نظام سرمایہ داری اور اس کے گماشتے

|تحریر: صبغت وائیں|

ابھی ہمارے گوجرانوالے ہی کے ایک دوست نے فون کر کے بتایا ہے کہ چیمبر آف کامرس کے انتخابات ہو رہے ہیں اور وہاں ایک تقریب کے سلسلے میں کچھ نجی سکولوں نے اپنی معمول کی پیشہ ورانہ دلالی دکھاتے ہوئے سکول کی استانیاں اور بچے لا کر صبح آٹھ بجے سے بٹھائے ہوئے ہیں۔ کہ فلاں فلاں سرمایہ دار آئے گا، فلاں افسر آئے گا اور آپ نے کرسیاں ”بھری ہوئی“ دکھانی ہیں، اور ان کی ہر احمقانہ بات پر دماغ کا استعمال کیے بغیر تالیوں کے ڈونگرے برسانے ہیں۔ اور افسروں اور سرمایہ داروں نے شاید دو بجے کے بعد آنا ہے۔

ان وقتوں میں جب پاکستان دنیا کے بدترین سیلاب کی آفت سے دوچار ہے، ان سرمایہ داروں کا اپنے چیمبر آف کامرس اور دیگر کلبوں میں اٹھکیلیاں کرنا غریب الوطن، بے گھر اور اس سخت ترین حبس اور گرمی کے موسم میں، جب ہل چلانے والے ہل چھوڑ کر بھاگ جایا کرتے تھے، اور اکھاڑوں سے پہلوان چھٹی کروا دیا کرتے تھے، چارپائی کھڑی کر کے گرمی کے دوزخ سے بچاؤ کرنے والی لٹی پٹی عوام کا مذاق نہیں تو اور کیا ہے، کہ مرکزی پنجاب کے ایک شہر گوجرانوالے کے چیمبر آف کامرس کے چند سرمایہ داروں کے الیکشن پر کروڑوں روپے اشتہار بازی اور دیگر فضولیات پر خرچے جا رہے ہیں؟

یہاں گوجرانوالے ہی میں متعدد کوششیں کرنے پر بھی بڑی بڑی فیکٹریوں، جیسے ماسٹر ٹائلز اور ماسٹر سینٹری، سُپر ایشیا، سونیکس وغیرہ۔۔۔ان میں سے کسی ایک جگہ بھی پچھتر سالوں میں ایک مزدور یونین نہیں بن سکی جو اپنے حق کے لیے کوئی نمائندہ چُن سکے۔ وہاں یہ اپنے کلب بناتے ہیں۔ اپنے پول بناتے ہیں۔ اجارے قائم کرنے کے لیے اور ایک جانب ریٹ مقرر کر کے غریب عوام کو لوٹتے ہیں، تو دوسری جانب مزدور کی اجرت کم سے کم کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ”تھامبو“ (جو جیب کترے کو بچاتا ہے) بن کر۔ اب صرف سپر ایشیا ہی کو لیں تو اس میں مبینہ طور پر آٹھ کے بجائے بارہ گھنٹے کام لیا جا رہا ہے۔

اس کے بعد یہ اپنے ان الیکشنوں پر اپنے پالتو افسروں کو بلوا کر ان بے چارے بچوں اور استانیوں کو مرعوب کریں گے۔ وہ افسر جن کو ہم نے ہڑتالوں میں دیکھا ہے، کہ ان کی کانپیں تھر تھر ٹانگ رہی ہوتی ہیں، کہ آپ نے ماسٹر ٹائل کے باہر احتجاج کر دیا ہے، مزدوروں سے کہیں اندر چلے جائیں، جی ٹی روڈ پر نہ آئیں۔ پھر مزدورں پر کروڑوں کے ٹرک چوری کرنے کے پرچے ایس پی لیول کے بیورو کریٹ دے دیتے ہیں۔

لمبی بات نہ کرتے ہوئے دو تین دن پہلے کا ایک آنکھوں دیکھا حال سنا دیتا ہوں، مطیع اللہ نے بھی اس پر بات رکھی تھی۔ ہمارے پیارے پاکستان کا وزیر خزانہ پریس کانفرنس کر رہا تھا، لیکن اس دوران اس نے ایک سرمایہ دار ”ملک ریاض“ کا نام لے کر اس کی کرپشن کے پونڈوں کا ذکر کیا۔ لیکن یہ ذکر کرنے کی دیر ہی تھی کہ ہمارے ملک کے سب سے بڑے تین چینلز نے اس تقریر کو آف ائیر کر دیا۔ یہ چینل جیو، اے ار وائے اور سماء تھے۔ تینوں چینلز مختلف الخیال ہیں، پھر بھی۔

تو ہم جو ان تمام کاسہ لیسوں کو اگر ”دلے“ کہتے ہیں، تو اس میں غلط کیا ہے؟ کون سا لفظ بولیں ان کے لیے؟

Comments are closed.