|تحریر: عبداللہ عمران|

ماحولیاتی تبدیلی کو عام طور پر ایک آفاقی خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، جیسے یہ تمام انسانیت کو برابر طور پر متاثر کرتی ہے۔ اس طرح کی غیر جانبدارانہ پیشکش دراصل ماحولیاتی بحران کے طبقاتی پہلو کو چھپا دیتی ہے۔ اس بحران کی جڑوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم محض ”انسانیت بمقابلہ فطرت“ کے بیانیے سے آگے بڑھ کر اس کو سرمایہ داری کے ناگزیر نتیجے کے طور پر دیکھیں۔ سرمایہ داری نے سماج اور ماحول کے درمیان موجود فطری میٹابولک تبادلے کو توڑ ڈالا ہے۔ عالمی سطح پر سرمایہ دار طبقہ وسائل کو منافع کی خاطر نوچتا ہے، جبکہ اس استحصال کی قیمت محنت کش طبقہ ادا کرتا ہے جو زیادہ تر پسماندہ ممالکسے تعلق رکھتا ہے۔
پاکستان میں ماحولیاتی بحران کے نتائج مثلاً سیلاب، خشک سالی اور شدید گرمی کی لہریں اس طبقاتی حقیقت کو نہایت واضح کر دیتی ہیں۔ کسان، مزدور اور شہری غریب اپنی زندگیاں، گھر اور روزگار سب کچھ گنوا بیٹھتے ہیں، جبکہ حکمران طبقہ جس میں جاگیردار، فوجی بیوروکریسی اور سرمایہ دار ٹائیکون شامل ہیں، ریاستی تحفظ حاصل کر کے اپنے سرمائے کو محفوظ بناتے ہیں۔ پاکستان میں ماحولیاتی آفات کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ آفات سب کو برابر نہیں مارتیں بلکہ طبقاتی اور طاقت کے ڈھانچوں کو مزید گہرا کر دیتی ہیں۔

سرمایہ داری کی ابتدا ہی سے انسان اور فطرت کے درمیان موجود توازن کو بگاڑ دیا گیا۔ جب ابتدائی صنعت کاری یورپ میں ابھری تو اس کا بنیادی مقصد پیداوار کو انسانی ضرورت کے بجائے منافع کے تابع کرنا تھا۔ زمین سے وسائل اس طرح نوچے گئے جیسے یہ لامحدود ہوں اور مزدور طبقے کو یوں استعمال کیا گیا جیسے یہ صرف ایک مشین کے پرزے ہوں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فطرت اور سماج کے درمیان موجود وہ میٹابولک رشتہ ٹوٹ گیا جو ہزاروں سال سے انسانی بقا کی ضمانت تھا۔
انیسویں صدی میں صنعت کاری نے ماحولیات پر بے پناہ بوجھ ڈالا۔ کوئلے اور تیل کے بے دریغ استعمال نے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کو جمع کر دیا۔ سائنسدانوں نے اس وقت سے ہی خبردار کیا تھا کہ یہ فضا کو گرم کرے گا، لیکن سرمایہ دار طبقے کے لیے فوری منافع زیادہ اہم تھا۔ آج ہمیں عالمی سطح پر درجہ حرارت میں، چند صدی قبل جب سرمایہ داری کا آغاز ہوا سے لے کر اب تک تقریباً 1.2 ڈگری سیلسیس اضافہ نظر آ رہا ہے اور ماہرین کے مطابق اگر موجودہ نظام برقرار رہا تو یہ اس صدی کے آخر تک 2100 میں 3 ڈگری یا اس سے زیادہ بڑھ سکتا ہے۔ درجہ حرارت میں یہ اضافہ زمین پر انسانی زندگی کے لیے تباہ کن ہوگا۔کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں اتنے بڑے اضافے کا مطلب ہے کہ گلیشئیر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے جبکہ اس گلوبل وارمنگ سے پوری دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیاں بڑے پیمانے پر اثرات مرتب کر رہی ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کو اکثر ایک قدرتی یا سائنسی مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ پیداوار کے ڈھانچے کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ محنت کش طبقہ اس نظام کو کنٹرول ہی نہیں کرتا بلکہ اس کے ظلم اور استحصال کا نشانہ بنتا ہے۔ پختونخواہ میں بونیر کے حالیہ سیلاب کو ہی لے لیجیے، جہاں ایک ہی رات میں بادل پھٹنے کے بعد ہونے والی بارش نے درجنوں گاؤں کو بہا دیا۔ یہ کلاؤڈ برسٹ یا بادل کا پھٹنا اچانک نہیں ہوا بلکہ ایک لمبے عرصے سے چلی ا ٓرہی ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ تھا اور اس کے بعد ہونے والی تباہی کی وجہ بھی پہاڑی جنگلات کی بے دریغ کٹائی، دریا کے بہاؤ کو سرمایہ دارانہ تعمیرات سے روک دینا اور ریاستی منصوبہ بندی کی عدم موجودگی تھی جس نے ایک طویل عرصے سے جاری حکمران طبقے کی لوٹ مار کو عیاں کیا۔
سرمایہ داری ایک عالمی نظام ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ سامراجی طاقتوں کا گماشتہ ہے اور یہاں پر تمام تر پالیسیاں انہی سامراجی طاقتوں کے مفادات کے تابع بنائی جاتی ہیں۔ سامراجی طاقتیں دنیا بھر میں وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہیں اور ان ممالک کے سرمایہ دار اپنے سرمائے کو تحفظ دینے اور اسے پھیلانے کے لیے دنیا بھر میں ماحولیاتی تباہی کو بدتر کرتے چلے جا رہے ہیں۔صنعتوں اور کان کنی کے لیے ایسے طریقہ کار استعمال کیے جاتے ہیں جن مین ان کی سرمایہ کاری کم سے کم ہو خواہ اس سے ماحول کو جتنا مرضی نقصان پہنچے۔ گزشتہ تین صدی سے بھی زیادہ عرسے سے جاری اس عمل میں سرمایہ دار طبقہ اپنی منافع کی ہوس میں اس کرۂ ارض کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔

سرمایہ داری صرف اپنی داخلی منڈی تک محدود نہیں رہی۔ نوآبادیاتی دور سے لے کر آج تک نو آبادیاتی ممالک سے خام مال لوٹا گیا۔ کپاس، جیوٹ، معدنیات، گندم اور آج کے دور میں تیل و گیس، سب کچھ سامراجی ممالک نے سستا خریدا یا زبردستی حاصل کیا تاکہ اپنی صنعتوں کو رواں رکھ سکیں۔ اس لوٹ مار سے جہاں ترقی یافتہ ممالک کے مزدوروں کا بدترین استحصال ہوا وہاں اس کا بوجھ پسماندہممالک پر بھی پڑا جہاں محنت کش طبقہ زمین سے رزق حاصل کرنے کے باوجود بھوک اور غربت کا شکار رہا۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث وہ علاقے جہاں زیادہ بڑے پیمانے پر صنعت یا کان کنی موجود نہیں وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اسی لیے ماحولیاتی تبدیلی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں اور نہ ہی یہ مصنوعی سرحدوں میں مقید رہ کر حل کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے لیے پوری دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں ماحولیاتی بحران کی شدت کا سب سے بڑا اظہار 2022ء کے سیلاب میں نظر آیا جب ایک تہائی ملک پانی میں ڈوب گیا، تین کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے اور تقریباً 1700 اموات ہوئیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق نے واضح کیا کہ انسانی پیدا کردہ ماحولیاتی تبدیلی نے ان بارشوں کی شدت میں تقریباً 20 سے 50 فیصد اضافہ کیا۔ اس سیلاب نے خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کے محنت کش کسانوں کو تباہ کیا جن کے گھر، مویشی اور کھیت سب کچھ بہہ گئے، جبکہ بڑے جاگیرداروں نے بند توڑ کر پانی کا رخ غریب بستیوں کی طرف موڑ دیا۔
اسی طرح جولائی 2025 ء میں گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں گلیشیئر کے تیز پگھلنے اور شدید مون سون بارشوں نے خوفناک سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کو جنم دیا۔ اس آفت میں کم از کم 72 افراد ہلاک اور 130 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوکش اور قراقرم کے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، اور مستقبل میں ایسے سانحات بار بار ہوں گے۔
مزید یہ کہ اب بونیر میں ہونے والا کلاؤڈ برسٹ یا ”بادل کا پھٹنا“ حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی مقامی آفات میں سے ایک تھا۔ چند گھنٹوں کی غیر معمولی بارش نے دریاؤں کو طغیانی پر مجبور کیا اور درجنوں بستیاں مٹی کے تودوں اور پانی میں بہہ گئیں۔ اس آفت میں تقریباً 300 جانیں ضائع ہوئیں اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے۔ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے بارش کے پیٹرن کو کس طرح غیر مستحکم کر دیا ہے اور پہاڑی علاقوں کو پہلے سے کہیں زیادہ خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ریاستی اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقہ ہمیشہ اپنے سرمایے کو محفوظ کر لیتا ہے۔ فوجی بیوروکریسی کے ذریعے ریلیف کا رخ ان کے علاقوں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے اور این جی اوز اور بین الاقوامی امداد کا زیادہ حصہ انہی کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ محنت کش عوام کو ملتا ہے تو بس عارضی خیمے یا ایک وقت کا کھانا۔ اس کے علاوہ غیر ملکی امداد ہمیشہ قرضوں کی شکل میں آتی ہے یا پالیسی شرائط کے ساتھ آتی ہے، جس سے پاکستان کی معیشت مزید سامراجی جکڑ میں آ جاتی ہے۔ یہ قرض دراصل ماحولیاتی انصاف نہیں بلکہ غلامی کا ایک نیا ہتھکنڈا ہے۔
سرمایہ دار طبقہ اس دوران ایک اور کھیل کھیلتا ہے جسے وہ ”گرین کیپیٹلزم“ کہتا ہے۔ یعنی ماحول دوست سرمایہ کاری یا کاربن کریڈٹ کے نام پر نیا کاروبار۔ لیکن یہ محض ایک دھوکہ ہے۔ اصل مقصد منافع کے نئے ذرائع پیدا کرنا ہے۔ دنیا کی بڑی کارپوریشنز نے اس کے نام پر اربوں ڈالر کمائے لیکن عام کسان یا مزدور کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ مثال کے طور پر کاربن ٹریڈنگ نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو آلودگی جاری رکھنے کی اجازت دی جبکہ بہت سی جگہوں پر کسانوں کو اپنی زمینوں سے بے دخل ہونا پڑا۔
جدید سائنسی تحقیق متفق ہے کہ اگر عالمی کاربن اخراج کو تیزی سے کم نہ کیا گیا تو مستقبل قریب میں برصغیر جیسے خطے شدید تباہی کا شکار ہوں گے۔IPCC کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ پاکستان میں گلیشیئرز کے تیز پگھلنے سے دریائی نظام میں غیر معمولی تبدیلیاں ہوں گی۔ یہ تبدیلیاں بونیر جیسے پہاڑی علاقوں کو بار بار سیلاب کی زد میں لائیں گی اور کاشتکاری کو ناقابلِ یقین حد تک غیر مستحکم کر دیں گی۔ جو کہ پاکستان جیسے ملک جس کی ایکسپورٹس کا بڑا حصہ زرعی پیداوار پر مشتمل ہے، اسکے لیے تباہ کن ہوگا۔
اس کے علاوہ اگر عالمی سطح پر بھی دیکھا جائے تو 2005 ء میں امریکہ میں کٹرینا ہ طوفان، ایک بڑی آفت تھی جس نے نیو اورلینز اور دیگر علاقوں کو تباہ کر دیا۔ سائنسی رپورٹس نے واضح کیا کہ خلیج میکسیکو کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے اس طوفان کو غیر معمولی شدت بخشی۔ یہ آفت صرف ایک قدرتی واقعہ نہیں تھی بلکہ سرمایہ دارانہ انفراسٹرکچر کی ناکامی بھی تھی، کیونکہ غریب آبادی، خصوصاً سیاہ فام مزدور طبقہ، سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ اس کے علاوہ یورپ میں 2003ء کا ہیٹ ویو جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے، عالمی موسمیاتی تبدیلی کی ایک بڑی علامت ہے۔ محققین نے بتایا کہ یہ شدید گرمی سرمایہ دارانہ صنعتی اخراج کے طویل مدتی اثرات کا نتیجہ تھی۔ یہاں بھی امیر طبقہ ایئر کنڈیشنڈ گھروں میں محفوظ رہا جبکہ مزدور طبقہ براہِ راست موت کا شکار ہوا۔
بعدازاں افریقہ میں صحارا کے جنوب میں بار بار آنے والے خشک سالی کے ادوار، خصوصاً ایتھوپیا اور صومالیہ کی خشک سالی، واضح طور پر عالمی سرمایہ دارانہ زرعی تجارت اور ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ جڑی ہیں۔ یہاں سامراجی ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی زمین ہڑپ کرنے کی پالیسیاں اور وسائل کے استحصال نے مقامی کسانوں کو شدید غربت اور بھوک کی طرف دھکیل دیا۔
پھر اگر دیکھا جائے تو امریکہ میں 2024ء کے دوران جنگلاتی آگ غیر معمولی شدت اختیار کر گئی، خاص طور پر کیلیفورنیا، اوریگون اور واشنگٹن ریاستوں میں۔ ماہرین کے مطابق ان آگوں کے بنیادی اسباب میں شدید خشک سالی، بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور غیر معمولی موسمی پیٹرنز شامل تھے، جو کہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی سے جڑے ہیں۔(NIFC)نیشنل انٹرا ایجنسی فائر سینٹر کی رپورٹ کے مطابق صرف 2024ء کے سیزن میں ہزاروں ایکڑ زمین جل کر راکھ ہو گئی۔ مزید یہ کہ کیلیفورنیا میں بجلی کی لائنوں سے چنگاریاں، انسانی لاپرواہی اور کارپوریٹ غفلت جیسے عوامل نے بھی اس بحران کو بڑھاوا دیا۔ ان تباہ کن آگوں نے نہ صرف ہزاروں افراد کو بے گھر کیا بلکہ فضائی آلودگی اور کاربن کے اخراج میں بھی نمایاں اضافہ کیا، جو کہ ایک شیطانی دائرے کی طرح دوبارہ موسمی بحران کو شدید بناتا ہے۔ یہ مثال واضح کرتی ہے کہ کس طرح ماحولیاتی تبدیلی، کارپوریٹ مفاد پرستی اور ریاستی نااہلی مل کر موسمیاتی آفات کو جنم دیتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اصلاح پسندانہ حل، جیسے سبز سرمایہ داری یا انفرادی اخلاقیات، ناکافی ہیں۔ یہ سب طبقاتی جڑوں کو چھپانے کے حربے ہیں۔ اصل ضرورت محنت کش طبقے کی اجتماعی جدوجہد ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کھڑی ہو۔ یہ جدوجہد نہ صرف محنت کش کے روزگار، مکان اور زندگی کی حفاظت کرے گی بلکہ سماج اور فطرت کے درمیان دوبارہ ایک صحت مند رشتہ بھی قائم کرے گی۔
ٹراٹسکی نے واضح کہا تھا کہ سرمایہ داری عالمی سطح پر ایک رکاوٹ ہے اور اس کو ختم کیے بغیر انسانیت ترقی نہیں کر سکتی۔ یہی اصول ماحولیاتی بحران پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ پاکستان کے محنت کش، کسان اور شہری غریب اگر اپنی طاقت کو منظم کر کے سرمایہ دار، جاگیردار اور سامراجی قوتوں کے خلاف کھڑے ہوں تو نہ صرف ماحولیاتی انصاف ممکن ہے بلکہ ایک سوشلسٹ سماج کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے جو فطرت اور سماج دونوں کے توازن کو بحال کر نے کے عمل کا آغاز کرے گا۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بننے کے لیے یہاں کلک کریں!