ایکواڈور: مزدور کسان بغاوت۔۔ حکومت دارالحکومت سے دم دبا کر بھاگ نکلی!

|تحریر: جارج مارٹن|

|ترجمہ: ولید خان|

براعظم لاطینی امریکہ کے ایک ملک ایکواڈور میں صدر لینن مورینو کی سربراہی میں آئی ایم ایف کے مسلط کردہ خوفناک کٹوتیوں اور جبری کفایت شعاری پروگرام کے خلاف 2 اکتوبر کو شروع ہونے والی تحریک بغاوت میں تبدیل ہو چکی ہے۔

گزشتہ جمعرات ریاست نے ایمرجنسی نافذ کر دی لیکن پولیس اور فوج (ایک موت، درجنوں زخمی، کئی سو گرفتاریاں) مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
کچھ صوبوں میں ریاستی عمارتوں پر حملہ بھی کیا گیا ہے جبکہ طاقتور مقامی تنظیم CONIAE (مقامی آبادی کی تنظیم) نے اپنی ”ایمرجنسی“ کا اعلان کر دیا ہے۔ 7 اکتوبر کو مقامی آبادی کے دارالحکومت کویٹو کی طرف مارچ کے پیشِ نظر لینن مورینو کو صدارتی محل چھوڑ کر گوایاکویل بھاگنا پڑا۔ 9 اکتوبر کو مزدور اور کسان عام ہڑتال کی تیاری کر رہے ہیں۔ حکومت ایک کچے دھاگے سے لٹک رہی ہے۔
IMF پروگرام کے خلاف شروع ہونے والی تحریک اب قومی بغاوت بن چکی ہے۔ ٹرانسپورٹ مزدوروں کے ساتھ حکومت کے کامیاب مذاکرات کا اعلان جھوٹ تھا۔ حکومت برق رفتاری سے کنٹرول کھو رہی ہے۔ پولیس کے وحشیانہ جبر اور ایمرجنسی نافذ ہونے کے بعد فوج کے جبر نے صورتحال کو کنٹرول کرنے کے بجائے جلتی پر تیل کا کام دیا ہے۔

حکومت پسپائی پر مجبور ہے


ہر حقیقی انقلابی تحریک ریاست کو طبقاتی بنیادوں پر توڑ دیتی ہے اور حالیہ دنوں میں یہ کیفیت ایکواڈور میں بھی شروع ہو گئی ہے۔ CONIAE نے اپنی ایمرجنسی نافذ کر کے ریاستی طاقت اور تشدد پر اجارہ داری کو براہِ راست چیلنج کیا ہے۔ CONIAE نے اعلان کیا کہ پولیس اور فوج ان کی کمیونٹیوں میں داخل نہیں ہو سکتی اور اگر ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ اور ایسا کم از کم تین مرتبہ ہو چکا ہے۔
جمعہ کے دن کویٹو کے شمال میں امابابورا صوبے میں اٹاوالو کے مقام پر کمیونٹی نے مداخلت اور حفاظت گروپ کے 10 پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا اور انہیں اگلے دن مذاکرات کے بعد آزاد کیا۔ گوایاکویل کے مشرق میں چیمبورازو صوبے میں آلاؤسی میں نیزاگ کے مقام پر کمیونٹی نے گالاپاگوس آرمرڈ کیولری بریگیڈ کے 47 فوجیوں اور 10 پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا جنہوں نے عوام پر آنسو گیس شیل برسائے تھے۔بلاآخر انہیں پیر کے دن آزاد کیا گیا اور انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے علاقے سے نکالا گیا۔ اتوار کے دن نوجوان مظاہرین کو گرفتار کرنے کے جرم میں کویٹو کے جنوب میں کوٹوپاکشی صوبے میں لاٹاکونگا کے مقام پر کوٹوپاکشی کی مقامی مزدور کمیونٹی یونین نے پولیس اور فوجی افسران کے ایک گروہ کو گرفتار کر لیا۔
دیگر قصبوں میں سڑکوں کی ناکہ بندی ختم کرنے میں ناکامی کے بعد پولیس اور فوج پسپا ہو چکی ہے۔ایسی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں جن میں پولیس کو تحریک پر جبر کرنے کے لئے بھیجا گیا اور وہ کویٹو کی طرف مارچ کرنے والے مقامی کسانوں کو روکنے یا گرفتار کرنے کے بجائے انہیں اسکارٹ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کچھ عام فوجی اپنے مظاہرہ کرتے بھائیوں، بیویوں اور ماؤں سے ہمدردی رکھتے ہوں گے۔ دیگر نے فیصلہ کیا ہو گا کہ اس حکومت کے دفاع میں مار کھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ اکا دکا واقعات ہیں لیکن بہرحال انتہائی اہم ہیں۔
اتوار کی رات لینن مورینو نے ”ہمارے مقامی بھائیوں“ سے مذاکرات کی پیشکش کی اور اس کا لہجہ جمعرات کے دن ایمرجنسی نافذ کرتے وقت سے بہت مختلف تھا۔ اس وقت اس نے یہ کہا تھا کہ لاگو کئے گئے اقدامات پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا اور دھمکی دی تھی کہ مظاہرین کو اپنیکیے کا ”حساب دینا پڑے گا“۔ اس نے کہا تھا کہ ”تشدد اور انتشار جیت نہیں سکتے۔ میں پیچھے نہیں ہٹوں گا کیونکہ حق کمزور نہیں ہوتا“۔ اب حالات کے شدید دباؤ میں وہ ”مخلصانہ مذاکرات“ کی پیشکش کرنے پر مجبور ہے۔ اب بہت دیر ہو چکی۔ تحریک کا آغاز میں نعرہ تھا کہ ”پروگرام جائے گا یا حکومت“۔ اب پروگرام ختم کرنے کے لئے حکومت کا جانا ناگزیر ہو چکا ہے۔
پیر کا آغاز ایک مفلوج حکومت سے ہوا جو مکمل طور پر کنٹرول کھو چکی ہے۔ صبح سویرے بکتر بند گاڑیاں فوجیوں کو لے کر صدارتی محل پہنچ گئیں۔ CONIAE قائد جیمی وارگاس نے مذاکرات کی پیشکش کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جابر حکومت سے مکمل طور پر گفت و شنید ختم کر دی گئی ہے اور دارالحکومت کی طرف مارچ کیا جا رہا ہے۔ مقامی آبادیوں کے دیو ہیکل جتھے پہلے ہی کویٹو کی طرف مارچ شروع کر چکے تھے اور انہیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی۔ کویٹو کی جانب مارچ کے دوران تمام سڑکوں پر مظاہرین اور پولیس اور فوج کی جھڑپیں ہوئیں لیکن ہر جگہ ریاست کو ناکامی ہوئی۔
شہر کے ایک داخلی مقام پر مظاہرین نے ایک بکتر بند گاڑی کو آگ لگا دی۔حالیہ دنوں میں کئی شہروں میں لوٹ کھسوٹ ہوئی اور پیر کے دن دارالحکومت میں کئی مقامات پر توڑ پھوڑ کی گئی۔CONIAE نے واضح کیا کہ یہ کام گھس بیٹھیے کرائے کے غنڈوں کا ہے اور وہ مقامی حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے مظاہروں کی حفاظت کریں گے۔
مزدور کسان جتھے دارالحکومت میں اپنی راہ میں موجود ہر رکاوٹ کو عبور کرتے ہوئے کارونڈیلیٹ محل کی جانب بڑھ رہے تھے جس کے لئے بھاری حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے۔مظاہرین کے ایک گروہ نے قومی اسمبلی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ بالآخر حکومت کو طے شدہ پریس کانفرنس منسوخ کرتے ہوئے صدارتی محل سے تمام صحافیوں کو بحفاظت نکالنا پڑا۔ ٹی وی پر نائب صدر، وزیرِ دفاع اور آرمی جرنیلوں کے جھرمٹ میں خطاب کرتے ہوئے لینن مورینو نے اعلان کیا کہ وہ حکومت گوایاکویل منتقل کر رہا ہے۔ مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کی یلغار کے سامنے پوری ریاست دارالحکومت سے دم دبا کر بھاگ نکلی!
اپنی تقریر میں لینن مورینو نے پرانا بھونڈا حربہ استعمال کرتے ہوئے تحریک پر الزام لگایا کہ یہ تحریک درحقیقت وینزویلا کے صدر ماڈورو اور سابق ایکواڈور صدر کورایا کی سازش ہے۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز الزام ہے کیونکہ یہ IMF اور خود مورینو ہے جس نے شدید نفرت انگیز پروگرام عوام پر مسلط کیا ہے جبکہ تحریک میں شامل تمام مرکزی تنظیمیں عرصہ دراز سے سابق کورایا کے خلاف جدوجہد کر تی رہی ہیں۔مورینو کے الزامات تحریک پر کیچڑ اچھالنے کی آخری مایوس کن کوشش ہے۔درحقیقت، اکتوبر پروگرام بارود کی ڈھیری میں محض ایک چنگاری ثابت ہوا ہے کیونکہ پچھلے دو سالوں سے مورینو حکومت مزدور طبقے اور عوام پر وحشیانہ معاشی حملے کر رہی ہے۔

تحریک کو منظم کرو! حکومت کا تختہ الٹ دو!


تحریک نے انتہائی اہم اقدامات کئے ہیں۔ ملک کا بیشتر علاقہ رکاوٹوں سے مفلوج ہے۔ مقامی آبادیاں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بعد کویٹو پہنچ چکی ہیں۔ ریاست کی طاقت کو جزوی طور پر چیلنج کیا جا چکا ہے۔ بغاوت کے نتیجے میں ریاست دارالحکومت چھوڑ کر بھاگ گئی ہے۔ قومی اسمبلی معطل ہو چکی ہے۔ لیکن ابھی مکمل فتح حاصل نہیں ہوئی۔ حکومت ابھی بھی برسرِ اقتدار ہے، معاشی پروگرام ابھی بھی لاگو ہے۔
CONIAE نے کویٹو میں ایک عوامی اسمبلی کا اعلان کر دیا ہے اور کل مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کا اتحاد پورے ملک میں عام ہڑتال کر رہا ہے۔
دوسری طرف آمر شاہی اور سامراج اپنی قوتوں کو منظم کر رہا ہے۔گوایاکویل میئر نیبوٹ جس نے پہلے مورینو کے اقدامات پر سخت تنقید کی اب کہہ رہا ہے کہ ”جمہوریت، امن، آزادی، شہروں، خاندانوں اور ملکیت کے دفاع کے لئے اتحاد“۔ گلی سڑی تعفن زدہ ایکواڈورئن آمر شاہی کے نمائندے اور بورژوا کرسچن سوشل پارٹی کا قائد نیبوٹ ”جمہوریت“ اور ”امن“ کے پیچھے چھپ کر سب سے پہلے ”ملکیت“ کا تحفظ کرنا چاہتا ہے یعنی بورژوا ملکیت۔ امریکہ نے بھی فوراً اپنی کٹھ پتلی کا دفاع کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں ”تشدد بطور احتجاج“ پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ آمر شاہی کے ذرائع ابلاغ مسلسل دروغ گوئی کرتے ہوئے تحریک پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔
تحریک مسلسل آگے بڑھ رہی ہے اور قوت حاصل کر رہی ہے۔بغاوت تیزی سے پھیل رہی ہے یعنی مظاہرین کے ہاتھوں پولیس اور فوجیوں کی گرفتاریاں، پولیس اور فوج کی رکاوٹوں کو روندنا، کسان تحفظ اقدامات، حکومت کا دارالحکومت سے بھاگ جانا، عوامی اسمبلی کا قیام وغیرہ۔ انتہائی اہم ہے کہ ان اقدامات کو مزید تقویت دیتے ہوئے پھیلایا جائے۔ مزدوروں، کسانوں اور طلباء تنظیموں کو جدوجہد کے لئے متحد قیادت فراہم کرنا ہو گی۔ عوامی اسمبلی کو مزید تقویت دیتے ہوئے اس میں فیکٹریوں، مقامی کمیونٹیوں، یونیورسٹیوں اور اسکولوں کے مندوبین (جنہیں کسی بھی وقت تبدیل کیا جا سکتا ہو) شامل کرنے چاہیے تاکہ یہ حقیقی جدوجہد اور طاقت کا ادارہ بن جائے۔ مقامی آبادی تحفظ یونٹس کو مزید منظم کرتے ہوئے مزدوروں اور کسانوں کی دفاعی تنظیمیں قائم کرنی چاہیے تاکہ تحریک کا دفاع کیا جا سکے۔
ماضی میں ایکواڈور میں مزدور کسان اتحاد نے زبردستی معاشی کٹوتیاں لاگو کرنے والی دو حکومتوں کا تختہ الٹا ہے، 1997ء میں بوکارام اور 2000 ء میں ماہواد۔ تاریخ دہرانے کے لئے حالات بہترین اور سازگار ہیں۔ لیکن یہ بھی اہم ہے کہ ماضی کے دیو ہیکل واقعات سے اہم اسباق حاصل کئے جائیں۔ دونوں واقعات میں عوام نے بورژوا حکومت کا تختہ الٹ دیا لیکن اقتدر پر قبضہ نہیں کر سکی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک بورژوا حکومت کے ختم ہونے کے بعد اس کی جگہ دوسری بورژوا حکومت نے لے لی اور جب عوامی تحریک کا زور ٹوٹا تو وہی پالیسیاں مسلط کر دی گئیں۔
ان واقعات سے درست نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ معاشی جبر کے پروگرام کو ختم کرنے کے لئے لینن مورینو کی حکومت کا خاتمہ لازمی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں۔ کورایا کا کہنا ہے کہ معاشی جبر کا پروگرام ”خالصتاً کرپشن اور نااہلی“ کا نتیجہ ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ یہ نتیجہ عالمی سرمایہ داری کے تباہ کن بحران کے اثرات کا نتیجہ ہے، ایک ایسے ملک میں جو سامراج اور برآمدات میں جکڑا ہوا ہے۔ مزدوروں اور کسانوں کو ہر صورت اقتدار پر قبضہ کرنا ہو گا تاکہ ملک کے وسائل عام عوام کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کئے جائیں۔ صرف حکومت کا تختہ الٹنا ہی کافی نہیں، سامراج نواز آمر شاہی سے سیاسی اقتدار اور معاشی قوت چھیننا لازم ہے۔

Comments are closed.