اداریہ ورکرنامہ: انتخاب یا انقلاب؟

اس نظام کے انتخابات کا مضحکہ خیز فراڈ محنت کش عوام پر عیاں ہو چکا ہے۔ایسے میں سوال ابھرتا ہے کہ اگر انتخابات کے ذریعے تبدیلی نہیں آ سکتی اور ہر صورت میں وہی کرپٹ اور عوام دشمن افراد ہی بر سر اقتدار آئیں گے تو پھر حقیقی تبدیلی کیسے آ سکتی ہے۔ایسے میں کچھ لوگ تو کم تر برائی کی بھونڈی دلیل انتہائی مدبرانہ انداز میں پیش کرتے ہیں جیسے یہ کوئی نئی دوائی ہو جو تازہ تازہ مارکیٹ میں آئی ہے۔درحقیقت کم تر برائی کی دلیل پوری دنیا میں فلاپ ہو چکی ہے اور ہر جگہ عوام کی اکثریت نے اسے رد کیا ہے۔امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات میں ہیلری کلنٹن نے یہی نسخہ بیچنے کی کوشش کی تھی جسے امریکی عوام نے رد کر دیا تھا اور اسٹیٹس کو کے دشمن دائیں بازو کے امیدوار ٹرمپ کو ووٹ دے دیا تھا۔اسی طرح پاکستان میں بھی یہ نسخہ کئی دفعہ آزمایا جا چکا ہے۔ضیا الباطل اور مشرف کی آمریت میں جمہوریت کو نسخہ کیمیا بنا کر پیش کیا گیا تھا جبکہ جمہوری ادوار میں جرنیلوں کے اقتدار کی راہ ہموار کی جاتی رہی ہے۔دونوں طرز حکومت میں کچومر عوام کا ہی نکالا جاتا ہے۔ نہ تو کسی پالیسی میں تبدیلی آتی ہے اور نہ حکمرانوں کی لوٹ ما رمیں کمی ہوتی ہے۔ حکمران وردی میں ہوں یا وردی کے بغیر دونوں کا مقصد تیزی سے مال و دولت سمیٹ کر ملک سے فرارہونا ہی ہے۔اسی طرح زرداری کے دور میں نواز شریف نے لوڈ شیڈنگ اور دیگر مسائل کے حل کا نعرہ لگایا اور اسے زرداری سے کمتر برائی قرار دیا گیا۔ اب یہی کچھ عمران خان کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مسئلہ شخصیات اور سیاسی پارٹیوں کا نہیں بلکہ سماجی-معاشی نظام کا ہے۔پاکستان سمیت پوری دنیا میں رائج سرمایہ دارانہ نظام اس وقت شدید بحران کا شکار ہے اور عوام کی اکثریت کو غربت اور ذلت کی خونی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔امریکہ، یورپ اور چین سمیت تمام ممالک کی معیشتیں شدید بحران کا شکار ہیں اور وہاں پر سیاسی و سماجی عدم استحکام کو جنم دے رہی ہیں۔بیروزگاری کا عفریت پوری دنیا میں پھیل چکا ہے اور عوام کے معیار زندگی پر مسلسل بڑے حملے کیے جا رہے ہیں۔سرمایہ دار اور دنیا کے امیر ترین افراد اپنے منافعوں میں اضافے کو برقرار رکھنے کے لیے پوری دنیا کے محنت کش عوام کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔اس کیخلاف ہر طرف تحریکیں اور ہڑتالیں برپا ہو رہی ہیں اور انقلابی تحریکیں بھی ابھر رہی ہیں۔

پاکستان میں بھی مسئلہ کسی ایک معاشی پالیسی یا وزیر کی کرپشن کا نہیں ہے۔نہ ہی کسی ایک عدالتی فیصلے یا پارلیمنٹ کی قرار داد سے کوئی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے جس کی بنیاد یہاں پر موجود سرمایہ دارانہ نظام ہے۔اس نظام میں صرف کرپٹ اور عوام دشمن افراد ہی حکومت کر سکتے ہیں ان کا تعلق خواہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی میں ہوں، وردی میں ہوں یا وردی کے بغیر، سرمایہ دار ہوں یا جاگیر دار۔ ان کی کوئی بھی قوم ، مذہب اور فرقہ ہو اس سے فرق نہیں پڑتااس نظام کو اس وقت جرائم پیشہ ، بد عنوان اور عوام دشمن افراد کی حکمرانی کی ضرورت ہے۔عمران خان نے بھی خود اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے اور ایسے ہی افراد کو اپنی پارٹی کے ٹکٹ جاری کیے ہیں تاکہ ان کے کندھوں پر چڑھ کر اقتدار کی ہڈی حاصل کر سکے۔

اگر اس ملک میں کوئی ایک بھی مسئلہ حل کرنا ہے تو اس سرمایہ دارانہ نظام کو بدلنا ہوگا۔اس نظام کی عدالتوں، پارلیمانی نظام اور دیگر ریاستی اداروں کو اکھاڑ کر اس کی جگہ مزدور ریاست اور اس کے اداروں کو قائم کرنا ہو گا۔ مزدور ریاست میں سب سے پہلے ذرائع پیداوار کو نجی ملکیت سے نکال کر اجتماعی ملکیت میں لیا جائے گا اور تمام کلیدی صنعتوں، مالیاتی اداروں اور بینکوں کو سرکاری تحویل میں لیتے ہوئے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے گا۔ آج سماج کی ترقی کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت ہے۔یہاں کی عدالتیں، قانون، آئین، پارلیمنٹ اور تمام ریاستی ادارے اسی ملکیت کے تحفظ کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ یہ نجی ملکیت نسل در نسل منتقل ہوتی ہے جس کے باعث امیر کی اولادامیر اور غریب کی نسلیں غریب ہی رہتی ہیں۔ مزدور ریاست میں اس نجی ملکیت کے نظام کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا اور سماج کو اس اذیت سے چھٹکارا دلا کر اجتماعی ترقی کے رستے پر ڈالا جائے گا۔

امیر اور غریب کی غیر منصفانہ تقسیم کو ختم کرنے کے بعد ہی حقیقی جمہوریت قائم ہو سکے گی جس میں مزدور اپنے حقیقی نمائندے منتخب کر سکیں گے۔مزدور ریاست میں منتخب نمائندوں کی مدت سالوں یا مہینوں پر محیط نہیں ہو گی بلکہ عوام کو اپنے نمائندے کو کسی بھی وقت واپس بلانے اور اس کی جگہ نیا نمائندہ بھیجنے کا اختیار حاصل ہو گا۔آج پانچ سال کی مدت کا قانون عوام کے لیے عذاب بن چکا ہے۔ انتخابات میں حکمران طبقے کے افراد دولت اور ریاستی اداروں کی ملی بھگت سے کامیابی حاصل کر کے عوام پرپانچ سال کوڑے برساتے رہتے ہیں اور بتایا یہ جاتا ہے کہ یہ آپ کے اپنے نمائندے ہیں۔ عوام کو اس نمائندے پر عدم اعتماد کا کوئی اختیار نہیں۔مزدور ریاست میں اس قانون کا خاتمہ ہو گا اور منتخب نمائندے ہر وقت عوام کو جوابدہ ہوں گے۔

مزدور ریاست میں کسی بھی سرکاری اہلکار کی تنخواہ عام ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہو گی۔آج کے ججوں، جرنیلوں اور منتخب نمائندوں کی تنخواہوں اور مزدور کی اجرت میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔مزدور ریاست میں یہ تفریق ختم ہو گی اور تمام منتخب نمائندوں اور دیگر اہم ذمہ داریوں پر موجود افراد کی تنخواہیں عام ہنر مند مزدور کی تنخوا سے زیادہ نہیں ہو سکیں گی۔

اس کے علاوہ مزدور ریاست میں اہم ذمہ داریوں پر جہاں مزدوروں کے نمائندے موجود ہوں گے وہاں انہیں ایک ہی ذمہ داری پر مسلسل براجمان رکھنے کی بجائے دیگر ذمہ داریاں ادا کرنے کا موقع بھی دیا جائے گا۔ لینن کے الفاظ میں ’’وزیر اعظم باورچی بنے گا اور باورچی وزیر اعظم!‘‘

اسی طرح مزدور ریاست میں سامراجی قرضوں اور سود کے سلسلے کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا اور بینکوں کے موجودہ نظام کا انت ہو گا۔تمام تر بیرونی تجارت مزدور ریاست کے مکمل کنٹرول میں ہو گی ۔ اسی طرح سامراجی ممالک کی غلامی کا طوق اتار کر پھینکا جائے گا اور دنیا بھر کے محنت کشوں کو یکجا کرنے کے عمل کا آغاز ہو گا ۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے لے کر اقوام متحدہ تک تمام سامراجی اداروں کے خلاف ناقابل مصالحت جنگ کا آغاز ہو گا اور ان کی کاسہ لیسی سے نجات ملے گی۔

مزدورریاست میں انہی اقدامات کے نتیجے میں روٹی، کپڑا اور مکان ہر شخص کو فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہو گی اور کوئی بھی شخص بھوکا اور بغیر چھت کے نہیں رہے گا۔ ریاست تمام افراد کے لیے گھر تعمیر کرے گی اور انہیں علاج اور تعلیم کی تمام تر سہولیات مفت فراہم کرے گی۔بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ اور دیگر تمام بنیادی ضروریات ہر شخص کو فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔اس تمام تر منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے محنت کش خود سرگرم عمل ہوں گے اور اپنی تقدیروں کے فیصلے خود کریں گے۔بیروزگاری کا مکمل خاتمہ ہو گا اور سماج کوذلت اور محرومی سے نجات ملے گی۔

لیکن یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لیے سرمائے کی حکمرانی کے نظام کو ختم کرنا پڑے گاجوانتخاب سے نہیں بلکہ صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

Comments are closed.