پنجاب: شعبہ صحت کی نجکاری کا عوام دشمن فیصلہ


رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ

پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت نے محنت کشوں کو نئے سال کا تحفہ دیتے ہوئے میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنز ایکٹ 2018ء کے تحت تمام سرکاری ٹیچنگ ہسپتالوں کی غیر اعلانیہ نجکاری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ذرائع کے مطابق ایکٹ کا مسودہ تیار ہے اور نئے سال کے پہلے چند ہفتوں میں اسے صوبائی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کر دیا جائے گا۔ ابھی تک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق تمام ہسپتالوں کو بورڈ آف گورنرز کے ماتحت کر دیا جائے گا جن میں سے اکثریت کاروباریوں اور نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہو گی۔ تمام ڈاکٹروں، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی قانونی سرکاری حیثیت ختم کر دی جائے گی اور وہ بورڈ کے ماتحت کام کریں گے۔ اسی طرح نئے سٹاف کی بھرتی من پسند اجرتوں پر کنٹریکٹ کی بنیاد پر ہو گی جس کے مطابق نوکری یا اجرتوں کا کوئی تحفظ موجود نہیں ہو گا، یعنی سٹاف کو کبھی بھی برطرف کیا جا سکے گا۔ ایڈمنسٹریشن کیڈر کے ڈاکٹرز کی مستقلی بھی ختم ہو جائے گی اور کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا شخص ہسپتال کا ڈائریکٹر اور انتظامی امور چلانے کے لئے آزاد ہو گا۔ پھر مفت علاج فراہم کرنا یا اس کی فیس لینا بھی بورڈ کی صوابدید ہو گا، یعنی علاج معالجہ، ٹیسٹ، آپریشن، وارڈ یا کمرے کی فیسوں اور فراہم کردہ دوائیوں کی قیمت کا تعین بورڈ کرے گا اور مفت علاج دینے کا پابند نہیں ہوگا۔ حکومت کسی بھی قسم کی سہولت فراہم کرنے سے بری الذمہ ہو گی۔

صحت، تعلیم اور دیگر سماجی شعبوں اور صنعتوں کی نجکاری پاکستان میں دہائیوں سے جاری ہے اور ہر سیاسی پارٹی نے تیز یا آہستہ، اپنے صوبے یا وفاق میں بلا تفریق و سوال جواب نجکاری کے عمل کو آگے بڑھایا ہے۔ ہر حکومت کی کامیاب سازش یہ رہی ہے کہ بڑے اداروں جیسے واپڈا یا پی آئی اے کی اعلانیہ نجکاری کی کوششوں کی آڑ میں صحت ، تعلیم اور دیگر شعبوں کی غیر اعلانیہ نجکاری کی جاتی رہی ہے۔ ن لیگ کی حکومت نے اپنے دس سالہ دور حکومت میں پنجاب کے تمام بنیادی ہیلتھ یونٹوں اور اکثریتی ڈسٹرکٹ اور تحصیل ہسپتالوں کو ٹھیکوں پر دے دیا۔ اسی طرح ٹیچنگ ہسپتالوں میں کینٹینوں، میسوں، پارکنگ، لانڈریاں، لیباٹریاں اور دیگر ٹیسٹوں کی سہولیات کو بھی ٹھیکوں پر دے دیا گیا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں اپنے پانچ سالہ دور میں پی ٹی آئی حکومت نے بالکل اسی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنز ایکٹ کا اجراء کیا اور خیبر پختونخواہ کا شعبہ صحت تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔

صحت کی فراہمی کسی بھی ریاست کا بنیادی فرض ہے جس کے لئے عوام پر بھاری ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ ایک صحت مند معاشرہ ایک صحت مند معیشت اور عوام کی بنیادی کلید ہے۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ حکومت خیبر پختونخواہ کی طرز پر ہیلتھ کیئر کارڈ الاٹ کرے گی جس کے تحت سالانہ 3-5لاکھ روپیہ فی خاندان صحت کی سہولت حاصل کرنا ممکن ہو گا اور اسی لئے وہ سرکاری ہسپتالوں کو چلانے کی ذمہ داری سے جان چھڑانا چاہ رہی ہے۔نجی شعبہ جہاں بنیادی ہیلتھ یونٹ، تحصیل اور ڈسٹرکٹ ہسپتالوں کو ہڑپ کر چکا ہے وہیں اب ٹیچنگ ہسپتالوں اور ان سے منسلک میڈیکل کالجوں پر بھی نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ یعنی عوام کے لئے صحت کی سہولت حاصل کرنا ممکن تو ہو ہی جائے گا، ساتھ ہی ساتھ شعبہ صحت کے سٹاف کے سروں پر ہر وقت برخاستگی اور کم سے کم اجرت میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی تلوار سر پر لٹکتی رہے گی اور صحت کی تعلیم حاصل کرنا بھی مٹھی بھر افراد کے لئے ہی ممکن ہو گا۔ ہیلتھ کارڈ کا اجراء بھی عوام کو لوٹنے اور قتل کرنے کا ایک بھونڈا مذاق ہے۔ اس حکومت یا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں کہ پاکستان کی 24 کروڑ عوام کو ہیلتھ کارڈ جاری کئے جا سکیں۔ اور اگر آٹے میں نمک کے برابر افراد کو جاری بھی کئے جائیں تو ایک طرف نجی شعبے کو ہسپتالوں میں کھلی لوٹ مار کی اجازت ہو گی تو دوسری طرف عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہیلتھ کارڈ میں بہا کر نجی شعبے کے بینک اکاؤنٹس میں ہوشربا منافعے ٹھونسے جائیں گے۔


ڈاکٹروں، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی تنظیموں نے اس پورے پروگرام کی مذمت کی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ حکومت اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لئے وقتی طور پر تنخواہوں میں اضافے اور دیگر عارضی مراعات کے ذریعے قیادت کو خریدنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ ساتھ ساتھ یہ اعلانات بھی کئے جا رہے ہیں کہ بورڈ کے تحت ہسپتالوں کی نجکاری نہیں کی جا رہی، بس انہیں خودمختار کیا جا رہا ہے! شعبہ صحت کے سٹاف کو سمجھنا پڑے گا کہ وقتی طور پر مزاہمت سے بچنے کے لئے ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں اور یہی طریقہ کار خیبر پختونخواہ میں بھی اپنایا گیا تھا۔ دوسری طرف جونیئر سٹاف کو سمجھنا پڑے گا کہ ان کے اور سینئر سٹاف کے مفادات 180 کے زاوئیے پر مخالف ہیں کیونکہ یہ اکثر پروفیسر حضرات اور ان کے دیگر نجی شعبے کے دوست احباب ہی ہیں جو مستقبل میں ارب پتی بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس کی سب سے واضح مثال یہ ہے کہ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد ہی سب سے زیادہ بے تابی سے شعبہ صحت کی نجکاری کے لئے کوشاں ہے۔

شعبہ صحت کی تمام تنظیموں کو نہ صرف اکٹھا ہو کر اس گھناؤنے مزدور دشمن حملے کی شدیدترین مخالفت کرنی ہو گی بلکہ عوامی رابطہ کاری کے وسیع سلسلے کو شروع کرنا پڑے گا جس میں عام عوام اور دیگرشعبوں کے مزدوروں کو دراک فراہم کیا جائے کہ پاکستان کی عوام کے ساتھ کیا گھناؤنا کھلواڑ ہو رہا ہے۔ریڈ ورکرز فرنٹ اس عوام دشمن اقدام کی شدید ترین مذمت کرتے ہوئے سمجھتا ہے کہ دیگر سماجی سہولیات کے ساتھ صحت کی مفت، مکمل ، یکساں اور معیاری سہولت عوام کا حق ہے اور اس سلسلے میں اٹھائے گئے تمام مزاحمتی اقدامات درست اور عوام دوست ہیں۔

Comments are closed.