کراچی: صفائی کے محنت کشوں کے مسائل و مطالبات

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|

کناس، مہتر، چوہڑا، بھنگی، جمعدار، جاروب کش، یہ الفاظ پڑھتے ہی آپ کے ذہن میں جو لوگ آتے ہیں وہ مسیحی ہوتے ہیں۔ پاکستان نہ صرف ایک طبقاتی بلکہ انتہائی متعصب معاشرہ ہے جہاں لوگوں کو ان کے مذہبی عقائد، زبان، نسل، عہدے اور امارت کی بنیاد پر پہچانا جاتا ہے اور اسی حساب سے عزت دی جاتی ہے۔ کیونکہ پاکستان ایک مسلمان ملک ہے لہٰذا مسلمانوں کو دیگر مذہبی اقلیتوں پر فوقیت حاصل ہے اور روایتی طور پر سارے’نچلے درجے‘کے کام غیرمسلموں کے لیے مخصوص ہیں۔

دنیا بھر میں گندگی پھیلانے کو برا کام سمجھاجاتا ہے جبکہ صفائی رکھنے اور صفائی کرنے والوں کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان اس معاملے میں بھی دنیا بھر سے انوکھا ہے۔ یہاں نام نہادشرفاء اور امراء ملک کو غلاظت کا ڈھیر بناتے ہیں اور پھر بھی باعزت رہتے ہیں جبکہ وہ عظیم افراد جو دوسروں کا گند صاف کرتے ہیں انھیں چوہڑا کہا جاتا ہے۔ پاکستانی مسیحیوں کے ساتھ دو ہرا ظلم ہورہا ہے۔ ایک تو وہ مذہبی اقلیت ہیں، دوسرا ان کے لیے خاکروبی کا پیشہ مخصوص کردیا گیا ہے۔

مورخہ 14 نومبر 2020ء کو ضلع کورنگی، کراچی میں کراچی میونسپل کارپوریشن کے سالڈویسٹ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے خاکروبوں نے علامتی ہڑتال کی۔ پچاس سینٹری ورکر ز شاہ فیصل کالونی میں لوکل گورنمنٹ دفتر کے باہر مظاہر ہ کررہے تھے۔ ان کے مطالبات تھے کہ ان کو موسم کے حساب سے یونیفارم فراہم کیے جائیں، دستانے، ماسک اور دیگر حفاظتی اشیاء فراہم کی جائیں، انہیں تہواروں کے دوران کام کرنے پر اوور ٹائم دیا جائے، تین سالہ واجبات ادا کیے جائیں، سالانہ 52 چھٹیاں تنخواہ میں کٹوتی کے بغیر کرنے کا حق دیا جائے، علاج کی سہولیات فراہم کی جائیں، ادارہ جاتی قانون کے مطابق ترقی دی جائے، ایکسیڈنٹ الاؤنس ادا کیا جائے، انتقامی طور پر دور دراز علاقوں میں تعینات نہ کیا جائے، ٹرانسپورٹ الاؤنس میں اضافہ کیا جائے اور پینشن کے طریقہ کار کو آسان کیاجائے۔

سینٹری ورکرز کے رہنما بشیر مسیح نے اس موقعے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت صرف ضلع کورنگی میں تقریباً 650 سینٹری ورکرز کام کررہے ہیں جن میں چند ایک کے سوا تمام مسیحی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ ان ورکرز کا بدترین استحصال کررہی ہے۔ یہ ورکرز گریڈ ایک میں بھرتی ہوتے ہیں اور تیس یا چالیس سالہ ملازمت کے بعد گریڈ دو میں پہنچ کر یا تو مرجاتے ہیں یا ریٹائر ہوجاتے ہیں۔ ان کے نصیب میں کوئی ترقی نہیں آتی۔ قوانین کے مطابق یہ ورکرز گریڈ پانچ تک ترقی کرسکتے ہیں لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں ظلم اور رشوت ستانی کا بازار گرم ہے۔ جو چند ایک مسلمان ورکر ہوتے ہیں وہ کسی کی سفارش سے ترقی کرجاتے ہیں اور مسیحی ورکرز کے لیے صرف رشوت کا راستہ رہ جاتا ہے۔ ڈھائی سے تین لاکھ روپیہ ادا کرکے کوئی بھی ورکر مقدم یا سپروائزر بن سکتا ہے۔ بشیر مسیح کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق ہر ورکر 52 چھٹیوں کا حق رکھتا ہے لیکن چھٹی کرنے، دیر سے آنے یا جلدی جانے پر ان کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے اور تنخواہ کی کٹوتی سے بچنے کے لیے انہیں رشوت دینی پڑتی ہے۔ چھوٹی عید، بقرعید، محرم، ربیع الاول کسی بھی تہوار پر ان ورکرز کو کوئی چھٹی نہیں ملتی حتیٰ کہ کرسمس کی چھٹی بھی انہیں قائد اعظم کے یوم ولادت کے طفیل ملتی ہے جبکہ کرسمس سے پہلے بھی اپنے علاقوں کی صفائی انہیں خود ہی کرنا پڑتی ہے۔

ان ناانصافیوں پر احتجاج کرنے والے افراد کو تنخواہ میں کٹوتی اور دور دراز کے علاقوں میں ٹرانسفر کے علاوہ اپنے افسروں کی گالم گلوچ بھی سہنی پڑتی ہے۔ ورکرز کو کام پر آنے کے لیے 1200 روپے کا الاؤنس ملتا ہے جبکہ بسوں کے کرائے میں ان کے تقریباً چار ہزار روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ دورانِ کام اکثر سینٹری ورکر ز ٹریفک حادثات کا شکار بھی ہوجاتے ہیں لیکن ان کے علاج یا مرنے کی صورت میں ان کے لواحقین کو ایک روپیہ بھی نہیں ادا کیا جاتا اور نہ ہی ان کے بچوں کو نوکری ملتی ہے۔ مرنے والے ورکرز کے گھر والوں کو اس کی پینشن حاصل کرنے کے لیے سالوں دوڑ دھوپ کرنی پڑتی ہے۔

ان مزدوروں کے ایک اور نمائندے نے اپنا نام نہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کورونا امیروں کے لیے تھا ہمارے لیے نہیں۔ پورے لاک ڈاؤن کے دوران ہمیں کوئی چھٹی نہیں دی گئی، نہ ہمیں ماسک یاکوئی اور حفاظتی لباس دیا گیا۔ ہمیں فوٹوسیشن کے لیے ماسک اور دستانے دیے گئے جو تصویریں کھینچنے کے بعد واپس لے لیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر ورکر میٹرک اور انٹر پاس ہیں لیکن انہیں کبھی ترقی نہیں ملتی۔ ایک سینٹری ورکر نے ماسٹرز بھی کیا ہوا ہے جبکہ ایک اور ایل ایل بی کی تیاری کررہا ہے لیکن پاکستان میں ان کے پاس سڑکوں پر جھاڑو دینے اور گٹر صاف کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2017ء کے بعد تنخواہ میں ہونے والے اضافے کے واجبات بھی ابھی تک انہیں نہیں دیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے کے افسران خواتین ورکرز کے ساتھ بھی بدتمیزی کرتے ہیں اور ان کی تنخواہیں بھی بہانے بہانے سے کاٹ لیتے ہیں۔ بشیر مسیح اور دیگر نمائندوں کا کہنا تھا کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں اور ہم قانون کے مطابق اپنے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں تاہم اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو ہم احتجاج اور ہڑتال کرنے پر مجبور ہوں گے۔

بشیر مسیح اور دیگر ورکرز نے ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے کی جانے والی اظہار یکجہتی کو سراہا۔ جبکہ ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندگان نے مستقبل میں بھی مکمل یکجہتی کا اعلان کیا۔

Comments are closed.