کوانٹم میکینکس کی کوپن ہیگن تشریح کے خلاف: مارکسزم کے دفاع میں

|تحریر: ہیری نیلسن، ترجمہ: عبداللہ عمران|

کوانٹم میکینکس سائنس کا وہ حصہ ہے جو ایٹم اور ذرات کی سطح پر مادے کی حرکت کا مطالعہ کرتا ہے۔ یہ بیسویں صدی کے پہلے نصف میں سائنس دانوں کا تجرباتی اور نظریاتی جواب تھا اُن تضادات کے لیے جو انیسویں صدی کی فزکس میں اُبھرے تھے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

کوانٹم میکینکس نے سائنس دانوں اور انجینئرز کو مادی حقیقت کی ایک نئی اور گہری سمجھ دی۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ الیکٹران، ایٹم اور مولیکلیولز کیسے برتاؤ کرتے ہیں، کیمیائی عمل کی فطرت کیا ہے، روشنی مادے سے کیسے انٹریکٹ کرتی ہے، ستارے کیسے وجود میں آتے اور ختم ہوتے ہیں، زندگی کی بایو کیمسٹری کیسے کام کرتی ہے اور یہاں تک کہ انسانیت کی ارتقائی تاریخ کو بھی سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ سیمی کنڈکٹرز، ٹرانزسٹرز، کمپیوٹرز، لیزرز، پلاسٹک، یہ سب اسی فزکس کی بدولت ممکن ہوئے۔ جب اس کے نظریات کو تجربات میں پرکھا گیا تو نتائج حیران کن حد تک درست نکلے۔ اور جب اسے بیسویں صدی کی دوسری بڑی سائنسی کامیابی، یعنی آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت، کے ساتھ جوڑا جائے تو یہ لا متناہی توانائی کے ذرائع (مثلاً نیوکلیئر فیوژن) سے انسانیت کو فائدہ پہنچا نے، یا ایٹمی ہتھیاروں سے اس کو تباہ کرنے، دونوں امکانات سے لیس ہے۔

لیکن اپنی شاندار کامیابیوں کے باوجود یہ تھیوری شدید تنازعات کا شکار رہی ہے۔ اس کے مطابق نہایت چھوٹے اجسام، جیسے الیکٹران یا فوٹون، عام فہم اور روزمرہ کی بصری و جسمانی حسیات سے بالکل مختلف رویہ دکھاتے ہیں۔ چھوٹی چیزیں بڑی چیزوں سے بالکل مختلف برتاؤ کرتی ہیں۔ روشنی کسی ڈِفریکشن گریٹنگ سے گزر کر لہر کی طرح پھیلتی ہے اور پھر اسکرین پر ٹکرا کر ذرے کی طرح نشان چھوڑتی ہے۔ عجیب و غریب قسم کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں جب الیکٹرانز شیشہ نما کرسٹلز سے ٹکرا کر پھیل جاتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ الیکٹران ذرہ نہیں بلکہ لہر ہے، مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔

پریشانی کی بات یہ ہے کہ کوانٹم میکینکس بالکل وہیں کمزور نظر آتی ہے جہاں اس کو سب سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیے، یعنی کسی ایک چھوٹے ذرے کی حرکت کو بیان کرنے میں۔ یہ صرف یہ بتاتی ہے کہ کسی ذرے کے یہاں یا وہاں پہنچنے کا امکان کتنا ہے، یا ایٹم کے اندر الیکٹران کی فلاں یا فلاں توانائی ہونے کا امکان کتنا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتاتی کہ آخر وہ ذرہ یہاں کیوں آیا اور وہاں کیوں نہیں، یا فلاں وقت کیوں زوال پذیر ہوا اور کسی اور وقت کیوں نہیں۔ جب بے شمار ذرات ہوں، جیسے کسی ٹرانزسٹر میں، تو یہ ممکنات مل کر ایک قابل پیش گوئی اوسط رویہ پیدا کر دیتے ہیں جسے ہم استعمال کر سکتے ہیں۔ مگر فزسسٹ مزید جاننا چاہتے ہیں اور کئی نسلوں سے ایک بے چینی محسوس کرتے آ رہے ہیں کہ اس نظریے میں کچھ کمی ہے، یہ کسی نہ کسی معنی میں مکمل نہیں ہے۔

مارکس وادیوں کو آخر سائنس کے اس شعبے کی فکر کیوں کرنی چاہیے؟ شاید بہتر ہے کہ یہ سب سائنس دانوں پر چھوڑ دیا جائے، جو اس کے ماہر ہیں۔ مگر سرمایہ داری کے تحت بورژوا نظریات زندگی کے ہر پہلو میں سرایت کر جاتے ہیں۔ سائنس دان دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ محض حقائق سے کام لیتے ہیں اور بالکل غیر جانبدار ہیں، مگر مثالیں بے شمار ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، چاہے وہ تمباکو کے نقصانات کو دہائیوں تک چھپانا ہو یا نازیوں کے نسلیاتی تجربات۔ پھر سرمایہ داری میں جب سائنس اور ٹیکنالوجی منافع کے بڑے ذرائع ہیں تو سائنس دان کیسے بالکل غیر جانبدار رہ سکتے ہیں؟

جو سب سے قدامت پسند اکیڈیمک سائنس دان تھے، جنہوں نے کوانٹم میکینکس کی تھیوری کو تشکیل دیا، انہوں نے اس کے اندر مارکسزم کی فلسفیانہ بنیاد یعنی جدلیاتی مادیت پر براہِ راست حملہ شامل کر دیا۔ اپنے نقطہ نظر کی خامیوں کا جواب دینے کے لیے انہوں نے کوانٹم طرز عمل کی عجیب و غریب خصوصیات کو اس طرح سمجھایا کہ گویا مادی حقیقت کا وجود ہی نہیں۔ یہ ہے ”کوپن ہیگن تشریح“ جو نیلز بوہر اور ورنر ہائزنبرگ
(Neils bohr and Werner Heisenberg) نے 1920ء کی دہائی کے آخر میں وضع کی۔ ہائزنبرگ کے الفاظ میں: ”میں سمجھتا ہوں کہ کلاسیکی ’راہ‘ کے وجود کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ: ’راہ‘ صرف اسی وقت وجود میں آتی ہے جب ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔“

اگر خیالات ہتھیار ہیں تو یہ بھی مذہب کی طرح بورژوا کا ایک اور ہتھیار ہے، ایک ایسا نظریاتی قلعہ جو اس ان کہے مگر اصل نکتے کی حفاظت کرتا ہے: ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت۔ مگر اس میں کوئی خاص نیا پن نہیں ہے۔ بورژوازی ہمیشہ سے اپنی حکمرانی کے جواز کے لیے حقیقت سے انکار کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ بش اور بلیئر (امریکی اور برطانوی سیاسی راہنما) اکٹھے بیٹھ کر خدائی رہنمائی کے لیے دعا کرتے ہیں (شاید اپنی ’عین نشانے والی‘ بمباری مہمات کے لیے جو عام آبادیوں پر ہوتی ہیں)۔ یونیورسٹیوں اور سرکاری ریسرچ لیبارٹریوں کے تعلیم یافتہ لوگ بآسانی اس بحث میں شامل ہو جاتے ہیں کہ ”مادی حقیقت کا تصور بذاتِ خود مبہم ہے“ اور ”کوانٹم میکینکس محض پیمائش شدہ مظاہر کی بحث ہے جس کا کسی غیر مشاہدہ شدہ حقیقت سے کوئی تعلق نہیں“۔ جو زیادہ ہوشیار ہیں وہ کچھ اور سوچتے ہیں، مگر زبان بند رکھتے ہیں۔ پرانی سوویت افسر شاہی کی طرح، وہ ایک بات سوچتے ہیں، دوسری کہتے ہیں اور تیسری کرتے ہیں۔

کوانٹم میکینکس کا دل: ڈبل سلٹ ایکسپریمنٹ (سلٹ یعنی سوراخ)

کوانٹم مکینکس کو اکثر اعلیٰ درجے کے ریاضی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور ریاضی کو استعمال کر کے کوانٹم مکینکس کے اصولوں کو پیچیدہ حالات میں لاگو کیا جا سکتا ہے۔ ریاضی خود صرف فزیکل آئیڈیاز کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ کوانٹم مکینکس کے بنیادی تصورات، یعنی مادے کی موجی خصوصیات اور روشنی کے ذرّاتی رویے، کو بغیر ریاضی کے بھی درست طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس موضوع کا جوہر فزیکل حقیقت اور بہت چھوٹے پیمانے پر رویے کی وضاحت میں ہے جو روزمرہ کی اشیاء سے بالکل مختلف ہے جن سے ہم واقف ہیں۔

کوانٹم مکینکس کا ایک واضح اور زیادہ مادی انداز میں بیان مشہور فزیسسٹ رچرڈ فین مین نے اپنی کتاب ”سکس ایزی پیسس“ میں کیا ہے۔ ایک نسبتاً زیادہ ریاضیاتی انداز میں اس نے اپنی کتاب ”لیکچرز آن فزکس“ کی تیسری جلد کے ابتدائی ابواب میں یہ پیش کیا۔ فین مین نے اس کو ”ڈبل سلٹ تجربے“ کے ذریعے بیان کیا جسے وہ ایک مشہور قول میں ”کسی کلاسیکل طریقے سے بیان کرنا بالکل ناممکن قرار دیتا ہے اور جو کوانٹم مکینکس کا جوہر ہے اور اس میں اس کا پورا راز چھپا ہے“۔ یہ ایک کلاسیکل آپٹکس کا تجربہ ہے جو چھوٹے پیمانے پر مادے کے متضاد رویے کو واضح طور پر دکھاتا ہے کہ مادہ ایک ہی وقت میں ذرہ اور موج دونوں کی طرح رویہ اختیار کر سکتا ہے۔ یہ کوپن ہیگن تشریح کے آئیڈل ازم کی حقیقت کو بھی ظاہر کرتا ہے اور اس تضاد پر ہائزنبرگ اور بوہر کے عینیت پسندانہ ردعمل کو بھی پیش کرتا ہے۔

موجیں توانائی کے تبادلے کا عمل ہیں جیسا کہ ہم ساحل پر لہروں کے ٹوٹنے سے ریت اور کنکریوں کی حرکت میں دیکھ سکتے ہیں۔ پانی کی سطح پر لہریں آگے پیچھے حرکت کر کے سطح کو متاثر کرتی ہیں۔ اگر دو لہریں مختلف سمتوں سے آ کر کسی ایک مقام پر ملیں تو ان کی حرکت جمع ہو جاتی ہے۔ کسی جگہ بڑی چوٹی یا گہرا گڑھا بن سکتا ہے۔ اگر ایک لہر سطح کو اوپر کی طرف دھکیل رہی ہو اور دوسری نیچے کی طرف تو کل حرکت ہر ایک انفردای لہر کی حرکت سے کم ہو جائے گی۔ جہاں مختلف لہروں کے اثرات ایک دوسرے کو ختم کر دیتے ہیں وہاں کل حرکت صفر ہو جائے گی۔

امتزاج اور رکاوٹ کے یہ پیٹرن موجوں کے رویے کی خصوصیات ہیں۔ ذرّات اس طرح رویہ نہیں رکھتے۔ اگر دو حرکت کرتے ہوئے ذرّے جیسے پتھر آپس میں مل جائیں تو وہ عام طور پر کسی طرح ”جمع“ نہیں ہوتے۔ وہ ٹکرا کر ٹوٹ سکتے ہیں یا ایک دوسرے سے ٹکرا کر راستہ بدل سکتے ہیں۔ ایک گولی نشانے پر لگتی ہے تو دوسری گولی اسی جگہ لگنے پر پہلی کو ختم نہیں کرتی، بلکہ وہاں دو گولیاں ہوتی ہیں جہاں پہلے ایک تھی۔

انیسویں صدی کے آغاز سے یہ مانا گیا کہ روشنی میں موج کی خصوصیات ہیں۔ تھامس ینگ نے رائل سوسائٹی آف لندن میں ایسا تجرباتی ثبوت پیش کیا جس نے یہ بات واضح کر دی۔ اس کلاسیکی تجربے میں اس نے دکھایا کہ اگر روشنی کو ایک رکاوٹ میں دو سلٹوں سے گزارا جائے اور پھر اس کو اسکرین پر گرنے دیا جائے تو روشنی اور اندھیرے کی پٹیاں نظر آئیں گی۔ اس وقت تک غالب رائے، جو نیوٹن کی تھی، یہ تھی کہ روشنی چھوٹے ذرّات پر مشتمل ہے۔ مگر جو پیٹرن ینگ نے دیکھا وہ صرف اس صورت میں ممکن تھا جب ہر سلٹ سے نکلنے والی موجیں جمع ہو رہی ہوں، نہ کہ ذرّات۔ اس نے کہا کہ یہ بات سب سے زیادہ متعصب شخص بھی نہیں جھٹلا سکتا کہ دیکھی جانے والی لکیریں دو حصوں کی روشنی کے باہمی امتزاج سے پیدا ہوتی ہیں۔

ینگ کا نظریہ کہ روشنی موج ہے اور ذرہ نہیں، سو سال سے زیادہ عرصے تک تسلیم کیا گیا۔ مائیکل فیراڈے کے تجربات اور جیمز کلارک میکسویل کے نظریات نے اسے مزید مضبوط کیا، جنہوں نے بتایا کہ روشنی کی موجیں دراصل برقی مقناطیسی اشعاع ہیں۔ جس طرح پانی کی موجیں پانی کی سطح میں خلل ہیں اسی طرح روشنی برقی اور مقناطیسی میدانوں میں خلل ہے۔ 1887ء میں ہائنرش ہرٹز نے کم فریکوئنسی پر برقی مقناطیسی اشعاع پیدا کر کے اسے ثابت کیا، جو روشنی سے کم فریکوئنسی کی ریڈیو موجوں کی شکل میں تھیں۔ روشنی کے موجی نظریے کو مضبوط بنیاد مل گئی۔

انیسویں صدی کے آخر میں کلاسیکی فزکس کا یہ مضبوط حصہ ٹوٹ گیا۔ کئی سائنس دانوں نے دکھایا کہ جب روشنی دھات پر پڑتی ہے تو بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔ کلاسیکی فزکس کے مطابق کرنٹ کی طاقت روشنی کی شدت پر منحصر ہونی چاہیے تھی نہ کہ اس کی فریکوئنسی پر۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ فریکوئنسی بڑھانے سے کرنٹ بڑھ گیا اور کم کرنے سے ایک خاص حد کے نیچے کرنٹ رک گیا، چاہے روشنی کتنی بھی تیز ہو۔ برقی مقناطیسی موجوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا مگر روشنی نے کیا۔

پھر 1905ء میں آئن سٹائن نے تجویز کیا کہ اس مظہر کو روشنی کو لہریں نہیں بلکہ چھوٹے ذرات پر مشتمل مان کر واضح کیا جا سکتا ہے۔ اس نے تجویز دی کہ جب روشنی کسی دھات کی سطح پر پڑتی ہے تو وہ الیکٹران سے ٹکراتی ہے اور برقی رو پیدا کرتی ہے۔ روشنی کا ہر ذرہ، جسے فوٹون کہا جاتا ہے، کی توانائی اس کی فریکوئنسی کے متناسب ہوتی ہے۔ اگر فوٹون کے پاس الیکٹران کو باہر نکالنے کے لیے کافی توانائی ہو، یعنی اگر اس کی فریکوئنسی زیادہ ہو تو وہ ایٹم سے الیکٹران کو باہر نکال سکتا ہے اور پھر الیکٹران آزادانہ طور پر حرکت کر سکتا ہے۔

1909ء میں، ماہر طبیعات جیوفری انگرام ٹیلر نے اپنے انٹرفیرنس تجربے کے نتائج بتائے جس میں بہت کمزور روشنی کا استعمال کیا گیا تھا۔ روشنی کا ذریعہ اتنا کمزور تھا کہ ایک وقت میں صرف ایک فوٹون ہی آلے سے گزرتا تھا۔ اس کے باوجود، انٹرفیرنس (تداخل) کی لکیریں نظر آئیں۔ یہ تجربہ کئی بار دہرایا گیا۔ اس وقت سے، بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں حساس فوٹو ڈیٹیکٹرز کی ترقی کے ساتھ اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ انٹرفیرنس کے تجربات کیے جائیں جو اصل میں انفرادی فوٹونز کے رویے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

فوٹونز ایسے مقامات پر پہنچتے ہیں جہاں بظاہر ان کا مکمل طور پر بے ترتیب ہونا سامنے آتا ہے۔ مزید فوٹونز کے ساتھ مزید فوٹونز آتے ہیں، لیکن زیادہ تر انٹرفیرنس پیٹرن کے روشن حصوں پر پہنچتے ہیں اور کبھی بھی مکمل طور پر تاریک حصوں پر نہیں پہنچتے۔ آخرکار جب ہزاروں فوٹونز پہنچ جاتے ہیں (اور عام روشنی کی شدت میں اربوں فوٹونز ہوں گے) تو ہم دیکھتے ہیں کہ انٹرفیرنس پیٹرن انفرادی فوٹونز کی آمد سے بنتا ہے۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ انٹرفیرنس ایک لہر کا مظہر ہے، لیکن روشنی چھوٹے ذرات سے بنے ہوئے نقاط کی صورت میں پہنچتی ہے نہ کہ لہروں کی صورت میں۔ ہم اسکرین کے روشن حصوں پر نقاط کیوں دیکھتے ہیں اور تاریک حصوں پر کیوں نہیں؟ ہم اس کی وضاحت یہ کہہ کر نہیں کر سکتے کہ فوٹونز ایک دوسرے سے مداخلت کرتے ہیں، یہی بات تب بھی ہوتی ہے جب آلے میں صرف ایک فوٹون ہوتا ہے۔ کیا فوٹون تقسیم ہو کر دونوں سلٹس سے گزرتا ہے؟ یا پھر، جیسا کہ کوانٹم فزکس کے ماہر پال ڈیریک پراسرار طور پر کہتے ہیں کہ ”ہر فوٹون صرف اپنے آپ سے مداخلت کرتا ہے“۔

(ڈیریک بیسویں صدی کے سرکردہ ماہرین فزکس میں سے ایک ہیں اور ان کے فلسفیانہ بیانات اس تصور پر مبنی ہیں جس نے جدید فزکس کو متاثر کیا ہے، مثال کے طور پر یہ اقتباس لیں: ”یہ نتیجہ اتنا خوبصورت ہے کہ اسے درست ہونا چاہیے، یہ ضروری ہے کہ کوئی اپنی ایکویشنز میں خوبصورتی کو ان کے تجرباتی طور پر ثابت ہونے پر ترجیح دے۔“)

سائنسدانوں کو سو سال بعد بھی یہ سوال الجھا رہا ہے کہ ایک اکیلا ذرہ کس طرح انٹر فیرنس پیدا کر سکتا ہے اور وہ آج بھی ان ہی بنیادی تجربات کو دہرا رہے ہیں جیسا کہ پرنسٹن میں ہوا، تاکہ یہ جان سکیں کہ کیا اس میں کچھ نیا سیکھنے کو ہے۔ آئن سٹائن نے 1938ء میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور اس کا آج بھی کوئی جواب نہیں: ”آخر روشنی حقیقت میں ہے کیا؟ کیا یہ ایک موج ہے یا فوٹانز کی بارش؟ ایسا لگتا ہے کہ کبھی ہمیں ایک نظریہ استعمال کرنا پڑتا ہے اور کبھی دوسرا اور بعض اوقات دونوں ہی کو۔ لیکن ہم ایک نئی مشکل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس حقیقت کی دو متضاد تصویریں ہیں؛ الگ الگ یہ دونوں روشنی کو پوری طرح نہیں سمجھاتیں، لیکن اکٹھی ہو کر وہ ایسا کرتی ہیں۔“

یہ صورتحال اس وقت اور بھی پیچیدہ ہو جاتی ہے جب روشنی کی بجائے ہم الیکٹرانز کو دو سوراخوں سے گزارتے ہیں۔ 1897ء میں جے جے تھامسن نے تجربات کیے جن سے یہ ظاہر ہوا کہ الیکٹرانز چھوٹے برقی ذرات ہیں۔ اگلے تیس سال تک فزکس میں یہی تصور غالب رہا۔ لیکن 1927ء میں کلنٹن ڈیوِسن اور لیسٹر جرمَر نے دیکھا کہ جب الیکٹران بیم کو کرسٹل پر ڈالا گیا تو ان میں ڈائفریکشن یعنی موجی اثرات ظاہر ہوئے۔ جی پی تھامسن نے بھی یہی اثر دیگر باریک فلموں پر دیکھا۔

یہ تجربات سائنسدانوں کو ایک بار پھر اس عجیب رویے کی طرف لے گئے کہ نہ صرف روشنی کی موجیں ذروں کی طرح برتاؤ کر سکتی ہیں بلکہ ذرات بھی موجوں کی طرح برتاؤ کر سکتے ہیں۔ الیکٹران ڈبل سلٹ تجربہ اُس وقت تکنیکی طور پر ممکن نہ تھا لیکن کوانٹم فزکس کے ابتدائی ماہرین نے اسے بطور خیالی تجربہ پیش کیا تاکہ مادّے کے موجی رویے کو سمجھ سکیں۔ یہ تجربہ بالآخر 1961ء میں کلاؤس یونسون نے کیا۔ بعد میں ایک ایک الیکٹران کے ساتھ ڈبل سلٹ تجربہ پیئر جورجیو مرلی، جیان فرانکو میسی رولی اور جولیؤ پوزی نے 1974ء میں بولونیا میں کیا اور پھر 1989ء میں اکیرا تومونورا اور ساتھیوں نے ہٹّاچی میں اسے دہرایا۔

ان تمام تجربات کے نتائج وہی نکلے جن کی توقع کوانٹم فزکس کے ماہرین کو تھی کہ الیکٹران، حتیٰ کہ ایک ایک الیکٹران، موجوں کی طرح تداخل کر سکتے ہیں حالانکہ انہیں ذرات کی طرح شمار کیا جاتا ہے۔

کوپن ہیگن تشریح

روشنی کے ذراتی رویے یا الیکٹران کے موجی رویے کو ذرات اور موجوں کے کلاسیکی تصورات کے ذریعے سمجھانے کی کوشش ناممکن معلوم ہوئی، کیونکہ یہ تصورات مادے کے بڑے پیمانے پر رویے کے مشاہدات سے نکلے تھے۔ اصل تضاد ذرات کے مقامی رویے اور موجوں کے غیر مقامی رویے کے درمیان تھا، جسے ابتدائی طبیعیات دانوں نے اس جملے میں سمیٹ دیا: ”موج اور ذرے کی دوہری کیفیت“۔

جب سائنس کسی تضاد یا معمے سے دوچار ہوتی ہے تو یہ کچھ نیا سیکھنے کا موقع بن سکتا ہے۔ زیادہ محنت اور مزید تجربات سے سائنس آگے بڑھ سکتی ہے۔ لیکن یونیورسٹی کے ماہرین کے لیے خاص طور پر یورپ کی پرانی جامعات میں، اکثر کسی تضاد یا ممکنہ غلطی کو ماننا مشکل ہوتا ہے اور کسی مسئلے کو حل کرنے سے قاصر ہونے کا اعتراف کرنا تو اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ علمی تربیت ایک مقابلہ بن جاتی ہے اور انفرادیت پر مبنی ماحول میں ہوتی ہے جہاں دوسروں کے مقابلے میں بہتر جواب دینا اہمیت رکھتا ہے۔ لیبارٹری کا سائنسدان، جس کا ساز و سامان ہزاروں ہاتھوں کی اجتماعی محنت کا نتیجہ ہوتا ہے، اکثر اپنے نتائج کو ”میری تحقیق“ یا ”میری دریافت“ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ سیمینارز میں بحث صرف کسی خیال کے دفاع کی نہیں ہوتی بلکہ خود شخص کے دفاع کی ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس میں تنخواہوں، مراعات اور ترقیوں کا سوال بھی شامل ہوتا ہے۔

ہائزنبرگ کے لیے موج اور ذرے کی دوہری کیفیت کا تضاد ناقابل برداشت تھا، خاص طور پر اس وجہ سے کہ وہ اسے سمجھنے میں ناکام رہا۔ لیکن اگر اتنے بڑے استاد کو اس کا جواب معلوم نہیں تو یہ واضح طور پر ناقابلِ علم ہے اور اسے جانا نہیں جا سکتا۔

یہ سب سے قدامت پسند سائنسدان ایک کلاسیکی زبانوں کے پروفیسر کا بیٹا تھا۔ اس نے 1918ء میں باویریائی سوویت افواج کے خاتمے میں حصہ لیا تھا اور بعد میں لکھا: ”میں سترہ برس کا لڑکا تھا اور اسے ڈاکو پولیس کا کھیل سمجھتا تھا“۔ دوسری عالمی جنگ میں وہ نازی ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کا سربراہ تھا۔ اس کی پرورش اور کلاسیکی فلسفے کی تربیت نے اسے موج اور ذرے کی دوہری کیفیت کے تضادات کو قبول کرنے سے روکے رکھا۔ اس نے اسے فلسفیانہ ہتھیار بھی فراہم کیے تاکہ وہ نہ صرف جدلیاتی بلکہ مادّی تشریح کو بھی رد کر سکے۔

اپنے مشہور مقالے ”عدم یقینی کے اصول“ (انسرٹنیٹی پرنسپل) میں ہائزنبرگ نے دکھایا کہ کوئی بھی تجربہ جو یہ جاننے کی کوشش کرے کہ ذرہ کس سوراخ سے گزرا ہے (اور اس طرح اسے ذرے کی طرح لوکلائز کرے) تو یہ کوشش اس کے موجی رویے کو بگاڑ دے گی۔ اگر خردبین کے ذریعے ذرے کو دیکھا جائے تو اس کے لیے روشنی کی لہر اتنی چھوٹی ہونی چاہیے کہ ایک سوراخ کو دوسرے سے ممتاز کر سکے۔ لیکن اگر روشنی کی لہر اتنی چھوٹی ہو تو وہ ذرے کی سمت بدل دے گی اور تداخل کا نمونہ ختم ہو جائے گا۔ اسی سے ہائزنبرگ نے اپنا اصول اخذ کیا: ”جتنا زیادہ کسی شے کی جگہ کو ناپا جائے اتنی ہی کم اس کی حرکت کی درستگی معلوم ہو گی، اور اس کے برعکس بھی۔“

یہ نتیجہ تجربے کی جیومیٹری اور روشنی کے ذراتی رویے کا تقاضا ہے (کہ مخصوص ویو لینتھ کی روشنی مخصوص مقدار حرکت والے فوٹانز کے برابر ہے)۔ نیلز بوہر، جو ہائزنبرگ کے ساتھ کوپن ہیگن کی یونیورسٹی میں کام کر رہا تھا، اس نتیجے کو دوسرے طریقے سے بیان کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا، فرض کریں کہ ہم روشنی کی ایک مختصر پلس (pulse) پیدا کرتے ہیں۔ ذراتی نقطہ نظر سے یہ سورس بہت سے فوٹان خارج کرتا ہے جو ایک ہی چھوٹے سے خطے میں سفر کرتے ہیں۔ موجی نقطہ نظر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس پلس کو پیدا کرنے کے لیے مختلف ویو لینتھ کی بہت سی موجیں درکار ہیں۔ ویو لینتھ مومینٹم کے برابر ہے اس لیے روشنی کی مختصر پلس میں مومینٹم کی وسیع حد ہو گی چاہے ہر فوٹان کی جگہ درست معلوم ہو۔ لمبی پلس میں الٹ ہو گا، مومینٹم درست معلوم ہو گا لیکن فوٹانز کی جگہ غیر یقینی ہو گی۔ یہ پھر وہی اصولِ عدم یقینی ہے۔ بوہر کے لیے یہ اصول مادے کی موج و ذرے کی دوہری کیفیت کا مرکز تھا، جبکہ ہائزنبرگ کے لیے مشاہدہ زیادہ اہم تھا۔

ہائزن برگ اور بوہر دونوں کے لیے عدم یقین کا اصول ایک موقع بن گیا کہ کوپن ہیگن تعبیر کی ریاضیاتی اور فلسفیانہ عمارت تعمیر کی جائے۔ یہ دراصل مادی حقیقت کے انکار کے لیے ایک ریاضیاتی جواز تھا۔ ہائزن برگ کے ڈبل سلٹ تجربے کے تجزیے اور بوہر کے روشنی کی مختصر پلس کے تجزیے کو ایک عام اصول کی مثالوں کے طور پر پیش کیا گیا جسے بوہر نے ”تکمیلیت کا اصول“ (پرنسپل آف کمپلیمنٹریٹی) کہا۔ اس کے مطابق کبھی بھی بیک وقت ذرّاتی اور موجی رویہ نہیں دیکھا جا سکتا۔ یا تو ذرات کو دیکھا جا سکتا ہے یا پھر موجوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن بیک وقت دونوں کو دیکھنے کی کوئی بھی کوشش ناکام ہونی ہی ہے۔ اس لیے اس نے تضاد کو اس طرح حل کیا کہ سوال کو ہی ممنوع قرار دے دیا: یہ سوال ہی نہ پوچھا جائے، کیونکہ اگر پوچھا تو جواب کبھی نہیں ملے گا۔ ”تم یا تو ذرات دیکھو گے یا موجیں، لیکن کبھی دونوں نہیں۔“

مزید یہ کہ فزکس میں صرف مشاہدہ ہی کیا جا سکتا ہے، اس کو پیمائش کے نتائج کی سائنس کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، ایسی قیاس آرائی کے طور پر نہیں جو ثابت نہ ہو سکے۔ ذرہ کہاں تھا اس سے پہلے کہ اسے دیکھا جائے، یہ سوال بے معنی ہے۔ ذرہ بطور ایک حقیقت صرف مشاہدے کے وقت وجود میں آتا ہے۔ سادہ زبان میں ”پیمائش کا عمل ویو فنکشن کے اچانک انہدام کا سبب بنتا ہے“۔ جب پیمائش کی جاتی ہے تو یہ عمل بے شمار امکانات میں سے ایک کو چن لیتا ہے اور ویو فنکشن فوراً ایک مقامی (لوکلائزڈ) واقعہ میں بدل جاتا ہے تاکہ اسی انتخاب کی عکاسی کر سکے۔

طنزیہ اور بالکل درست طور پر، فائن مین نے اسے ”ویو فنکشن کے انہدام کا جادو“ کہا۔ مشاہدہ کرنے والا اس بات کو بدل سکتا ہے کہ کیا دیکھا گیا ہے، یہ کوئی نیا خیال نہیں۔ لیکن ہائزن برگ اور بوہر کے نزدیک مشاہدہ کرنے والا نہ صرف مشاہدہ کی جانے والی چیز کو بدلتا ہے بلکہ حقیقت کو پیدا کرتا ہے۔

یہ محض ایک کوشش تھی کہ رسمی منطق کی ناکامی کو چھپایا جائے، کیونکہ شواہد مادے کے موجی اور ذراتی دونوں پہلوؤں کی گواہی دیتے تھے۔ متبادل یہ تھا کہ موج-ذرہ دوگانگی کو بطور ایک گہری حقیقت قبول کیا جاتا، یعنی یہ کہ حرکت میں موجود اشیاء کے لیے جامد تصورات ناکافی ہیں۔ ایسا نقطہ آغاز زیادہ گہرے مطالعے، مزید تجربات اور زیادہ سائنسی نظریات کے لیے راستہ کھول سکتا تھا۔ دراصل مادے اور روشنی کے تعامل کو سمجھنے کا بنیادی سوال یہی ہے جو ہمیں ایک ساتھ ذرّاتی اور موجی رویے تک لے جاتا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کن مفروضات، مشاہدات اور ریاضیاتی طریقوں کو از سر نو پرکھا جائے تاکہ اس رجحان کی گہری تفہیم حاصل ہو؟ مگر سیاسی وجوہات کی بنا پر، کیونکہ جدلیاتی مادیت (مارکسزم) کو بورژوا پروفیسروں کے مطالعے سے خارج کر دیا گیا ہے، ہم ایک بند گلی میں پہنچ جاتے ہیں جہاں مزید تلاش کو ناممکن قرار دے دیا جاتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ رسمی منطق کے قوانین ایک حد سے آگے جا کر ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ بات خاص طور پر ذیلی ایٹمی دنیا کے لیے درست ہے، جہاں شناخت، تضاد اور اخراجِ ثالث کے اصول لاگو نہیں ہوتے۔ ہائزن برگ رسمی منطق اور آئیڈیل ازم کے مؤقف کا دفاع کرتا ہے اور اسی لیے وہ ناگزیر طور پر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ذیلی ایٹمی سطح پر تضاد آمیز مظاہر انسانی ذہن کی گرفت میں نہیں آ سکتے۔ مگر اصل مسئلہ مشاہدہ شدہ مظاہر میں نہیں بلکہ پرانی اور ناکافی رسمی منطق میں ہے۔ جسے وہ کوانٹم میکانیات کے ”متناقض مظاہر“ کہتے ہیں، وہ دراصل یہی ہیں۔ ہائزن برگ جدلیاتی تضادات کی موجودگی کو قبول نہیں کرتا اور اس کی بجائے فلسفیانہ تصوف کی طرف مائل ہوتا ہے یعنی کہ: ”ہم جان نہیں سکتے، اور بس۔“

کوپن ہیگن تشریح کو چیلنجز

ہائزنبرگ کے لیے بد قسمتی سے، جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے سائنس دانوں کو یہ دکھانے کے قابل بنا دیا ہے کہ ذیلی ایٹمی ذرے کا راستہ بالکل حقیقی ہے۔ ہائی انرجی فزکس کے تجربات میں یہ عام بات ہے کہ ذرات کے راستے دیکھے جا سکتے ہیں، جہاں پوزیشن اور رفتار دونوں کو غیر یقینی حد سے بھی زیادہ درستگی کے ساتھ ناپا جا سکتا ہے۔ ہائزنبرگ نے ایسے شواہد کے خلاف اپنے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس کا غیر یقینی اصول صرف مستقبل کی پیش گوئی کے لیے متعلقہ ہے۔ لیکن اس نے یہ بھی کہا کہ: ”ماضی کے بارے میں یہ علم خالصتاً قیاس آرائی کی نوعیت کا ہے، یہ ذاتی عقیدے کا معاملہ ہے کہ آیا الیکٹران کے ماضی کے بارے میں کوئی حسابی تجزیہ کسی جسمانی حقیقت سے منسلک کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔“

یہ گویا بلی کو تھیلے سے باہر نکالنے کے مترادف ہے، جیسا کہ انگریزی محاورہ ہے، ”یہ ذاتی عقیدے کا معاملہ ہے“۔ خود ہائزنبرگ تسلیم کر رہا ہے کہ اس کی نظریاتی تشریح دراصل نظریاتی انتخاب ہے اور اس کا متبادل جواز کہ عدم یقینی اصول صرف مستقبل کی پیش گوئی کے لیے ہے، ایک عام سی بات ہے۔ اگر مومینٹم کو صرف ایک خاص حد تک درستی کے ساتھ جانا جا سکتا ہے، تو ہم صرف مستقبل کی پوزیشن کو اسی حد تک درست طور پر جان سکتے ہیں۔ اس میں کچھ بھی نیا یا گہرا نہیں ہے۔

فزسسٹ میکس بورن نے لہر ذرہ دوہریت کی ایک متبادل تشریح تیار کی جو کوپن ہیگن تشریح کے خیال پرست نقطہ نظر سے ہٹ کر تھی۔ ایرون شرونگر نے دکھایا تھا کہ کسی نظام کی ”کوانٹم مکینیکل ویو فنکشن“ کس طرح نکالی جا سکتی ہے؛ بورن نے شرونگر کی ویو فنکشنز کو جسمانی اجسام کے طور پر نہیں لیا بلکہ اس طرح لیا کہ وہ اس امکان کو بیان کرتی ہیں کہ کوئی ذرہ کسی خاص جگہ پر ہے۔ مثال کے طور پر، ڈبل سلٹ تجربے میں ایک سلٹ سے گزرنے کے لیے ایک ویو فنکشن ہوتا ہے اور دوسری سلٹ سے گزرنے کے لیے دوسرا۔ کسی خاص جگہ پر پہنچنے کا امکان ان ویوز کے سپرپوزیشن سے نکلتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے پانی کی سطح پر مختلف لہروں کا مجموعہ۔ آئن سٹائن نے اس خیال کو یوں بیان کیا:

”یہ ناممکن ثابت ہوا کہ ان شروڈنگر لہروں کو ماس پوائنٹس کی واضح حرکات سے جوڑا جائے حالانکہ یہی پورے ڈھانچے کا اصل مقصد تھا۔ مشکل اس وقت تک ناقابلِ حل رہی جب تک بورن نے ایک ایسا طریقہ نہیں نکالا جو نہایت سادہ اور غیر متوقع تھا۔ ڈی بروئی شروڈنگر ویو فیلڈز کو اس بات کی ریاضیاتی وضاحت نہیں سمجھنا چاہیے کہ کوئی واقعہ دراصل وقت اور خلا میں کیسے ہوتا ہے؛ بلکہ یہ اس کا ریاضیاتی بیان ہے کہ ہم کسی نظام کے بارے میں اصل میں کیا جان سکتے ہیں۔ یہ صرف اعداد و شمار اور پیش گوئیوں کے لیے ہیں جو ہم نظام پر کی جانے والی پیمائشوں سے حاصل کر سکتے ہیں۔“

جیسا کہ آئن سٹائن نے کہا، اس تشریح میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ویو فنکشنز کو حقیقی وجود نہیں سمجھا جاتا۔ ذرات موجود ہیں، وہ تعامل کرتے ہیں، سلیٹس سے گزرتے ہیں، ایٹموں میں حرکت کرتے ہیں۔ لیکن ان سے منسلک ویو فنکشنز محض ریاضیاتی اوزار ہیں جن کے ذریعے فزسسٹ کسی حالت یا مختلف حالتوں کے امتزاج کے امکان کا حساب لگا سکتا ہے، جیسے کہ ہائیڈروجن ایٹم میں الیکٹران کی کسی خاص توانائی پر موجود ہونے کا امکان یا کسی فوٹون کے مختلف راستوں سے گزر کر ڈیٹیکٹر پر پہنچنے کا امکان۔ جب ذرات زیادہ ہوں، تو یہ امکانات مختلف مقامات پر آمد کی ڈینسٹیز میں ڈھل جاتے ہیں، جیسے کہ ڈبل سلٹ تجربے میں روشن دھبے پر، نہ کہ تاریک حصے پر۔

کوانٹم مکینیکل رویے میں یہ بصیرت اصل میں وہی طریقہ ہے جو عملی ایپلی کیشنز میں استعمال ہوتا ہے۔ اسے بعض اوقات (شاید رچرڈ فین مین کی طرف منسوب کیا جاتا ہے) ”شٹ اپ اینڈ کیلکولیٹ“ طریقہ کہا گیا ہے جو کہ مختلف تشریحات کے تصوف سے ہٹ کر ایک حقیقت پسندانہ ردعمل ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی انجینئر ٹی وی سسٹم ڈیزائن کر رہا ہو، تو وہ یہی طریقہ استعمال کرے گا۔ الیکٹران یہاں سے گرمی کی وجہ سے نکلیں گے، یہ کرنٹ پیدا کریں گے، پھر مقناطیسی میدان وہاں ان کو تیز کرے گا اور اسکرین پر اس پوزیشن پر جھکائے گا۔ (اگر ریسرچ مینیجر پوچھے، تو ظاہر ہے کہ یہ کہنا درست ہے کہ راستہ موجود نہیں ہے۔)

فین مین نے خود بھی یہی طریقہ استعمال کیا ”ذرات + امکانات“ کوانٹم الیکٹروڈائنامکس پر اپنے کام میں، جسے اس نے اپنی مشہور کتاب QED – The Strange Theory of Light and Matter میں بیان کیا۔ کوانٹم الیکٹروڈائنامکس آج تک ایک نہایت کامیاب نظریہ ہے، جس کی پیش گوئیاں مشاہدات سے انتہائی درستگی کے ساتھ میل کھاتی ہیں۔

ایک مختلف قسم کا ڈبل سلٹ تجربہ حال ہی میں سائنسدان شہریار افشار نے رووان اور ہاورڈ یونیورسٹیوں میں کیا ہے۔ ان تجربات کے نتائج، جو ویب پر شائع ہوئے، براہِ راست بوہر کے تکمیلیت کے اصول کی تردید کرتے ہیں۔ تکمیلیت کا اصول کہتا ہے کہ بیک وقت موجی اور ذراتی رویے کا مشاہدہ ممکن نہیں۔ لیکن افشار کے نتائج کچھ اور ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے تجربات پر تفصیلی بحث مختلف ویب لاگز میں کی گئی ہے (یہ اس بات کی اچھی مثال ہے کہ انٹرنیٹ کس طرح سائنسی نتائج کے مباحثے کو زیادہ وسیع حلقے تک پہنچا سکتا ہے، اس کے برعکس جو روایتی سائنسی جرائد میں خفیہ نظرِ ثانی کے عمل کے ذریعے ہوتا ہے)۔ ان کے نتائج کی ایک وضاحتی دستاویز بھی موجود ہے۔

ہائزنبرگ کے خیالی تجربے کے برعکس، جس میں یہ سوچا گیا تھا کہ کس طرح یہ پتا لگایا جائے کہ ذرہ کس سلٹ سے گزرتا ہے، افشار نے ایک لینز اور فوٹو ڈیٹیکٹر استعمال کیے جو تداخل کی دھاریوں کے پیچھے رکھے گئے تاکہ گزرتے ہوئے فوٹونز کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ ایک واحد فوٹون والے تجربے میں (جس کی وضاحت زبانی طور پر ویب پر کی گئی لیکن نتائج ابھی شائع نہیں ہوئے)، ایک روشنی کی چمک اس مقام پر دکھائی گئی جہاں تصویر میں سلٹ کے پار گزرتے فوٹون کی موجودگی دیکھی گئی۔ اس طرح یہ واضح ہو گیا کہ فوٹون اس سلٹ سے گزرا۔ اس مقام پر فوٹون ذرّے کی طرح برتاؤ کرتا ہے۔ لیکن بوہر کے اصولِ تکمیلیت کے مطابق، تداخل کا نمونہ یعنی موجی رویہ نظر نہیں آنا چاہیے۔

افشار یہ بھی چیک کرتا ہے کہ آیا تداخل موجود ہے یا نہیں، اس مقصد کے لیے وہ باریک تاریں ان جگہوں پر رکھتا ہے جو پہلے سے ماپے گئے تداخل کے نمونے میں سیاہ دھبے ہیں۔ حتیٰ کہ جب وہ فوٹونز کو گزرتے ہوئے دیکھتا ہے، تب بھی وہ دکھا سکتا ہے کہ تاریں تداخل کے نمونے کے سیاہ حصوں میں ہی ہیں؛ فوٹون کو ایک ساتھ ذرہ اور موج کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ افشار کے تمام نتائج ابھی عوامی سطح پر شائع نہیں ہوئے اور نہ ہی دوسرے سائنسدانوں نے انہیں دہرانے کی کوشش کی ہے، جو ان کی درستگی کے لیے نہایت اہم ہو گا۔ لیکن اگر افشار درست ثابت ہوتا ہے تو بوہر کا اصولِ تکمیلیت ختم ہو جاتا ہے۔

انتشار سے ترتیب

جدلیات ایک سوچنے اور دنیا کو سمجھنے کا طریقہ ہے، فطرت اور سماج دونوں کو۔ یہ کائنات کو دیکھنے کا ایک انداز ہے جو اس اصول پر قائم ہے کہ ہر چیز ایک مسلسل تبدیلی اور بہاؤ کی حالت میں ہے۔ لیکن صرف اتنا ہی نہیں؛ جدلیات یہ وضاحت کرتی ہے کہ تبدیلی اور حرکت تضاد سے جڑی ہوتی ہیں اور صرف انہی کے ذریعے وقوع پذیر ہو سکتی ہیں۔ یعنی سیدھی اور مسلسل پیش رفت کی بجائے ہمیں ایک ایسی لکیر ملتی ہے جسے اچانک اور دھماکہ خیز ادوار توڑتے ہیں، جن میں آہستہ آہستہ جمع ہونے والی مقداری تبدیلیاں اچانک تیز ہو کر معیاری تبدیلی میں بدل جاتی ہیں۔ جدلیات تضاد کی منطق ہے۔

کوانٹم میکینکس اور جدید سائنس سے جو حقیقت کی تصویر سامنے آئی ہے وہ ایٹمی اور ذیلی ایٹمی سطح پر مسلسل حرکت اور تبدیلی کی ہے۔ ایٹم آپس میں ذرات کے تبادلے سے جُڑے ہوتے ہیں؛ مالیکیولز میں الیکٹران ایک ایٹم سے دوسرے میں حرکت کرتے ہیں؛ توانائی اور مادہ ایک دوسرے میں بدلتے ہیں؛ ذرات اپنے الٹ میں ڈھل کر دوبارہ جُڑ جاتے ہیں۔ اس نظریے کی ایک مرکزی اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ تبدیلی جستوں میں ہوتی ہے، کسی ہموار تسلسل کے بغیر۔

جدید سائنس کی ترقی نے اس لحاظ سے جدلیاتی مادیت کو مزید مضبوط کیا ہے۔ مگر جدید فزکس کے تہہ خانوں میں آہستہ آہستہ ایک قسم کی بے معنویت بڑھ رہی ہے، ایک منطقی (نہ کہ جدلیاتی) تضاد۔ بغیر جدلیاتی نقطہ نظر کے، حرکت اور تبدیلی کو سمجھنے کا کوئی راستہ نہیں۔

جدید سائنسدانوں کو مجبوراً تسلیم کرنا پڑا ہے کہ وہ تصورات جو پہلے الگ الگ سمجھے جاتے تھے، جڑے ہوئے ہیں اور انہیں علیحدہ نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ وہ مادی دنیا کے باہمی پہلو ہیں۔ خاص طور پر حرکت کے تصور میں مادے کی موجی اور ذرّاتی دونوں پہلوؤں کو تسلیم کرنا پڑا ہے۔ جب مادہ حرکت کرتا ہے تو فزیسسٹ اس عمل کو مومینٹم (جسم کی کمیت ضرب رفتار) کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ موج کو دوسری طرف ایک مختلف قسم کے عمل کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ موج ایک خلل ہے، کسی پانی کی سطح یا برقی میدان میں اور یہ وہ عمل ہے جس میں توانائی حرکت کرتی ہے۔ ایک طبیعیات دان موج کو اس کی طولِ موج کے ذریعے بیان کرتا ہے، یعنی ایک خلل کی چوٹی سے اگلی چوٹی تک کا فاصلہ۔ مومینٹم اور طولِ موج دو الگ اور مختلف تصورات ہیں جو دو مختلف عملوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن آئن سٹائن کے فوٹو الیکٹرک اثر پر کام اور کوانٹم میکینکس کے بانیوں کی تھیوری کے بعد، طبیعیات دانوں کو یہ ماننا پڑا کہ مومینٹم، جو ذرے کی بطور حرکت کرنے والے مادے کی خصوصیت ہے، براہِ راست ویو لینتھ سے بھی منسلک ہے، جو کہ ایک موجی خصوصیت ہے۔

کوانٹم میکانکس کے گرد موجود الجھن، جسے بائر اور ہائیزنبرگ نے بڑھاوا دیا اور پھیلایا، اس بات سے متعلق ہے کہ تصورات جیسے کہ لہر اور ذرات یا مقدار اور طول موج کو الگ الگ رکھا جانا چاہیے، ”ہمارے سامنے حقیقت کی دو متضاد تصاویر ہیں“ جیسا کہ آئن سٹائن نے کہا تھا۔ اس الجھن کی گہری جڑیں جدید سائنس دانوں میں تضاد اور جدلیات کی عدم آگاہی یا انکار میں ہیں۔ ”ایک طرف یہ اور دوسری طرف وہ“ کہتا ہے سائنسی ماہر جب وہ اپنے انتخاب پر غمگین ہوتا ہے کہ اس کا انتخاب ان متضاد خصوصیات کے بیچ کیوں ہے، جو بیک وقت وجود میں آتی ہیں۔ وہ پریشان ہوتا ہے کہ دنیا ایسی کیوں ہے کہ اس میں بظاہر متضاد خصوصیات بیک وقت موجود ہیں۔ روشنی اور اندھیرا، سردی اور گرمی، شمال اور جنوب، لہر اور ذرات، جو سب ایک دوسرے کے بغیر وجود ہی نہیں رکھ سکتیں اور اسی پر تبدیلی اور حرکت کا وقوع پذیر ہونا منحصر ہے۔

”جہاں روایتی رسمی منطق تضاد کو فنا کرنے کی کوشش کرتی ہے، وہیں جدلیاتی فکر اسے گلے لگاتی ہے۔ تضاد تمام وجود کا ایک لازمی پہلو ہے۔ یہ مادہ کی اصل میں موجود ہے۔ یہ تمام حرکت، تبدیلی، زندگی اور ترقی کا ماخذ ہے۔ جدلیاتی قانون جو اس خیال کو ظاہر کرتا ہے وہ ضدین کے اتفاق اور باہم انضمام کا قانون ہے۔“

صرف یہ نہیں، بلکہ اپنے رڈکشنزم (تخفیف پسندی) سے (یعنی ایک ذرہ، ایک فوٹون)، سائنس دان اس زندہ حقیقت کو غیر ارادی طور پر تباہ کر دیتے ہیں جس کی دریافت کرنا ان کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ ہِٹاچی کے الیکٹران ڈبل سلٹ تجربے میں، کس مرحلے پر مادے کا موجی رویہ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے؟ 8 الیکٹرانز کے بعد؟ بالکل نہیں، الیکٹران بے ترتیب طور پر پہنچتے ہیں، کوئی واضح پیٹرن نہیں ہوتا۔ 270 کے بعد؟ 2000 کے بعد؟ حتیٰ کہ 6000 کے بعد بھی پیٹرن دھندلا ہی رہتا ہے۔ بورن کی امکانات کی تشریح یہ کہتی ہے کہ ماہر فزکس ذرے کے کسی خاص مقام پر پہنچنے کے امکانات کا حساب لگا سکتا ہے۔ لیکن لہر یا موج کی خصوصیت، یا ویو فنکشن، نظام کی صرف ایک شماریاتی خصوصیت ہے اور ہر ایک انفرادی آمد تقریباً کہیں بھی ہو سکتی ہے۔ ہم تب ہی مادہ کے موجی رویے سے واقف ہوتے ہیں جب ہمارے پاس بہت سے ذرات ہوں۔ اسی طرح، جب ہم کسی گیس میں کئی مالیکیولز دیکھتے ہیں تو ہم وہ قوانین محسوس کرتے ہیں جو درجہ حرارت، حجم اور دباؤ کو جوڑتے ہیں۔ لہر کی طرح کی خصوصیات مقدار سے معیار کی طرف منتقلی میں ابھرتی ہیں؛ ایک ذرے یا مالیکیول کی درست پیشگوئی نہیں کی جا سکتی ہے، لیکن وہ اپنی شماریاتی خصوصیات بیان کرنے والے قوانین کی پابندی ضرور کرتے ہیں۔ لہٰذا لہر اور ذرات دونوں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، انفرادی ذرات، جو بڑے گروپوں میں لہر کی خصوصیات رکھتے ہیں (مداخلتی پیٹرن کی لہر کے نمونوں کی طرح)۔

اسی تناظر میں، ہِٹاچی تجربے سے حاصل کردہ انفرادی ذرات کے تجربات اور تصاویر بوہر کے تکمیلیت کے اصول کی براہ راست مخالفت کرتی ہیں۔ کوپن ہیگن تشریح کے حامی، جیسے کہ ڈائریک، کو لچک دکھانی پڑتی ہے، فوٹونز کی نقل کرتے ہوئے جن کی وہ وضاحت کرتے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ایک فوٹون دونوں سلٹس سے گزر کر اپنے آپ سے مداخلت کرتا ہے اور پھر جب ’جادوگر‘ اچانک سے اپنی چھڑی گھماتا ہے تو ویو فنکشن کا انہدام ہو جاتا ہے۔

ایک ایٹم کی تصویر بنانا عام ہے جو الیکٹران ”کلاؤڈ“ سے گھرا ہوتا ہے۔ اس تصویر کی وضاحت جو عام طور پر طبیعیات دانوں میں مشہور ہے، وہ یہ کہ ایٹم کا الیکٹران کسی حد تک کلاؤڈ کے علاقے میں پھیلا ہوتا ہے۔ تاہم، الیکٹران بہت تیز حرکت کرتا ہے۔ کلاؤڈ ایک طریقہ ہو سکتا ہے کہ حرکت کی تیزی کو ظاہر کیا جائے، کہ الیکٹران کلاؤڈ میں کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ہائیڈروجن ایٹم میں صرف ایک ہی الیکٹران ہوتا ہے۔ وقت کے کسی بھی مختصر سے دورانیے میں الیکٹران خلا کے ایک مخصوص حصے سے گزر رہا ہوتا ہے اور یہ ویسے ہی ہے جیسے ایک انفرادی فوٹون ڈبل سلٹ تجربے میں دونوں سلٹس سے گزرتا ہے۔ اس کے برعکس سوچنا پھر ہمیں ڈائریک کی ’جادو کی چھڑی‘ تک لے جائے گا۔

اگر ہمارے پاس کئی ایٹم ہوں اور ہم ہر ایک کی تصویر بنائیں تو ہم ایک کلاؤڈ دیکھ پائیں گے؛ ہم ویو فنکشن اور اس کے حجم کو دیکھیں گے اور الیکٹران کے کسی خاص مقام پر ہونے کے امکانات کو بھی۔ ویو فنکشن بہت سے ایٹموں کے رویے کے متعلق درست جانکاری دیتا ہے لیکن انفرادی ایٹم کے ساتھ جڑے الیکٹران کے رویے کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا۔ یہی کوانٹم میکانکس کی خوبی بھی ہے اور اس کی کمزوری بھی۔

لیکن کیا کوئی راستہ موجود ہے؟ ہاں، بشرطیکہ حرکت کو جدلیاتی طریقے سے سمجھا جائے۔ راستہ وہ ہے جس پر ذرہ حرکت کرتا ہے۔ جب ذرہ حرکت کرتا ہے تو یہ کسی ایک خاص مقام پر نہیں ہوتا؛ یہ حرکت کر رہا ہوتا ہے۔ یہ ایک مقام سے دوسرے پر جانے کے عمل میں ہوتا ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ کسی خاص وقت میں یہ یہاں یا وہاں تھا، کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ یہاں سے وہاں تک حرکت کر رہا ہے جو کہ ایک جدلیاتی عمل ہے۔ یہ حرکت کی غیر جدلیاتی سمجھ سے پیدا ہونے والی کنفیوژن ہے کہ حرکت کو یوں بیان کیا جائے کہ ذرہ کسی خاص وقت میں کسی خاص مقام پر ہوتا ہے جسے ہائزنبرگ نے اس صوفیانہ تصور کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا کہ ”راستہ وجود ہی نہیں رکھتا۔“

ڈبل سلٹ والے تجربے میں یہ ممکن نہیں کہ پیشگوئی کی جائے کہ ذرہ سلٹوں کے بعد کہاں جائے گا، سوائے اوسط کے۔ یہاں ایک غیر یقینی کیفیت ہے، اس معنی میں کہ درست راستے کی پیشگوئی پہلے سے ممکن نہیں۔ لیکن یہ علت کی عدم موجودگی سے مختلف ہے۔ ذرہ جہاں پہنچتا ہے وہاں وہ علت کے ایک سلسلے کے نتیجے میں پہنچتا ہے۔ آلہ ذرے کو سلٹ کی طرف بھیجتا ہے؛ یہ ان میں سے کسی ایک سے گزرتا ہے؛ یہ جانچنے والی سکرین پر پہنچتا ہے اور فطرت میں بہت سی مثالیں موجود ہیں جو علت (کازیلیٹی) پر مبنی مگر غیر متعین شدہ نظاموں کی ہیں۔ ایک ٹوبوگن یعنی برفانی سلیج جو ایک ابھری ہوئی پہاڑی سے نیچے پھسلتا ہے، نیچے ایک ایسے مقام پر جا پہنچتا ہے جس کی پہلے سے پیشگوئی ممکن نہیں۔ اگر یہ اوپر کسی قدر مختلف مقام سے شروع ہو تو نیچے ایک بالکل مختلف مقام پر پہنچے گا۔

ان پریڈیکٹبلیٹی علت کو مسترد نہیں کرتی۔ درحقیقت جدید سائنس یہ سمجھنا شروع کر رہی ہے کہ اکثر علت اپنا اظہار ان پریڈ یکٹبلیٹی کے ذریعے کرتی ہے، یعنی لازمیت کا اظہار ایک حادثے کی صورت میں ہوتا ہے:

”ابتدا میں ہمیں یوں لگتا ہے کہ ہم بے شمار حادثات میں کھو گئے ہیں۔ لیکن یہ الجھن محض ظاہری ہے۔ وہ حادثاتی مظاہر جو مستقل وجود میں آتے اور غائب ہوتے ہیں، جیسے سمندر کی سطح پر لہریں، ایک گہرے عمل کو ظاہر کرتے ہیں، جو حادثاتی نہیں بلکہ لازمی ہیں۔ ایک فیصلہ کن موقع پر یہ ضرورت اپنے آپ کو حادثے کے ذریعے ظاہر کرتی ہے۔“

کوانٹم میکانکس، نئی فزکس، نے پرانی فزکس کے بڑے عناصر کو اپنے ریاضیاتی خاکے میں شامل کیا۔ ویو تھیوری کی ریاضیات، تکمیلی مساواتوں کے حل کی تکنیک اور ویو فنکشنز کی میٹرکس نمائندگی (جسے حالیہ برسوں میں دوبارہ دیکھا اور ترقی دی گئی ہے، کیونکہ میٹرکس اور ویکٹر فارمولیشنز سے ڈیجیٹل سگنل تھیوری تک کا اطلاق ممکن ہوا) وہ ریاضیاتی طریقے ہیں جو کلاسیکی فزکس میں استعمال ہوتے ہیں اور جو کوانٹم میکانکس کے بھی لازمی حصے ہیں۔ پرانی چیز نئی میں موجود ہے۔ یہ کوانٹم میکانکس کی ترقی کے لیے ایک طاقتور مددگار تھا کہ بہت سے ریاضیاتی طریقہ کار جو پہلے ہی دستیاب تھے، جنہیں کلاسیکی فزکس سے کوانٹم میکانکس میں شامل کیا گیا۔ لیکن مزید ترقی کے لیے شاید کوانٹم میکانکس کو پرانی چیزوں کی حدود پر قابو پانا ہو گا خاص طور پر لینئر اور لو آرڈر ڈیفرنشیل ایکوشنز (linear and low order differential equations) پر اپنے انحصار پر۔

نان لینیر سسٹمز جو ابتدائی حالات پر حساس انحصار کے ذریعے ان پریڈیکٹبلیٹی کی طرف لے جاتے ہیں افراتفری (chaos theory) کا موضوع ہیں۔ افراتفری والے نظام کے رویے اور چھوٹے پیمانے پر مادے کے ان پریڈیکٹبلیٹی والے رویے کے درمیان مماثلت ایک ممکنہ ملتی جلتی وضاحت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ فی الحال سائنسی تحقیق کا سرگرم موضوع ہے۔ بڑی تعداد میں ذرات کا ایک اچھی طرح متعین لہر جیسا رویہ اندرونی حرکیات کی نوعیت کا ثبوت ہو سکتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے نان لینیر نظاموں کے ”عجیب کشش ثقل رکھنے والے“ پیٹرن ایک بنیادی سبب کی علامت ہیں۔ ایک انفرادی ذرہ نہیں مگر بہت سے ذرات کا رویہ بالکل متعین ہے۔ ترتیب افراتفری سے پیدا ہوتی ہے، مقدار معیار میں بدلتی ہے جیسا کہ دیگر پیچیدہ، کثیر اجسام والے نان لینئر نظاموں میں ہوتا ہے۔

کمپیوٹرز کی ترقی کے ساتھ جو کہ سیمی کنڈکٹرز کو سمجھنے میں کوانٹم میکانکس کے کردار کی بدولت ممکن ہوئی، سائنس اب نئے نان لینیر سسٹمز کی تلاش کرنے کے قابل ہے جنہیں کلاسیکی ریاضی قابو نہیں کر سکتی۔ شاید اسی علاقے میں، افراتفری والے غیر لکیری نظاموں کی فزکس میں، موج و ذرے کی دوہری کیفیت کی گہری سمجھ بوجھ ممکن ہو گی۔ یا شاید نہیں۔ شاید حل کی کلید مزید تجرباتی ڈیٹا میں ہے۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کرے گی ویسے ویسے زیادہ درست، زیادہ مکمل اور نئے تجربات کرنا ممکن ہو جائے گا۔ ہم طبیعی حقیقت کے بارے میں مزید سیکھیں گے۔ کچھ نظریات کو رد کیا جائے گا، کچھ پر نظر ثانی کی جائے گی، کچھ مزید ترقی کریں گے، کچھ نئی دریافتوں میں ضم ہو جائیں گے۔

وہ نئے نظریے جو مادّی حقیقت کی جدلیاتی نوعیت کو نظر انداز کرتے ہیں، جو حرکت کے تضادات کو رد یا نظر انداز کرتے ہیں، بالآخر تجرباتی جانچ میں ناکام ہوں گے۔ یہ بات پہلے ہی کوپن ہیگن تشریح کے معاملے میں ظاہر ہوتی ہے اگر افشار کے تجربات کی تصدیق ہو جائے۔ مشاہدہ کرنے والے اور مشاہدہ ہونے والے کے درمیان تعامل کثیر جہتی ہوتا ہے اور ایک کو دوسرے سے الگ کرنا ناگزیر طور پر غلطیوں کی طرف لے جاتا ہے، جیسا کہ کوپن ہیگن تشریح کے تصوف میں ہوا ہے۔ علت و معلول (کاز اینڈ ایفیکٹ) پوزیشن بدل سکتے ہیں، مبصر مشاہدہ ہونے والے پر اثر ڈال سکتا ہے اور مشاہدہ ہونے والا مبصر پر اثر ڈال سکتا ہے۔ لیکن بنیادی طور پر، حقیقت مادی ہے، یہ موجود ہے اور مشاہدہ کرنے کے عمل سے پیدا نہیں ہوتی۔

یہ بات کہ مادے میں لہر اور ذرہ دونوں کی خصوصیات ہیں دلچسپ ہے، مگر فزیکل حقیقت کو ترک کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بڑے یا میکروسکوپک پیمانے پر ہم نے ایسی تجریدات تیار کر لی ہیں جو ہمیں مادی دنیا کو بیان کرنے، سمجھنے اور استعمال کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ ہم ایک پتھر کو دیکھتے ہیں، جو کہ مادے کا ایک تھوڑا بڑا ذرہ ہے اور اسے ایک آلے یا ہتھیار میں بدل لیتے ہیں۔ ہم سمندر پر لہریں دیکھتے ہیں اور کشتیوں کو بناتے ہیں جو ان پر چل سکتی ہیں۔ پھر یہ کیوں اتنا تباہ کن ہے کہ چھوٹے پیمانے پر مادے میں بعض اوقات لہر اور بعض اوقات ذرے کی خصوصیات ہوں؟ ایک فوٹون سلٹ سے گزرتا ہے۔ یہ ایک سکرین پر پہنچتا ہے، اکثر ایسی جگہ جہاں مداخلتی پیٹرن ہمیشہ مضبوط ہوتے ہیں اور کبھی سیاہ نہیں۔ افشار کے نتائج سے یہ ممکن ہے کہ پیشگوئی کی جائے کہ یہ کس سلٹ سے گزرا ہے، کہ یہ ایک ذرہ ہے۔ لیکن جہاں بہت سے ذرات ہوں وہاں ان کا رویہ موجی ہوتا ہے اوریہ ویو کی مساوات سے پتا چلتا ہے۔ یہ دلچسپ ہے۔ سوچنے کی چیز ہے۔ لیکن براہ مہربانی، ہمیں ویو فنکشن کے انہدام یا غیر واضح راستوں جیسا تصوف نہیں چاہیے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی ڈرامائی طور پر ایک گہری، جدلیاتی اور مادّی سمجھ کے ساتھ ترقی کر سکتے ہیں کہ یہ مظاہر کہاں سے آتے ہیں اور اس تصوف اور غیر سائنسی لغویات سے نکل سکتے ہیں جو اکثر ”فلسفہ سائنس“ کے نام پر پیش کی جاتی ہیں۔

مستقبل کے سائنسدان اور انجینئرز مادی حقیقت کو بہتر طور پر سمجھیں گے۔ وہ ایسا مستقبل کی ٹیکنالوجی کے ذریعے کریں گے جو انسانیت کی اجتماعی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہو گی اور جو نوع انسان کو موجودہ زندگی کی ضروریات کی جدوجہد سے کہیں آگے لے جانے کے قابل بنائے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام کی وحشیانہ بربریت، بدصورت عدم مساوات، تمام بربریت اور سفاکیت محض ایک نا پسندیدہ دور کی یاد بن کر رہ جائے گی۔ اور یہ بھی، جیسے ایک الیکٹران کا نقطہ سکرین پر، وقت کے ساتھ مٹ جائے گی۔

Comments are closed.