30 جولائی انٹرنیشنل ڈے آف ایکشن: گلگت بلتستان کے سیاسی راہنماؤں کو رہا کرو!

|رپورٹ: مارکسزم کے دفاع میں |

دو ماہ سیاسی قید میں گزارنے کے بعد، عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے گرفتار رہنماؤں میں سے نصف کو ضمانت مل گئی ہے۔ توقع ہے کہ آج انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ 30 جولائی کو انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل نے ایک ”ڈے آف ایکشن“ کی کال دی ہے، جس کے تحت دنیا بھر میں موجود پاکستانی سفارتی عمارتوں کے سامنے باقی اسیروں کی رہائی کے لیے احتجاج کیے جائیں گے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

گلگت بلتستان کی انتظامیہ نے اسلام آباد میں بیٹھے جرنیلوں کے احکامات پر عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان اور اس کے حامیوں کے خلاف جبر جاری رکھا ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے نوجوان رہنما سرفراز نگری کو ان کے گھر سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب انہوں نے نگر میں اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لیے ایک لانگ مارچ منظم کیا، جس میں زیادہ تر خواتین مظاہرین شامل تھیں۔ اس گرفتاری کے بعد قید رہنماؤں اور کارکنوں کی کل تعداد 16 ہو گئی۔

اس واقعہ کے بعد عوامی یکجہتی کا ایک ولولہ انگیز مظاہرہ دیکھنے کو ملا جب نگری کی گرفتاری کے خلاف زبردست خود رو احتجاج شروع ہو گیا، جو 30 گھنٹے سے زیادہ جاری رہا۔ اس دوران نگر کی مرکزی شاہراہ بند رہی اور انتظامیہ کو مجبوراً سرفراز نگری کو رہا کرنا پڑا۔ بعد ازاں، اسلم انقلابی، وحید حسن، اصغر شاہ، نفیس ایڈووکیٹ، عظمت علی، اشتیاق حسین اور حاجی نائب خان کو بھی ضمانت مل گئی۔

یہ جیت، گلگت بلتستان اور پورے پاکستان میں موجود عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے حامیوں کی مسلسل جدوجہد کے بغیر ممکن نہ ہو پاتی۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی یکجہتی کی مہم نے بھی پاکستانی ریاست کے مجرمانہ رویے کو عالمی سطح پر بے نقاب کرتے ہوئے اس جیت میں اہم کردار ادا کیا۔

گزشتہ ہفتے، برطانیہ میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ایک کامریڈ نے یونائیٹ (Unite) جو برطانیہ کی سب سے بڑی مزدور یونینز میں سے ایک ہے اور 12 لاکھ محنت کشوں کی نمائندگی کرتی ہے، کی نیشنل پالیسی کانفرنس میں عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے ساتھ یکجہتی کی قرارداد کامیابی سے منظور کروائی۔ اسی طرح، فرانس کی سب سے بڑی یونین کنفیڈریشنز میں سے ایک سی جی ٹی (CGT) کی تھالیس (Thalès) برانچ سے بھی انقلابی کمیونسٹ پارٹی (Parti Communiste Révolutionnaire) کے ایک کامریڈ نے یکجہتی کی قرارداد منظور کروائی۔

یہ طاقتور محنت کش تنظیمیں اب اپنی آواز ان سینکڑوں ٹریڈ یونین برانچوں، مزدور رہنماؤں، سیاست دانوں اور کارکنوں کے ساتھ ملائیں گی جنہوں نے ہماری مہم کی حمایت کی ہے۔

یہ بین الاقوامی یکجہتی نہایت اہم ہے کیونکہ جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔ عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے جن رہنماؤں کو ضمانت ملی ہے، انہیں بری نہیں کیا گیا اور رہائی کے بعد انہیں دوبارہ بھی جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ آٹھ رہنماؤں کو اب تک ضمانت نہیں ملی۔ ان میں احسان علی، مسعود الرحمٰن، محبوب ولی، ممتاز نگری، تعارف عباس، عرفان آزاد، منظر مایہ اور شیر نادر شاہی شامل ہیں۔

ان آٹھوں افراد پر مضحکہ خیز ’دہشت گردی‘ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، صرف اس ’جرم‘ کی پاداش میں کہ انہوں نے گلگت بلتستان کے محنت کش عوام کے مفادات کے لیے آواز اٹھائی، اور سرمایہ داروں کے اس منصوبے کو ناکام بنایا جس کے ذریعے وہ اس خطے کے قیمتی وسائل لوٹنا چاہتے ہیں۔

عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے چیئرمین اور انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے سرکردہ رہنما احسان علی کی ضمانت کی درخواست اس بے بنیاد دلیل پر مسترد کر دی گئی کہ وہ ”نفرت انگیز تقاریر کر رہے ہیں“ اور ”معصوم لوگوں کو بغاوت پر اکسا رہے ہیں“۔ جج نے (جرنیلوں کے اشارے پر) مارچ کے مہینے میں ہونے والی بھارت اور پاکستان جنگ کو بھی اپنے فیصلے کے جواز کے طور پر استعمال کیا اور اس بات کی مذمت کی کہ احسان علی نے اس وقت پاکستانی ریاست پر تنقید کی جب ”پاکستان کی مسلح افواج سرحدوں پر بہادری سے دشمنوں سے لڑ رہی تھیں“۔

احسان علی شدید بیمار ہیں اور ان کی حالت دن بدن بگڑ تی جا رہی ہے۔ اس وقت وہ ہسپتال میں داخل ہیں، جہاں ڈاکٹرز نے ان کے دل کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں فوری طور پر بہتر طبی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ان کا تفصیلی طبی معائنہ کیا جا سکے، مگر حکام کی جانب سے دانستہ طور پر انہیں مناسب علاج سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم ایک بار پھر اپنی بین الاقوامی یکجہتی کی مہم کو تیز کریں۔ ہمیں پاکستانی ریاست پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنا ہو گا تاکہ احسان علی اور عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے باقی رہنماؤں پر لگائے گئے جھوٹے الزامات واپس لیے جائیں۔

ہم اپنے ساتھیوں کو یاد دلاتے ہیں کہ عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے سیاسی قیدی ہر طرح کے تشدد اور ظلم و ستم کا سامنا کر رہے ہیں۔ حکام، اسیروں کے خاندانوں، خاص طور پر ان کی خواتین رشتہ داروں کو ڈرانے دھمکا نے اور ہراساں کرنے کے بزدلانہ ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں تاکہ ان اسیروں سے جھوٹے اقبالی بیان لیے جائیں اور ایک دوسرے کے خلاف جھوٹی گواہی دلوائی جائے۔

لیکن پھر بھی، ان تمام مظالم کے باوجود، ان اسیران نے ڈٹ کر انکار کیا اور حکام سے کسی قسم کا تعاون نہیں کیا۔

یہ ہمارا فرض ہے کہ بحیثیت کمیونسٹ اور بین الاقوامیت پسند، ہم اپنی پوری طاقت سے ان کی آزادی کو یقینی بنائیں۔ ہم اپنے تمام ارکان اور حامیوں سے اور ان تمام تنظیموں، کارکنوں اور افراد سے جنہوں نے ہماری مہم کی حمایت کی، اپیل کرتے ہیں کہ آج سے ایک ہفتے بعد، یعنی 30 جولائی کو، دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں، ہائی کمیشنز اور قونصل خانوں کے سامنے ہونے والے بین الاقوامی یوم احتجاج میں شامل ہوں۔

ہم ایک آواز میں کہیں گے: اسلام آباد کے جرنیل اور وہ سرمایہ دار جن کی یہ نمائندگی کرتے ہیں، اصل دہشت گرد یہی ہیں!

جب تک عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے تمام سیاسی اسیران اپنے گھروں کو واپس نہیں آ جاتے ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے!

ایک پر حملہ، سب پر حملہ ہے!

عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان زندہ باد!

Comments are closed.