|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی|
15، 16 اور 17 اگست کو پاکستان بھر سے آئے 300 کے قریب انقلابی کمیونسٹ راولاکوٹ، ”آزاد“ کشمیر میں کمیونسٹ سکول میں شرکت کے لیے اکٹھے ہوئے۔ بدترین مہنگائی، بلوچستان اور پختونخواہ میں بدامنی، شدید بارشوں، سیلاب اور ٹریفک کی بندش کے باوجود کامریڈز ہر طرح کی مشکلات کو عبور کرتے ہوئے سکول میں پہنچے، جبکہ بہت سے نوجوان مالی مشکلات اور دیگر وجوہات کی بنا پر شرکت سے محروم رہے۔

15، 16 اور 17 اگست کو پاکستان بھر سے آئے 300 کے قریب انقلابی کمیونسٹ راولاکوٹ، ”آزاد“ کشمیر میں کمیونسٹ سکول میں شرکت کے لیے اکٹھے ہوئے۔
اس سکول کی خاص بات یہ بھی تھی کہ گلگت بلتستان کی عوامی تحریک کے راہنما اور تین ماہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے کامریڈ احسان علی سکول سے صرف ایک دن پہلے رہا ہوئے لیکن شدید علالت کے باوجود گھر جانے کی بجائے فوری طور پر سکول میں شرکت کرنے کے لیے پہنچے، جس سے پورے سکول کا سیاسی معیار بلند ہونے کے ساتھ جوش و خروش میں بھی اضافہ ہوا۔ ان کے ساتھ گلگت بلتستان سے نوجوان کامریڈ وحید حسن بھی دو ماہ تک ریاستی عقوبت خانے میں گزارنے کے باوجود گلگت بلتستان کے دیگر کامریڈز کے ساتھ سکول میں شرکت کے لیے آئے۔ ان دونوں کامریڈز کا سکول میں پُرتپاک استقبال کیا گیا اور سکول کے آغاز میں جب انہیں اسٹیج پر بلایا گیا تو اس وقت ہال میں موجود شرکا کا جوش و خروش اور جذبہ دیدنی اور لائق تحسین تھا۔
عالمی سطح پر جاری سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی وجہ سے ہم ایک غیر معمولی تاریخی عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ عہد انقلابات، ردِ انقلابات، جنگوں اور خانہ جنگیوں کا عہد ہے۔ جس کا اظہار پاکستان سمیت دنیا بھر میں نظر آتا ہے۔ ان حالات میں کمیونسٹ سکول کا انعقاد انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں سینکڑوں کمیونسٹ ان حالات کو سمجھنے کے لیے مارکسزم کے انقلابی نظریات کو سیکھتے ہوئے انقلابی صورتِحال کے امکانات کے پیش نظر آئندہ طبقاتی جنگ کی سنجیدہ مشق کے لیے اکھٹے ہوئے تھے۔
عالمی و پاکستان تناظر
پہلے دن کے پہلے سیشن کا آغاز انقلابی نعروں اور شاعری سے ہوا۔ جیل سے رہائی پانے والے گلگت بلتستان کے اسیران کو یاسر ارشاد کی جانب سے خوش آمدید بھی کہا گیا۔ اس سیشن کو چیئر کشمیر سے کامریڈ عمر ریاض نے کیا اور بحث کا آغاز کراچی سے کامریڈ پارس جان نے کیا۔
پارس جان نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس عہد کو کوئی ایک نام نہیں دے سکتے، تاریخ میں پہلے بھی خانہ جنگیاں رہی ہیں، جنگیں رہی ہیں، انقلابات بھی رہے ہیں اور ردِ انقلابات بھی رہے ہیں۔ تو پھر اس عہد کی انفرادیت کیا ہوئی؟ بیک وقت یہ تمام چیزیں اپنے پورے جوبن پر، پوری دنیا کے تمام خطوں کے اندر ایک ہی وقت میں ہوتی ہوئی اور پھر ایک سے دوسرے میں تبدیل ہوتی ہوئی شاید تاریخ میں کبھی نہ نظر آئی ہوں، اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں جدلیاتی مادیت کا سہارا لینا پڑے گا۔
اس وقت بیک وقت دونوں عوامل موجود ہیں، بربریت بھی سوشلزم بھی۔ عالمی سطح پہ سوڈان، افغانستان، غزہ، شام، روس یوکرین جنگ۔۔۔ ایک طویل فہرست ہے جہاں آپ کو بربریت کے عوامل نظر آتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت 37 ممالک کے اندر خانہ جنگیاں چل رہی ہیں۔ ایران اسرائیل جنگ، پاکستان انڈیا تنازع میں ایک ایٹمی جنگ کا خطرہ تھا۔ اسی بربریت کے اندر ہمیں بہت بڑی انقلابی تحریکیں نظر آتی ہیں اور یورپ کے اندر ایسے واقعات نظر آتے ہیں جو پچھلی ایک صدی میں کبھی ہوتے ہوئے نظر نہیں آئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ورلڈ آرڈر کا اظہار ہمیں طاقتوں کے بدلتے توازن میں نظر آ رہا ہے۔ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اس میں اور شدت آئی ہے۔ امریکی سامراج ماضی کی نسبت کمزوری اور زوال کا شکار ہے۔ عالمی سیاست میں یورپ کی کلیدی حیثیت ختم ہو چکی ہے۔ امریکہ و برطانیہ جیسے ممالک کے اندر ہمیں بہت بڑی عوامی تحریکیں نظر آتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق 18 سے 29 سال کے امریکی نوجوانوں میں سوشلزم کا رجحان حاوی ہے اور وہ سوشلزم کو ایک متبادل نظام کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں اور ان میں سے 36 فیصد کمیونزم کے حامی ہیں۔ یہی صورتحال برطانیہ سمیت یورپ بھر کی ہے جب معروضی طور پر حالات انقلابات کے لیے تیار ہیں وہیں موضوعی عنصر یعنی انقلابی پارٹی کی کمی نظر آتی ہے۔
کامریڈ پارس نے پاکستان سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ داری کے بحران کے سبب پاکستانی ریاست بھی اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ ماحولیاتی تباہیوں، معاشی حملوں، جمہوری حقوق پر قدغنوں کا شکار پاکستان کا محنت کش طبقہ ریاست اور حکمران طبقے سے شدید نفرت کرتا ہے۔ کے پی کے، بلوچستان، کشمیر، گلگت بلتستان اور سندھ میں اس نفرت کا اظہار تحریکوں کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔ پنجاب کے سرکاری ملازمین تنخواہوں میں کٹوتیوں اور نجکاری کے حملوں کے خلاف مسلسل لڑائی لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقہ کو بھی ان حالات کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ کسی بھی انقلابی تحریک کے امکان سے شدید خوفزدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری حقوق پر قدغنوں میں شدت لائی جا رہی ہے۔ پارس جان نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بھی حالات انقلابی تحریک کے ابھرنے کے لیے پک کر تیار ہو چکے ہیں۔ ہمیں فوری بنیادوں پہ ہر طرح کی مشکلات سے لڑتے ہوئے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر کی جدوجہد کو تیز کرنا ہو گا۔
لیڈ آف کے بعد سامعین سے سوالات لیے گئے۔ اس سیشن میں لاہور سے ارسلان دانی، بہاولپور سے فرحان رشید، کوئٹہ سے کریم پرہار، فیصل آباد سے بابو ولیم روز، ڈی جی خان سے آصف لاشاری، پشاور سے تیمور خان، کراچی سے آنند پرکاش، لاڑکانہ سے سرفراز اورمرکز سے آدم پال نے بحث میں حصہ لیا اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں جاری انقلابی تحریکوں اور انقلابی پارٹی کی ناگزیریت پر بات کی۔
سامراجی جنگیں: ایک کمیونسٹ تناظر
لنچ بریک کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا۔ دوسرا سیشن سامراجی جنگوں پر کمیونسٹ تناظر کے حوالے سے تھا۔ اس سیشن کو چئیر گلگت بلتستان سے کامریڈ وحید حسن نے کیا جو حال ہی میں جیل سے رہا ہو کر آئے تھے اور اس میں بحث کا آغاز لاہور سے کامریڈ ثاقب اسماعیل نے کیا۔
ثاقب اسماعیل نے غزہ میں جاری ہولناک بربریت، روس یوکرین جنگ، جس میں لاکھوں قتل ہو چکے ہیں، ایران اسرائیل کی بارہ روزہ جنگ اور انڈیا پاکستان تنازع سمیت دنیا بھر میں جاری جنگوں اور خانہ جنگیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان سامراجی جنگوں کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے 1916ء میں دوسری عالمی جنگ کے دوران لکھی گئی لینن کی کتاب، سامراجیت سرمایہ داری کی آخری منزل کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ جسے پڑھ کے سامراجی جنگوں خصوصاً پہلی عالمی جنگ کی مادی بنیادوں کی سمجھ آتی ہے۔ لینن اس عمل کی وضاحت کرتا ہے کہ کیسے سرمایہ داری کے آغاز میں مختلف کاروباروں میں آزاد مسابقت ہوتی تھی۔ مسابقت خود کو ختم کرتے ہوئے اجارہ داریوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ پھر سرمایہ مزید بڑے کاروباروں میں مرتکز ہو جاتا ہے۔ اس عمل سے بہت بڑی اجارہ داریاں جنم لیتی ہیں جو دراصل انیسویں صدی میں شروع ہونے والا عمل تھا۔ جیسا کہ کارٹیلز بننے کے عمل میں نظر آتا ہے۔ آج کے عہد میں ملٹی نیشنل کمپنیاں موجود ہیں۔ سرمائے کا بھاری مقدار میں اضافہ چند ہاتھوں میں دولت کو مرکوز کر دیتا ہے۔ آج کے عہد میں سرمائے کے بڑے پیمانے پر ارتکاز کا اظہار ہمیں وارن بفٹ کی کمپنی برکشائر ہیتھوے کی صورت میں نظر آتا ہے، جس کے پاس 320 سے 340 ارب ڈالر کی غیر استعمال شدہ رقم موجود ہے۔ اسی طرح باقی کمپنیوں کی بھی ایک فہرست ہے۔
انیسویں صدی میں سرمائے کے ارتکاز کے سبب بڑی کمپنیاں بے پناہ سرمائے کے مقابلے میں اپنی قومی منڈیوں کو سکڑتا ہوا پاتی ہیں تب وہ دیگر ممالک میں سرمایہ برآمد کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ یعنی کمپنیاں نئی سے نئی منڈیاں اور اپنے کاروبار کے تحفظ کے لیے قومی ریاستیں نئی سے نئی کالونیوں کی دوڑ میں لگ جاتی ہیں۔ پھر مختلف سامراجی قوتوں کے درمیان منڈیوں اور کالونیوں کی تقسیمِ نو کے لیے بار بار جنگیں نظر آتی ہیں۔ پہلی عالمی جنگ بھی مختلف سامراجی ممالک کے درمیان منڈیوں اور کالونیوں کے حصول کی جنگ تھی۔ پچھلی کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں ہونے والی مختلف جنگوں میں ہمیں یہی بنیادی وجوہات نظر آتی ہیں۔
ثاقب نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ کمیونسٹ ہمیشہ محنت کش طبقے کے طبقاتی مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کوئی بھی مؤقف اپناتے ہیں۔ کمیونسٹ جنگوں کا حل سرمایہ دارانہ امن پسندی کو نہیں سمجھتے۔ کیونکہ سامراجی امن ایک نئی سامراجی جنگ کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ جنگ اور تشدد سرمایہ داری کی فطرت میں شامل ہے اور جب تک سامراجیت اور سرمایہ داری کا خاتمہ نہیں کیا جاتا تب تک جنگوں کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔ سامراجیت اور سامراجی جنگوں کو نسلی و قومی نہیں بلکہ محنت کش طبقے کے عالمی اتحاد کے ذریعے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔
لیڈ آف کے بعد بڑی تعداد میں سامعین نے سوالات کیے۔ اس سیشن میں آدم پال، کوئٹہ سے کریم پرہار، بہاولپور سے عرفان منصور، کشمیر سے یاسر ارشاد نے بحث میں حصہ لیا اور سامعین کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔
اسی کے ساتھ ہی سکول کے پہلے دن کے سیشنز کا اختتام ہوا۔ رات کو موسیقی کے سیشن کا انعقاد کیا گیا تھا جس کے لیے لاہور سے استاد ناصر خان اور ان کے ساتھ طبلے پہ شارون خصوصی طور پر تشریف لائے تھے۔ تمام شرکا موسیقی سے خوب محظوظ ہوئے۔
مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس
سکول کے دوسرے دن کے پہلے سیشن کا آغاز ایک بار پھر پُر جوش نعروں اور شاعری سے ہوا۔ اس سیشن کا موضوع ”مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس“ تھا۔ جس کو چیئر حیدرآباد سے مجید پنہور نے کیا اور اس پر لیڈ آف بہاولپور سے کامریڈ عرفان منصور کی تھی۔
عرفان نے فلسفے اور سائنس کے باہمی تعلق سے گفتگو کا آغاز کیا اور اس کے بعد کوانٹم مکینکس کی تشریحات اور ان سے مادے کے ابطال کے مؤقف کو بیان کرنے کے بعد اس دعوے کا مارکسی فلسفے کی روشنی میں جواب دینے کی کاوش کی۔ فلسفے میں مادیت پسندی اور عینیت پسندی کا احوال بیان کرنے کے بعد، سائنس میں رسمی منطق کے ترقی پسندانہ کردار کا احاطہ کیا اور یہ بیان کیا کہ کس طرح انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کی سائنسی دریافتیں رسمی منطق کے اصولوں کی محدودیت کی پیامبر تھیں۔
کامریڈ کا کہنا تھا کہ رسمی منطق کی محدودیت کے سبب سائنسدانوں نے رسمی منطق کی اساس پر تشکیل کردہ مادے کے تصور کو ردکرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ حقیقت کو جاننا ہی ناممکن ہے، جبکہ وہ جس تصور کو رد کر رہے تھے وہ خود ازکارِ رفتہ ہو چکا تھا۔ رسمی منطق کی بجائے جدلیاتی مادیت کا میتھڈ ہی وہ طریقہ کار ہے کہ جو مادے کی اس کی تمام تر پیچیدگیوں سمیت تفہیم میں زیادہ کارآمد ہے۔
اس کے بعد جدید سائنس کے تصورات پر جدلیاتی مادیت کے میتھڈ کے اطلاق پر گفتگو کی اور یہ بیان کیا کہ کس طرح یہ فلسفہ نہ صرف انسان، سماج اور فطرت کی بہتر تفہیم میں معاون ہے بلکہ یہ اس تمام تر عینیت پرستی کی راہ بھی مسدود کرتا ہے کہ جو سرمایہ داری کے عہدِ زوال میں اس کی آخری پناہ گاہ ہے۔
اس سیشن میں سامعین کی طرف سے بڑی تعداد میں سوالات کیے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئی نسل میں مارکسی فلسفے کو سمجھنے کی شدید خواہش موجود ہے۔
اس کے بعد آدم پال، فرحان رشید، پارس جان، راول اسد، تسبیح خان و دیگر نے اپنی کنٹریبیوشنز میں اس بحث کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کی۔
انقلابِ ایران 1979ء کی تاریخ
دوسرے دن کا دوسرا سیشن انقلابِ ایران 1979ء کی تاریخ پر تھا۔ اس سیشن کو چیئر کراچی سے کامریڈ آنند پرکاش نے کیا اور گفتگو کا آغاز لاہور سے کامریڈ سلمیٰ ناظر نے کیا۔
کامریڈ نے آج ایران میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں پر بات کرتے ہوئے ایرانی محنت کش طبقے کی جدوجہد کی تاریخ سب کے سامنے رکھی۔ 1979ء کا انقلاب جس میں محنت کش طبقے نے تاریخ رقم کرتے ہوئے شاہ کا تختہ الٹ دیا تھا۔ انقلابِ ایران میں محنت کشوں کے سیکھنے کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ 1979ء میں شاہ کا تختہ الٹنے کے بعد سوشلسٹ انقلاب کے لیے تمام حالات پختہ ہو چکے تھے۔ لیکن لیفٹ کی مختلف پارٹیوں خصوصاً ًتودے پارٹی، جس کی ایرانی محنت کش طبقے میں مضبوط بنیادیں موجود تھیں، کی نظریاتی کمزوریوں کے سبب ایرانی ملاؤں کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع ملا۔
کامریڈ نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران سرمایہ دارانہ ترقی کے سیدھے رستے سے عالمی سرمایہ داری کا حصہ نہیں بنا تھا۔ بلکہ سامراجی طاقتوں کے بالواسطہ اثر و رسوخ نے اسے عالمی منڈی کا حصہ بنایا تھا۔ بیسیوں صدی کے آغاز میں تیل کے ذخائر کی دریافت سے ایران عالمی سرمایہ دارانہ پیداوار کا ایک اہم حصہ بن گیا جس سے ایران پر سامراجی جکڑ بندی اور مضبوط ہوتی گئی۔ ایران کی نیم نوآبادیاتی حیثیت نے ملک کی سماجی ترقی کو ایک ناہموار اور مشترکہ کردار بخشا۔ پھر کامریڈ نے 1905ء اور 1911ء کے آئینی انقلاب، جو کہ بورژوا انقلاب تھا، پر بات کی۔
اس کے بعد 1979ء کے انقلاب سے پہلے کے معروضی حالات پر بات کرتے ہوئے سفید انقلاب White Revolution پر بات کی جو دراصل اوپر سے اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش تھی تاکہ نیچے سے ابھرنے والی انقلابی تحریک کو روکا جا سکے۔ اس طرح کے بنائے گئے دیگر قوانین کے ذریعے شاہی ٹولے کے نیچے موجود طبقوں پر شدید حملہ کیا گیا۔ خاص طور پر ملا جو شاہ کے وفادار حمایتی رہے تھے اور بازار کے تاجر بھی سخت متاثر ہوئے۔ چھوٹے بورژوا طبقے کی بالائی پرتوں پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ، ان اصلاحات نے دیہی علاقوں کے لاکھوں لوگوں کو شہروں کی طرف دھکیل دیا۔ لاکھوں لوگ شہروں کو منتقل ہوئے۔
آخر میں کامریڈ نے انقلاب کے دوران محنت کش طبقے کی ہڑتالوں جس میں تیل کی پیداوار سے جڑے محنت کشوں نے بنیادی کردار ادا کیا، پر بات کی۔ ایران میں اس وقت ایک مزدور حکومت قائم کرنے کے تمام حالات موجود تھے۔ افسوسناک یہ ہے کہ مزدروں کی زبردست انقلابی توانائی کے باوجود ایرانی محنت کش طبقے کو سوشلسٹ انقلاب کرنے سے اس پارٹی نے روک دیا جو نظریے کے حوالے سے انقلاب کی قیادت کرنے والی تھی، یعنی تودے پارٹی۔ اس حوالے سے سٹالنزم کے رد انقلابی نظریات کے کردار کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے اور دنیا بھر میں سٹالن اسٹ قیادتوں کے زیر اثر موجود کمیونسٹ پارٹیوں نے بیسویں صدی میں ابھرنے والے بہت سے انقلابات میں یہی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ درست نظریات کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ غلط نظریات ہمیشہ انقلابات اور تحریکوں کی ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔ اسی لیے لینن نے کہا تھا کہ درست انقلابی نظریے کے بغیر کوئی بھی انقلابی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔
اس سیشن میں آدم پال، لاہور سے ثنااللہ جلبانی، پشاور سے حلیمہ خان اور کوئٹہ سے سیما خان اور لاڑکانہ سے سرفراز نے کنٹریبیوشن کی۔
اس سیشن کے اختتام کے بعد ایک بار پھر استاد ناصر خان نے خوبصورت گائیکی کے ساتھ شرکا کو محظوظ کیا۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر
تین روزہ سکول کا آخری سیشن انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر کے حوالے سے تھا۔ اس سیشن کو چیئر لاہور سے ثنااللہ جلبانی نے کیا اور اس پر لیڈ آف کشمیر سے کامریڈ اجمل رشید نے دی۔
کامریڈ اجمل کا کہنا تھا کہ ہم ایک دلچسپ اور ہنگامہ خیز عہد کے اندر زندہ ہیں۔ ہمیں پوری دنیا میں پرانا توزان ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ امریکہ میں ظہران ممدانی کی حمایت میں بہت اضافہ ہوا ہے جو کہ بائیں بازو کے رجحانات رکھتا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں جیریمی کوربن اور زارا سلطانہ کی نئی پارٹی کے اعلان کے بعد لاکھوں لوگوں نے اس پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح کئی ممالک میں دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے غیر روایتی سیاستدانوں کی حمایت میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس کے بعد کامریڈ نے سری لنکا، جہاں لیفٹ رجحان رکھنے والی پارٹی اقتدار میں ہے، پر بات کی اور بنگلہ دیش پر بھی بات کی جہاں پچھلے سال انقلابی تحریک نے حسینہ واجد کی حکومت کو گرا دیا اور وہاں طلبہ کی قیادت میں نئی پارٹی سامنے آئی ہے۔
اجمل نے پاکستان پر بات کرتے ہوئے یہاں اٹھنے والے مختلف انقلابی تحریکوں پر بات کی۔ سندھ، کے پی کے، بلوچستان، گلگت بلتستان، کشمیر میں مختلف مسائل کے گرد بہت بڑی تحریکیں موجود ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے عوام کی وسیع اکثریت اس نظام سے نا خوش ہے اور تبدیلی کی خواہاں ہے۔ عوام غربت، بے روزگاری، بدامنی سے شدید نفرت کرتی ہے اور ان سے آزادی کی خواہش رکھتی ہے مگر ان خواہشات کی تکمیل کیسے ہو گی اس پر بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔
اس خطے میں موجود انقلابیوں کے سامنے یہ بہت بڑا سوال ہے ان حالات میں کیسے کمیونزم کے انقلابی نظریات کو عوام کے درمیان لے جایا جائے اور کیسے ان نظریات کو سیکھ کر وہ طریقہ کار اور میتھڈ اخذ کیا جائے جسے استعمال کرتے ہوئے اس نظام کو بدلنے کی خواہاں عوام کے پاس لے جا کر نظام کی تبدیلی کی جدوجہد تیز کی جائے۔
اس وقت پوری دنیا میں ہمیں ایک کمی نظر آتی ہے کہ کوئی بھی ایسی پارٹی نہیں، جس کے پاس عوامی مسائل کے حل کا واضح سیاسی پروگرام ہو۔ ایک بہت بڑا خلا موجود ہے اور وہ خلا ہم پُر کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس وہ درست نظریات اور درست سیاسی پروگرام ہے جس کی آج کی انقلابی تحریکوں کو اشد ضرورت ہے۔ آخر میں کامریڈ نے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر کے لیے جمہوری مرکزیت اور پارٹی کے ڈھانچوں کی اہمیت پر بھی بات کی۔
کامریڈ کی لیڈ آف کے بعد مختلف شہروں سے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے نمائندوں نے اپنے شہروں میں پارٹی کی تعمیر کے حوالے سے رپورٹس رکھیں اور آئندہ سرگرمیوں اور ممبرشپ بڑھانے کے حوالے سے ٹارگٹس لیے۔ سکول کے اختتامی کلمات کامریڈ آدم پال نے ادا کیے جس میں انہوں نے دنیا بھر میں انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تیز بڑھوتری کے حوالے سے بات کی۔ انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کا حصہ بننے والوں میں سے بڑی تعداد سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوانوں کی ہے اور کامریڈ نے پاکستان میں بھی نوجوان نسل کی اس پرت پر بات کی جو انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا حصہ بننا چاہ رہے ہیں اور ان تک پہنچنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
اس دوران سکول میں بہت بڑی تعداد میں ایسے نوجوان بھی شریک تھے جو ابھی تک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر نہیں بنے تھے۔ مگر تین دن سکول کے مختلف سیشنز سننے کے بعد ان میں سے ایک بڑی تعداد نے پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا جن میں 5 خواتین بھی شامل ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سکول میں ہونے والی سیاسی بحثیں اس نوعیت کی تھیں جو واقعی میں گلے سڑے سرمایہ دارنہ نظام سے نفرت کرنے والی نوجوان نسل کو ایک امید اور یقین دیتی ہیں کہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی ہی وہ واحد پارٹی ہے جو سفاک سرمایہ دارنہ نظام کو اکھاڑ سکتی ہے اور محنت کش طبقے کو نجات دلا سکتی ہے۔