حیدرآباد: ”انقلابِ روس اور آج کی مزدور تحریک“ مزدور کانفرنس کا انعقاد!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، حیدر آباد|

16 نومبر بروز پیر حیدرآباد پریس کلب میں ریڈ ورکرز فرنٹ حیدرآباد کی جانب سے انقلابِ روس کی 103 ویں سالگرہ کے موقع پر ”انقلاب روس اور آج کی مزدور تحریک“ کے موضوع پر مزدور کانفرنس منعقد کی گئی جس میں مختلف اداروں اور شعبوں سے وابستہ ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشنز کے نمائندگان نے شرکت کی۔ کانفرنس میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض انصار شام نے سرانجام دیے اور تقریب کا باقاعدہ آغاز مرتضیٰ انقلابی کے انقلابی گیت سے کیا گیا۔ اس کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ حیدرآباد کے آرگنائزر علی عیسیٰ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تمام شرکاء کو مزدور کانفرنس میں شرکت پر خوش آمدید کہا۔کانفرنس کے انعقاد پر روشنی ڈالتے ہوئے علی نے کہا کہ آج جس مقصد سے یہ اجتماع رکھا گیا ہے وہ ایک صدی قبل انسانی تاریخ کے غیر معمولی واقع کو صرف یاد کرنا نہیں بلکہ اس سے سبق حاصل کرنابھی ہے۔ بالشویک انقلاب محنت کی سرمایے پر فتح کا دن مانا جاتا ہے جب سرمایے کو شکست دے کر محنت کشوں کی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیاجسے عام طور پر نصاب میں نہیں پڑھایا جاتا اور ٹی وی چینلز پر بیٹھے پروفیسرز اور دانشور خواتین و حضرات زیر بحث نہیں لاتے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ محنت کش جب اپنی تاریخ کو جان گئے تو ان کا ردعمل کیا ہوگا اور کس طرح یہ بات محنت کش عوام پر عیاں ہوگی کہ سائنس و ادب سمیت تمام علوم میں ایک معیاری تبدیلی اسی مزدور ریاست میں ہوئی۔ کامریڈ علی عیسیٰ نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی محنت کشوں کے حالات بالشویک انقلاب سے پہلے کے روس سے مختلف نہیں بلکہ بدتر ہے جس کے خلاف محنت کشوں کے آئے روز احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن ہمیں ان دھرنوں کی محدودیت کو سمجھنا چاہیے کہ ہمیں طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان جابر و ظالم حکمرانوں کو جھکانا ہوگا اور ایک ملک گیر عام ہڑتال کرکے نجکاری اور مہنگائی سمیت تمام تر مسائل کا ایک طاقت ور جواب دینا ہوگا۔ آل سندھ ریونیو ایمپلائز ایسوسی ایشن کے صدر عرفان راہوجو نے ریونیو ملازمین کے مسائل پر بات کرتے ہوئے محنت کشوں کے ایک ملک گیر اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ سول ایوی ایشن سے ذوالفقار ٹالپر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حکمران طبقے کی طرف سے محنت کشوں کی یونین پر بندش کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ ایک تو لاکھوں محنت کشوں کو روزگار سے بیدخل کیا جارہا ہے اور پھر ان کی آوازوں کو دبانے کے لیے یونینز پر بندش حکمران طبقے کے ڈر، خوف اور خصی پن کا ہی اظہار ہے۔ اس کے بعد فوتگی کوٹا کمیٹی کے چیئرمین شیراز قریشی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان ملازمین کی اولادوں کو ایک منظم سازش تحت روزگار سے محروم رکھا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ ان ملازمین نے اپنی پوری زندگی ان اداروں کے لیے وقف کی ہے اور اسی دوران زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کی اولادوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جارہا ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے مزدور رہنما گلفام قائم خانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محنت کشوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہر ادارے میں جاری ہے جو قابل مذمت ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ملازمین کی نوکری کی ضمانت ہے نہ تنخواہوں کی۔ لہٰذا ہم اس سٹیج کے وساطت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں مستقل کیا جائے اور تمام واجبات ادا کیا جائیں۔ ریلوے محنت کش یونین کے صدر نیاز خاصخیلی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریلوے کے سر پر نجکاری کی تلوار لٹک رہی ہے جس کے سبب محنت کشوں کی بڑی تعداد بیروزگار ہونے کو ہے لہٰذا ہمیں یکجا ہوکر اتحاد قائم کرتے ہوئے ان حملوں کے خلاف لڑنا ہوگا۔ آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن (شہید ساقی) کے مرکزی جنرل سیکریٹری پیرل بڑگڑی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اتحاد، یونین قیادتوں کی غداری اور دیگر مسائل پر بات کی۔ اختتام پر ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی رہنما کامریڈ پارس جان نے خطاب کرتے ہوئے ریڈ ورکرز فرنٹ حیدرآباد اور پروگریسو یوتھ الائنس کی ٹیم کی کاوش کو سراہا اور شرکاء کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی محنت کشوں کی یونین قیادتوں میں نظریات کی بحث پچھلی نشست پر چلے جانے کے باوجود اس نشست کا اہتمام قابل تحسین ہے۔ ہمیں 103 سال پہلے کا مزدور انقلاب بھی یہی سکھاتا ہے کہ محنت کشوں میں مزدور نظریات کی کیا اہمیت ہے اور کس طرح یہ انقلابی نظریات سے لیس نوجوان و محنت کش حکمرانوں کو خاک نشین کرسکتے ہیں۔ کامریڈ پارس جان کا مزید کہنا تھا کہ تمام محنت کشوں پر نجکاری کی تلوار لٹک رہی ہے اور حکمران طبقے کی جانب سے یہ شور و غل مچایا جارہا ہے کہ نجکاری سے ادارے بہتر ہوتے ہیں تو ان غلیظ حکمرانوں سے سوال بنتا ہے کہ کیا پی ٹی سی ایل اور کے ای ایس سی کے حالات تبدیل ہوئے یا بدتر؟ یقیناً بدتر ہوئے ہیں۔ لہٰذا جس طرح ساتھیوں نے محنت کشوں کے اتحاد کی تاکید کی وہ محنت کشوں میں موجود لڑنے کی چاہ کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ اس کا اظہار ملک گیر عام ہڑتال کے ذریعے کیا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں محنت کشوں میں اپنی طاقت کا احساس بڑھے گا، وہ جان جائیں گے کہ ہم سماج کو چلا بھی سکتے ہیں اور جام کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ہمارا مقصد یہاں ختم نہیں ہوتابلکہ اس تمام تر صورتحال میں یہ واضح ہوتا ہے کہ ریاست بشمول تمام اداروں کے ایک طبقے کا ہتھیار ہے لہٰذا اس نظام کا خاتمہ ہی سماج کو ترقی پر گامزن کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کی قیادت میں تمام اداروں پر جمہوری کنٹرول میں لے کر ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جائے جو روٹی، کپڑا، مکان، مفت تعلیم اور مفت صحت سمیت تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی کا ضامن ہوگا۔ تقریب کے اختتام پر گلفام قائم خانی کی طرف سے مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف سخت نعرے بازی کی گئی۔ساتھ ہی ساتھ پروگریسوو یوتھ الائنس کے 19 دسمبر کے اعلانیہ ڈے آف ایکشن کا دعوت نامہ دے کر پروگرام کا اختتام کیا گیا۔

Comments are closed.