ایران: افتادگانِ خاک کی بغاوت

|تحریر: حمید علی زادے؛ ترجمہ: ولید خان|

چند سال پہلے پاسدارانِ انقلاب کے ایک کمانڈر اور بسیجی مسلح جتھے کے درمیان ایک گفتگو کی ریکارڈنگ منظرِ عام پر آئی جس میں 2009ء کی ’سبز تحریک‘ زیرِ بحث تھی۔ اس گفتگو میں کمانڈر نے کچھ اس طرح سے بات کی کہ ”یہ لوگ (گرین تحریک میں شامل افراد) کھاتے پیتے گھرانوں کے خوبرو لونڈے ہیں، ان سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن ایک مرتبہ تباہ حال اور محروم علاقوں کی بے سروپا عوام سڑکوں پر آگئی تو اس وقت ہمیں واقعی ہم خوفزدہ ہوں گے“۔
وہ دن آ چکا ہے۔

پچھلے جمعے کے دن ایرانی حکومت نے اچانک حیران کن اعلان کیا کہ ایندھن کی سبسڈیوں میں بھاری کٹوتیاں کی جا رہی ہیں جو غریب ایرانیوں کے لیے شہہ رگ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے بعد سے ہزاروں نوجوان سڑکوں پر پولیس، فوج اور پیرا ملٹری دستوں سے نبرد آزما ہیں۔ ملک کے جنوب مغرب میں شروع ہونے والے احتجاج ہفتہ اور اتوار کے دن ہر شہر اور قصبے میں پھیل گئے۔ مظاہروں کے حجم کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن پاسدارانِ انقلاب کی فارس نیوز نے پیر کے دن کہا کہ ان کی تعداد 87 ہزار ہے۔ یہ بہت تھوڑی تعداد بتائی جا رہی ہے۔

افتادگانِ خاک کا غم و غصہ

تہران کے کئی غریب اور محنت کش علاقوں کی صورتحال پر آج کی ایک رپورٹ کے مطابق:

”اسلام شہر میں ایک بغاوت ہے۔ شہرِ قدس میں جنگ(کی صورتحال) ہے اور ہر جگہ گولیاں چل رہی ہیں۔ (مظاہرین) نے سابقہ مئیر ہاؤس نذرِ آتش کردیا ہے۔ انہوں نے پاسداران کے گھر جلا دیے اور تمام بینک جل کر راکھ کا ڈھیر ہو چکے ہیں۔ فردیس میں سڑکوں پر واقعی جنگ چل رہی تھی۔ سپاہ بینک کے علاوہ 24 بینک جلائے جا چکے ہیں۔ اندیشہ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ فردیس، شہریار، شہرِ قدس اور اندیشہ میں کئی افراد قتل کیے جا چکے ہیں۔۔پولیس تھک چکی ہے اور اب اس میں کھڑے رہنے کی مزید سکت ختم ہو چکی ہے“۔

آمر ریاست پوری کوشش کر رہی ہے کہ مظاہرین کو ڈاکو بدمعاش ثابت کیا جا سکے جو صرف لوٹ کھسوٹ اور دنگے فساد کر رہے ہیں۔ جامِ جم(ایک اخبار) میں ایک سرخی تھی کہ ”دنگے فساد کے انتشار میں عوام کی دم توڑتی آواز“۔ لیکن یہ کوئی عام دکانیں یا اسٹور نہیں ہیں جو نشانے پر ہیں بلکہ یہ درجنوں گیس سٹیشن اور بینک ہیں (شائد کئی سو ہوں) جن میں کچھ حکومتی عمارات، پولیس اسٹیشن اور خامنہ ای کی کئی تصاویر شامل ہیں۔ یزد میں نماز جمعہ کے امام، جو کہ شہر میں خامنہ ای کا نمائندہ ہے، کے گھر پر مشتعل افراد نے حملہ کردیا۔ یہ دنگے فساد بے مقصد یا بغیر سوچے سمجھے نہیں ہیں بلکہ ان میں واضح طبقاتی عنصر موجود ہے۔

ملا آمریت کا ردعمل انتہائی خوفناک ہے۔ پورے ملک کا انٹرنیٹ بند کر دیا گیاہے اور رابطہ تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ خبروں کے ذرائع تقریباً معدوم ہو چکے ہیں۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے لیے رپورٹنگ کرنے والے شہریوں کے لیے اب یہ تقریباً ناممکن ہو گیا ہے،جو کہ قدرے آسان ہوا کرتا تھا۔ ریاست کے تقریباً تمام مسلح ونگ سڑکوں پر اتارے جا چکے ہیں جو احتجاج کی رمق کو بھی کچلنے کے درپے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ کئی علاقے میدانِ جنگ بن چکے ہیں۔ شیراز سے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق کچھ علاقوں میں مظاہرین کے اوپر ہیلی کاپٹر اندھا دھند گولیاں چلا رہے ہیں۔

پورے ملک میں زیادہ تر سکول اور یونیورسٹیاں بند کر دی گئی ہیں حالانکہ کئی یونیورسٹیوں میں ابھی بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ایک یونیورسٹی کو ”شدید دھند“ کی وجہ سے بند کر دیا گیا ہے۔ تہران یونیورسٹی میں مسلح افواج نے تمام راستے بند کر دیے اور ایک چھوٹا دروازہ طلبہ کے باہر نکلنے کے لئے چھوڑ دیا۔ ملا آمریت خوف و ہراس میں مبتلا ہے اور پریشان ہے کہ کہیں یہ تحریک سماج کی دیگر پرتوں میں نہ پھیل جائے۔ آمریت کی پوری کوشش ہے کہ تحریک کو بے مقصد دنگے فساد اور جھڑپوں کی طرف دھکیل دیا جائے تاکہ تحریک عوام کی اکثریت سے کٹ جائے۔ تاحال یہ حکمت عملی ناکام رہی ہے۔ اگرچہ کئی لوگ فی الحال تحریک سے دور ہیں لیکن سڑکوں پر موجود نوجوانوں کے لئے بے پناہ ہمدردی موجود ہے۔

یہ بغاوت ایندھن کی قیمتوں سے کہیں آگے نکل چکی ہے جن کی قیمتیں تین گناہ بڑھ چکی ہیں۔ خوزیستان، کرمانشاہ اور فارس کے غریب تباہ حال اور بیروزگاری سے بھرے علاقوں میں بغاوت سب سے پہلے پھوٹی۔ ان میں سے کئی علاقوں میں عرب اور کرد اقلیتیں موجود ہیں جن کے احتجاجوں کو پچھلے چند سالوں میں خاص طور پر شدید جبر کا نشانہ بنایا گیا۔

سڑکوں پر موجود نوجوانوں کی عمر وں کا بیشتر حصہ در در کی خاک چھاننے میں گزر جاتا ہے۔ اگر کچھ کی قسمت اچھی ہو تو انہیں چھوٹا موٹا کوئی کام مل جاتا ہے اگرچہ اکثریت نے کام ڈھونڈنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ جو ابھی بھی نوکریاں تلاش کر رہے ہیں انہیں کہا جاتاہے کہ ”تجربہ“ لے کر آؤ جو ناممکن ہے کیونکہ نوکری ملے گی تو تجربہ حاصل ہوگا۔ ان پرتوں میں جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے جن کا تعلق انتہائی غریب محنت کش خاندانوں سے ہے۔

پچھلے چند سالوں میں بینکوں کے دیوالیہ ہونے سے کئی خاندانوں کی بچت اجڑ چکی ہیں۔ حقیقت میں یہ بینک اور کچھ نہیں بلکہ فراڈ تھے جن کے بااثر مالکان کو کبھی انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا حالانکہ انہیں سب جانتے ہیں۔۔ اور یہی بینکوں پر حملے کی حقیقی وجہ ہے۔

امریکی پابندیوں کے تباہ کن اثرات پڑ رہے ہیں اور ان خاندانوں کا معیارِ زندگی پچھلے کئی سالوں سے تیزی سے گر رہا ہے۔ صنعتیں دیوالیہ ہیں، روزگار کہیں موجود نہیں۔ جو برسرِ روزگار ہیں ان کی تنخواہیں انتہائی بے قاعدہ ہیں، اگر ان کو تنخواہ ملتی ہے، اور جن کے چھوٹے موٹے کاروبار ہیں وہ بے قابو افراطِ زر کی وجہ سے مسلسل شدید دباؤ کا شکار ہیں (سرکاری اعداوشمار ے مطابق پچھلے دو سالوں سے افراطِ زر کی شرح 30 فیصد ہے!)۔

وہ پرتیں جو ملاں آمریت کی حمایتی تھیں آج بغاوت کر چکی ہیں۔

صنعتی مزدور شدید غربت کا شکار ہیں جو شہروں کے صنعتی گردونواح میں بھی رہائش نہیں لے سکتے لیکن گردو نواح سے بھی پرے علاقوں اور دیہات میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں سے انہیں روزانہ طویل سفر طے کر کے کام پر جانا پڑتا ہے۔ یہ سفر اب پہلے سے کہیں زیادہ مہنگا ہو چکا ہے۔ اس دوران مالکان اور ریاستی اشرافیہ معیشت کو دیمک کی طرح چاٹتے اپنی اپنی عیاشیوں میں مصروف ہیں۔

خوزیستان میں ہفت تپہ شوگر مل، جو ایک زمانے میں ملک کی سب سے بڑی شوگر ملوں میں سے ایک تھی، اس حوالے سے بہترین مثال ہے۔ کمپنی کو اونے پونے داموں دو 27-28 سالہ نوجوانوں کو بیچ دیا گیا جو آج تک اس مل کو چوس رہے ہیں اور مزدوروں کا معاشی قتلِ عام کر رہے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں مزدوروں نے متعدد ہڑتالیں کی ہیں تاکہ مل کو قومیاتے ہوئے مزدوروں کے کنٹرول میں لیا جاسکے۔ اس مطالبے کو شہر اور دیگر علاقوں میں وسیع پذیرائی ملی۔ ملا آمریت نے مزدوروں پر خوفناک کریک ڈاؤن کیا کیونکہ انہیں خوف ہے کہ یہ مطالبہ پورے ملک میں آگ لگا سکتا ہے۔ سڑکوں پر موجود نوجوان ان پرتوں کے غم و غصے کی عکاسی ہیں۔ ان کا تشدد نام نہاد اسلامی جمہوریہ کے مسلسل اور بے رحم تشدد کا ردِ عمل ہے جو ان کی روزمرہ زندگی کا سب سے تلخ سچ ہے۔

سامراجی ردِ عمل اور ملا آمریت کا جبر

پچھلے چند ہفتوں سے، ملا آمریت کا سخت گیر دھڑا (خامنہ ای اور پاسداران کے سیاسی حلیف) آنے والے عام انتخابات کو دیکھتے ہوئے ان مسائل پر بیان بازی کر رہا ہے۔ سماج میں بڑھتے غم و غصے کو بھانپتے ہوئے ان کی کوشش تھی کہ اس سارے غصے کو انتخابی عمل میں زائل کر دیا جائے اور نام نہاد روحانی اعتدال پسند دھڑے کو پرے دھکیلا جائے۔ ظاہر ہے کہ ایک مرتبہ جب تحریک پھوٹ پڑی تو پھر وہ سخت گیر جو معتدل بن گئے تھے اور اصلی اعتدال پسند، دونوں سڑکوں پر موجود مجبور نوجوانوں کو کچلنے میں اکٹھے ہو گئے۔ اس وقت حکمران طبقہ تحریک کچلنے کے لئے مکمل طور پر متحد نظر آتا ہے۔

اب تک کم از کم 200 افراد قتل کئے جا چکے ہیں اور 3 ہزار زخمی ہیں۔ جبکہ تشدد اور بدمعاشی کا الزام نوجوانوں پر لگایا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ملا آمریت انکار نہیں کر سکتی کہ تحریک کے حقیقی محرکات کیا ہیں۔ پھر اس وقت سڑکوں پر وہ سماجی پرتیں موجود ہیں جنہوں نے روایتی طور پر آمریت کے حمایتی تھے۔ آمریت سرے سے ان مطالبات کو رد کر ہی نہیں سکتی جن کی سماج میں اتنی وسیع پذیرائی ہے۔ لیکن حکمران ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر لوگ احتجاج کرتے ہیں تو پھر پورا ملک شام کی طرح بربریت اور انتشار میں ڈوب جائے گا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امریکی اور سعودی سامراج اس تحریک کو سیڑھی بنا کر ایران پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور اس لئے احتجاج ان کے مفادات کا محافظ عمل بن چکا ہے۔ اسی چالبازی کے ذریعے انہوں نے اس تحریک کی پیش رو تحریک کو 2018ء میں زائل کیا تھا جب ملک گیر احتجاجوں نے پورا ملک ہلا دیا تھا اور جس کی بازگشت سارا سال سنائی دیتی رہی۔ وہ امریکی سامراج کے خطرے کو استعمال کرتے ہوئے دہائیوں سے عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ لیکن یہ چالبازی اب پرانی ہو چکی ہے۔ امراء اور اشرافیہ بغیر کسی خوف کے ہر من پسند کام کیسے اور کیوں کر سکتی ہے؟ کیوں ان کا ”دسترخوان“ انواع و اقسام کے کھانوں سے بھرا پڑا ہے جبکہ باقی عوام بھوک پیاس سے مر رہی ہے؟ سامراجی خطرے کا مقابلہ صرف غریب عوام نے ہی قربانیاں دے کر کرنا ہے؟

بائیں بازو کے بھی بہت سارے افراد اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں جو اس تحریک، اور ہر تحریک، کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ امریکی سامراج کو ایران میں مداخلت کا موقع مل جائے گا۔ ان افراد کی منطق یہ ہے کہ کیونکہ اس وقت کوئی ”انقلابی پارٹی“ (کمیونسٹ، سوشلسٹ، جمہوری، ترقی پسند وغیرہ) موجود نہیں اس لئے کوئی بھی تحریک محض شیطانِ بزرگ یعنی امریکی سامراج کے ہاتھوں میں کھلونا ہی بن سکتی ہے۔ لیکن اس پالیسی کا نتیجہ اگر کچھ نکل سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ شاہ پرست گروہوں، مجاہدینِ خلق اور دیگر ردِ انقلابی رجحانوں کے لیے میدان کھل اچھوڑ دیا جائے، جو امریکی اور سعودی سامراجی حمایت کے ساتھ انقلابی بیان بازی کے ذریعے اپنا زہر پھیلا سکتے ہیں۔ وقت کی ضروت کسی انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی کا ماتم کرنا نہیں بلکہ اسے تعمیر کرنا ہے! کمزوریوں اور چیلنجوں کاسامنا کرتے ہوئے ہمیں پیچھے ہٹ کر رجعتیت کو ہر گز جگہ نہیں دینی۔ ہمارا فرض تحریک کی کمزوریوں کی نشاندہی کرنا ہے ور اس کے شعور اور نظم کو بلند کرتے ہوئے زیادہ ریڈیکلائز کرنا ہے۔ ہمارا کام مطالبات میں نرمی کرنا نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ریڈیکل مطالبات پیش کرنا ہے تاکہ پوری صورتحال میں طبقاتی خدوخال بھرپور واضح ہوں جن میں مقامی حکمران اشرافیہ اور اس کے عالمی مخالفین دونوں شامل ہیں۔

کچھ گروہ اس مغالطے کا شکار ہیں کہ مغرب اور مغربی جمہوریت ایران کے تمام مسائل حل کر دے گی۔ لیکن ان احتجاجوں کا ذکر مغربی میڈیا میں شاذونادر ہی ہو رہا ہے۔ امریکی سیکرٹری خارجہ مائک پومپیو اور دیگر مغربی حکومتوں نے ریاست کے جبروتشدد کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے کٹوتیوں کی مخالفت نہیں کی ہے۔ کیونکہ ان اقدامات کو خود آئی ایم ایف نے تجویز کیا تھا۔۔ایک مغربی ادارہ۔۔تاکہ منڈی کی مناسبت سے کاروباری تعلقات کو ریگولرائز کیا جائے۔ اور ایک سرمایہ دارانہ نکتہ نظر سے یہ درست ہے! ایرانی معیشت کو معیشت میں ریاستی مداخلت ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بیرونی سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول بنایا جا سکے۔ اس کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ محنت کش طبقے کو کمزور کر کے اس کا شیرازہ بکھیر دیا جائے تاکہ پورا طبقہ عالمی منڈی میں مسابقت میں موجود صنعتوں کے خوفناک استحصال کے لئے حاضر ہو۔ سرمایہ داری ایسے ہی کام کرتی ہے۔

ایک محفوظ آپشن کے طور پر، اس وقت، مغرب رضا شاہ پہلوی کے گرد شاہ پرست تحریک کی حمایت کر رہا ہے تاکہ مستقبل میں 1979ء کے انقلاب میں ختم ہونے والی بادشاہت کو ایک مرتبہ پھر ایران پر مسلط کر دیا جائے۔ یہ لوگ عوام کے آلام و مصائب اور ایک انقلاب کی ضرورت کا بہت رونا روتے ہیں لیکن ایک آزاد اور جمہوری ایران کی بالکل بات نہیں کرتے۔ اس کے برعکس، وہ پرانی بادشاہت کی طرز پر ایک نئی بادشاہت کی ضرورت کا پرچار کر رہے ہیں جس کے اپنے ہاتھ خون سے رنگے ہیں! پھر ایسی کوئی بھی ریاست ایران کو ایک مرتبہ پھر امریکہ کے تابع کر دے گی۔ کم از کم اس حوالے سے ملا درست ہیں۔ اس وقت تو کوئی ان چالبازیوں میں آنے کو تیار نہیں، لیکن مستقبل میں متبادل کی عدم موجودگی کے شدید دباؤ میں ایسے رجعتی گروہوں کو کچھ پرتوں میں حمایت مل سکتی ہے۔

انقلابی قیادت کی ضرورت

اس وقت تحریک کی سب سے بڑی اور بنیادی کمزوری واضح ہے: یہ مکمل طور پر غیر منظم اور کوئی قیادت موجود نہیں ہے۔ تحریک کو ہیجانی دنگے فساد میں دھکیلنے کی تمام تر کوششوں کے باوجودتحریک ابھی تک قائم و دائم ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ سڑکوں پر موجود خوفناک غم و غصے کو اندھی کھائی میں گرنے سے بچنے کے لئے ایک منظم اظہار کی ضرورت ہے۔ تحریک ایک حد تک سڑکوں پر پولیس سے لڑ سکتی ہے اور ایک حد تک ہی اس طریقہ کار سے کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

سب سے اہم قدم منظم ہونا ہے جس میں تمام محلوں میں جمہوری کمیٹیاں قائم کی جائیں جن کو علاقائی اور حتمی طور پر قومی سطح پر ایک دوسرے سے منسلک کیا جائے۔ یہ کمیٹیاں دیگر اہم اقدامات کے ساتھ کھلے ریاستی جبر اور خاص طور پر شر پسند عناصر کے خلاف مدافعانہ حکمت عملی منظم کر سکتی ہیں۔ تمام سکولوں، دیہات، محلوں اور فیکٹریوں میں یہ کمیٹیاں منظم ہونی چاہیے تاکہ تحریک کو مضبوط کرتے ہوئے اسے پھیلایا جائے۔

دوسرا یہ کہ تحریک کو واضح طور پر ایک پروگرام مرتب کرنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ سماج کی وسیع پرتوں کو تحریک میں شامل کیاجا سکے۔ سب سے پہلے تو پروگرام میں ملا آمریت اور ملیشیاؤں کا خاتمہ، مذہبی اداروں کی ریاست سے علیحدگی اور ایک آئین ساز اسمبلی کے انعقاد کت مطالبات لازمی ہوں۔ پھر اسی تسلسل میں ان میں معاشی اور سماجی مطالبات جیسے پچھلے عرصے میں لاگو تمام کٹوتیوں کا خاتمہ، افراطِ زر کے مطابق کم از کم اجرت، تمام بینکوں اور بڑی کمپنیوں کے کھاتوں کا کھلا معائنہ اور جو لوگ کرپٹ ثابت ہیں ان سب کی گرفتاری اور ان کی جائدادوں کی ضبطگی شامل کیے جائیں۔ دیگر مطالبات میں تمام نجی کمپنیوں کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں قومیانا اور ریاستی کمپنیوں کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں لینا اور پوری عوام کے لئے مفت اور معیاری صحت و تعلیم کی فراہمی شامل ہوں۔

اسی طرح اس سال یہ عام ہڑتال ہی تھی جس نے الجزائر میں بوتیفلیکا اور سوڈان میں بشار آمریتوں کا خاتمہ کیا تھا۔

تحریک کو ہر صورت میں محنت کش طبقے کو ساتھ شامل ہونے کی دعوت دے، جن پر ظلم و استحصال کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں چاہے وہ بیروزگار، کسان، طلبہ یا درمیانہ طبقہ ہو۔ لیکن سب سے اہم ضروری ہے کہ جیتنے کے لئے تحریک محنت کش طبقے کو بطور منظم قوت دعوت دے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ پچھلے کئی سالوں میں محنت کش طبقہ ثابت کر چکا ہے کہ وہ جدوجہد کے لئے تیار ہے۔ پورے ملک میں ایک عام ہڑتال کی کال دی جائے تاکہ اس جابر ملا آمریت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ 2011ء میں ایک عام ہڑتال نے ہی تیونس میں بن علی اور مصر میں حسنی مبارک آمریتوں کا خاتمہ کیا تھا۔ اسی طرح اس سال یہ عام ہڑتال ہی تھی جس نے الجزائر میں بوتیفلیکا اور سوڈان میں بشار آمریتوں کا خاتمہ کیا تھا۔ تما م جھوٹ اور فریب کے باوجود یہ آیت اللہ خمینی کی الہامی قوتیں نہیں تھیں بلکہ 79-1978ء کی عام ہڑتالیں تھیں جنہوں نے شاہِ ایران کی آمریت کا خاتمہ کیا تھا۔ ایک مرتبہ اگر مزدور متحرک ہو جاتے ہیں توپھر یہ ملا آمریت تنکوں کا ڈھیر ثابت ہو گی۔
آخر میں تحریک کو پورے خطے کے غریبوں اور محنت کشوں سے یکجہتی کی اپیل کرنی چاہیے، عراق سے لبنان (جہاں عوام پہلے سے متحرک ہے)، مشرقِ وسطیٰ، ترکی، اردن اور مصر، جہاں سطح سے نیچے اسی طرح کی تحریکیں پھوٹنے کو تیار ہیں۔ ایک طرف ان ممالک کے حکمران خوفناک آپسی کشمکش میں مبتلا ہیں لیکن دوسری طرف یہ سب عوام کے خلاف متحد ہیں۔ پورے خطے میں صرف محنت کش طبقہ ہی وہ واحد قوت ہے جو ایرانی انقلاب کا حقیقی حامی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران میں انقلاب پورے خطے اور پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیل جائے گا۔

سڑکوں پر ایرانی نوجوانوں کی بغاوت ایرانی سرمایہ داری کے مکمل خاتمے اور موت کا پیغام ہے۔ سامراجی تسلط اور ملا آمریت، دونوں ہی ایرانی سماج کو درپیش کوئی ایک مسئلہ حل نہیں کر سکے۔ اس کے برعکس دیو ہیکل قدرتی وسائل اور شاندار ثقافتی خزانوں سے مالا مال ملک میں حکمران طبقہ صرف تباہی و بربادی، مایوسی اور انحطاط ہی دے سکتا ہے۔ پوری ملا آمریت غریب ترین اور سب سے زیادہ کچلی عوام کو سرِ عام لوٹ رہی ہے۔ پچھلے دور میں ملاں عوام کے مذہبی جذبات سے کھیل کر انہیں ٹھنڈا کر دیتے تھے لیکن اب یہ بھی ممکن نہیں رہا۔ لوگ مذہبی ضرور ہوں گے لیکن واقعات کا جبر ملاں کے دھوکے اور فریب کو بخارات کی طرح اڑا رہا ہے اور طبقاتی تضادات کھل کر سامنے آ رہے ہیں جو ایک نئی طبقاتی جنگ کا پیش خیمہ ہیں۔

Comments are closed.