کراچی: انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ میں ہراسمنٹ کے خلاف طلبہ کی مزاحمت، انتظامیہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور!

|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، کراچی|

30ستمبر کو آئی او بی ایم میں ہراسمنٹ کا ایک واقعہ پیش آیاجس میں ایک فی میل سٹوڈنٹ کو ٹرانسپورٹ آفس میں ٹرانسپورٹ انچارج جلال خان کی جانب سے نہ صرف ہراساں کیا گیا بلکہ طالبہ کی اجازت کے بغیر اس کی ویڈیوز بھی بنائی گئیں۔ یہ کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کو آئی او بی ایم کے طلبہ نے بتایا چاہے ٹرانسپورٹ انچارج ہو یا اساتذہ، یونیورسٹی میں ہراسمنٹ کے اس طرح کے واقعات کئی طلبہ کے ساتھ پیش آئے ہیں۔

ہراسمنٹ کے اس واقعہ کی شکایت جب ایچ آر ڈیپارٹمنٹ سے کی گئی تو اس شکایت پر کوئی ایکشن لینے کی بجائے ہراسمنٹ کی شکار طالبہ کو ہی یونیورسٹی سے ایکسپل کر دیا گیا۔

اس واقعہ کے خلاف جامعہ میں 22 اکتوبر کو احتجاج کی کال دی گئی۔ طلبہ نے بڑی تعداد میں اس احتجاج میں شرکت کی اور جلال خان اور یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ انتظامیہ نے احتجاج کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی اور طلبہ کو ڈرایا دھمکایا گیا۔ مگر طلبہ کی بڑی تعداد نے یونیورسٹی انتظامیہ کی ہر دھمکی کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ ثابت کر دکھایا کہ کسی ایک سٹوڈنٹ کے ساتھ پیش آنے والا مسئلہ ہر سٹوڈنٹ کا مسئلہ ہو گا۔ اس احتجاج کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ٹرانسپورٹ انچارج جلال خان کو معطل کر دیا گیا۔ مگر بجائے اس کے کہ اس واقعہ کی شفاف انکوائری کے بعد ہراسمنٹ کی شکار طالبہ کا داخلہ بحال کیا جاتا، 25 تاریخ کو طالبہ اور یونیورسٹی انتظامیہ کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں طالبہ کو ہی یہ کہا گیا کہ آپ انتظامیہ کو ایک معافی نامہ لکھ کر دیں اور یہ سمسٹر آپ یونیورسٹی میں جاری نہیں رکھ سکتیں۔

یہ خبر سنتے ہی طلبہ کا غم و غصّہ اور بڑھ گیا اور سوموار کو پھر طلبہ نے احتجاج کی کال دے دی۔ یونیورسٹی انتظامیہ اس کال سے اتنی خوف زدہ ہوئی کہ اس نے فوری طور تمام کلاسز کو آن لائن شفٹ کر دیا ہے۔

اس سارے واقعہ کے بعد طلبہ کے احتجاج نے ایک بات ثابت کر دی ہے کہ نوجوان جب بھی متحد اور منظم ہو کر لڑائی کے میدان میں اترتے ہیں تو جیت ان کا مقدر بنتی ہے۔ چاہے وہ شیخ حسینہ جیسی سفاک حکمران ہو یا پھر کسی جامعہ کی انتظامیہ، انہیں نوجوانوں کی بہادری اور اتحاد کے آگے ہار ماننی پڑتی ہے۔ طلبہ کے دوبارہ احتجاج منظم کرنے پر بھی ایسا ہی ہوا کہ جب انتظامیہ کے تمام تر حربوں کے باجود طلبہ مزید احتجاج کرنے کی طرف جا رہے تھے تو یونیورسٹی انتظامیہ نے طالبہ کا داخلہ بحال کر دیا۔ اپنی جیت کی جانب طلبہ کا یہ پہلا قدم ہے۔

کچھ دانشور یونیورسٹیوں میں طلبہ کو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ جدو جہد سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ان دانشوروں کے لیے مختلف ممالک میں جین زی کی انقلابی تحریکیں، بالخصوص بنگلادیش، انڈونیشیا اور نیپال کی انقلابی تحریکیں، اس نوجوان نسل کی ہمت، جرات اورموجودہ نظام سے نفرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آئی او بی ایم کے طلبہ کی تحریک کی کامیابی نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے وہ شاعر نے کہا ہے کہ؛

کیسے آکاش میں سوراخ نہیں ہو سکتا
ایک پتھر تو طبیعت سے اچھالو یارو

اس طرح کے ہراسمنٹ کے واقعات ہر یونیورسٹی میں روزانہ کی بنیاد پر رونما ہو رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان واقعات کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ تعلیمی اداروں کو ہراسمنٹ سمیت دیگر غلاظتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے طلبہ کو اپنی جمہوری طور پر منتخب اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی۔ ہر کیمپس میں سٹوڈنٹ خود اپنا الیکشن کرائیں اور پھر اپنے نمائندے چن کر ایک اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی تشکیل دیں۔ اس کمیٹی میں ہر کلاس سے نمائندے (میل اور فی میل دونوں) موجود ہوں۔ اس طرح جب پورے کیمپس کے سٹوڈنٹس منظم ہوں گے تو پھر کوئی پرنسپل، ٹیچر، کلرک، سکیورٹی گارڈ یا سٹوڈنٹ ایسی گھناؤنی حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ کیونکہ اب ایک کال پر پورا کیمپس بند ہو جائے گا۔ یہ کمیٹی ایسے کسی بھی واقعے کی تفتیش سر عام کرایا کرے گی۔ اس کے اس لڑائی کو تمام یونیورسٹیوں کے طلبہ سے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کی یہ کمیٹیاں صرف اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں تک ہی محدود نہیں ہوں گی، بلکہ اپنے باقی تمام مسائل کے حل کے لیے بھی طلبہ خود کو کمیٹیوں کی صورت میں منظم کر سکیں گے۔ ایکشن کمیٹیوں کی شاندار مثال ہمارے پاس ”آزاد“ کشمیر میں موجود ہے جہاں عوام نے اپنی ایکشن کمیٹیوں کے ذریعے متحد ہو کر مقامی حکمرانوں سے اپنا حق چھین کر لیا ہے۔

یہ محض لڑائی کا آغاز ہے کیونکہ ہراسمنٹ سمیت بے تحاشا فیسوں، مہنگائی، بے روزگاری، لاعلاجی اور اس طرح کے دیگر بے تحاشا مسائل، جن کا سامنا آج ایک طالبعلم سے لے کر مزدور اور کسان سب کو درپیش ہیں، تب ہی ختم ہوں گے جب موجودہ نظام کا ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے مکمل خاتمہ کر ے اسے سوشلسٹ بنیادوں پر تعمیر کیا جائے گا۔ اشرافیہ کے نظام سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک ایسا سوشلسٹ سماج قائم کیا جائے جس میں انسان کا انسان کے ہاتھوں استحصال نہ ہو۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی ایک ایسے سماج کی تعمیر کے لیے پورے پاکستان میں جدو جہد کر رہی ہے۔ ہم تمام طلبہ، مزدوروں اور کسانوں کو اس جدوجہد کا حصہ بنتے ہوئے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بننے کی دعوت دیتے ہیں۔

Comments are closed.