|اداریہ: ماہانہ کمیونسٹ|

حالیہ سیلاب نے ایک دفعہ پھر سرمایہ دارانہ نظام اور حکمران طبقے کی مکمل ناکامی کو عیاں کر دیا ہے۔پورے ملک میں لاکھوں خاندان اس سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اور ہزاروں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ لاکھوں افراد کی زندگی بھر کی جمع پونجی اس سیلاب میں بہہ گئی ہے جبکہ کھڑی فصلوں اور مال مویشی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ بڑے شہروں میں بھی حالیہ بارشوں نے تباہی مچائی ہے اور تمام تر انفرااسٹرکچرکی بوسیدگی اور کھوکھلا پن اس سیلاب نے ظاہر کر دیا ہے۔
حکومت کی جانب سے صرف بیان بازی اور مگرمچھ کے آنسو ہی نظر آئے ہیں جبکہ عوام کو اس قدرتی آفت سے مقابلہ کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ الٹا عوام کو بچانے اور مدد کرنے کی بجائے بہت سی جگہوں پر حکمران طبقے کے افراد کی جائیدادیں اور زمینیں بچانے کے لیے بند توڑے گئے ہیں اور پانی کا رخ غریب بستیوں کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔اسی طرح ان برباد عوام پر اشیا کی مصنوعی قلت اور ہوشربا مہنگائی کے بم گرائے جاتے ہیں اور ان لٹے پھٹے لوگوں کی جیبوں سے آخری سکے بھی ہڑپ کر لیے جاتے ہیں۔

گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث یہ قدرتی آفات اب معمول بن چکی ہیں اور آئے روز اس ملک کے عوام کو یہ آفات لقمہ اجل بنا رہی ہیں اور انکی بربادی کا سبب بن رہی ہیں۔اس ملک کے حکمران اور ان کا پالتو میڈیا اس تمام صورتحال کو قدرتی مظاہر پر ڈال کر بری الذمہ ہو رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ حکومت صرف آنسو بہانے اور رونے دھونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔ جبکہ یہ سب جھوٹ ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ان قدرتی آفات کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کی مناسب منصوبہ بندی بھی کی جا سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف قیمتی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ عوام کی زندگی بھر کی کمائی بھی برباد ہونے سے بچ سکتی ہے۔کلاؤڈ برسٹ یا بادل پھٹنے کے واقعات سے لے کر گلیشئیرز کے پگھلنے تک اور پانی کے بہاؤ کا حجم ماپنے تک تمام تر آلات موجود ہیں اور اگر حکمران چاہیں تو ان عوامل کے آنے سے پہلے ہی ان سے نپٹنے کے انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔
لیکن یہاں پر سرمایہ دارانہ نظام کی بے قابو ہوس کے نتیجے میں پہلے سے موجود حفاظتی انتظامات کو بھی تہہ و بالا کیا جاتا ہے اور دریاؤں کے رستے میں ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بنا کر اربوں روپے لوٹنے کے ساتھ ساتھ ریسکیو اور دیگر حفاظتی اقدامات کو مکمل طور پر نظر اندا ز کر دیا جاتا ہے۔اسی طرح قدرتی آفت کے دوران بھی حکمرانوں کی زیادہ تر توجہ اپنی تشہیر اور لوٹ مار کی جانب ہوتی ہے اور عوام کو اس قدرتی آفت کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اور خود بھیک کا کٹورا لے کر دنیا بھر کے دورے کیے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مال اپنی جیبوں میں ٹھونسا جا سکے۔ضلعی انتظامیہ سے لے کر صوبائی اور وفاقی حکومتیں ان قدرتی آفات کے دوران مکمل طور پر ناکام نظر آئی ہیں بلکہ الٹا ریسکیواور ریلیف کے کاموں میں رکاوٹیں ڈالتی نظر آتی ہیں تاکہ حکمران طبقے کے مذموم ایجنڈے کو تحفظ دیا جا سکے اور عوام کو حکمرانوں کیخلاف احتجاج کرنے یا منظم ہونے سے روکا جائے۔اسی طرز حکمران طبقے کی گماشتہ سیاسی پارٹیاں فروعی ایشوز اور قومی و علاقائی تعصبات کو فروغ دیتی ہیں تاکہ اصل مسائل سے توجہ ہٹائی جا سکے اور اس سرمایہ د ارانہ نظام سے باہر کسی حل کی طرف بحث نہ جا سکے۔اسی طرح مختلف این جی اوز اور خیراتی ادارے بھی ان قدرتی آفات میں اپنی دکانداری چمکاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور حکومتی سرپرستی میں لوٹ مار کے لیے سرگرم ہوجاتے ہیں۔
اس صورتحال میں عوام کے پاس واحد رستہ یہی رہ جاتا ہے کہ وہ خود منظم ہو کر ان قدرتی آفات کا مقابلہ کریں اور اپنی جان و مال کے تحفظ کے لیے خود آگے بڑھ کر اقدامات کریں۔اس کے لیے سب سے پہلے ہر علاقے کے عام لوگوں کو منتخب عوامی کمیٹیوں میں منظم ہونے کی ضرورت ہے اورکسی بھی قدرتی آفت کے دوران منتشر ہونے اور حکومت سے مدد کا انتظار کرنے کی بجائے کمیٹیوں کے اجلاس بلانے کی ضرورت ہے۔ان اجلاسوں میں فوری اقدامات کے بارے میں فیصلے کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے درکار وسائل کی فراہمی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح قدرتی آفت سے متاثرہ افراد کو فوری طور پر رہائش، خوراک اور ادویات سمیت تمام ضروریات فراہم کرنے کے لیے فوری طور پر انتظام کرنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح اگر کسی جگہ حکمران طبقے کے افراد کو بچانے کے لیے کوئی بند توڑنے کی کوشش کی جائے یا محنت کشوں کی آبادیوں کو تاراج کیے جانے کے فیصلے کیے جائیں تو اس کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے اسے مل کر روکنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح مختلف علاقوں کی کمیٹیوں کو ایک دوسرے سے رابطے میں آنے کی ضرورت ہے اور مل کر آگے کا لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے یونین کونسل کی سطح سے لے کر تحصیل اور ضلع تک کی کمیٹیوں کے ڈھانچے بنانے کی ضرورت ہے اور ان کمیٹیوں کے منتخب نمائندوں کے ذریعے جمہوری انداز میں مشاورت کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ان کمیٹیوں میں حکمران طبقے کے افراد، سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور حکومتی نمائندوں کو شامل ہونے کی اجازت بالکل بھی نہیں دی جا سکتی اور علاقے میں موجود مزدور تنظیموں کے ساتھ جڑتے ہوئے محنت کش طبقے کی یکجہتی کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ ان کمیٹیوں میں ان قدرتی آفات کی وجوہات اور اثرات کے بارے میں رجعتی اورحکومتی پراپیگنڈہ نظر انداز کرتے ہوئے سائنسی بنیادوں پر بحث کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی درست تشخیص کی جا سکے اور ان کی روک تھام یا ان سے نپٹنے کا مناسب انتظام کیا جا سکے۔انسان لاکھوں سال سے قدرتی آفات اور مشکلات سے لڑتا ہوا اور ترقی کرتا ہوا ہی یہاں تک پہنچا ہے اور انسانی تہذیب نے ان مشکلات کو شکست دے کر ہی خود کو محفوظ رکھا ہے اور ترقی دی ہے۔
لیکن آج دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ مار اور منافع کی ہوس اس پوری انسانی تہذیب کی بقا کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔جب تک یہ نظام موجود ہے اور سرمایہ دار طبقہ اپنی دولت کی اندھی ہوس میں پاگل ہو کر اسی طرح سما ج کو تاراج کرتا رہے گا تو ان قدرتی آفات کی رفتار اور شدت بڑھتی جائے گی اور یہ ہر دفعہ پہلے سے زیادہ تباہی مچائیں گی۔ اس لیے ان سے پورے سماج کو تحفظ دینے اور ان پر قابو پانے کے لیے اس نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے ان قدرتی آفات سے نپٹنے کے لیے بننے والی کمیٹیوں میں کمیونزم کے انقلابی نظریات کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ تمام افراد کی سیاسی اور نظریاتی تربیت کرتے ہوئے انہیں زیادہ بہتر اندازمیں منظم کیا جا سکے اور اس ظالمانہ نظام کیخلاف انقلابی جدوجہد ملک گیر سطح پرمنظم کی جا سکے۔