کولمبیا: دائیں بازو کی حکومت کے خلاف طلبہ اور مزدوروں کی تحریک

تحریر: سالوادور بائنا|
ترجمہ: ولید خان|

لاطینی امریکہ کے ملک کولمبیا میں دائیں بازو کے رجعتی امیدوار ایوان ڈیوق کو صدر بنے 100 دن کا عرصہ گزر چکا ہے۔ البیرتو کاراسکویلا کی بطور وزیر معاشیات تعیناتی واضح اعلان ہے کہ کولمبیئن محنت کش طبقے پر خوفناک حملوں کی تیاری کی جا رہی ہے۔

دائیں بازو کی حکومتوں کے بیس سالوں سے جاری مسلسل حملوں نے قومی تعلیمی نظام کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے۔ ان حملوں کے جواب میں طلبہ گزشتہدو ماہ سے عوامی تحریکوں کو منظم کر رہے ہیں جن میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 10 اکتوبر کو منعقد ہونے والے احتجاج میں پورے ملک میں 3 لاکھ طلبہ نے حصہ لیا جن میں سے1 لاکھ طلبہ نے دارلحکومت بوگوٹا میں مارچ کیا۔

ان احتجاجوں پر ہر گزرتے دن کے ساتھ ریاست کا جبر وتشدد بڑھتا جا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں ایک دیو ہیکل مہم کے ذریعے طلبہ کو امن دشمن عناصر اور بدمعاش بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جن کا کام ہی پولیس پر پیٹرول بم برسانا ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا ان وڈیوز اور تصاویر سے بھرا پڑا ہے جن میں کھلم کھلا پولیس گردی دیکھی جا سکتی ہے جبکہ پولیس کے اپنے ہی کارندے احتجاجوں میں شامل ہو کر تشدد کو ابھارنے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ جہاں تک ڈیوق کا تعلق ہے تو اسے طلبہ کے مطالبات سے کوئی دلچسپی نہیں، یہاں تک کہ اس نے ان سے کوئی ملاقات کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا ہے۔

مزدوروں پر حملہ

اسی دوران دائیں بازو کی رجعتی حکومت نے ایک نئے ٹیکس پلان کا اجرا کیا ہے جس کا سارا خمیازہ غربا اور محنت کش طبقے کو بھگتنا پڑے گا۔ بجٹ خسارے کو کم کرنے اور بڑے کاروباروں کو ٹیکس میں مزید چھوٹ دینے کے چکر میں حکومت نے ضروری اشیائے خوردونوش کا VAT ٹیکس صفر سے بڑھا کر 19 فیصد کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بنیادی اشیائے خوردونوش آبادی کی بھاری اکثریت کی قوت خرید سے باہر ہو جائیں گی۔ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ان اقدامات سے عوام میں شدید غم و غصہ پھیل گیا ہے جس کی وجہ سے منظم محنت کش طبقہ حرکت میں آ گیا ہے۔

15 نومبر کو ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین CUT(7 لاکھ ممبران) نے طلبہ کے احتجاج میں بھرپور شرکت کی۔ اور حال ہی میں طلبہ تنظیموں اور بڑی ٹریڈ یونینوں (جیسے 2لاکھ 80 ہزار اساتذہ کی نمائندہ FECODE اور CUT) میں 28 نومبر کو ایک عوامی احتجاج کو منظم کرنے کے حوالے سے مذاکرات بھی ہوئے ہیں۔

اس وقت طلبہ اور محنت کش دفاعی جدوجہد کر رہے ہیں تاکہ ڈیوق کے شعبہ تعلیم پر حملوں اور حکومتی ٹیکس پلان کی مزاحمت کی جائے۔ لیکن شعبہ تعلیم اور ٹیکس کے حوالے سے یہ محدود دفاعی مطالبات بھی حکمران طبقے کے مفادات سے براہ راست ٹکرا رہے ہیں جو عوامی سہولیات کو ختم اور معیار زندگی کو تباہ کر کے کسی بھی قیمت پر بڑے کاروباروں کے منافع میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔

دفاع کا ایک ہی راستہ۔۔آگے بڑھو!

قومی یونیورسٹی(ملک کا سب سے مشہور و معروف تعلیمی ادارہ ) میں منعقد ہونے والے بڑے طلبہ اکٹھ میں شامل طلبہ کا کہنا ہے کہ مزدوروں اور طلبہ کا مزاج دن بدن لڑاکا ہوتا جا رہا ہے۔ جدوجہد کے عمل میں عام سرگرم کارکنان ایک انقلابی متبادل کی ضرورت کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔

حالیہ واقعات میں بے پناہ امکانات چھپے ہوئے ہیں۔ انوامر رائے شماری کے مطابق ڈیوق کی پسندیدگی میں تیزی سے گراوٹ آ رہی ہے(ستمبر میں 53 فیصد سے گر کر اس وقت 27فیصد )۔ مزدوروں اور طلبہ کیلیے ثابت قدمی سے آگے بڑھنے کا یہی وقت ہے۔

اس کے لیے لازمی ہے کہ طلبہ تحریک منظم محنت کش طبقے کے ساتھ جڑے اور دونوں VAT اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف انقلابی تیاری کے ساتھ منظم ہوں۔ تحریک کو واشگاف الفاظ میں جرات مندی سے اپنا نقطہ نظر پیش کرنا پڑے گا کہ عوامی تعلیم اور آبرومندانہ معیار زندگی کی جدوجہد سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد ہے۔ یہی وہ مقصد ہے جس کی جدوجہد کے لیے طلبہ اور مزدور تحریکیں اکٹھی ہو سکتی ہیں۔

ڈیوق حکومت مردہ باد!
طلبہ اور مزدور متحد ہو کر جدوجہد کرو!

Comments are closed.