پورٹ قاسم ڈاک ورکرز کی جدوجہد کو لال سلام

|تحریر: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|

کراچی پریس کلب پر ڈاک ورکرز کے دھرنے کو 150 دن مکمل ہو چکے ہیں۔ مزدوروں کی استقامت، جرأت اور مستقل مزاجی جہاں ایک طرف بہت حوصلہ افزا ہے وہیں ایک حوالے سے لمحۂ فکریہ بھی ہے۔ حوصلہ افزا تو اس لئے ہے کہ یہ جدوجہد ایک ایسے ماحول میں جاری و ساری ہے جہاں معاشی بحران کی دلدل میں گھری پاکستانی ریاست دیگر تمام سرمایہ دارانہ اور سامراجی ریاستوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے محنت کش عوام پر جارحانہ معاشی و سیاسی حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ بلکہ آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی آوازوں کو نجکاری اور دیگر مزدور دشمن اقدامات کی یقین دہانی بھی کروا چکی ہے۔ ایسی صورتحال میں یکے بعد دیگرے تمام اداروں اور سماج کی تمام پرتوں کو اس معاشی جبر کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یوں پورٹ قاسم کے محنت کشوں کی یہ رواں مزاحمت ایک ایسی قابلِ تقلید مثال بن کر سامنے آ رہی ہے جو دیگر تمام اداروں کے محنت کشوں، طلبہ اور غریب عوام کے لئے امید، جذبے اور لڑائی کا محرک ثابت ہو گی۔

لمحۂ فکریہ اس لئے ہے کہ یہ سوچنے کی سخت ضرورت ہے کہ ایسی استقامت کے باوجود کامیابی میں تاخیر کی وجوہات کیا ہیں۔ اصل میں PTCL، KESC اور PIA کی گزشتہ تحریکوں کا یہی سبق ہے کہ جب تک ایک ادارے کی تحریک کی دیگر اداروں میں حمایت نہیں بنتی اس کی کامیابی ممکن نہیں۔ محنت کشوں کی بھاری اکثریت میں اگرچہ ان تحریکوں سے ہمدردی اور اخلاقی حمایت موجود ہوتی ہے مگر وہ عملی طور پر اس میں شریک نہیں ہو پاتے۔ کسی ایک ادارے میں بھی دوسرے ادارے کی تحریک کی حمایت میں احتجاج نہیں ہو پاتا۔ اس ناکامی کی وجوہات تلاش کرنے کی سخت ضرورت درپیش ہے۔ تاریخی طور پر مختلف اداروں کی تحریکوں کو جوڑنے کی بنیادی ذمہ داری مزدور فیڈریشنوں اور کنفیڈریشنوں پر عائد ہوتی ہے۔ اصل میں فیڈریشن لفظ کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں کی تمام فیڈریشنیں عملی طور پر ان تحریکوں کو جوڑنے کی بجائے اس قسم کی ہر جڑت کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ہاں فیڈریشنوں کا فقدان ہے۔ فیڈریشنیں درجنوں ہی نہیں بلکہ شاید سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر باقاعدہ این جی اوز میں تبدیل ہو کر مال بنانے کا معتبر ترین ذریعہ بن چکی ہیں۔ ان فیڈریشنوں اور این جی اوز نے ٹریڈ یونین اشرافیہ کی ایک ایسی پرت کو جنم دیا ہے جو صوبائی ووفاقی حکومتوں اور ریاستی اداروں تک رسائی کے کارن ہر تحریک کی قیادت تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور پھر اس تحریک کو باقی اداروں سے کاٹ کر اتنا تھکا دیتے ہیں کہ وہ باقی اداروں کے محنت کشوں کے لئے مثال بننے کی بجائے عبرت بن جاتی ہے۔ 

ان اداروں کے محنت کشوں کو چاہیے کہ وہ اپنے احتجاجوں میں شریک ہونے والے فیڈریشنوں کے قائدین اور مختلف اداروں سے آئے ہوئے مقررین سے باقاعدہ طور پر یہ سوال اور مطالبہ کریں کہ وہ اپنے اپنے اداروں میں کب ان کے حق میں احتجاج منظم کروائیں گے یا اگلے احتجاج میں اپنے ادارے سے کتنے محنت کشوں کی شرکت کو یقینی بنائیں گے۔ ایسے ہی فیڈریشنوں کی قیادتوں سے پوچھا جائے کہ ان سے وابستہ دیگر یونینیں اس ضمن میں خاموش کیوں ہیں اور اگر وہ ان کو متحرک ہی نہیں کر پاتے تو پھر فیڈریشنوں کے ہونے اور نہ ہونے میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ یہ معمہ اپنی جگہ حل طلب ہے کہ جب ان فیڈریشنوں اور این جی اوز نے مزدوروں اور خواتین کے عالمی دن یا کسی اور تہوار پر اپنے بینر تلے کوئی پروگرام منعقد کرنا ہوتا ہے تو سینکڑوں اور بعض اوقات ہزاروں محنت کش بھیڑ بکریوں کی طرح جمع کر لیے جاتے ہیں اور ان تصاویر اور ویڈیوز کے عوض جو حاصل وصول ہوتا ہے وہ ان محنت کشوں کی نظروں سے ہمیشہ اوجھل رہتا ہے یا اس کا آٹے میں نمک کے برابر کچھ ان محنت کشوں پر خرچ کر کے ان کے دل جیت لئے جاتے ہیں۔ محنت کشوں کی تربیت اور سٹڈی سرکلز کی جگہ پرتعیش ہوٹلوں میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں کی روایت مزدور تحریک کا سب سے بڑا المیہ بن چکی ہے۔ ان تمام دوستوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ خدارا تحریک کو انقلابی بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے دیگر اداروں تک پھیلانے کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے تمام بڑے اداروں کی ایک منظم ملک گیر عام ہڑتال وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔

Comments are closed.