو کسی ایک مرحلے پر روکنا تباہ کن ہوگا، اور اسے مسلسل آگے بڑھنا ہوگا۔
مارکس لکھتا ہے: ”فرانسیسی مزدوروں نے سیکھا کہ ہر انقلابی پیش قدمی کو روکنا، ایک خاص مقام پر رک جانا، معاشرے کے مختلف طبقات کے ساتھ مصالحت کرنا، صرف اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ردِ انقلاب زیادہ شدت سے واپس آئے گا۔“ یہاں مارکس فرانسیسی مزدوروں اور سوشلسٹوں کی ناکامی کو بیان کر رہاہے، جنہوں نے 1848ء کے انقلاب کے بعد اقتدار کو سرمایہ دار طبقے کے حوالے کر دیا، اور یوں لوئی بوناپارٹ جیسے آمر کو دوبارہ ابھرنے کا موقع مل گیا۔ یہ وہی اصول ہے جو ”انقلابِ مسلسل“ کا بنیادی نکتہ ہے۔
1848 ء کے انقلاب میں سرمایہ دار طبقے کی غداری پر مارکس لکھتا ہے کہ: ”1848ء میں، بورژوا طبقہ خود بادشاہت کے خلاف تھا، لیکن جیسے ہی مزدوروں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا، وہی بورژوا طبقہ بادشاہت اور جاگیرداروں کے ساتھ مل گیا۔“ یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنیاد پر ٹراٹسکی نے ”انقلابِ مسلسل“ کا نظریہ ترتیب دیا۔ وہ کہتا ہے کہ: سرمایہ دار طبقہ کسی بھی حقیقی انقلابی تبدیلی کو مکمل نہیں کرے گا، بلکہ ہمیشہ اپنے طبقاتی مفاد میں کام کرے گا۔
لیون ٹراٹسکی کا نظریہ ”انقلابِ مسلسل“ صرف ایک ٹھوس فلسفیانہ خیال نہیں بلکہ عملی سیاسی حکمتِ عملی بھی ہے، خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک کے لیے جہاں سرمایہ داری نہ صرف بحران میں ہے بلکہ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں بھی مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ ان ممالک میں کام کرنے والے انقلابی کارکنوں کے لیے یہ نظریہ ایک سائنسی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
تیسری دنیا کے اکثر ممالک سامراجی تسلط، نوآبادیاتی ورثے اور مقامی حکمران طبقے کی نااہلی، بدعنوانی کی وجہ سے مسلسل بحران کا شکار ہیں۔ ٹراٹسکی نے وضاحت کی کہ یہ ممالک سرمایہ داری کے ترقی یافتہ مراحل میں داخل ہوئے بغیر عالمی منڈی میں ضم کر دیے گئے، جس کی وجہ سے ان کی معیشتیں داخلی طور پر خودمختار ہونے کے بجائے سامراجی طاقتوں پر منحصر ہو گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تیسری دنیا میں سرمایہ داری خود اپنے تاریخی فرائض بھی پورے نہیں کر سکی، جیسے:
» نیم جاگیرداری اور قبائلی نظام کا مکمل خاتمہ
» قومی سوال سمیت دیگر جمہوری سوالات کوحل کرنا
» جدید جمہوری اداروں کا قیام
» زرعی اصلاحات اور کسانوں کی نجات حاصل کرنا
» آزاد قومی معیشت کی ترقی
لہٰذا، انقلاب کو ”دو مراحل“ میں تقسیم کرنا، یعنی پہلے بورژوا جمہوری انقلاب اور پھر سوشلسٹ انقلاب ایک فریب ہے۔ ٹراٹسکی کا استدلال یہ تھا کہ یہ تمام مسائل حل کرنے کے لیے محنت کش طبقے کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب ہی واحد راستہ ہے۔ بہت سے تیسری دنیا کے ممالک میں بائیں بازو کے کارکن اب بھی ”مرحلہ وار انقلاب“ کے سٹالنسٹ نظریے کے زیرِ اثر ہیں، جو کہتا ہے کہ پہلے”قومی جمہوری انقلاب“ مکمل ہونا چاہیے، پھر کہیں جا کر سوشلسٹ انقلاب کا مرحلہ آئے گا۔
مگر عملی طور پر یہ نظریہ ہمیشہ سرمایہ داری کے ساتھ سمجھوتے کی طرف لے جاتا ہے، کیونکہ مقامی بورژوازی خود سامراج کے ساتھ جڑی ہوتی ہے اور کسی بھی بنیادی تبدیلی یعنی انقلاب کی قیادت نہیں کر سکتی۔آج کے عہد میں تیسری دنیا کے ممالک سامراجی قوتوں (امریکہ، یورپ، چین، روس) کی معاشی اور فوجی مداخلت کے زیرِ اثر ہیں۔ قرضوں، نیو لبرل پالیسیوں، اورملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے ذریعے عالمی سرمایہ داری ان ممالک کو معاشی طور پر یرغمال بنائے ہوئے ہے۔
ٹراٹسکی کے مطابق، سامراج کے خلاف قومی آزادی کی تحریکیں اگر محنت کش طبقے کی قیادت میں نہ آئیں، تو وہ بالآخر یا تو ناکام ہو جاتی ہیں یا نئی سرمایہ دارانہ آمریتوں کو جنم دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا کے سیاسی کارکنوں کو اپنی تحریکوں کو قومی جمہوریت سے آگے بڑھاتے ہوئے بین الاقوامی سوشلسٹ انقلاب کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تیسری دنیا کے سیاسی کارکنوں کے لیے ”انقلابِ مسلسل“ کا نظریہ ایک انقلابی حکمت عملی فراہم کرتا ہے، جو یہ واضح کرتا ہے کہ سرمایہ داری اور سامراج کے خلاف جدوجہد کو کسی بھی مرحلہ واریت کا شکار نہیں بنایا جا سکتا، بلکہ اسے مسلسل آگے بڑھانا ہوگا، جب تک کہ عالمی سوشلسٹ انقلاب مکمل نہ ہو جائے۔