دنیا بھر میں ہونے والے سماجی دھماکے اور پیٹی بورژوا دانشوروں کی انقلاب دشمنی

2011ء کی عرب بہار سے لے کر حال ہی میں نیپالی نوجوانوں کی انقلابی تحریک تک، پچھلی ڈیڑھ دہائی کی تاریخ سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی نامیاتی بحران سے پیدا ہونے والی غربت، مہنگائی، بیروزگاری، جبری کٹوتیوں، لا علاجی اور دیگر معاشی، سماجی و سیاسی مسائل کیخلاف کرۂ ارض کے طول و عرض میں پے در پے ہونے والے سماجی دھماکوں کی تاریخ ہے۔ یہ سماجی دھماکے عرف عام میں انقلابات کہلاتے ہیں جنہیں کارل مارکس نے تاریخ کا انجن قرار دیا تھا۔ یہ عرصہ انتہائی غیر معمولی اس لیے بھی ہے کہ تاریخی ٹائم اسکیل کے لحاظ سے اتنے مختصر دورانیے میں پوری دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں انقلابی بغاوتوں کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یہ امر ایک طرف تو سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے نامیاتی بحران کی عالمی کلیت کا ثبوت ہے وہیں یہ دنیا بھر کے محنت کشوں، نوجوانوں اور مظلوم عوام میں ابھرتے عالمی طبقاتی شعور کی غمازی بھی کرتا ہے جس کی بابت سائنسی پیش گوئی کرتے ہوئے مارکس اور اینگلز نے 1848ء میں شائع ہونے والے کمیونسٹ مینی فیسٹو کے سرورق پر ”دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!“ لکھا تھا۔ لیکن محنت کش عوام کی تما م تر جرات اور قربانیوں کے باوجود پرولتاری انقلابی پارٹیوں کے فقدان کے کارن اس عرصے میں برپا ہونے والی کوئی ایک انقلابی تحریک بھی اپنے تاریخی و منطقی انجام، یعنی سرمایہ دارانہ نظام و ریاست کے خاتمے اور سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت و مزدور ریاست کی تخلیق و تعمیر تک نہیں پہنچ سکی۔ لہٰذا ان تمام انقلابی تحریکوں کے نتیجے میں حکومتیں تو ضرور گریں، حکمرانوں کے چہرے تبدیل ہوئے، کچھ ممالک میں بائی پراڈکٹ کے طور پر حکمران طبقے نے کچھ کاسمیٹک اصلاحات بھی کیں، لیکن سرمایہ دارانہ نظام و ریاست قائم رہے اور عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آئی۔

اب حقیقی مارکس وادی تو تمام تر نظریاتی و تاریخی پس منظر کیساتھ مسئلے کی جڑ کو بخوبی سمجھتے ہیں اور انقلابی قیادت کے فقدان کو دور کرنے کی خاطر دنیا بھر میں پرولتاری انقلابی پارٹیوں اور انٹر نیشنل کی تعمیر میں جتے ہوئے ہیں لیکن ایشو ان پیٹی بورژوا دانشوروں کا ہے جو اس ساری صورتحال کو جواز بناتے ہوئے محنت کش طبقے اور خاص کر نوجوانوں میں انقلابی جدوجہد سے مایوسی اور بد ظنی پھیلا رہے ہیں۔ اپنے طبقاتی پس منظر، مخصوص پیٹی بورژوا بے صبری اورنظریاتی پراگندگی کے باعث محنت کش طبقے کے انقلابی پوٹینشیل اور شعوری صلاحیتوں پر عدم اعتماد رکھنے والے یہ نام نہاد ’پڑھے لکھے‘ خواتین و حضرات ایسے ہر انقلابی دھماکے کے بعد ’کچھ نہیں بدلے گا!‘، ’دیکھا!فوج نے حکومت سنبھال لی‘،’یہ انقلاب نہیں محض انتشار ہے‘، ’نوجوانوں کا وقتی ابال ہے‘، ’سب بیرونی سازش کے تحت ہو رہا ہے‘، ’اس سے بیرونی قوتیں اور دایاں بازو فائدہ اٹھائے گا‘ جیسی بیہودہ اور غیر سائنسی تو جیہات پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ یوں سماج میں ان کا کردار سرمایہ دار حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے دانستہ یا غیر دانستہ پر چارک کا بن جاتا ہے جن کی مایوسی اور بد ظنی سے لبریز لغویات کا جواب دینا کمیونسٹوں کا فریضہ ہے۔

ہمیں اپنی بحث کا آغاز اس جانچ پڑتال سے کرنا ہو گا کہ انقلاب آخر ہوتا کیا ہے؟ اس کی جوہری خاصیت کیا ہوتی ہے؟کیونکہ پیٹی بورژوا دانشوروں کی جانب سے ان تمام انقلابی تحریکوں پر لگنے والا سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ یہ ’محض انتشار‘ہیں۔ یہاں ہم بالکل حق بجانب ہوں گے کہ اس جانچ کے بارے میں راہنمائی حاصل کرنے کے لیے ہم کسی یونیورسٹی پروفیسر کی بجائے انسانی تاریخ کے اب تک کے سب سے عظیم واقعے یعنی انقلاب روس 1917ء کی لینن کیساتھ مل کر قیادت کرنے والے کمیونسٹ انقلابی لیڈر لیون ٹراٹسکی کی جانب رجوع کریں۔ ٹراٹسکی اپنی مشہور کتاب ”انقلاب روس کی تاریخ (1930ء)“ کے دیباچے میں لکھتا ہے، ”انقلاب کی سب سے مسلمہ خاصیت تاریخی واقعات میں عوام کی براہ راست مداخلت ہے۔ عام دنوں میں ریاست، خواہ بادشاہت ہو یا جمہوریت، خود کو عوام سے بالاتر رکھتی ہے اور مؤرخین بادشاہوں، وزراء، افسر شاہی، پارلیمانی نمائندوں، اور صحافیوں کے حوالے سے ہی تاریخ کو مرتب کرتے ہیں۔ لیکن ان فیصلہ کن لمحات میں جب پرانا نظام عوام کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے تو وہ خود کو سیاسی میدان سے باہر رکھنے والی رکاوٹوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں، اپنے روایتی نمائندوں کو راستے سے ہٹا دیتے ہیں اور اپنی مداخلت کے ذریعے ایک نئے طرز حکومت کی بنیاد رکھتے ہیں۔۔۔ایک انقلاب کی تاریخ ہمارے لیے سب سے پہلے عوام کی خود اپنی قسمت پر حکمرانی کی سمت میں طاقت کے ذریعے مداخلت کی تاریخ ہے۔“

اسی تحریر میں مزید آگے جا کر ٹراٹسکی وضاحت دیتا ہے، ”عوام سماجی تعمیر نو کے کسی طے شدہ منصوبے کیساتھ انقلاب میں نہیں کودتے، بلکہ اس انتہائی احساس کیساتھ کہ پرانا نظام ان کے لیے ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ صرف طبقے کی راہنما پرتوں کے پاس ایک سیاسی پروگرام ہوتا ہے، اور اسے بھی واقعات کی کسوٹی پر پورا اتر تے ہوئے عوام کی حمایت حاصل کرنا پڑتی ہے۔“

 

اب اگر ہم مصری انقلاب کے دوران ملک گیر عام ہڑتال کے پس منظر میں مصر کے محنت کش عوام کی جانب سے پارلیمنٹ ہاؤس کے گھیراؤ اور تالا بندی اور اس کے صدر دروازے پر ”اس پارلیمنٹ کو انقلاب کے احکامات پر بند کیا جاتا ہے“ کا بینر آویزاں کرنے سے لیکر حال ہی سری لنکا، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور نیپال میں نوجوانوں اور محنت کشوں کے ہاتھوں طاقت کے ایوانوں کا تیا پانچہ ہوتے دیکھیں تو کیا یہ ”تاریخی واقعات میں عوام کی براہ راست مداخلت“ نہیں؟ کیا ان تمام سماجوں کے محنت کش عوام نے بھی اپنے نام نہاد روایتی نمائندوں کو بزور طاقت ایک طرف ہٹاتے ہوئے اپنی قسمت کے فیصلوں خود اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی؟ کیا یہ کہنا درست نہیں کہ ان تمام انقلابی تحریکوں میں ریاستی طاقت گلیوں میں بکھر کر محنت کش عوام کے ہاتھوں میں آ چکی تھی لیکن بس انہیں اس کا بھرپور شعوری ادراک نہیں تھا کیونکہ یہ شعوری جست لگانے میں مدد فراہم کرنے والی انقلابی قیادت موجود نہیں تھی۔ صرف کوئی متعصب، احمق یا حکمران طبقے کا دلال ہی اس کھلی اور واضح حقیقت کا انکار کر سکتا ہے۔ اور جب یہی حقیقت ہے تو پھر اپنے ڈارئنگ رومز میں بیٹھ کر سڑکوں، فیکٹریوں، تعلیمی اداروں اور کھلیانوں میں غاصب حکمرانوں اور ریاستی قوتوں کیخلاف لڑتے اور قربانیاں دیتے محنت کشوں اور نوجوانوں پر ’انتشار پسندی‘ کا لیبل لگانے والے یہ پیٹی بورژوا واعظ انقلاب دشمن نہیں تو اور کیا ہیں۔

انقلاب روس 1917ء کا قائد اور دنیا بھر کے محنت کشوں کا عظیم انقلابی استاد لینن کہتا تھا کہ ”انقلابی نظریے کے بغیر کوئی انقلابی تحریک ممکن نہیں“۔ یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس کا اصل مطلب سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ پیٹی بورژوا پس منظر رکھنے والے نام نہاد بائیں بازو کے بہت سے دانشوروں، خاص کر عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھنے والے فرقہ پروروں، نے بیشمار دیگر موضوعات کی طرح یہاں بھی لینن کو مسخ کر کے اس کے الفاظ کو اپنی مرضی کا مفہوم دیا ہوا ہے۔ یوں وہ انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں برپا ہونے والی یا واضح سوشلسٹ نعرے و مطالبات نہ رکھنے والی کسی بھی تحریک کو ’غیر انقلابی‘ کہہ کر رد کرنے، اس سے پہلو تہی کرنے، یہاں تک کہ اس کی کھلے عام مخالفت کرنے کا جواز گھڑ لیتے ہیں۔ لیکن اگر ہم لینن کے اس جملے کو اس تمام تر سیاسی و نظریاتی کام کے سیاق و سباق میں رکھ کر سمجھیں تو واضح ہوتا ہے لینن صرف یہ سمجھا رہا ہے کہ ایک پرولتاری انقلابی پارٹی کی تعمیر کرتے ہوئے کم از کم محنت کش طبقے کی ہر اول لڑاکا پرتوں کو کمیونسٹ نظریات سے روشناس کئے اور انہیں منظم کئے بغیر ایک مزدور انقلاب کو اس کے تاریخی و منطقی انجام یعنی سوشلسٹ تبدیلی تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ محنت کش طبقہ انقلابی تحرک میں آنے کے لئے انقلابی پارٹی اور قیادت کی موجودگی کا محتاج ہوتا ہے یا جب تک طبقے کی قابل ذکر تعداد شعوری طور پر کمیونسٹ نہیں ہو جاتی تب تک وہ تاریخ کے میدان میں براہ راست مداخلت سے گریز کرے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ محنت کش عوام انقلابی تحرک میں آنے کے لیے نہ تو انقلابی پارٹی کی تعمیر کا انتظار کرتے ہیں اور نہ ہی کمیونسٹ نظریات سیکھنے کا بلکہ، جیسا کہ ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی، جب حالات ان کی برداشت سے باہر ہوجاتے ہیں تو وہ تاریخ کے میدان میں کود پڑتے ہیں اور ایسا کرتے وقت ان کی ایک بھاری اکثریت کے پاس سماجی تعمیر نو کا کوئی طے شدہ متبادل منصوبہ نہیں ہوتا لیکن انہیں بخوبی یہ ضرور پتا ہوتا ہے کہ وہ کیا نہیں چاہتے ہیں۔

یہاں پر بحث کو مزید نکھارنے کے لئے بذات خود انقلاب روس1917 ء کی مثال دینا بھی نہایت موزوں ہو گا۔ انقلاب سے قبل روس میں کمیونسٹوں کے دہائیوں پر مشتمل انقلابی کام اور بالشویک پارٹی کی تعمیر کے باوجود 1917ء میں انقلابی تحریک برپا کرنے والے محنت کشوں، نوجوانوں اور کسانوں کی ایک بھاری تعداد نہ توشعوری طور پر کمیونسٹ تھی اور نہ ہی بالشویک پارٹی کیساتھ منسلک تھی۔ یہاں تک کہ انقلابی تحریک کے مرکزی مطالبات بھی سوشلزم نہیں بلکہ ”امن، روٹی اور زمین“ کے حصول پر مبنی تھے۔ لیکن لینن، ٹراٹسکی اور بالشویک پارٹی کی شکل میں ایک منظم انقلابی قیادت موجود تھی جو محنت کش طبقے کی کم از کم ہر اول لڑاکا پرتوں میں مضبوط نظریاتی و سیاسی جڑیں رکھتی تھی۔ یہ انقلاب کے دوران بالشویک قیادت کا انقلابی ہنر تھا کہ کس طرح اس نے”صبر کیساتھ وضاحت کرتے ہوئے“ عوام کے فوری مطالبات کے حصول کو محنت کش طبقے کے اقتدار پر قبضے کیساتھ جوڑکر محنت کش طبقے، کسانوں اور مظلوم قومیتوں کی وسیع تر پرتوں کو قدم بہ قدم اپنے سیاسی و نظریاتی پروگرام کے لئے جیتا اور انقلاب کو اس کے تاریخی و منطقی انجام تک پہنچانے کی راہ ہموار کی۔

پیٹی بورژوا دانشوروں، خاص کر نام نہاد نیو لیفٹ کے فیشن ایبل نمائندوں کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ انہیں یا تو ہر انقلابی تحریک سے کسی پولیس والے یا انٹیلی جنس اہلکار کی طرح بیرونی سازش اور مداخلت کی بو آتی ہے، یا پھر وہ ’ریاست کے انہدام‘ کا بھوت دکھا کر لوگوں کو ممکنہ خانہ جنگی اور خونریزی کے خدشات سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر یہ سب نہیں تو پھر ’رجعتی قوتوں کے صورتحال سے فائدہ اٹھانے‘ کا راگ الاپا جاتا ہے، ’فاشزم‘ کے بر سراقتدار آنے کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، اور یہ سب لغویات بکنے کے لیے ہمیشہ جواز یہی تراشا جاتا ہے کہ عوام بغیر کسی تیاری کے حرکت میں آ گئے ہیں۔ یا دیگر الفاظ میں ’ان پڑھ‘ عوام نے میدان عمل میں کودنے سے قبل ان ’پڑھے لکھے‘ خواتین حضرات سے نہ تو اجازت طلب کی اور نہ ہی انہیں اپنی قیادت سونپی۔ لہٰذا ان مہا سیانوں کے نزدیک عوام کو اس وقت تک چپ چاپ، صبر شکر کیساتھ سرمایہ دار طبقے، حکمرانوں اور ریاستی اشرافیہ کے ظلم و استحصال کو سہتے جانا چاہیے جب تک وہ ان خواتین و حضرات کے مقرر کردہ پیمانوں کے مطابق انقلاب کرنے کی ’قابلیت‘ حاصل نہیں کر لیتے۔ بلکہ اس وقت تک کسی بیرونی سازش، خانہ جنگی یا رجعتی قوتوں سے بچنے کے لئے عوام کا فریضہ ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ ریاست کو ’عوام دوست‘ اصلاحات کے ذریعے مضبوط بنائیں۔ لیکن درحقیقت ان پیٹی بورژوا فیشنی سرخوں کے نزدیک محنت کش عوام قیامت تک انقلاب کے لیے تیار نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ خواتین و حضرات حکمران طبقے کی ہی طرح انقلاب سے شدید خوف کھاتے ہیں اور ان کی تمام تر ریڈیکل لفاظیوں اور نام نہاد ایکٹیو ازم کا اصل مقصد سماج کی انقلابی سوشلسٹ تبدیلی نہیں بلکہ چند اصلاحات کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام و ریاست کو قابل قبول بنا تے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کا راستہ روکنا ہوتا ہے۔

یہاں ہم ایک بار پھر انقلاب روس 1917 ء کی مثال دے کر زیر بحث موضوع کی مزید وضاحت کرنا چاہیں گے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ تاریخ کے سائنسی تجزئیے میں اگر مگر نہیں چلتا کیونکہ تاریخ میں جو کچھ بھی ہوا ہوتا ہے اس کی پیچھے ٹھوس وجوہات ہوتی ہیں۔ لیکن صرف اپنے نکتے کی مزید وضاحت کے لئے اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ 1917ء میں بالشویک پارٹی نہ ہوتی یا اس کا حجم انقلاب میں فیصلہ کن مداخلت کے لئے نہایت ناکافی ہوتا تو کیا پھر بھی اکتوبر 1917ء میں محنت کش طبقہ اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا؟ اگرچہ ہم اس کو خارج از امکان قرار نہیں دیتے لیکن غالب ترین امکان یہی ہے کہ ایسا نہ ہوتا۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت اور بالشویک پارٹی کی عدم موجودگی میں روس کی انقلابی تحریک محنت کش عوام کی تمام تر جرات و قربانیوں کے باوجود انقلاب کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا پاتی اور صورتحال کا انت ایک خونریز رد انقلاب اورحکمران طبقے کی طرف سے مسلط کردہ ایک رجعتی خانہ جنگی، کسی طالع آزما جرنیلی ٹولے کی جانب سے مسلط کردہ سفاک رد انقلابی آمریت، روس کے داخلی بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر سامراجی قوتوں کی جانب سے فوجی مداخلت یا پھر ان تمام کیفیات کے امتزاج کی صورت میں نکلتا۔درحقیقت انقلابی بحران کی لپیٹ میں آئے ہر سماج میں انقلاب اور رد انقلاب بیک وقت ایک دوسرے کیساتھ ٹکراؤ میں چل رہے ہوتے ہیں اور یہ بحران تب ہی ختم ہوتا ہے جب ان میں سے ایک رجحان فیصلہ کن انداز میں دوسرے پر غلبہ پا لیتا ہے۔ 1917ء کے روس میں بھی ایسا ہی تھا اور رد انقلابی و رجعتی رجحانات صرف اس لیے اپنے عوام دشمن مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے کہ لینن،ٹراٹسکی اور بالشویک پارٹی کی قیادت میں روس کے محنت کش طبقے نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ان تمام رد انقلابی عناصر کو کچل ڈالا اور انقلاب کو اس کے تاریخی و منطقی انجام تک پہنچا دیا۔یقینی طور پر ہم کمیونسٹ بھی ان تمام رد انقلابی اور رجعتی رجحانات کی موجودگی سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن ان سے نپٹنے کا درست طریقہ بیجا خوف و ہراس پھیلاکر محنت کش عوام کو انقلاب سے باز رہنے کی تلقین کرنا نہیں بلکہ محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی ہر اول لڑاکا پرتوں میں مضبوط سیاسی و نظریاتی جڑیں بناتے ہوئے ایک پرولتاری انقلابی پارٹی کی تعمیر کے کام کو تیزی کیساتھ آگے بڑھانا ہے تا کہ وہ وقت آنے پر تاریخ کے امتحان پر پوری اتر سکے۔

 

دنیا کے کئی ممالک میں اصلاح پسند بائیں بازو کی غداریوں کے کارن تقویت پانے والے دائیں بازو کے اصلاح پسند پاپولسٹوں پر ’فاشزم‘ کا ٹھپہ لگا کر ان کیخلاف نام نہاد ’ترقی پسند‘ سرمایہ دارانہ پارٹیوں کیساتھ اتحاد بنانے کا جواز تراشنا تو بائیں بازو کے ان پیٹی بورژوا دانشوروں کا پسندیدہ مشغلہ ہے لیکن حال ہی میں نیپال کی نام نہاد کمیونسٹ حکومت کیخلاف اٹھنے والے انقلابی طوفان نے اصلاح پسندی کی دلدل میں غرق بائیں بازو کے ان دانشوروں کو ہکا بکا کر دیا۔ چند روز کی تیز تند انقلابی تحریک میں نیپال کے عوام اور خاص کر نوجوانوں نے نیپال کی نام نہاد کمیونسٹ پارٹی (یونائیٹڈ مارکسسٹ لینن اسٹ جو کہ ایک سٹالنسٹ پارٹی ہے) کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ایسا کرتے ہوئے اپوزیشن میں موجود نام نہاد کمیونسٹ پارٹی (ماؤاسٹ سنٹر) کو بھی مسترد کر دیا۔ یاد رہے کہ نیپال کی ڈھائی سو سال پرانی بادشاہت کیخلاف بائیں بازو کی جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے ماؤ اسٹوں کی گوریلا جدوجہد کا چرچا زیادہ ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ 1990ء اور پھر 2006ء کی عوامی تحریکیں تھیں جنہوں نے بادشاہت کا خاتمہ کیا تھا۔ لیکن نیپال کے نام نہاد کمیونسٹوں، چاہے سٹالنسٹ ہوں یا ماؤاسٹ، نے اپنی مرحلہ وار انقلاب کی غلط تھیوری کے تحت عوام کیساتھ دھوکہ کیا اور انقلاب کو محض بادشاہت کے خاتمے پر ہی ادھورا چھوڑ کر سرمایہ دارانہ نظام کیساتھ سمجھوتہ کر لیا۔ اس کے بعد سے لیکر اب تک بننے والی 14 حکومتوں میں نیپال کی ان نام نہاد کمیونسٹ پارٹیوں نے سرمایہ دارانہ پارٹیوں کیساتھ اتحاد بناتے ہوئے باربار اقتدار کے مزے لوٹے ہیں اور مارکس کے بقول سرمایہ دارانہ نظام اور طبقے کی ”انتظامی کمیٹی“ کا کردار بخوبی ادا کیا ہے۔ ان ’خدمات‘ کے بدلے ان نام نہاد کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادت کو لوٹ مار اور کرپشن کی کھلی چھوٹ حاصل تھی جس سے ان کی دولت اور جائیداد میں دن رات اضافہ ہوا جبکہ دوسری طرف سرمایہ دارانہ جبر واستحصال کا شکار نیپال کے محنت کش، کسان اور نوجوان دو وقت کی روٹی کو بھی ترسنے لگے۔ دو دہائیوں سے سطح کے نیچے پنپنے والے یہی تضادات اور غصہ تھا جو نیپال کی حالیہ انقلابی تحریک میں پھٹ کر سامنے آیا۔

مضحکہ خیز لیکن قابل فہم امر یہ ہے کہ نیپال کی حالیہ انقلابی تحریک پر سٹالنسٹوں، ماؤاسٹوں اور نیو لیفٹ سمیت پاکستان کے تمام اصلاح پسند بائیں بازو کو سانپ سونگھ گیا۔ یہ وہی خواتین و حضرات ہیں جو ہر سال نیپال جا کر نام نہاد کمیونسٹ حکومت کی’مہمان نوازی‘ سے لطف اندوز ہوتے تھے اور وہاں حکومتی سپانسرشپ کیساتھ منعقد ہونے والی عالمی این جی اوز کی کانفرنسوں میں سرمایہ داروں کے نمائندوں کیساتھ بیٹھ کر غربت کے خاتمے پر’مغز ماری‘ کرتے تھے۔ لیکن جب نیپالی نوجوانوں اور عوام کے ہاتھوں ان کی پسندیدہ ’انقلابی حکومت‘ کا تختہ الٹا گیا اور یہ اس کی کوئی ٹھوس سائنسی و نظریاتی وضاحت پیش کرنے سے قاصر رہے تو انہوں نے اپنے نظریاتی دیوالیہ پن اور سمجھوتے بازی کو چھپانے کے لیے حسب عادت سازشی تھیوری کا سہارا لیتے ہوئے انقلابی تحریک کو بیرونی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کاروائی قرار دے کر رد کر دیا۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں کہ ان خواتین و حضرات نے ایسی حرکت کی ہو۔2024 ء میں جب بنگلہ دیش میں نوجوانوں اور محنت کش عوام کے ہاتھوں عوامی لیگ کی شدید جابر اور سرمایہ دارانہ استحصال کی سفاکانہ حفاظت کرنے والی حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا تب بھی عوامی لیگ کو نام نہاد ’ترقی پسند‘ سرمایہ داری کی نمائندہ سمجھنے والے ان اصلاح پسندوں نے ایسے ہی جواز گھڑ کر انقلابی تحریک کی مخالفت کی تھی۔

جس امر کو اصلاح پسند بائیں بازو کے یہ سمجھوتے باز سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں وہ یہ ہے کہ آج سرمایہ داری کے عالمی نامیاتی بحران کے عہد میں یہ نظام کسی قسم کی بھی معنی خیز اور دوررس اصلاحات کرنے کا پوٹینشیل کھو چکا ہے (یاد رہے کہ اس کے باوجود ہم انقلابی کمیونسٹ اصلاحات کی جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں لیکن اصلاح پسندی کو رد کرتے ہیں) جبکہ محنت کش عوام اپنے دکھوں اور تکلیفوں کا خاتمہ چاہتے ہیں جو چند کاسمیٹک اصلاحات کے ذریعے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام و ریاست کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ اور چونکہ بائیں بازو کی اصلاح پسند پارٹیاں،چاہے وہ سٹالنسٹ، ماؤاسٹ، سوشل ڈیموکریٹک ہوں یا یونان کی سائیریزا جیسے نئے سیاسی مظاہر، یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے چند اصلاحات کے ذریعے کام چلانا چاہتے ہیں لہٰذا بر سر اقتدار آتے ہی سمجھوتے کرنا، اپنے وعدوں اور دعوؤں سے پھر جانا،اصلاحات کی بجائے رد اصلاحات کرنا اور سرمایہ دار طبقے کی ”انتظامی کمیٹی“ بن کر محنت کش عوام سے غداری کرنا ان کے لئے ناگزیر ہو جاتا ہے۔ جلد یا بدیر اپنے غداروں کیساتھ محنت کش عوام پھر وہی سلوک کرتے ہیں جو انہوں نے حال ہی میں نیپال کی نام نہاد کمیونسٹ پارٹیوں کیساتھ کیا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آئندہ کبھی اصلاح پسند پارٹیاں نہ بنیں گی اور نہ اقتدار میں آئیں گی۔ جب تک ایک حقیقی پرولتاری انقلابی قیادت کے فقدان کے کارن سیاسی خلا موجود رہے گا، تب تک اس میں دائیں اور بائیں بازو کی اصلاح پسند پارٹیاں ابھرتی اور اپنے خمیر میں موجود سمجھوتے بازی کے ہاتھوں مختصر دورانیے میں عوام کے جانب سے مسترد ہو کر تاریخ کے کوڑے دان کی نظر ہو تی رہیں گی۔

ہم نے پہلے ذکر کیا تھا کہ پرولتاری انقلابی پارٹی و قیادت کے فقدان کے کارن پچھلی ڈیڑھ دہائی میں بے شمار ممالک میں چلنے والی انقلابی تحریکوں کے اپنے تاریخی و منطقی انجام تک نہ پہنچ پانے کی وجہ سے وہاں کے محنت کش عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ انقلابی تحریکیں رائیگاں گئی ہیں۔ ایسا سمجھنا تاریخ اور عوامی شعور کی بڑھوتری کے جدلیاتی عمل سے یکسر نا بلد ہونے کا ثبوت ہے۔ان تمام انقلابی تحریکوں سے نہ صرف متعلقہ سماجوں کے محنت کش عوام بلکہ پورے خطوں اور دنیا بھر کے محنت کشوں نے بہت سے لازمی نتائج اخذ کئے ہیں، بہت سے اہم اسباق سیکھے ہیں اور جدوجہد کی اس کٹھالی سے گزر تے ہوئے ان کا سیاسی و طبقاتی شعورمعیاری طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ اور سب سے اہم یہ کہ آج دنیا بھر میں محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی ہر اول لڑاکا پرتیں سرمایہ دارانہ نظام پر سوال اٹھا رہی ہیں اور اس کے ایک قابل عمل سائنسی متبادل کی تلاش میں ہیں جو کہ صرف سائنسی سوشلزم یا کمیونزم ہی ہو سکتا ہے۔ گزرتے وقت کیساتھ سرمایہ داری کا عالمی نامیاتی بحران مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور بحالی کے کہیں دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ یہ بحران دنیا بھر میں اپنا اظہار بڑھتی غربت، مہنگائی، بیروزگاری، اجرتوں میں کمی اور اوقات کار میں اضافے، عوامی سہولیات میں کٹوتیوں اور نجکاری، بے گھری، لاعلاجی، جنگوں، خانہ جنگیوں، سامراجی لوٹ مار اور قبضہ گیری، مذہبی جبر، قومی و صنفی جبر میں اضافے، ثقافتی زوال اور ماحولیاتی تباہی کی صورت میں کر رہا ہے جس سے محنت کش عوام کی زندگیاں ایک دہکتی ہوئی جہنم بن چکی ہیں۔ ایسے میں دنیا بھر کے سماجوں میں انقلابی تحریکوں کا یہ سلسلہ قابل قیاس مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ اس میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جہاں پچھلی ڈیڑھ دہائی میں محنت کش عوام پہلے بھی انقلابی تحرک میں آ چکے ہیں اور پاکستان سمیت ایسے ممالک بھی جہاں حالیہ تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہو گا۔

لہٰذا پاکستان سمیت دنیا بھر میں انقلابی کمیونسٹوں کا فوری فریضہ یہ ہے کہ وہ پرولتاری انقلابی پارٹیوں اور انٹرنیشنل کی تعمیر کے لئے دن رات ایک کر دیں۔ محنت کش طبقے، نوجوانوں اور غریب کسانوں کی ہر اول لڑاکا پرتوں کو کمیونزم کے نظریات و پروگرام سے مسلح کرتے ہوئے انہیں منظم کریں۔ ان کے فوری مطالبات کی ہر جدوجہد میں ان کیساتھ شانہ بشانہ شامل ہوں اور صبر کیساتھ وضاحت کرتے ہوئے ان کے فوری اور دیگر مطالبات کے حتمی حل کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے محنت کش طبقے کے اقتدار پر قبضے کیساتھ جوڑ کر انہیں ان کے تاریخی فرائض کا بھرپور شعوری ادراک حاصل کرنے میں مدد کریں۔ یہ سب کرنا آسان نہیں لیکن اس کے سوا اور کوئی حل بھی نہیں۔ اسی جان توڑ محنت اور جدوجہد کی بھٹی میں تپ کر، کندن بن کر انقلابی کمیونسٹ پارٹی اور انٹر نیشنل کی شکل میں محنت کش طبقے کا وہ انقلابی اوزار تیار ہو گا جس کی مدد سے وہ اس عوام اور انسان دشمن سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کا خاتمہ کرتے ہوئے ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول پر مبنی ایک غیر طبقاتی سماج تخلیق کرے گا جہاں ہر ایک انسان کو تمام ضروریات زندگی فراوانی کیساتھ میسر ہوں گی اور نوع انسان پہلی مرتبہ روٹی روزی کے جھنجھٹ سے آزاد ہو کر ستاروں پر کمند ڈالنے کے لیے آزاد ہو گی۔ مارکس کے دیرینہ نظریاتی و انقلابی ساتھی فریڈرک اینگلز کے الفاظ میں۔۔ یہ نوع انساں کی عظیم جست ہو گی، جبر کی اقلیم سے آزادی کی اقلیم میں۔

 

Comments are closed.