ہانگ کانگ: عوام دشمن قانون کے خلاف لاکھوں لوگ سڑکوں پر

|تحریر: پارسن ینگ؛ ترجمہ: ولید خان|

ہانگ کانگ میں ملین مارچ کے ایک ہفتے بعد ہی 16 جون کو دوسرا عوامی احتجاج منعقد کیا گیا۔ مرکزی منتظمین سول ہیومن رائٹس فرنٹ کے مطابق اس احتجاجی مارچ میں 20 لاکھ افراد نے حصہ لیا۔ تصاویراور اعدادوشمار کے مطابق بالخصوص میرے اپنے مشاہدے کے حساب سے منتظمین کا دعویٰ درست ہے کیونکہ یہ مارث پچھلے اتوار کو ہونے والے مظاہرے سے واضح طور پر بڑا تھا۔

ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لام کی طرف سے ایک دن پہلے اس قانون کو معطل کرنے کے اعلان اور ہانگ کانگ عوام سے معافی مانگنے کے باوجود یہ دیو ہیکل احتجاج منعقد کیا گیا۔ عام ہڑتال کا مطالبہ روز بروز تقویت پکڑتا جا رہا ہے اور تحریک محض اس کالے قانون کے خاتمے سے بڑھ کر چیف ایگزیکٹو کیری لام کے استعفے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی دیگر ممالک میں کئی مرتبہ مشاہدہ کیا ہے، واقعات؛ مدافعانہ عوامی تحریک کو جارحانہ اقدامات کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔

عمل انگیز
15جون کی رات ایک احتجاجی کی ہلاکت نے پہلے سے جاری بڑے بڑے احتجاجوں کو مہمیز دی۔ اس رات ایڈمیریلٹی (ہانگ کانگ شہر کا ایک احاطہ جہاں مرکزی حکومت کے زیادہ تر دفاتر واقع ہیں)میں ایک زیرِ تعمیر عمارت کے ڈھانچے پر چڑھ کر ایک احتجاجی نے ایک بینر آویزاں کرنے کی کوشش کی جس پر کیری لام کے استعفے اور تحویلِ ملزمان قانون(اس مجوزہ قانون کے مطابق ہانگ کانگ میں موجود ملزم کو چین کا حوالے کیا جاسکے گا جہاں اس پر مقدمہ چلایا جائے گا) کی واپسی کا مطالبہ تھا۔ جب انتظامیہ نے اسے ہٹانے کی کوشش کی تو وہ نیچے گر کر جاں بحق ہو گیا۔

15جون کی رات ایک احتجاجی کی ہلاکت نے پہلے سے جاری بڑے بڑے احتجاجوں کو مہمیز دی

اگرچہ 16جون کے عوامی احتجاج کا پروگرام پہلے سے طے شدہ تھا لیکن احتجاجی کی موت کے بعد اتوار کا احتجاج عوامی سوگ میں تبدیل ہو گیا۔ لاکھوں لوگ کالے کپڑوں میں ملبوس ایڈمیریلٹی پہنچ گئے جن میں سے بیشتر افراد سفید پھول اٹھائے ہوئے تھے۔ جوق در جوق اکٹھے ہوتے افراد میں ایک ان دیکھا نظم وضبط اور سلگتا غصہ واضح محسوس کیا جا سکتا تھا۔ جم غفیر میں بھاری اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ بھیڑ میں گھومتے ہوئے مجھے کئی مرتبہ خاص چینی لہجے میں بولے جانے والے الفاظ میرے کانوں میں پڑے(اس کا مطلب ہے کہ چین سے تعلق رکھنے والے افراد بھی بڑی تعداد میں اس احتجاج کا حصہ تھے)۔

دوپہر سے شام تک مظاہرین مسلسل ایڈمیریلٹی کی جانب بڑھتے چلے آرہے تھے۔ شام تک احتجاج کا حجم اتنا بڑھ گیا کہ وہ گلیوں میں پھیلنا شروع ہو گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک غیر اعلانیہ دھرنا شروع ہو چکا ہے کیونکہ مظاہرین کی ایک بڑی تعداد رات گئے تک موجود رہی۔ عوام کا ڈسپلن اور تخلیقی صلاحیت قابلِ دید تھی۔ ایک موقع پر عوام نے انتہائی نظم اور خاموشی سے ایک ایمبولینس کے لئے ایسے راستہ چھوڑا جیسے موسیٰ کے عصا سے بحیرہ احمر میں رستہ بن گیا تھا۔ جب احتجاج کا سلسلہ رات بارہ بجے کے بعد 17 جون کو بھی جاری رہا تو سرکاری طور پر احتجاج کو غیر قانونی ہونے سے بچانے کے لئے مظاہرین نے مل کر ”خداوند کی تعریف“ گانا شروع کر دیا کیونکہ ہانگ کانگ کے قانون کے مطابق مذہبی اکٹھ پر پبلک سیفٹی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ کچھ مظاہرین تو احتجاجی پلے کارڈز لے کر ائر پورٹ بھی پہنچ گئے تاکہ غیر ملکی مسافروں کو ریلی کے ساتھ یکجہتی کے لئے استقبال کیا جا سکے!

عوام کا موڈ اس وقت جارحانہ ہے اور 2014ء کی چھتری تحریک(Umbrella Movement) سے بھی زیادہ تیز و تند ہے۔ سب سے پہلا فرق تو یہ ہے کہ عام ہڑتال کا طبقاتی جدوجہد پر مبنی ہتھیار اس وقت مظاہرین میں بہت مقبول ہے جس کے ذریعے حکومتی حملوں کا مقابلہ کرنے کی خواہش شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ انتہائی دائیں بازو کے ”مقامی“ رجعتی گروہ جن کی بنیاد ہی چین مخالفت اور کمیونسٹ مخالفت ہے اس مرتبہ تحریک میں خاطر خواہ مداخلت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ان کی آپسی لڑائیاں بھی ہیں لیکن بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت عوام تارکین وطن مخالف سیاست سے زیادہ طبقاتی جدوجہد کے ذریعے درپیش مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

درحقیقت ہانگ کانگ کی نئی نسل کی سوچ میں چینی محنت کش عوام کے ساتھ اتحاد کی خواہش شدید تر اور تارکین مخالف سیاست سے شدید نفرت موجود ہے۔ کالج کی ایک سترہ سالہ لڑکی نے اپنے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ

”میری نسل کے طلبہ ٹِک ٹاک کھیلتے ہیں، ہیٹی پیتے ہیں (شین زن میں ایک قہوہ خانے کی چین)، وائس آف چائینہ دیکھتے ہیں اور کچھ تو کینٹونیز(ہانگ کانگ کی مقامی زبان) سے زیادہ مینڈرن(چینی) بولتے ہیں۔ ہم انسٹاگرام استعمال تو کرتے ہیں لیکن فیس بک اتنا استعمال نہیں کرتے۔ مجھے چین سے نفرت نہیں ہے۔ میں چینی گیم شوز دیکھتی ہوں لیکن مجھے CCP(چینی کمیونسٹ پارٹی) کی ہانگ کانگ پر حکمرانی قابلِ قبول نہیں ہے“۔

درمیانے طبقے کی بزدلی اور قیادت کی ناکامی

بدقسمتی سے اس وقت عوام کو وہ قیادت ہی میسر نہیں جس کی وہ حقدار ہے۔ اگرچہ عوام پوری دلیری سے آگے بڑھی ہے لیکن یہ واضح ہے کہ احتجاجوں کے مرکزی قائدین غلط پالیسیوں کے ذریعے عوامی طاقت کو زائل کر رہے ہیں۔

اگرچہ آج بھی عام ہڑتال کا مطالبہ مقبول ہے لیکن تاحال کسی مزدور یا دوسری تنظیم نے اسے منظم کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مثال کے طور پر سول ہیومن رائٹس فرنٹ، جسے پوری تحریک کا منتظم سمجھا جاتا ہے، کروڑوں لوگوں کو منظم کرنے اور اس کی قیادت کرنے کا اہل نہیں ہے۔ اتوار کے احتجاج سے پہلے سول ہیومن رائٹس فرنٹ نے پہلے ہی ”تین ہڑتالوں“ (مزدور ہڑتال، سکول ہڑتال، مارکیٹ ہڑتال) کو روک دیا حالانکہ عام عوام واضح طور پر اس طرف بڑھنا چاہتی ہے۔

شام گیارہ بجے انہوں نے اگلے ہی دن تین ہڑتالیں کرنے کی کال دے دی۔ اس ضمن میں انہوں نے ایک تصویر بھی شائع کی جس کے مطابق سوشل ورکرز ہڑتال کریں گے، طلبہ سکولوں سے باہر آ جائیں گے اور ہانگ کانگ ٹریڈ یونین کنفیڈریشن (HKCTU) احتجاج کرے گی۔ HKCTU نے ہڑتال کے دن کو مزدوروں کی چھٹی کا دن بنا کر پیش کیا جس کی وجہ سے ہڑتال میں موجود طبقاتی جدوجہد کا عنصر شدید تذبذب کا شکار رہا اور اس اقدام کا کردار اجتماعی کے بجائے انفرادی بن گیا۔

لیکن حالیہ احتجاجوں کا حجم سول ہیومن رائٹس فرنٹ اور دیگر تنظیموں کی توقعات سے کہیں زیادہ ہے اور امکانات موجود ہیں کہ عوام موجودہ قیادت کے مشوروں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ سکتی ہے۔

حکمران طبقے میں پھوٹ

چند دن پہلے عوام کی طرف گھٹیا تحکمانہ رویے کے برعکس چیف ایگزیکٹو کیری لام نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے (تحویل ملزمان) بل معطل کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد اتوار کی شام کو معافی نامہ بھی جاری کیا گیا۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے اور عوام اب بوریا بسترا باندھ کر واپس گھر چلی جائے؟

اس اقدام کے پیچھے دو وجوہات کارفرما ہیں۔ پہلی اور سب سے اہم یہ ہے کہ اس قانون کی وجہ سے ہانگ کانگ کے سماج میں شدیدارتعاش پیدا ہوا ہے اور اب حالات یہاں آن پہنچے ہیں کہ عام ہڑتاک کی عدم موجودگی کے باوجود سرمایہ داری شدید خطرے سے دوچار ہے۔ رائٹرز کے مطابق بیجنگ نواز کاروبار اور مفادات ماضی کے برعکس اس مرتبہ مخالف احتجاج منظم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ کچھ سرمایہ دار تو کچھ زیادہ ہی گھبرا گئے ہیں اور انہوں نے سرمایہ ہانگ کانگ سے باہر منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔

اگرچہ عام ہڑتال اور مزدور تحریک یا طلبہ کے قائدین کی جانب سے اسے منظم کرنے کی سنجیدہ کوششوں کی عدم موجودگی کے باوجود عام ہڑتال کا خیال اتنا مقبول ہوا ہے کہ حکومت اور سرمایہ داروں کے پیروں تلے زمین نکل گئی ہے۔ یہاں سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ سماج میں محنت کش طبقے کی حقیقی قوت کیا ہے۔

ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ اور رائٹرز کے مطابق دیو ہیکل عوامی دباؤ کے نتیجے میں خود کیری لام کی ہوا اکھڑ گئی اور اس نے بیجنگ سے اجازت مانگی کہ مظاہرین کے حوالے سے حکمت عملی فوری طور پر تبدیل کی جائے (CCP کی سٹینڈنگ کمیٹی ممبر ہان زینگ سے مشاورت کی گئی جو ہانگ کانگ کے حوالے سے پارٹی پالیسی کا ذمہ دار ہے)۔ اطلاعات کے مطابق CCP نے نہ چاہتے ہوئے بھی لام کے اس مطالبے کو قبول کر لیا ہے کیونکہ احتجاج آنے والے کئی واقعات میں مداخلت کا باعث بن رہا ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ چین تجارتی جنگ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہ حقیقت شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ چینی افسر شاہی کو خطرہ لاحق ہے کہ اگر تحڑیک چین کے ساحلوں سے ٹکرا گئی تو اس کے خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

ہانگ کانگ کے واقعات سے تائیوان میں بورژواDPP کی صدارتی امیدوار سائی انگ وین کے اگلے سال منعقد ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے امکانات بھی روشن ہو رہے ہیں۔ ایک عوامی پارٹی یا سوشلسٹ متبادل کی عدم موجودگی میں کئی تائیوانی نوجوان اور مزدور ”کم تر برائی“ کی دلیل کے بوجھ تلے سائی کی حمایت کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں جسے سطحی طور پر ہی سہی لیکن چین کے خلاف سب سے قابل شخصیت کے طور پر دیکھا جاتاہے۔ پچھلے سال میونسپل انتخابات میں DPP اپنی رجعتی اور مزدور مخالف پالیسیوں کی وجہ سے شرمناک شکست سے دوچار ہوئی لیکن دائیں بازو KMT کے پاپولسٹ جیسے ہان کوؤ یو اور فوکس کون کے سی ای او ٹیری گوؤ کے ابھار کی وجہ سے DPP حمایت میں کچھ اضافہ ہو رہا ہے (دونوں کوحد سے زیادہ چین نواز اور CCP کا منظورِ نظر سمجھا جاتا ہے)۔ DPP کی دوسری فتح کا مطلب تائیوان کے حوالے سے CCP حکمتِ عملی کی شرمناک شکست ہو گی۔

دوسری طرف اگرچہ قانون کو معطل کر دیا گیا ہے، اس کا خاتمہ نہیں کیا گیا۔ کیری لام کا بل کی معطلی کا مقصد یقیناً عوام کو تذبذب کا شکار کرتے ہوئے تحریک کو پسپا کرنا ہو گا لیکن یہ قانون جس کا مسودہ CCP نے تیار کیا ہوا ہے مستقبل میں لاگو کر دیا جائے گا۔ آخر کار ہانگ کانگ سے افراد کو اغوا کر کے چین لے کر آنا اور پھر ٹی وی پر بغیر کسی قانونی بنیاد کے ان سے ”اعترافِ جرم“ کروانا چین کا معمول بن چکا ہے۔ خوش قسمتی سے یہ تحریک ثابت کرتی ہے کہ عوام مایوس ہونے کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ مستعد اور پر عزم ہے۔

CCP بھی اس معطلی کی شکست کو تسلیم نہیں کر سکتی کیونکہ اس سے چینی عوام کے دل و دماغ پر قائم CCP کا دیو ہیکل خوف بخارات بن کر اڑ جائے گا۔ انہیں ہر صورت تحریک کو شکست فاش دینے کا کوئی راستہ تلاش کرنا ہے۔ ابھی سے خبریں آ رہی ہیں کہ ہانگ کانگ تحریک کے کئی منتظمین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ہانگ کانگ تحریک کو کسی صورت تھکن کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور فوری طور پر گلی محلوں اور کام کی جگہوں پر ہڑتالی کمیٹیاں قائم کرنی چاہیے تاکہ ہانگ کانگ حکومت اور CCP کے ممکنہ نئے حملوں کا جرأت مندی سے مقابلہ کیا جا سکے۔ انہیں آئین کی از سرِ نو تشکیل، حقِ خود ارادیت اور بڑے کاروباروں کو ریاستی تحویل میں لیتے ہوئے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینے کا مثبت پروگرام بھی دینا چاہیے تاکہ ہانگ کانگ سرمایہ دارانہ نظام کے مسلط کردہ استحصال اور سماجی تباہ کاریوں سے چھٹکارا حاصل کر سکے۔ فوری طور پر چینی محنت کش طبقے سے حمایت کی اپیل کرتے ہوئے ان کو منظم ہونے کا مشورہ دینا چاہیے تاکہ وہ بھی CCP کے خلاف اپنی جدوجہد کو آگے بڑھا سکیں۔

عالمی یکجہتی

سرحد پار یکجہتی کوئی رومانوی خیال نہیں ہے بلکہ ایک ٹھوس حقیقت اور ضرورت ہے۔ ابھی سے ہم ہانگ کانگ کے ساحلوں سے دور کئی خطوں میں یکجہتی کی علامات دیکھ رہے ہیں۔ جب اتوار کے دن ہانگ کانگ میں لاکھوں افراد کا مارچ ہو رہا تھا تو اس وقت تائیوان کی قومی اسمبلی یوان کے ارد گرد 10ہزار تائیوانی نوجوان کالے کپڑوں میں ملبوس ہانگ کانگ کی حمایت میں اکٹھے ہوئے۔ ان واقعات سے چند دن پہلے ہانگ کانگ کی حمایت میں پورے تائیوان میں لاتعداد خودرو اکٹھ ہوئے۔ ایک مثال 14 جون کی ہے جب تائی پے میں تائیوان نیشنل یونیورسٹی کے ایک طالبعلم نے طلبہ سے اکٹھے ہو کر تحویلِ ملزمان کے کالے قانون کے خلاف حمایت کی اپیل کی۔ آدھے گھنٹے میں 500 سے زیادہ طلبہ ریلی کے لئے اکٹھے ہو گئے۔ سرگرم اور جنگجو تاؤ یوان فلائٹ ایٹنڈنٹ یونین نے، جو اس وقت EVA Air مزدوروں کی قابلِ ذکر ہڑتال کی قیادت کر رہی ہے، ایک یکجہتی پٹیشن جاری کی ہے جس پر 46 یونینز، تنظیموں اور کئی دیگر افراد کے دستخط موجود ہیں۔ پٹیشن میں نہ صرف ہانگ کانگ کی عوام کی حمایت اور یکجہتی کا اعلان کیا گیا ہے بلکہ تائیوانی اور ہانگ کانگ حکومتوں کو مزدور طبقے کو سیاسی ہڑتالیں کا حق نہ دے کر کمزور کرنے کی سازش پر شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

جنوبی کوریا میں یونیورسٹی طلبہ نے 14 جون کو صدر مون جائے اِن کو ایک پٹیشن بھی بھیجی جس میں ہانگ کانگ تحریک کی حمایت کی اپیل کی گئی ہے اور پٹیشن پر اب تک 20 ہزار دستخط ہو چکے ہیں۔ پٹیشن کے منتظمین اب پہلے سے زیادہ سرگرم ہو کر مزید دستخطوں کی مہم چلا رہے ہیں کیونکہ اگر پٹیشن 30 دنوں میں 2 لاکھ دستخط حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو قانونی طور پر صدر کو پٹیشن کا جواب دینا پڑے گا۔ جنوبی کوریا یوتھ کمیونٹی یونین نے، جس کا دعویٰ ہے کہ وہ 15-39 سال کی عمر کے تمام مزدوروں کی نمائندگی کرتے ہیں، بھی یکجہتی کا اعلامیہ جاری کیا ہے۔

یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ چینی محنت کشوں اور طلبہ نے ان واقعات کا کیا جواب دیا ہے کیونکہ متوقع طور پر چین نے ہانگ کانگ میں ہونے والے تمام احتجاجوں کی رپورٹنگ پر پابندی لگا دی ہے۔ لیکن چینی مین لینڈ کے لوگوں کی احتجاجوں میں شمولیت اور اکا دکا یکجہتی پیغامات سے قوی امکانات ظاہر ہو رہے ہیں کہ کافی لوگ ان واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

تمام سرگرم اور جنگجو تحریکوں کو مستقل آگے بڑھنا ہوتا ہے ورنہ دوسرا راستہ پسپائی کا رہ جاتا ہے جس کے نتیجے میں حکومت دوبارہ اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ کل کے احتجاجوں نے تحریک کو معیاری جست دے کر بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ ہانگ کانگ میں تحویلِ ملزمان قانون کے علاوہ بھی بے تحاشا مسائل موجود ہیں۔ یہاں تباہ کن مہنگائی ہے۔ لندن، نیو یارک یا ٹوکیو سے بھی زیادہ۔ محنت کش طبقہ خوفناک حالاتِ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

پھر آئین محنت کش طبقے کو سرے سے کوئی نمائندگی نہیں دیتا اور یہاں کوئی حقیقی جمہوری انتخابات بھی نہیں ہوتے۔ اس لئے آگے بڑھنے کے لئے تحریک کو ہر صورت عوامی رہائش اور ارب پتی جونکوں کی جائدادوں اور املاک کو قومی تحویل میں لینے اور اس تحریک اور ٹریڈ یونینز سے جمہوری منتخب نمائندگان کے ذریعے نئے جمہوری آئین کی تشکیل کا نعرہ بلند کرنا ہے۔ یہ ایک تاریخ ساز موقع ہے۔ تحریک کسی صورت اس موقع کو کھو نہیں سکتی۔

Comments are closed.