25نومبر کو کیوبا کے عظیم انقلابی قائد فیڈل کاسترو نوے برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات کے بعد جہاں ان کے چاہنے والوں نے دکھ اور غم کا اظہار کیا وہاں ان کے دشمن بھی نفرت کا زہر اگلتے رہے۔ کیوبا کی سڑکوں پر ہزاروں افراد نے اس عظیم انقلابی کوخراج تحسین پیش کیا جس نے 1959ء میں جنرل بتیستا کی آمریت کا تختہ الٹنے کے بعد کیوبا کے عوام کی قسمت بدل دی۔اس چھوٹے سے جزیرہ نما ملک سے غربت، بیروزگاری، ناخواندگی اور لا علاجی کا خاتمہ کیا گیا اور دنیا کی جدید ترین طبی سہولیات یہاں عوام کو مفت فراہم کی گئیں۔ کاسترو پوری دنیا میں انقلاب اور سوشلزم کا استعارہ بن چکے تھے اور دشمنوں کے دل میں کانٹے کی طرح چبھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سامراج نے انہیں قتل کروانے کی سینکڑوں کوششیں کی لیکن کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ تمام تر ظالمانہ ہتھکنڈوں اور کیوبا پر پابندیوں کے باوجود کاسترو کا عزم ٹوٹنے کی بجائے مزید مضبوط ہوا اور وہ مشکل ترین حالات میں بھی کیوبا کی منصوبہ معیشت کا دفاع کرتے رہے۔ ان کی وفات پر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رجعتی اور نسل پرست شخص نے انہیں ایک ڈکٹیٹر قرار دیا جبکہ سی این این نے خبر چلائی کہ کاسترو کے بعد کیوبا میں سوشلزم کو بھی ختم کر دینا چاہیے۔ پوری دنیا میں اسی طرح کا متضاد رد عمل نظر آیا جہاں عوام دوست قوتوں نے کاسترو کو خراج تحسین پیش کیا جبکہ عوام دشمن قوتوں نے کاسترو سے کھل کر نفرت کا اظہار کیا۔
کاسترو کی وفات کے بعد جہاں کیوبا کا انقلاب ایک اہم دوراہے پر کھڑا ہے اور بقا کی جنگ لڑ رہا ہے وہاں پوری دنیا بہت بڑی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا اور ایک نیا عہد شروع ہونے والا ہے۔کاسترو کی زندگی اور ان کی جدو جہد سے بہت سے اہم اسباق حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ آج کے انقلابی جہاں اپنی قوتوں کی تعمیر کے لیے کاسترو کے عزم و ہمت سے حوصلہ لے سکتے ہیں اور سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ٹکرانے کا ہنر سیکھ سکتے ہیں وہاں جہد مسلسل کی داستان ان کے لیے تجربات کا ایک خزانہ لیے ہوئے ہے۔
کاسترو نے جب چے گویرا اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ کیوبا میں انقلاب برپا کیا اس وقت سرد جنگ اپنے عروج پر تھی اور پوری دنیا امریکی اور سوویت کیمپوں میں تقسیم تھی۔ اس کے بعد سوویت یونین کا انہدام اور دیوار برلن کے خاتمے نے پوری دنیا کو یکسر تبدیل کر دیا اور پوری دنیا میں بائیں بازو کی قوتوں کو پسپائی اختیار کرنی پڑی ، مزدور تحریک پر بد ترین حملے کیے گئے اور طلبہ تحریکوں میں بھی نسبتاً زوال نظر آیا۔ اس مشکل ترین کیفیت میں بھی کاسترو نے کیوبا میں منصوبہ بند معیشت کو کسی نہ کسی طرح قائم رکھا گو کہ کیوبا کے عوام کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران چین نے سرمایہ داری کی جانب لانگ مارچ شروع کر دیا جبکہ مشرقی یورپ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک جہاں منصوبہ بند معیشت مختلف شکلوں میں موجود تھی وہاں منڈی کی معیشت نے قدم جمانے شروع کر دیے اور محنت کش عوام کا بد ترین استحصال شروع ہو گیا۔ پوری دنیا کو بتایا گیا کہ تاریخ کا خاتمہ ہو گیا ہے اور اب صرف سرمایہ دارانہ نظام ہی رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ 2006ء میں کاسترو کی عملی سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد کیوبا کو منڈی کی معیشت کی جانب تیزی سے دھکیلا جانے لگا اور آج ایک دہائی بعد اس میں زیادہ شدت آگئی ہے۔ کیوبا میں امریکی سفارت خانے کی موجودگی کے ساتھ ساتھ منڈی کی معیشت بھی اپنے پنجے گاڑ رہی ہے ۔
لیکن اس دوران ہمیں 2008ء کا بحران اور دنیا بھر میں سرمایہ داری کیخلاف ابھرتی ہوئی تحریکیں نظر آتی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کر رہی ہیں۔ کاسترو کی وفات سے دو ہفتے قبل امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی پھر ایک عالمی سطح پر عہد کی کروٹ کا واضح اظہار ہے ۔ یہ سرمایہ داری کے بد ترین زوال اور گہرے بحرانوں کے عہد کا آغاز ہے۔ ٹرمپ کیخلاف امریکہ میں شدید نفرت موجود ہے اور جس دن انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا اسی دن اس کیخلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ 20جنوری کو جب وہ حلف اٹھائے گا اس دن لاکھوں امریکی اس کیخلاف احتجاج کر رہے ہوں گے ۔ ایسی صورتحال امریکہ کی تاریخ میں پہلے کبھی نظر نہیں آتی۔
اس صورتحال میں کاسترو کی زندگی جہاں استقلال اور مستقل مزاجی کا درس دیتی ہے وہاں نظریات پر غیر متزلزل یقین کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد بہت سے بائیں بازو کے راہنماؤں نے اپنا قبلہ ماسکو سے تبدیل کر کے واشنگٹن کو بنا دیا۔ تاریخ کے خاتمے کے پراپیگنڈے پر ایمان لے آئے۔ بہت سے اصلاح پسندی کی گہری کھائی میں غرق ہو گئے۔ بہت سی ریاستیں جہاں منصوبہ بند معیشتیں کسی نہ کسی شکل میں موجود تھیں انہوں نے بے دریغ نجکاری کا آغاز کر دیا اور آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے سر نگوں ہو گئے۔ مشرقِ وسطیٰ میں شام اس کی ایک مثال ہے۔ لیکن اس کے باوجود معاشی بحران اور زوال سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے۔ جبکہ کاسترو نے کبھی بھی سامراج اور سرمایہ داری سے مفاہمت نہیں کی اور مشکل ترین حالات میں بھی ناقابل مصالحت جدوجہد پر ڈٹے رہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد کیوبا کو ملنے والی امداد کا تقریباً خاتمہ ہو گیا اور پورے ملک کو بد ترین معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ لیکن اس کے باوجود صحت اور تعلیم کی مفت سہولیات سمیت دیگر بنیادی ڈھانچہ ریاستی تحویل میں رہا اور سرمایہ داری کے گدھ کیوبا پر منڈلا کر واپس چلے گئے۔
کاسترو کی وفات کے وقت سرمایہ داری کیخلاف یہ جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور پوری دنیا اس ظالمانہ نظام کیخلاف احتجاجی تحریکوں کی لپیٹ میں ہے۔ یہ تحریکیں شدت اختیار کرتی ہوئی سرمایہ داری کو مختلف ممالک میں اکھاڑنے کی جانب بڑھیں گی اور موجودہ نسل کو ایک بار پھر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے مواقع ملیں گے۔ لیکن اس دفعہ ان انقلابات کو قومی سرحدوں کی حدود میں مقید کرنا مشکل ہو گا۔ گزشتہ صدی میں ہونے والے بہت سے انقلابات کو سٹالنسٹ زوال پذیری کی بھینٹ چڑھا کر قومی سرحدوں میں مقید کر دیا گیا۔ کیوبا اور دیگر ممالک میں اس کے تلخ تجربات موجود ہیں جن سے سیکھتے ہوئے ان غلطیوں کو دہرانے سے بچنا ہو گا۔ آج کیوبا میں کاسترو کی قیادت میں ہونے والے انقلاب کی حاصلات کا دفاع کرنے کے لیے ایک اور انقلاب کی ضرورت ہے۔ لیکن اس دفعہ اس انقلاب کو خطے کے دیگر ممالک کے محنت کشوں کے ساتھ جڑت بناتے ہوئے پورے امریکی برا عظم کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کی جانب بڑھنا ہو گا تاکہ اس پورے خطے سے سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔ امریکی براعظم کا یہ انقلاب عالمی سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد بنے گا۔ کاسترو کی زندگی بھر کی جدوجہد کا یہی واحد خراج ہے۔