پشاور: غیرت کے نام پر سونئی نامی نوجوان لڑکی کا قتل؛ پدر شاہانہ وحشت مردہ باد!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پشاور|

سونئی پشاور کی رہائشی، اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی اور ایک نوجوان لڑکی تھی۔ اس کے ماں باپ کافی عرصہ پہلے وفات پا چکے تھے۔ یعنی وہ ایک یتیم لڑکی تھی جو ماں باپ کی محبت، تربیت اور شفقت سے محروم ہو چکی تھی۔ ماں باپ کی وفات کے بعد سونئی کی زندگی کا اختیار اس کے بڑے بھائی سرتاج کے پاس آگیا تھا۔ اب وہ سرتاج کے رحم و کرم پر ہی زندگی گزار رہی تھی۔

یہ ایک عام سی حقیقت ہے کہ بہن ماں کی طرح بھائی کیلئے دل میں محبت اور درد رکھتی ہے لیکن بھائی کیلئے موجودہ سماج میں بہن جس حد تک اس کی بہن ہے اتنا ہی وہ اس کی غیرت، اس کی عزت اور ملکیت ہوتی ہے۔ لہٰذا جب بہن پر اس کی مکمل حاکمیت پر تھوڑی بھی آنچ آئے تو اس کی غیرت بیدار ہو جاتی ہے اور وہ بہن کو اپنی ملکیت کی طرح اپنی غیرت اور عزت پر قربان کرنے کو بھی تیار ہوجاتا ہے۔

یہی کچھ بڑے بھائی سرتاج نے اپنی چھوٹی بہن سونئی کے ساتھ کیا۔ پہلے سونئی کی مرضی پوچھے بغیر، شاید یاری دوستی میں یا پیسے لے کر اس کی شادی پشاور میں کرائی گئی۔ پھر وہاں سے کچھ عرصے بعد خاوند نے اس کو طلاق دی اور وہ واپس گھر لوٹی اور بھائی کے ساتھ رہنے لگی۔ بھائی نے ایک بار پھر شادی کے نام پر اس کو پنجاب کے شہر میاں والی میں بیچ ڈالا۔ دوبارہ بھی زبردستی کی شادی میں سونئی گھریلو مسائل اور تشدد کی وجہ سے خوش نہیں تھی اور دو سال بعد خاوند نے اس کو طلاق دے دی۔

اس کے بعد کافی عرصے سے وہ بھائی کے گھر پر زندگی کے دن رات گزار رہی تھی۔ زیادہ سے زیادہ پشاور میں وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ چلنے پھرنے نکلا کرتی تھی۔ اب کم عمری میں دو دفعہ طلاق شدہ لڑکی کی زندگی پہلے ہی جہنم بنادی گئی تھی، اور بھائی اس کو پھر سے کہیں شادی کے نام پر بیچنے کیلئے راضی کرنے کی سوچ رہا تھا۔ اس لئے اس کو ہر وقت متنبہ کیا کرتا تھا کہ وہ اپنی عادتیں ٹھیک کر لے اور ہم جو چاہیں، جہاں چاہیں اس کی شادی کرائیں، وہ اس کو من و عن تسلیم کرے۔ لیکن جب سونئی اپنی مرضی کے خلاف فیصلے پر اس بار راضی نہیں ہوئی تو بھائی نے اس کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔

سرتاج نے آج سے ٹھیک تین ماہ قبل اپنی بہن کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کیلئے سونئی کے خلاف پہلے طرح طرح کے الزامات اور کہانیاں اکٹھی کیں۔ سنی سنائی باتوں کا سہارا لیا، اور آج سے دو ماہ قبل یعنی ستمبر کے شروع میں سرتاج نے اپنے دو دوستوں عادل اور عبدالرحمن کی مدد سے بہن کے قتل کا منصوبہ تیار کیا۔ پھر ایک رات تینوں نے سرتاج کے گھر جاکر ایک بے یار و مددگار لڑکی کو پھانسی دے دی۔

اب تینوں مجرم پولیس کے حراست میں ہیں۔ سوشل میڈیا پر موجود ایک چینل کے ساتھ بات کرتے ہوئے سرتاج نے قتل کا اعتراف کیا اور پھر اس کو جرم ماننے سے انکار کر دیا۔ ڈھٹائی سے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے اس کے دوست عبدالرحمن نے کہا کہ وہ تینوں سرتاج کے کوارٹر میں گئے جہاں سونئی ایک کمرے میں سو رہی تھی۔ عادل نے اس کے پاؤں پکڑے اور سرتاج نے اس کے گلے میں ایک پھندا ڈال کر اس کی رگیں اور سانس بند کئے رکھی۔ کچھ منٹ بعد سرتاج کے دوست کی طبعیت خراب ہوئی اور وہ لڑکی کے پاؤں چھوڑ کر باہر نکلا۔ انہوں نے لڑکی کے ہاتھ باندھے ہوئے تھے اور سرتاج نے ایک دفعہ رحمان کو مدد کیلئے بلایا جب اس کے ہاتھ کھل گئے تھے۔ رحمن نے اس کے ہاتھ دوبارہ پکڑے اور سرتاج نے انہیں پھر باندھا۔ پندرہ منٹ بعد سرتاج اپنی پھول جیسی بہن کی لاش کو کندھے پر اٹھائے ہوئے باہر لایا۔ یہ آدھی رات کا وقت تھا۔ انہوں نے لڑکی کو ٹیکسی میں ڈالا اور پشاور سے کچھ فاصلے پر واقع گاؤں شبقدر لے گئے اور وہاں ایک ویرانے میں پھینک دیا۔

یہ ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ ہم اس واقعے کی پر زور مذمت کرتے ہوئے ان قاتلوں کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں، مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ اس معاشرے میں یہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے۔ اس واقعے میں بھائی نے بہن پر بدچلنی کا الزام لگاکر قتل کیا۔ مگر آج سے کچھ تین چار ماہ پہلے اسی شہر میں دو بھائیوں نے اپنی بہن کو اس کے گھر میں گھس کر ہتھوڑوں سے مارا تھا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے والد کی جائیداد میں بھائیوں سے اپنا حق مانگا تھا۔ اسی طرح روز خواتین پر جبر کے بے تحاشہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔

خواتین کے اوپر جبر کرنے کا یہ جواز موجودہ سرمایہ دارانہ نظام فراہم کرتا ہے۔ خاص کر پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں سرمایہ داری کی پسماندہ شکل خواتین پر اور بھی زیادہ جبر کرنے کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ یہاں سرمایہ داری کے ساتھ ساتھ قبائلیت کی اقدار اور روایات باقی ہیں جو آج کے سرمائے اور روپے کے نظام کے ساتھ مل کر بے حد گھناؤنی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ اس نظام میں عورت بھی ایک انسان کی بجائے باقی دولت و ملکیت کی طرح مرد کی ملکیت اور غیرت ہے۔ سرمایہ دارانہ قانون اور مذہبی قوتیں، پارلیمینٹ وغیرہ سب عورت کی اسی ملکیتی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس لیے اس نظام کو ایک انقلاب کے ذریعے ختم کئے بغیر نہ تو عورت کی زندگی میں کوئی بڑی سماجی بہتری آسکتی ہے اور نہ محنت کش طبقے کی مجموعی حالت زار بدلی جا سکتی ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی وہ واحد راستہ ہے جو محنت کش طبقے کو مجموعی طور پر سرمائے کے جبر سے آزاد کرانے کی ضمانت دے سکتا ہے۔

Comments are closed.