|رپورٹ: ولید خان|
30نومبر 2025ء کو حاصل پور شہر سے تقریباً دس کلومیٹر کی مسافت پر واقع چک کٹورہ فارمز، حاصل پور کے مزارعین نے انجمن مزارعین پنجاب کے تحت ایک شاندار کنونشن منظم کیا جس میں مزارعین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جلسہ گاہ میں بزرگوں، نوجوانوں اور بچوں کے ساتھ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ شرکا کا جوش و جذبہ قابل دید تھا۔ اس کا اظہار خاص طور پر اس وقت ہوا جب انہوں نے اپنے قائدین سینئر نائب صدر، جلسہ کے منتظم اور مرکزی میزبان شمعون بھٹی، بھکر سے انجمن مزارعین پنجاب کے نائب صدر رانا سلیم اور صدر انجمن مزارعین پنجاب غلام عباس سیال کا والہانہ استقبال کیا۔ تمام شرکا آخر تک جلسے میں شریک رہے اور وقتاً فوقتاً پُرجوش نعرے بازی کرتے ہوئے شرکا کے دلوں کو گرماتے رہے۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے وفد نے بھی خصوصی دعوت پر اس کنونشن میں شرکت کی اور ماہانہ اخبار ”کمیونسٹ“ کا سٹال لگایا گیا جس میں شرکا نے بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا۔
یہ کنونشن انجمن مزارعین پنجاب کی جابرانہ بے دخلی کے خلاف جدوجہد کا نیا باب ہے۔ 2023ء میں پاکستان کی زرعی تاریخ کے سب سے بڑے ریاستی ڈاکے کا آغاز نام نہاد ”گرین پیش قدمی“ کے نام سے ہوا جب پورے ملک میں 48 لاکھ ایکڑ زمین مزارعین کی مشاورت اور رضامندی کے بغیر زبردستی کارپوریٹ فارمنگ کے لیے مختص کر دی گئی۔ یہ الاٹمنٹ خصوصی سرمایہ کاری معاونت کونسل (SIFC) کے تحت کی گئی ہے۔ اس کے مطابق زمین کی الاٹمنٹ 30 سال کے لیے ہو گی جبکہ ایک لائحہ عمل کے تحت کارپوریٹ اور صوبوں کے درمیان منافعوں کی بندر بانٹ ہو گی۔ یعنی محنت، زمین اور وسائل عوام کے ہوں گے اور منافعوں کی لوٹ مار مٹھی بھر سرمایہ کاروں کا حق ہو گی۔ پنجاب میں بھکر، خوشاب اور ساہیوال ڈسٹرکٹ میں 45 ہزار ایکڑ زمین فوجی ملکیت میں گرین انیشیٹیو پرائیویٹ لمیٹڈ (GCI) کو الاٹ کر دی گئی۔ کٹھ پتلی وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے یہ جواز گھڑا گیا ہے کہ بنجر یا غیر آباد زمین ہی کارپوریٹ فارمنگ کے لیے الاٹ ہوئی ہے جبکہ اس میں آباد زرخیز زمین بھی شامل ہے جس کو وہاں رہنے والے مزارعین کئی نسلوں سے اپنے خون سے سریاب کر رہے ہیں۔ اس کے بعد سے انجمن مزارعین پنجاب اس ریاستی ظلم کے خلاف برسرپیکار ہے۔ ہائی کورٹ سے حکم امتناع کے باوجود مزارعین کو زبردستی بے دخل کر کے زمینوں پر قبضے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پچھلے مہینے حکمران طبقے کے اپنے ہی بنائے ہوئے عوام دشمن آئین کی چیرا پھاڑی اور عدلیہ کو عضو معطل بنانے کے بعد اس حکم امتناع سمیت محنت کشوں اور کسانوں کو دیے جانے والے تمام عارضی ریلیف ختم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
کٹورہ فارمز کی کل زمین 1 ہزار 304 ایکڑ ہے جس میں سے 704 ایکڑ مزارعین اور 600 ایکڑ حکومت کے لائیو اسٹاک ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہیں۔ ان فارمز پر 600 خاندان آباد ہیں۔ یہاں گندم، چاول، مکئی اور چارہ کاشت کیا جاتا ہے جبکہ مویشی بھی پالے جاتے ہیں جن میں ساہیوال نیل گائے اور بھیڑیں قابل ذکر ہیں۔ یہاں پیداوار اور زرخیزی کے حوالے سے تین زمرے اے، بی اور سی بنائے گئے ہیں۔ ہر مزارع کے حصے میں تقریباً 10 ایکڑ زمین ہے۔ ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے سے یہاں مزارعین آباد ہیں۔ اس حوالے سے ان فارمز پر ریاستی لوٹ مار اور جبر کی ایک طویل داستان ہے۔ 1975ء میں یہاں ریاست نے صحیح معنوں میں اپنے پیر جمانے شروع کیے۔ پہلے مغربی پاکستان زرعی کارپوریشن، پھر پنجاب بیج کارپوریشن، پھر زرعی فارمز اور پھر لائیو اسٹاک ڈیپارٹمنٹ۔ مختلف محکموں کے ذریعے اس زمین پر گرفت مضبوط کرنے کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ جب آخر میں لائیو اسٹاک ڈیپارٹمنٹ کے زیر انتظام کٹورہ فارمز سے لیے گئے تو ہر مزارع کے پاس 100 کنال زمین تھی جس میں سے 20-25 کنال محکمہ نے اپنے استعمال کے لیے زبردستی ہتھیا لی۔ اس کے ساتھ لگان کا نظام بھی مختلف مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ پہلے پانچ میں سے دو حصہ حکومت کو جاتا تھا پھر 50 فیصد کا بٹا ہو گیا۔ 1976ء سے حکومت مزارع کو بیج، ٹیوب ویل، کھاد اور سپرے 50 فیصد رعایت پر دے رہی تھی۔ پھر 1982-83ء میں رائج نظام کو لپیٹ کر سادہ کرایہ داری نظام لاگو کر دیا گیا اور ریاست مالکی کے بغیر مالک اور مزارعین کرائے دار بن گئے۔ اب ہر ایکڑ پر 22 ہزار سے 25 ہزار روپے کرایہ وصول کیا جاتا ہے جس پر 2005-06ء میں کابینہ کی منظوری کے بعد سے سالانہ 15 فیصد اضافہ لاگو ہے۔ مویشی پالنا اور درخت لگانا مزارع کی ذمہ داری ہے جبکہ حکومت سارے درخت کاٹ کر لے جاتی ہے۔ ہر تین سال بعد زرعی ڈیپارٹمنٹ، مقامی اسسٹنٹ کمیشنر اور فارم سپرٹنڈنٹ کی ایک کمیٹی بنا دی جاتی ہے جو لگان کے حوالے سے از سر نو جائزہ لیتی ہے اور اپنی مرضی منشا کے تحت کاروائی کرتی ہے۔ جن مزارعین کے حالات زندگی کا فیصلہ یہ کمیٹی کرتی ہے اس میں ان کو شمولیت کی اجازت نہیں لیکن بہرحال لائیو اسٹاک ڈیپارٹمنٹ میں اپیل کی اجازت ہے جو زیادہ تر رد ہوتی ہے۔
فارمز پر چھ مہینے نہری پانی اور چھ مہینے ٹیوب ویل چلتے ہیں۔ ملکیت نہ ہونے کی وجہ سے کسی حکومتی اسکیم جیسے کسان کارڈ وغیرہ میں مزارعین کا اندراج نہیں کیا جاتا اور نہ ہی زرعی ترقیاتی بینک کوئی قرضہ دینے کو تیار ہوتا ہے۔ زراعت کے لیے خام مال اتنا گراں قدر ہو چکا ہے کہ گندم کی چھ مہینہ کاشت، بوائی سے کٹائی تک، فی ایکڑ اوسطاً 60 ہزار روپیہ خرچہ آتا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے کسی قسم کی سبسڈی یا معاونت موجود نہیں اور اس سال سے سپورٹ پرائس ویسے ہی ختم کر دی گئی ہے۔ یعنی اب سٹہ باز اور ذخیرہ اندوز فصل کی کٹائی سے پہلے گندم درآمد کر کے مقامی گندم کی قیمت توڑ کر کسانوں سے اونے پونے داموں خرید کر ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ پھر گندم اسمگلنگ کے ذریعے بیرون ملک اسمگل کر کے اربوں روپیہ کمایا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں گندم کی مصنوعی قلت پیدا ہوتی ہے جس کے بعد ذخیرہ گندم مہنگے داموں شہری محنت کشوں کو خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یعنی سٹہ باز اور سرمایہ دار دونوں ہاتھوں سے محنت کشوں اور کسانوں کو لوٹ کھسوٹ کر کھربوں روپے کا منافع لوٹ رہے ہیں۔
ان فارمز پر رہنے والے مزارعین کے حالات زندگی ناقابل بیان ہیں۔ یہاں تعلیم اور صحت کے لیے کوئی قابل ذکر سہولیات موجود نہیں ہیں۔ خاص طور پر خواتین کی صحت اور زچگی اور بچوں کی صحت کے حوالے سے کوئی سہولت موجود نہیں۔ ناخواندگی کا راج ہے اور اگر سڑکوں، بجلی وغیرہ جیسی روزمرہ کی انسانی سہولیات کی بات کی جائے تو ان کا برا حال ہے۔ تفریحی سہولیات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ غربت اور برباد حالات کی وجہ سے ہر خاندان میں سے افراد قریبی چھوٹے شہروں میں دیہاڑی پر چھوٹے کام کرنے پر مجبور ہیں یا پھر بڑے شہروں میں فیکٹریوں کا ایندھن بن رہے ہیں۔ اذیت کی انتہا ہے کہ نسلوں سے آباد خاندانوں کے پاس 1953ء سے اب تک جمع بندیاں موجود ہیں جن میں خانہ کاشت میں مزارعین کے نام لکھے ہوئے ہیں لیکن ریاست منافعوں کی ہوس میں انہیں زمین کی ملکیت دینے کو تیار نہیں۔
انجمن مزارعین پنجاب کی جدوجہد کے مرکزی نعرے ”مالکی یا موت“ اور ”کارپوریٹ فارمنگ نامنظور“ ہیں۔ اس حوالے سے یہ کنونشن پہلا قدم ہے جس کے بعد پنجاب میں متاثرہ مختلف فارمز پر مزید جلسوں کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ اگر ان کے مطالبات نہیں مانے جاتے تو پھر احتجاج کا دائرہ کار مختلف فارموں سے بڑھا کر پورے پنجاب میں پھیلایا جا سکتا ہے جس کی حتمی منزل صوبائی دارالحکومت لاہور ہو گی۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی انجمن مزارعین پنجاب کے ان مطالبات کی مکمل حمایت کا اعلان کرتی ہے اور اس جدوجہد میں مزارعین کا شانہ بشانہ ساتھ دینے کا یقین دلاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ زمین کی فوری ملکیت، کارپوریٹ فارمنگ کے فوری خاتمے کے ساتھ تمام زرعی ان پٹ، تمام بنیادی ضروریات زندگی جیسے صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر وغیرہ کی فوری، مفت اور معیاری فراہمی ریاست کا اولین فریضہ ہے۔
اس وقت پورے ملک کے مختلف حصوں میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکیں مختلف مراحل میں ہیں۔ ”آزاد“ کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹیوں کی انتہائی شاندار تحریکوں کے نتیجے میں بجلی کی قیمت 3 روپے فی یونٹ کروائی گئی ہے اور آٹا سبسڈی بحال کی گئی ہے جبکہ چند مہینوں پہلے کشمیری عوام کی نئے مطالبات کے لیے ولولہ انگیز تحریک نے کشمیر میں ریاستی اور عوامی حاکمیت کا سوال کھڑا کر دیا تھا۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی عوام کی زمینوں پر قبضوں، قدرتی اور معدنی وسائل پر قبضہ گیری اور لوٹ مار کے خلاف شاندار تحریک جاری ہے۔ سندھ میں حالیہ کنال تحریک اور صوبائی ملازمین کی شاندار تحریک نے ثابت کیا ہے کہ وہاں بھی عوام انقلابی جدوجہد کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں عوام دہشت گردی اور ریاستی آپریشنوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ پنجاب میں بھی صوبائی ملازمین پینشنوں کے خاتمے اور دیگر مراعات پر حملوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی محنت کشوں اور کسانوں کی ان تمام تحریکوں اور مطالبات کی حمایت کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ محنت کشوں اور کسانوں کا اتحاد ہی ریاستی ظلم و جبر، منافع خوری اور زمین کی ہوس کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس کا سب سے پہلا قدم خود کو مضبوط بنیادوں پر منظم کرنا ہے جس کا مطلب مزدوروں اور کسانوں کی کمیٹیوں کو منظم کرنا ہے جو محلے اور گاؤں سے لے کر صوبائی سطح تک منظم ہوں۔ ہر تحریک کی حفاظت اور کامیابی کی ضمانت اس تحریک کے کارکنان ہی کر سکتے ہیں اور اس کے لیے سب سے اہم کام تحریکوں کی قیادت اپنے اندر سے پیدا اور منظم کرنا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اس حوالے سے انجمن مزارعین پنجاب کی سرگرمیاں قابل تحسین ہیں اور ان میں مزید تیزی اور شدت لاتے ہوئے انہیں شہروں میں محنت کشوں سے جوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ مزارعین کی جدوجہد دیگر تحریکوں سے علیحدہ تنہائی کا شکار نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ انجمن مزارعین کو اپنے دوستوں اور دشمنوں کو بھی درستگی کیساتھ شناخت کرنا ہو گا اور نہ صرف رائج الوقت سرمایہ دارانہ سیاسی پارٹیوں کی مداخلت سے تحریک کو بچانا ہو گا بلکہ اسے ہر قسم کی این جی اوز، جو کہ درحقیقت محنت کش عوام کے دکھوں کا دھندہ کر نے والے کاروباری ہوتے ہیں،سے بھی تحریک کو محفوظ رکھنا ہو گا کیونکہ یہ تمام عوام دشمن عناصر حکمرانوں کے ایما پر مزاحمتی تحریکوں میں نقب لگا کر ان کی جڑیں کاٹنے کا کام کرتے ہیں۔ تمام رنگ، نسل، زبان اور فرقہ پروری کے تعصبات سے بالاتر ہو کر طبقاتی بنیادوں پر تحریک کی جڑت اور بڑھوتری ہی کامیابی کی واحد ضمانت ہے۔




















In defence of Marxism!
Marxist Archives
Progressive Youth Alliance