اداریہ ہلہ بول: نجی تعلیم پہ ہلہ بول

جنوری کے آخری دو ہفتوں میں پورے ملک میں بیشتر یونیورسٹیوں کے طلبہ آن کیمپس امتحانات کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ دارالحکومت اسلام آباد سے شروع ہونے والے احتجاج کا یہ سلسلہ دیکھتے ہی دیکھتے خودرو انداز میں ملک کے چھوٹے بڑے شہروں تک پھیل گیا۔ مگر جب لاہور میں واقع ایک نجی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے طلبہ آن کیمپس امتحانات کے خلاف احتجاج کرنے نکلے تو نہ صرف ان کو یونیورسٹی کے سیکیورٹی گارڈز بلکہ پنجاب پولیس کے ہاتھوں بھی بدترین جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس نے پر امن احتجاجی طلبہ پر یوں لاٹھی چارج کیا جیسے کوئی عادی مجرم ہوں اور چالیس سے زائد طلبہ کو گرفتار کرکے مقدمات درج کر ڈالے۔

یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے طلبہ کے ساتھ ہونے والا سلوک یہ بات کی واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ نجی تعلیمی مافیا لوٹ کھسوٹ کر کے کس قدر طاقتور ہوچکا ہے بلکہ تعلیم کے شعبے میں ایک فیصلہ کن کھلاڑی کے طور پر موجود ہے۔ اس یونیورسٹی کا مالک کوئی معمولی شخص نہیں بلکہ میاں عامر محمود ہے جو کہ میڈیا ٹائیکون ہے اور جس کو نجی تعلیمی مافیا کا سرغنہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا جس کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جال ملک کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے۔ مگر تعلیم کے کاروبار کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والا یہ کوئی اکیلا سرمایہ دار نہیں ہے بلکہ ملک کی فوج، فضائیہ اور بحریہ سے لے کر بڑے بڑے سرمایہ دار گروپ، صنعتکار، تاجران، اور مذہبی و ریاستی اشرافیہ سب اس دھندے سے خوب مال بنا رہے ہیں۔

ملک کے طول و عرض میں پھیلے نجی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ان چینز کے اغراض ومقاصد پڑھے جائیں تو کوئی بھی سادہ لوح شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا اور یہی سمجھے گا کہ واقعی یہ نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں اور ریاست کی ناکامی سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کر رہے ہیں۔ مگر حقیقت اتنی سادہ نہیں ہے۔ اس تمام تر خوش کن لفاظی کے پیچھے اس نجی تعلیمی مافیا کا واحد مقصد مال بنانا ہے۔ گو کہ ان نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ اور ان کے والدین کی اکثریت اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہے مگر اس کا واضح اظہار کرونا لاک ڈاؤن میں ہوا جب عوام کی ایک بھاری اکثریت معاشی مسائل میں گھری ہوئی تھی، اس مشکل گھڑی میں بھی اس مافیا نے اپنے منافعوں پر آنچ نہ آنے دی اور دھونس، دھمکیوں اور حیلے بہانوں سے والدین سے پیسے اینٹھنے کے سلسلے کو جاری رکھا۔ اور دوسری جانب بیشتر نجی تعلیمی اداروں نے سٹاف کو جبری برطرف اور باقی ماندہ کی تنخواہیں آدھی آدھی کاٹ لیں۔ یہ ہے ان کا حقیقی چہرہ۔

”پرائیویٹ ہے تو اچھی توہوگی“، یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے۔ میڈیا اور دیگر ذرائع سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی گئی ہے۔ خاص طور پر مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس اس کا ہدف بنتی ہے۔ کسی فیکٹری کا ورکر تو نجی سکول یا کالج میں بچوں کو پڑھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مگر اس جملے میں کتنی حقیقت ہے اس کا سب سے بہترین اندازہ ہائیر ایجوکیشن یا یونیورسٹیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ چند کنالوں پر قائم یونیورسٹیوں میں دنیا کا ہر شعبہ قائم ہے۔ نہ مناسب عمارت، نہ کوئی انڈکشن سٹینڈرڈ، نہ درکار سٹاف، نہ مناسب لیبارٹریاں اور لائبریریاں، غرض کسی بھی پیمانے پر ماپ لیا جائے تو اس بات میں کوئی حقیقت نظر نہیں آتی۔ کیا اتنے سالوں میں کسی ایک بھی نجی یونیورسٹی نے کوئی گراؤنڈ بریکنگ ریسرچ یا انوویشن میں نام بنایا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہ سراسر فراڈ ہے۔ اور ان کا مقصد پیسے لے کر ڈگریاں بانٹنا ہے۔ جس کی جیب میں پیسے ہوں گے وہ ڈگری خرید سکتا ہے۔

نجی تعلیمی مافیا کی اس اندھا دھند لوٹ مار کی بنیادی ترین وجہ یہاں کے حکمرانوں اور ریاست کی ناکامی ہے۔ جمہوریت ہو یا آمریت، تعلیم کا شعبہ ہمیشہ زبوں حالی کا ہی شکار رہا۔ جو بھی حکومت آئی اس نے سب سے پہلا کٹ تعلیم اور صحت کے بجٹ پر ہی لگایا۔ تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں کا سلسلہ ایک لمبے عرصے سے جاری ہے اور اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ موجودہ تعلیمی انفراسٹرکچر کو قائم رکھنا بھی مشکل ہوچکا ہے۔ اسی لیے تعلیمی اداروں کی نجکاری کا سلسلہ بھی مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ پچھلے چند سالوں میں سرکاری یونیورسٹیوں کی فیسوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے کے بعد نجی اور سرکاری یونیورسٹیوں کی فیسوں میں فرق آہستہ آہستہ مٹتا جا رہا ہے۔ یہ نجکاری یا پرائیویٹائزیشن کی ہی ایک شکل ہے۔ غریبوں اور محنت کشوں کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ختم کرکے اس کی جگہ پاکستان میڈیکل کمیشن تشکیل دیا گیا جسے طلبہ اور ڈاکٹرز نے بجا طور پر ”پرائیویٹ میڈیکل کمیشن“ کا نام دیا۔ اس کا مقصد میڈیکل ایجوکیشن کی ڈی ریگولیشن اور نجی میڈیکل کالجوں کو کھلی لوٹ مار کی اجازت دینا ہے۔ یہ بھی نجکاری کی ہی ایک شکل ہے۔ نجکاری کی اس فہرست میں اگلی باری سرکاری کالجوں کی ہے جو کہ آج بھی انتہائی کم فیسوں پر تعلیم دیتے ہیں۔

یہاں ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر ریاست ہر سطح پر مفت اور معیاری تعلیم خود مہیا کرے، آبادی کے تناسب سے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنائے تو کیا کوئی نجی تعلیمی ادارہ اپنا وجود قائم رکھ سکے گا۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ مگر پھر ایسا ہو کیوں نہیں رہا؟ اس کی وجہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں ہر چیز بشمول تعلیم بیچنے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اس نظام میں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی انسانی سہولیات بھی خریدنے اور بیچنے کی اشیاء بن چکی ہیں۔ رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیاں اور یہ ریاست اس نظام کے پروردہ ہیں۔ یہ نجی تعلیمی مافیا بالواسطہ یا بلاواسطہ تمام تر تعلیمی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ مافیا تو کبھی نہیں چاہے گا کہ ان کی دکانیں بند ہوجائیں۔ یہ تو اپنے منافعوں کی حفاظت کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔ یوسی پی والا واقعہ تو بس ایک ٹریلر تھا۔

محنت کشوں اور غریبوں کے بچوں کے لیے تو تعلیم پہلے ہی ایک عیاشی بن کر رہ گئی تھی مگرگہرے ہوتے معاشی بحران اور بڑھتی بیروزگاری کے باعث درمیانے طبقے کے لیے تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دوسری جانب حکمرانوں کی اولادیں پہلے ہی بیرون ملک سے جدید تعلیم حاصل کرتی ہیں جبکہ یہاں محنت کشوں کے لیے موجود پسماندہ ترین تعلیمی انفراسٹرکچر کو ختم کیا جا رہا ہے اور ایک دفعہ پھر تعلیم حکمرانوں کے گھر کی لونڈی بنا دی گئی ہے۔ اس عمل میں نجی تعلیم کے مافیا کا کردار چند دہائیوں میں تیزی سے بڑھا ہے جس کی وجہ طلبہ تحریک کی پسپائی ہے۔

اس نجی تعلیمی مافیا کی لوٹ مار کو ختم کرنے کاایک ہی راستہ ہے کہ طلبہ انقلابی بنیادوں پر منظم ہوں اور تعلیم کے اس کاروبار کے خلاف جنگ کا اعلان کریں۔ مفت تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور ریاست اس کی ذمہ دار ہے۔ تمام نجی تعلیمی اداروں کو نیشنلائز کرنے اور سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری اور فیسوں کے خاتمے کے نعرے کے گرد اس جدوجہدکو منظم کیا جائے۔ آن کیمپس امتحانات کے خلاف ہونے والے احتجاج تو بس ایک چنگاری تھی مگر یہ چنگاری کسی بھی لمحے انقلاب کے شعلے کا روپ دھار سکتی ہے۔

Comments are closed.