اسرائیل میں سماجی سیاسی بحران اور نیتن یاہو کے خلاف احتجاج

|تحریر: جوناتھن ہنکلی، ترجمہ: آصف لاشاری|

اس ہفتے اسرائیل میں ایک ”ملکی سطح پر یومِ جنگ بندی“ بھڑک اُٹھا جب نتن یاہو نے غزہ کی فتح اور قبضے کا اعلان کیا، جو دراصل باقی ماندہ یرغمالیوں کی موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف تھا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

ایک اندازے کے مطابق تقریباً دس لاکھ اسرائیلی، یعنی آبادی کا دس فیصد، سڑکوں پر نکل آئے، جنہیں اسٹیبلشمنٹ کے بڑے حصے موساد کے سربراہان، سرمایہ داروں اور سابق وزرائے اعظم کی پشت پناہی حاصل تھی۔ یہ سلسلہ جاری رہنے والا ہے اور یرغمالیوں کے اہلِ خانہ نے اگلے اتوار کو ایک اور ہڑتال کی کال دی ہے۔

اسرائیل میں احتجاج کوئی نئی بات نہیں ہے، اور یہ جنگ کے دوران مسلسل جاری رہے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت کہ جوں جوں فوجی صورتحال شدت اختیار کر رہی ہے توں توں احتجاج بھی بڑھ رہے ہیں اور براہِ راست فوج کی اعلیٰ ترین سطح میں مخالفت حتیٰ کہ نافرمانی کی دھمکی آ رہی ہے، جو نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

نتن یاہو کی ہر قیمت پر ”مکمل فتح“ کی جستجو اسرائیل کو تقسیم کر رہی ہے۔ اسرائیل کی ایکتا، اس کے حکمران طبقے اور اس کی ریاست میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ غزہ میں نسل کشی کے تباہ کن نتائج کے باوجود اسے مزید آگے بڑھاتے ہوئے، نتن یاہو ملکی سطح پر ایک دھماکہ خیز ٹکراؤ کی تیاری کر رہا ہے۔

نتن یاہو: بقا اور فنا کی کشمکش میں

پچھلے پندرہ برسوں میں زیادہ تر نتن یاہو نے اسرائیل پر حکمرانی کی ہے۔ وہ اپنی بقا اس طرح یقینی بناتا رہا ہے کہ خود کو ”اسرائیل کا محافظ“ ظاہر کرے، ”لبرل اشرافیہ“ کے خلاف عوامی جذبات بھڑکائے اور اسرائیل کے منقسم سیاسی نظام کی چھوٹی جماعتوں کے درمیان چالاکی سے توازن قائم رکھے۔ جیسے جیسے وہ غیر مقبول اور مایوس ہوتا گیا، خصوصاً 2019ء کے بعد جب اسے بدعنوانی کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا، ویسے ویسے اسے اقتدار پر قابض رہنے اور حساب کے دن سے بچنے کے لیے اسرائیلی معاشرے کے دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر پر زیادہ انحصار کرنا پڑا۔

قبل از وقت انتخابات کے کئی سالوں اور ایک مختصر، کمزور اور ”بس نتن یاہو کے علاوہ کسی پر بھی مشتمل“ اتحاد کے بعد، 2023ء میں نتن یاہو دوبارہ اقتدار میں لوٹ آیا۔ اس بار اس نے یہودی بالادستی کی حامی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا جن کی قیادت بیلیزل سموتریچ کر رہا تھا جو خود کو ”فاشسٹ ہم جنس پرست مخالف“ کہتا ہے اور بن گویر، جو اپنے ڈرائنگ روم میں انسانیت کے قاتل باروخ گولڈسٹین کی تصویر لٹکایا کرتا تھا۔ جہاں نتن یاہو کی واحد فکر اپنے اقتدار کو قائم رکھنا اور جیل سے بچنا ہے، وہاں یہ انتہا پسند عناصر غزہ میں نسل کشی، مغربی کنارے پر نئے نکبہ اور ایک عظیم اسرائیل کے قیام کے درپے ہیں۔

یہ اتحاد فوراً ہی اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ اور حکمران طبقے کے طاقتور حصوں سے ٹکرا گیا۔ مارچ 2023ء میں جب حکومت نے سپریم کورٹ کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جو نتن یاہو کی کرپشن کی تحقیقات کر رہی تھی اور دائیں بازو کے انتہا پسند پروگرام کو روک رہی تھی، تو ملک میں تاریخ کی سب سے بڑی احتجاجی تحریک پھٹ پڑی تھی۔

یہ محض ایک عوامی سطح کا احتجاج نہیں تھا: ان مظاہروں کو ایلیٹ کے طاقتور حصے، مثلاً ٹیکنالوجی سے وابستہ سرمایہ دار فعال طور پر سپورٹ کر رہے تھے، جنہوں نے ان اصلاحات میں اسرائیل کے استحکام، منافع خوری اور سلامتی کے لیے خطرہ دیکھا۔ یہ احتجاج اتنے وسیع اور طویل تھے کہ اُس وقت سابق اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے ”اسرائیل میں خانہ جنگی“ کے خطرے کی وارننگ دی تھی۔

اس جنگ سے بہت پہلے ہی اسرائیلی سماج میں گہری تقسیم موجود تھی، اور سب سے بڑھ کر خود حکمران طبقے کے اندرونی حصوں میں تقسیم پائی جاتی تھی۔

غزہ میں نسل کشی

یہ تحریک اچانک 7 اکتوبر 2023ء کے واقعات کے باعث منقطع ہو گئی۔

ان واقعات کے فوری بعد حکمران طبقہ نیتن یاہو کی غزہ کی جنگ کے گرد متحد ہو گیا۔ میڈیا نے اسرائیل میں نسل کشی اور قتل عام کی فضا قائم کی جبکہ اشرافیہ چاہے وہ نیتن یاہو کے حامی ہوں یا مخالف سب اس کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور ”مکمل حمایت“ پیش کی۔

شاونزم پر مبنی یہ اتحاد ہمیشہ صہیونیت کا ایک اہم ستون رہا ہے۔ اسرائیل کو ایک یہودی قلعہ قرار دے کر، جس کے اردگرد وحشی دشمن ہیں، اسرائیلی حکمران طبقہ کامیابی سے اسرائیلی مزدوروں کو اپنے ساتھ باندھنے میں کامیاب رہا ہے، جس سے اندرونی استحکام قائم رہا۔

تاہم، یہ جنگ اسرائیلی معاشرے میں موجود دراڑوں کو ختم نہ کر سکی۔ 7 اکتوبر کے بعد پیدا ہونے والا غصہ صرف حماس کی طرف نہیں تھا۔ یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے اور فلسطینی علاقوں کو تقسیم کرنے کے لیے بارہا حماس کو مضبوط کیا۔ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد یہ غصہ اُس حکومت کی طرف بھی مڑ گیا جس کی سکیورٹی کی ناکامی حماس کے حملے کی صورت میں سامنے آئی۔ یہ ناکامی بڑی حد تک اس وجہ سے تھی کہ نیتن یاہو اور اس کے دائیں بازو کے اتحادیوں نے آئی ڈی ایف کی توجہ ویسٹ بینک میں اشتعال انگیزی، منظم قتلِ عام اور زمین پر قبضوں پر مرکوز کر رکھی تھی۔

جیسے جیسے یہ جنگ کسی نتیجے کے بغیر طول پکڑتی گئی، وہ اتحاد مزید بکھرتا گیا اور پرانی دراڑیں ایک بار پھر ابھر آئیں۔

نیتن یاہو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ جنگ ختم کرنا اس کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گا۔ اس کے اتحادی جو فلسطین کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے کے سخت مخالف ہیں، فوراً پیچھے ہٹ جائیں گے اور اس کی حکومت گر جائے گی، جس کے بعد وہ اپنی باقی زندگی جیل میں گزارنے کے خطرے سے دوچار ہو گا۔ اسی لیے امن کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے مقابلے میں اس کی حکمتِ عملی ہر مرحلے پر ڈھٹائی کے ساتھ جنگ کو بڑھانا رہی ہے، تاکہ کسی بھی انجام کی پرواہ کیے بغیر ”کامل فتح“ حاصل کی جا سکے۔

غزہ میں، اس کا مطلب نسل کُشی ہے۔ 22 مہینوں سے زائد عرصے میں نیتن یاہو اور آئی ڈی ایف نے دہشت، قتل اور بھوک سے مارنے کی ایک اندھی مہم مسلط کی ہے۔ بغاوت کو ختم کرنے میں ناکام رہنے کے بعد، وہ ایک کے بعد ایک ہولناک جرم کے ذریعے غزہ کی مکمل تباہی اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ جرائم ناقابلِ بیان ہیں۔

اور غزہ اسرائیل کی سامراجی یلغار کا صرف ایک محاذ ہے۔ جب یہ غزہ کو برباد کر رہا ہے، اسرائیل نے لبنان میں بڑے پیمانے پر ٹارگٹ کلنگز کی ہیں، ایران کی ایٹمی تنصیبات پر بمباری کی ہے اور شام میں فرقہ وارانہ درندگی کو ہوا دی ہے، جس کے نتیجے میں مزید بے شمار شہری مارے گئے ہیں۔ اس کی چھ محاذوں پر جاری جارحیت نے مشرقِ وسطیٰ کے نازک توازن کو ہلا کر رکھ دیا ہے، خطے کو انتشار کی طرف دھکیل دیا ہے اور اسرائیل کے عرب اتحادیوں کی حکومتوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

فوجی اعتبار سے، امریکی اسلحے سے لیس آئی ڈی ایف نے اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو کچل دیا ہے۔ لیکن سیاسی طور پر، نیتن یاہو کی مسلسل شدت پسندی کی حکمتِ عملی خود اسرائیل کو کھوکھلا کر رہی ہے۔

اسرائیل کا اندرونی بحران

اسرائیل کے اندر حالات بہت پیچیدہ ہیں۔ 82 فیصد یہودی اسرائیلی غزہ کے باسیوں کی بے دخلی کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن رائے عامہ کے جائزے کے مطابق 74 فیصد اسرائیلی ایک ایسے معاہدے کی حمایت کرتے ہیں جو ان کے نزدیک ایک لامتناہی اور بے مقصد جنگ کو یرغمالیوں کے بدلے ختم کر سکتا ہے، جبکہ 76 فیصد چاہتے ہیں کہ نیتن یاہو استعفیٰ دے۔

اپنی تاریخ کی سب سے طویل جنگ کے باوجود، اسرائیل وہ حاصل نہیں کر سکا جس کا نیتن یاہو نے وعدہ کیا تھا یعنی فتح۔ آج بھی 50 یرغمالی جن میں سے 20 کے زندہ ہونے کا امکان ہے غزہ کی سرنگوں میں قید ہیں، اور حماس اب بھی تل ابیب پر راکٹ برسا سکتی ہے۔

یہ ناکامی ایک سیاسی ٹائم بم بن چکی ہے۔

یرغمالیوں کی حالت، جنہیں نیتن یاہو کے ہاتھوں قابلِ قربانی سمجھا گیا، معاشرے میں غصے کا مرکز بن گئی ہے۔ نومبر 2023ء سے یرغمالیوں کے اہلِ خانہ ہر ہفتے کنیسٹ (Knesset) کے باہر احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ نومبر 2024ء میں، جب رفح پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں چھ یرغمالی مارے گئے، یہ مظاہرے بڑھ کر پانچ لاکھ افراد کی عام ہڑتال میں بدل گئے۔ پچھلے مہینے ایک ویڈیو سامنے آنے کے بعد غصہ پھر سے بھڑک اٹھا، جس میں ایک یرغمالی کو دکھایا گیا جو غزہ کے باقی بھوکے اور لاغر لوگوں کی طرح اپنے ہی ہاتھوں اپنی قبر کھود رہا تھا۔

یہ غصہ حکومت کے قدموں تلے ایک کھائی کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ لیکن نیتن یاہو کے اقتدار کے لیے یہ حقیقت کم اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ حکمران طبقے کے اندر موجود دراڑیں دوبارہ کھل گئی ہیں اور اب یہ دراڑیں آئی ڈی ایف کے اعلیٰ ترین عہدوں تک جا پہنچی ہیں۔

’انتہائی دائیں بازو‘ اور ’لبرل‘ صیہونیوں کے درمیان کوئی بنیادی فرق موجود نہیں، کیونکہ دونوں ہی اسرائیل کے سامراجی اثر و رسوخ کو بڑھانا اور مزید زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ حکمران طبقے کا ’لبرل‘ دھڑا اس وقت آگے بڑھنے سے گریز کرتا ہے جب اس کے بنیادی مادی مفادات مختلف سمتوں سے خطرے میں پڑ جائیں۔

اسرائیل، ظاہر ہے، مکمل طور پر مغربی سامراجی حمایت اور سرپرستی پر انحصار کرتا ہے۔ لیکن یہ جنگ اس کے اتحادیوں کے لیے بہت مشکل صورتِ حال پیدا کر رہی ہے، باوجود اس کے کہ وہ آج بھی اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

غزہ میں چند باقی رہ جانے والے صحافیوں، جنہیں اب تک قتل نہیں کیا گیا، کی جانب سے اسرائیلی نسل کشی کی بھیانک تصاویر، جیسے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے بھوکے بچے۔ امداد کی تلاش میں نکلنے والے ہجوم پر امریکی کرائے کے فوجیوں کی گولیاں یا خیموں کے شہروں پر بمباری اور آگ لگا دینا جب کہ لوگ اندر ہی موجود ہوں، ان سب نے دنیا بھر میں رائے عامہ کو مشرقِ وسطیٰ کی ’واحد جمہوریت‘ کے خلاف موڑ دیا ہے۔ امریکہ میں، اسرائیل کی ساکھ ”تباہی کے دہانے“ پر ہے، جیسا کہ سابق اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ کا کہنا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر ملک ایک ’جذامی ریاست‘ بنتا جا رہا ہے۔ ایک اسرائیلی کاروباری شخص کے الفاظ میں: اسرائیلیوں کو لگ رہا ہے کہ وہ ”روس کی طرح بن رہے ہیں، بغیر کسی باضابطہ پابندیوں کے“۔

دنیا بھر میں رائے عامہ کے شدید دباؤ کے باعث اسرائیل کے بہترین دوست بھی مجبور ہو گئے ہیں کہ وہ نسل کشی سے خود کو ظاہری طور پر دور کرنے کی کوشش کریں حالانکہ عملی طور پر وہ اس میں شریک ہیں۔ اسٹارمر، میکرون اور کارنی نے اسرائیل پر سفارتی دباؤ ڈالنے کے لیے ایک ٹیم بنائی ہے اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی دھمکی دی ہے۔ جرمنی، جو اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، نے بھی شدید دباؤ کے تحت اپنے ہتھیاروں کی ترسیل کم کر دی ہے۔

خوش قسمتی سے نیتن یاہو کے لیے، اسرائیل کو اب بھی ایک ایسی ریاست کی حمایت حاصل ہے جو سب سے زیادہ اہم ہے: امریکہ۔ ٹرمپ کے مطابق، غزہ کا معاملہ ”زیادہ تر اسرائیل پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے“۔ اس نے نیتن یاہو کو کھلی چھٹی دی ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔ لیکن قحط کے معاملے پر MAGA تحریک کے ایک حصے کے اس کے خلاف جانے کے بعد، یہ جلد ہی ٹرمپ کا مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔ حتیٰ کہ نوجوان ریپبلکن ووٹروں میں بھی اسرائیل مخالف جذبات بڑھ گئے ہیں، جنگ سے پہلے یہ 35 فیصد تھے اور اب 50 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔

یہ صورتِ حال اسرائیلی حکمران طبقے کے لیے بہت بڑے مضمرات رکھتی ہے۔ وہ پہلے ہی اپنے جرائم کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ اسرائیلی مرکزی بینک کا اندازہ ہے کہ چھ محاذوں پر جاری جنگ نے اسرائیل کی سالانہ GDP کا 10 فیصد نگل لیا ہے۔ ٹیک سیکٹر، جو اسرائیل کی GDP کا 18 فیصد ہے، سرمایہ کاری کے انخلا کی مسلسل لہر کی رپورٹ کر رہا ہے، جس میں دنیا کے سب سے بڑے خودمختار دولت فنڈ کی سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔ سرمایہ داروں کو سرمایہ کاری کے فیصلوں کے لیے استحکام چاہیے، لیکن صورتِ حال کبھی اتنی غیر مستحکم نہیں رہی۔ تل ابیب کے بیس ہزار کروڑ پتیوں میں سے تقریباً سترہ سو جنگ کے آغاز سے ملک چھوڑ چکے ہیں۔

اسرائیلی دفاعی افواج میں بحران

اسرائیلی حکمران طبقے کا ایک بڑا دھڑا اب نیتن یاہو کے خلاف کھل کر کھڑا ہو رہا ہے، کیونکہ وہ اس جنگ کے پیدا کردہ حالات پر سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ جنگ جاری رکھنے کی معاشی قیمت سے زیادہ وہ اس بات کے لیے فکرمند ہیں کہ اسرائیلی معاشرے کا نازک اتحاد ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ 7 اکتوبر اور یہ حقیقت کہ یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی، پہلے ہی اس افسانے کو توڑ چکے ہیں جو بڑی احتیاط سے تراشا گیا تھا کہ آئی ڈی ایف کی حفاظت میں اسرائیل ناقابلِ شکست ہے۔

اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک، آئی ڈی ایف اسرائیلی معاشرے کو جوڑے رکھنے والا سب سے اہم ادارہ رہا ہے۔ اسے ایک ’عوامی فوج‘ کے طور پر پیش کیا گیا، ایک ایسا پگھلنے والا بھٹی خانہ جو اسرائیل کے مختلف نسلی گروہوں کو ’یہودی ریاست‘ کی خدمت میں اکٹھا کرتا ہے۔ یہ اسرائیلی معاشرے کا سب سے معتبر ادارہ ہے جب کہ سیاسی جماعتوں پر اعتماد صرف 14 فیصد رہ گیا ہے، یہودی اسرائیلیوں میں سے 90 فیصد اب بھی آئی ڈی ایف پر اعتماد کرتے ہیں۔

لیکن 684 دنوں کی جنگ نے اس پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

آئی ڈی ایف (اسرائیلی ڈیفنس فورس) حد سے زیادہ پھیل چکی ہے اور تھکن کا شکار ہے۔ اب تک 850 فوجی ہلاک اور 15000 کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ غزہ سٹی کے اندر طویل جنگ جس کے کھنڈرات گوریلا جنگ کے لیے نہایت موزوں ہیں، آئی ڈی ایف کو اس کی انتہاؤں تک دھکیل دے گی۔ چونکہ آئی ڈی ایف نسل کشی کا ہتھیار ہے، اس لیے زخموں کا بڑا حصہ نفسیاتی ہے۔ فارغ کیے گئے ریزروسٹس میں سے 12 فیصد کو پی ٹی ایس ڈی (PTSD) ہے اور خودکشیوں کی شرح کئی دہائیوں میں بلند ترین سطح پر ہے۔

یہ صورتحال ”انکار کے بحران“ (refusal crisis) کی طرف بڑھ رہی ہے۔ نسل کشی کے آغاز پر اسرائیلی بڑی تعداد میں بھرتی کے لیے دوڑ پڑے تھے، یہاں تک کہ ریزرو ڈیوٹی کے لیے آئی ڈی ایف کے کوٹے کا 120 فیصد رضاکارانہ طور پر سامنے آیا۔ اب یہ شرح تقریباً 60 فیصد پر آ گئی ہے۔ 1982ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے بعد سے انکار کی سب سے بڑی لہر کا سامنا کرتے ہوئے، آئی ڈی ایف کے سربراہ فوجیوں کی شدید کمی پر گھبراہٹ میں مبتلا ہیں۔

اس کے علاوہ، رواں سال اپریل سے سابقہ اور موجودہ فوجیوں کی طرف سے جنگ کے خلاف کھلے خطوط کا سیلاب آ گیا ہے۔ ابتدا ایک اجتماعی خط سے ہوئی جس پر فضائیہ کے 1000 فعال اور ریٹائرڈ ریزروسٹس نے دستخط کیے۔ نیتن یاہو نے فوراً ان ”انتہائی اور حاشیائی“ مظاہرین کو برطرف کرنے کی کوشش کی۔ تاہم اس کے بعد کل ایک لاکھ چالیس ہزار اسرائیلیوں کے دستخط شدہ خطوط شائع ہوئے ہیں جن میں موساد کے ایجنٹس، ریٹائرڈ جرنیل، اساتذہ، ملاح، ایلیٹ ویٹرنز اور موسیقار شامل ہیں جو سب جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ایک نمایاں خط، جس پر فوجی انٹیلی جنس کے ایلیٹ ڈیویژن یونٹ 8200 کے ارکان نے دستخط کیے، میں کہا گیا:

”جب کوئی حکومت ذاتی مقاصد کے لیے کام کرے، شہریوں کو نقصان پہنچائے اور معصوم لوگوں کے قتل کی راہ ہموار کرے تو اس کے جاری کردہ احکامات واضح طور پر غیرقانونی ہوتے ہیں، اور ہمیں انہیں نہیں ماننا چاہیے۔“

یہ بغاوت کی کھلی کال ہے۔

فوجیں سیاسی نہیں ہوتیں۔ ان کا کام صرف ”غیر جانبدار“ اور ریاست کے دشمنوں کے خلاف فرمانبردار ہتھیار کے طور پر کام کرنا ہے۔ فوج کو سیاست سے آلودہ کرنا، سپاہیوں کو سوچنے اور کسی ایک فریق کا ساتھ دینے پر مجبور کرنا اور وہ بھی ممتاز سابق فوجیوں کی آشیر باد سے اس بحران نے عین اسی وقت اسرائیلی فوج (IDF) کے اتحاد کو شدید نقصان پہنچایا ہے جب وہ چھ محاذوں پر جنگ لڑ رہی ہے۔

فوج کے اندر تقسیم در تقسیم

یہ ہمہ جہتی بحران اس وقت شدت اختیار کر گیا جب غزہ پر مستقل قبضے کے منصوبے پر بات سامنے آئی۔

نیتن یاہو کا جمود توڑنے اور ”کام ختم کرنے“ کا تازہ ترین منصوبہ، غزہ کو غیر معینہ مدت کے لیے فتح اور قابو میں رکھنے کا ہے، جس کی ابتدا غزہ شہر پر قبضے سے ہونی ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ مزید 60 ہزار جبری بھرتی شدہ فوجیوں کو بلانا چاہتا ہے۔

یہ ایک موت کا جال ہو گا نہ صرف ان دس لاکھ بھوکے فلسطینیوں کے لیے جو وہاں پھنسے ہوئے ہیں بلکہ ان بے شمار اسرائیلی فوجیوں کے لیے بھی جو اس اجڑے ہوئے شہر کو گلی گلی، ایک ان دیکھی بغاوت کے خلاف، اپنے قبضے میں لینے اور برقرار رکھنے پر مجبور ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر، زیادہ تر اسرائیلیوں کے لیے اس کا مطلب لازماً یہ ہو گا کہ باقی بچ جانے والے یرغمالیوں کو قربان کر دیا جائے۔

یہ بات IDF کے سربراہِ عملہ، ایال زمیر سے اوجھل نہیں رہی، جس نے نیتن یاہو سے کہا:

”آپ غزہ میں ایک جال بُننے جا رہے ہیں [جو] یرغمالیوں کی جانوں کو شدید خطرے میں ڈالے گا اور فوج کے اندر بحران پیدا کرے گا۔“

زمیر فلسطینیوں کا دوست ہرگز نہیں ہے۔ لیکن اس معاملے میں اسے جنرل اسٹاف کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل ہے، جو چند ہفتوں میں امن چاہتی ہے۔

نیتن یاہو، اپنی اتحادی جماعتوں کی پشت پناہی کے ساتھ، ہر حال میں آگے بڑھ رہا ہے۔ جس وقت ہم یہ بات کر رہے ہیں، غزہ سٹی کو خالی کرایا جا رہا ہے اور اسے اندھا دھند تباہ کن بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اپوزیشن کے باعث، زمیر کو برطرفی کے لیے نشان زد کر دیا گیا ہے۔ وہ برطرف کیے جانے والا پہلا شخص نہیں ہو گا۔ جنگ سے پہلے اور دوران، نیتن یاہو ریاست کے اندر ہی اپنے مخالفین کے خلاف برسرِپیکار رہا ہے۔ وزیر دفاع یوآو گالانٹ اور سابقہ آئی ڈی ایف چیف ہرزل ہلیوی کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ رونن بار شِن بیت (Shin Bet) کا پہلا سربراہ تھا جسے اس وجہ سے برطرف کر دیا گیا کہ اس نے حکومت مخالف مظاہرین کی نگرانی سے انکار کر دیا تھا۔ اور صرف گزشتہ ہفتے، نیتن یاہو نے اسرائیل کی اٹارنی جنرل، گالی بہاراو-میارا، کو برطرف کرنے کی کوشش کی۔ یہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا، لیکن اس کے باوجود، ان کے دفتر کے تالے بدل دیے گئے۔ فی الحال، زمیر نے سر جھکا کر احکامات مان لیے ہیں۔

اتوار کے دن نیتن یاہو کے منصوبوں نے مارچ 2023ء کے بعد سے سب سے بڑے احتجاج کو جنم دیا۔ ستمبر 2024ء کی طرح، یہ احتجاج یرغمالیوں کے خاندانوں نے منظم کیا۔ اور ایک بار پھر، ان کے پیچھے اسرائیل کی کارپوریشنز کھڑی تھیں جنہوں نے اپنے ملازمین کو ہڑتال کی اجازت دی، جس سے ”شٹ ڈاؤن“ ممکن ہوا، یونیورسٹیاں، وکلا کی بار ایسوسی ایشن اور حمایت میں فوجی و سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا ایک نمایاں حصہ اس میں شامل تھا۔

اس بار یہ حمایت پہلے سے کہیں زیادہ بلند آواز تھی۔ مثال کے طور پر، سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود باراک نے ایک اداریے میں لکھا جس کا عنوان تھا: ”اسرائیل ایک دھتکارا ہوا ملک بن رہا ہے۔ ہمیں بڑے پیمانے پر پُرامن سول نافرمانی کرنی چاہیے جب تک نیتن یاہو معزول نہیں ہوتا“:

”واحد اقدام جو اسرائیل کو اب بھی بچا سکتا ہے وہ ہے بڑے پیمانے پر پُرامن سول نافرمانی، جس کا بنیادی جزو پورے ملک کا مکمل شٹ ڈاؤن ہے جب تک کہ حکومت بدل نہ جائے یا اس کا سربراہ مستعفی نہ ہو۔ صرف اسی وقت جب پورا ملک بڑی ہڑتالوں سے مفلوج ہو گا، یہ فیصلے منسوخ ہوں گے، اور حکومت عوام کی مرضی کے آگے جھک جائے گی، ایک بہتر حکومت کے لیے راستہ ہموار ہو گا۔“

اسی طرح، موساد کے سابق ڈپٹی چیف نے ایک اداریہ لکھا جس کا عنوان تھا: ”ہم فوجی حکم کی نافرمانی کے قریب پہنچ گئے ہیں“:

”کسی حکم کی نافرمانی ایک خطرناک قدم ہے جو آئی ڈی ایف کی کاروائی کی بنیاد کو متزلزل کرتا ہے۔ لیکن وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت ہمیں ایسی صورتحال میں دھکیل رہی ہے جہاں احکامات ماننا کہیں زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہو گا، اور یہ اس نظریاتی بنیاد کو تباہ کر دے گا جس پر فوج کی تشکیل ہوئی تھی۔

چیف آف اسٹاف اور جنرل اسٹاف، آپ کو لازمی طور پر ایک لاحاصل جنگ جاری رکھنے سے انکار کرنا چاہیے جس کا ’حماس پر دباؤ‘ حاصل کرنے کا مبہم ہدف حاصل نہیں ہو رہا، اور جس کا اصل مقصد بظاہر صرف جنگ برائے جنگ لگتا ہے۔“

فوجی اسٹیبلشمنٹ کے افراد 2023ء میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج میں شامل تھے۔ تاہم، جنگ نے کسی حد تک ان دراڑوں پر پردہ ڈال دیا تھا۔ قابلِ ذکر بات یہ نہیں کہ ایک بار پھر سینئر فوجی اہلکار عوامی احتجاج میں شریک ہو رہے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ یہ سب جنگ کے عین دوران، ایک فیصلہ کُن موڑ پر، اور اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ ترین حلقوں سے احکامات نہ ماننے کی اپیلوں کے ساتھ ہو رہا ہے! یہ بے مثال ہے۔

نیتن یاہو کی بیوی اور بیٹے نے کھلے عام معاشرے کے اعلیٰ طبقات اور حتیٰ کہ فوج میں بڑھتی ہوئی اس مخالفت کو ”بغاوت کی سازش“ قرار دیا ہے۔

اتوار کی احتجاجی تحریک نیتن یاہو کو روکنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس نے اسے محض ”حماس کو انعام دینے“ کے مترادف قرار دیا۔

احتجاج اور جنگ بندی کے دباؤ کے باوجود، وہ اس برباد کن راستے پر آگے بڑھنے پر مُصر ہے جس میں لامحدود کشیدگی ہے مگر کوئی اختتامی منصوبہ نہیں۔ عسکری لحاظ سے، یہ لامتناہی طور پر جاری رہ سکتا ہے جیسا کہ عراق، افغانستان اور ویتنام میں ہوا۔ مگر سماجی طور پر، اسرائیلی معاشرے کا تانا بانا پہلے ہی پھٹنے کے آثار دکھا رہا ہے اور حکمران طبقہ ریاست کے بالکل اوپر تک تقسیم ہو چکا ہے۔ یہ نئی، شدید تر کشیدگی اس عمل کو بہت تیزی سے آگے بڑھائے گی اور اگر یرغمالی نیتن یاہو کی نگرانی میں مارے گئے، تو صورتحال دھماکہ خیز ہو سکتی ہے۔

Comments are closed.