|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|
”جب قائدین امن کی باتیں کرنے لگیں، عوام سمجھ جاتے ہیں کہ جنگ ہونے والی ہے۔“ (برتولت بریخت)
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
آج صبح اخباروں کی سرخیاں دیکھتے ہی وائٹ ہاؤس کے رہائشی کی سانس اکھڑ گئی ہو گی، وینزویلا حزب اختلاف کی سب سے ممتاز قائد ماریا کورینا ماچادو نوبل امن انعام جیت چکی ہے!
نارویجین نوبل کمیٹی کے چیئرمین جارگن واٹنے فرائیڈنیس نے ماچادو کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ”امن کی ایک بہادر اور ثابت قدم سورماء ہے“ جو ”بڑھتی تاریکی میں جمہوریت کی مشعل اٹھائے کھڑی ہے“۔
امریکی صدر کے لیے یہ انتہائی غیر متوقع اور تذلیل آمیز خبر تھی جس نے اسے ہلا کر رکھ دیا۔
”کیا ہو رہا ہے؟ کیا اوسلو میں لوگوں کا دماغ خراب ہو چکا ہے؟ کیا وہ خبریں نہیں دیکھتے؟ کیا ناروے میں ٹی وی نہیں ہیں؟“۔
بیچارے ڈونلڈ کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ کل ہی اس نے مشرق وسطیٰ میں اپنے امن پلان کے اطلاق کا جشن منایا تھا جسے یقینا تاریخ کے پنوں میں عالمی سفارت کاری کے عظیم ترین کارنامے کے طور پر یاد رکھا جائے گا!
”کیا اوسلو میں ان لوگوں نے غزہ میں دیوانہ وار خوشی کے مناظر نہیں دیکھے؟ کیا انہوں نے اسرائیل کی سڑکوں پر عوام کا ناچتا سمندر نہیں دیکھا جو امریکی جھنڈے لہراتے ہوئے میرے گُن گا رہا تھا؟“
نتیجہ ناقابل بحث تھا! یہ انعام اس کامنتظر تھا! آج کی دنیا میں کوئی بہت بڑی خرابی ہے کہ اتنی بڑی ناانصافی ہو گئی!
یقینا صدر نے اس سے بھی سخت زبان استعمال کی ہو گی۔ لیکن مہذب محفل کے تمام اصولوں کے تحت ہم سنسرشپ کے ساتھ ہی ان کا ذکر کریں گے۔ یقینا ان کا جوہر وہی ہو گا جوآپ سوچ رہے ہیں۔
جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارت کا امیدوار بنا تو اس نے اپنے آپ کو امن کا امیدوار بنا کر پیش کیا۔ لیکن اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ لازم ہے۔
دنیا میں نام نہاد امریکی امن مشن کا حقیقی مطلب کیا ہے؟
امن کا سورماء؟
جارج اورویل کی شہرہ آفاق کتاب ”1984ء“ میں امن کی وزارت (منی پیکس) جنگ کے لیے ذمہ دار حکومتی محکمہ ہے۔ اسی طرح وزارت برائے سچ جھوٹ کی آماجگاہ ہے، وزارت برائے محبت ٹارچر کا گڑھ ہے اور وزارت برائے بہتات غربت اور بھوک کی امین ہے۔
اس ساری کاروائی کو اورویل نیو سپیک (Newspeak) کہتا ہے۔ آج اکیسویں صدی میں یہ زندہ ہے بلکہ پھل پھول رہی ہے۔ نام نہاد سیاسی مناسبت ہمیں بتاتی ہے کہ جنگوں میں افراد قتل نہیں ہوتے بس ”نکال دیے“ جاتے ہیں۔ افراد کا قتل عام، غزہ ایک مثال ہے، محض ”ضمنی نقصان“ ہے۔
ہم پر نام نہاد ”آزاد پریس“ کی آڑ میں مسلسل جھوٹے پروپیگنڈہ کی بوچھاڑ کی جاتی ہے۔ پھر سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ ہم ”قوانین کے تحت ایک عالمی نظام“ میں زندہ ہیں۔
بدقسمتی سے جن قوانین کی یہاں بات کی جا رہی ہے وہ کہیں بھی لکھے ہوئے نہیں ہیں یا کسی قانون کا حصہ نہیں ہیں۔ ان کو کسی جمہوری حکومت یا عالمی تنظیم نے منظور نہیں کیا ہے۔
یہ مخصوص مواقع پر واشنگٹن کی اختراع ہیں جن کے تحت امریکی سامراج کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔
باقی پوری دنیا پر ان ”قوانین“ کی اطاعت کرنا لازم ہے ورنہ انہیں پابندیوں، بھاری محصولات، سفارتی دباؤ، فضائی بمباری یا لشکر کشی کے ذریعے سخت ترین سزا دی جاتی ہے۔
پچھلی کئی دہائیوں سے امریکہ کی خارجہ پالیسی کا سادہ الفاظ میں یہی نچوڑ ہے۔ آج موجودہ حکومت اسی خارجہ پالیسی کو زیادہ انتشار اور بے یقینی کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے۔
ستمبر کے آغاز میں صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے محکمہ برائے دفاع کا نام تبدیل کر کے محکمہ برائے جنگ کر دیا ہے۔
اس حکم نامہ کے مطابق سیکرٹری برائے دفاع پیٹ ہیگ سیتھ (Pete Hegseth) اور دیگر عملہ اب ”سیکرٹری برائے جنگ“ اور ”ڈپٹی سیکرٹری برائے جنگ“ کے القابات استعمال کیا کریں گے۔
یہ چھوٹی تفصیل ہمیں بتانے کے لیے کافی ہے کہ امریکی سامراج کی حقیقی فطرت اور اہداف کیا ہیں۔ کم از کم جارج اورویل کی کتاب ”1984ء“ سے زیادہ ایمانداری یہاں برتی گئی ہے۔
امن امیدوار کا عہد و پیمان
ہمیں یاد ہے کہ صدارتی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے بار ہا وعدہ کیاتھا کہ وہ ”لامتناہی جنگیں“ ختم کر دے گا جن کی امریکہ کو لت لگ چکی ہے۔
اس نے وعدہ کیا کہ وہ یوکرین جیسی دلدل سے امریکہ کو باہر نکال لے گا اور ایک دن میں یہ جنگ ختم کر دے گا۔ یقینا اس کی جیت میں اس وعدے کا ایک اہم کردار تھا۔
لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ جنگ ختم ہونے کی بجائے مسلسل طوالت اختیار کر رہی ہے۔ اور امن کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے تمام شہرہ آفاق منصوبے (اسے کم از کم حکمت عملی تو نہیں کہا جا سکتا) گنجھلک اور متضاد خیالات کا انبار ثابت ہوئے ہیں۔
یوکرین جنگ پر وہ روزانہ پالیسی تبدیل کر لیتا ہے، کبھی تو اگلے گھنٹے میں پوزیشن مکمل تبدیل ہو جاتی ہے۔۔ یہ چھپن چھپائی مسلسل جا رہی ہے اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا۔
پہلے دن سے اس کے مذاکرات پر ناکامی کی مہر ثبت ہو چکی تھی کیونکہ ان میں روس اور کیف دونوں کے جنگی اہداف کو نظرانداز کر دیا گیا تھا۔
جنگ بندی کا مطالبہ کبھی کامیاب نہیں ہونا تھا کیونکہ روسی، جو بلاشبہ اس جنگ میں فتح یاب ہو رہے ہیں، اس میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
دوسری طرف زیلنسکی ڈھٹائی سے مصالحت کو رد کرتے ہوئے ضد کر رہا ہے کہ اس کا نام نہاد ”امن پلان“ منظور کیا جائے جس میں روسیوں سے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ سرفہرست ہے۔
جنرل کیلوگ (Kellogg) نے ایک رائے دی تھی کہ روسیوں کو کچھ زمین کے بدلے میں امن پر آمادہ کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا مطلب روسیوں کی جانب سے پہلے سے مفتوح شدہ زمین کو ہی ان کے حوالے کرنا تھا۔
بہرحال زیلنسکی اس پر کسی صورت تیار نہیں تھا۔ اس لیے کامیاب مذاکرات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ دونوں حریفوں کی پوزیشن ناقابل مصالحت تھی اور تجربہ ہمیں یہی بتاتا ہے کہ سوئی کے نکے سے اونٹ گزارنا ناممکن ہے۔
اس لیے ٹرمپ کا امن منصوبہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔
امریکہ اور اسرائیل
یہ یوکرین کا قصہ ہے۔ لیکن یوکرین میں اونٹ سوئی کے نکے میں سے گزارنے کی ناکامی لگتا ہے مشرق وسطیٰ میں کامیابی سے برابر ہو گئی ہے۔
لیکن کیا ایسا ہی ہے؟
سب سے پہلے دونوں مسائل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگرچہ یوکرینی سوال کو مغرب کے مفادات کے حوالے سے اہم ترین بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔۔ اس میں امریکہ بھی شامل ہے۔۔ لیکن یہ سچ نہیں ہے۔
درحقیقت، اگر کنفیوژن پھیلانے والا تمام پروپیگنڈہ نظر انداز کر کے اس معاملے کا سنجیدہ مطالعہ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ یوکرین میں امریکہ کا کوئی خاص مفاد موجود نہیں ہے۔
اس کے برعکس امریکہ کے لیے مشرق وسطیٰ معاشی، سیاسی اور تزویراتی ہر حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ اس بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ کی، پہلی نظر میں ناقابل فہم، بنیامین نتن یاہو کے لیے جنونی حمایت سمجھی جا سکتی ہے۔
اس وقت مشرق وسطیٰ میں امریکی سامراج کا اگر کوئی قابل اعتماد قلعہ ہے تو اس کا نام اسرائیل ہے۔ اس نکتہ نظر سے اسرائیل کا دفاع ہمیشہ واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کا مرکزی ستون رہا ہے۔
اس بنیاد پر واشنگٹن میں اسرائیلی لابی کے دیوہیکل اثر و رسوخ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ ہمیشہ سے موجود تھا لیکن موجودہ حکومت میں اس کا اظہار انتہائی غلیظ شدت کے ساتھ ہو رہا ہے۔
یہ ریپبلیکن پارٹی کی انتہائی دائیں بازو کی نظریاتی سیاست کا کلیدی جزو ہے اور ان جنونی عیسائی رجعت پسندوں کے لیے بھی کلیدی ہے جنہوں نے ریپبلیکن حامیوں میں بے پناہ اثر و رسوخ بنا لیا ہے۔
ٹرمپ کا ہمیشہ اس دھڑے کی جانب جھکاؤ تھا۔ اب وہ امریکی صدر بن کر تقریباً لامحدود طاقت سے لطف اندوز ہو رہا ہے اور ایک ایسی پوزیشن میں ہے جہاں اسے اپنے تمام تعصبات کا کھل کر اظہار کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
اس ساری صورتحال میں بنیامین نتن یاہو کی غیر مشروط اور مکمل حمایت اس کی پالیسی بن چکی ہے۔
لیکن کئی اثناء میں اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے آپ کو ناقابل اعتماد اتحادی ثابت کیا ہے جو اپنے تکبر میں اتنا غرق ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے معاون کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا اپنا حق سمجھتا ہے۔
کئی سالوں کے تجربات نے اسے سیکھا دیا ہے کہ وہ جو مرضی کہے اور کرے، حتمی طور پر واشنگٹن ہمیشہ اس کی حمایت کرے گا۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کو کسی قسم کی مخالفت پسند نہیں ہے لیکن وہ یروشلم میں اپنے دوست کی بے تحاشہ دست درازیوں کو مسلسل برداشت کر رہا ہے۔
یہ ہولناک اتحاد اب امریکی خارجہ پالیسی کا واضح کمزور نکتہ بن چکا ہے۔
اسرائیل کی تنہائی
غزہ میں اسرائیلی افواج کی ہولناک تباہی و بربادی نے پوری دنیا کو اس کا مخالف بنا دیا ہے۔ اس دباؤ میں سٹارمر اور ماکرون جیسے افراد بھی کم از کم الفاظ کی حد تک اپنے آپ کو اسرائیل سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن یورپ کے قائدین کی کسی قسم کی بھی تنقید بے معنی اور دھوکہ دہی ہے۔ ان سے منافقت کی غلیظ بو آ رہی ہے۔ ایک خیالی فلسطین کو ”تسلیم“ کرنا ایک کھوکھلا قدم ہے جس سے غزہ نسل کشی پر رتی برابر اثر نہیں پڑتا ہے۔
یہ ایک کارآمد دھوکہ ہے جس کے ذریعے یہ حکومتیں اسرائیل کے لیے اپنی حمایت کو چھپا رہی ہیں۔ اسرائیل کو دیوہیکل تعداد میں اسلحہ اور پیسے کی فراہمی جاری ہے جسے بغیر کسی روک ٹوک اسرائیلی قتل عام کے لیے بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔
عظیم فرانسیسی سفارت کار ٹالیرینڈ (Talleyrand) کے الفاظ میں ”یہ جرم سے بدتر ہے، یہ ایک غلطی ہے“۔ اب یورپی قائدین کو اس کا اندازہ ہو رہا ہے۔
چھوٹی کشتیوں کا ایک فلوٹیلا غزہ کی بھوک سے بلکتی عوام کو کچھ امداد پہنچانے کے لیے نکلا تو توقعات کے مطابق اسرائیل نے کشتیوں کو قبضے میں لے کر اور مسافرین کو گرفتار کر کے سارا پراجیکٹ سبوتاژ کر دیا۔
اس پر عوامی غم و غصہ پھٹ پڑا اور اٹلی، اسپین سمیت دیگر کئی ممالک میں دیوہیکل احتجاج اور عام ہڑتالیں منظم ہوئیں۔ پوری دنیا میں ابلتا عوامی غم و غصہ اب غزہ جنگ کے سوال پر مرکوز ہو چکا ہے۔
امریکہ میں بھی اسی قسم کا طوفان بے قابو ہونے کا خطرہ تھا اور اس کا ٹرمپ حکومت پر خوفناک اثر پڑنا تھا۔
حتمی طور پر بنیامین نتن یاہو تمام حدیں پار کر چکا تھا۔ جب اس نے دوحہ میں ایک عمارت پر بمباری کا حکم دیا جہاں حماس کے نمائندے امن مذاکرات میں مصروف تھے تو پورے مشرق وسطیٰ میں کہرام مچ گیا۔
قطر جیسے اہم اتحادیوں کی ممکنہ ناراضگی اور مخالفت پر مجبور ہو کر ٹرمپ کو اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے نتن یاہو کی شدید سرزنش کرنی پڑی جس کا تکبر اور نافرمانی وائٹ ہاؤس کے مکین کو بھی شدید مشتعل کر رہی ہے۔
اس صورتحال نے ٹرمپ کو غزہ پر اپنا مؤقف فوراً تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ اب تک پوری دنیا کو تفصیل پتا چل چکی ہے۔ ٹرمپ نے ایک حیران زدہ دنیا کو بتایا کہ اس نے بالآخر غزہ مسئلہ حل کر لیا ہے اور چند دنوں میں امن قائم ہو جائے گا۔
مسئلہ ختم! لیکن کیا ایسا ہی ہوا ہے؟ اسرائیلی وزیراعظم مشہور زمانہ دھوکہ باز منافق ہے جو زہریلے سانپوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ ٹرمپ کے تمام مطالبات پر حامی بھرنے کے ساتھ ہی اس نے راہ فرار اختیار کرنی شروع کر دی۔
جب حماس (کم از کم اس کے کچھ قائدین) ہچکچاہٹ کے ساتھ ٹرمپ پلان (کم از کم اس کے کچھ حصے) پر متفق ہو رہا تھا تو نتن یاہو رنجیدہ اکھڑپن کی تصویر بنا ہوا تھا۔ اس کا اظہار ایک بدنام فون کال سے ہوتا ہے جب وائٹ ہاؤس رہائشی اس پر چیخ اٹھا کہ ”حرامزادے! تم ہر وقت اتنے منفی کیوں رہتے ہو؟“
نتن یاہو کے ساتھ بات چیت میں ٹرمپ کی غیر سفارتی زبان کے استعمال کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ لیکن اس مرتبہ ٹرمپ کے رویے نے نخوت زدہ اسرائیلی قائد کو بھی ہلا دیا ہو گا کہ اب واشنگٹن اسے مزید برداشت نہیں کرے گا۔ اس لمحہ کے بعد بنیامین نتن یاہو عظیم سفید فام قائد کے سامنے گردن جھکانے پر مجبور ہو گیا۔
اس ساری صورتحال کو، سب سے زیادہ ٹرمپ کی جانب سے، ایک تاریخ ساز فتح قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن کیا ایسا ہی ہے؟ کیا واقعی غزہ میں جنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے؟ اگر ہمیں ان سوالوں کا جواب دینا ہے تو پھر ہمیں کچھ اور سوالات بھی پوچھنے ہیں۔
کیا حماس واقعی غیر مسلح ہو جائے گی؟ کیا اسرائیلی غزہ سے پسپا ہو جائیں گے اور محض کسی مخصوص علاقے میں بیٹھ کر مستقبل میں ایک مرتبہ نئی جنگ نہیں شروع کریں گے؟
کیا نتن یاہو واقعی ایک فلسطینی ریاست پر آمادہ ہو جائے گا؟ اور کیا حماس غزہ سے مکمل طور پر انخلاء کر کے پورا خطہ نام نہاد ”ٹیکنوکریٹس“ اور ٹونی بلیئر جیسے افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا؟
ان میں سے کسی ایک سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے۔
پرانی جنگوں کی جگہ نئی جنگیں؟
نوبل امن انعام کی بات جاری رکھتے ہوئے ہمیں کچھ دیگر سوالات بھی پوچھنے پڑیں گے کیونکہ جنگ کا خطرہ صرف یوکرین اور غزہ تک محدود نہیں ہے۔
حال میں امریکی محکمہ برائے جنگ (اب اس کا یہی نام ہے اور یہ درست بھی ہے) نے تقریباً 800 جرنیلوں، ایڈمیرل اور ائر فورس کمانڈروں کی ایک میٹنگ بلائی جس میں امریکی سیکرٹری برائے جنگ پیٹ ہیگ سیتھ (Pete Hegseth) اور امریکی صدر نے خطاب کیا۔
اس میٹنگ کا اصل مقصد آج تک نہیں بتایا گیا۔ عوامی تقریروں سے ہمیں کچھ سیکھنے کو نہیں ملتا۔ لیکن کئی اور تقریریں بھی ہیں۔۔ جو عوام میں نہیں کی جاتیں۔۔ جن کا مواد کبھی نہیں بتایا گیا۔
ایسی حیران کن میٹنگ منظم کرنے کا کیا مقصد تھا؟
اتنی بڑی تعداد میں عسکری قیادت کو اکٹھا کرنے کا ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے۔۔ انہیں جنگ کی تیاری کا کہا جا رہا ہے۔
اس وقت فوری نشانہ کیا ہو سکتا ہے؟ دو واضح امیدوار ہیں۔۔ وینزویلا اور ایران۔
ظاہر ہے اس کے حوالے سے آپ مکمل یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ اگر کسی قسم کی پیشگوئی کرنی ہے تو اس کا کردار لازمی طور پر قیاس ہو گا۔
لیکن اگر ہم اپنے آپ کو حقائق تک محدود رکھیں تو ایک تصویر واضح ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ حالیہ مہینوں میں ہم امریکی میڈیا میں وینزویلا کے حوالے سے ایک بڑھتی اشتعال انگیز مہم دیکھ رہے ہیں۔
کیا امریکہ وینزویلا پر حملہ کرے گا؟ فوری طور پر یہ سوال بڑا عجیب ہے۔ امریکہ وینزویلا پر کیوں حملہ کرے گا؟ وینزویلا نے تو امریکہ پر کوئی حملہ نہیں کیا۔ اس ملک کے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جسے امریکہ کے لیے خطرہ سمجھا جائے۔
لیکن ایک عوامی مہم پھیلائی جا رہی ہے کہ وینزویلا حکومت درحقیقت منشیات کا ایک کارٹیل ہے اور اس وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ایک خطرہ ہے۔
اس سے واضح ہو رہا ہے کہ وینزویلا پر ایک حملہ ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔
اس مفروضے کی نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون میں ان الفاظ میں تائید ہوتی ہے:
”امریکی نمائندوں کے مطابق صدر ٹرمپ نے وینزویلا کے ساتھ سفارتی معاہدہ کرنے کی کوششوں کو ختم کر دیا ہے جس کے بعد ممکنہ طور پر منشیات فروشوں یا نکولاس مادورو کی حکومت کے خلاف ایک عسکری پیش قدمی ہو سکتی ہے۔“
”معاہدہ کا فن“
پہلی نظر میں ڈونلڈ ٹرمپ کا وینزویلا کی جانب جارحانہ رویہ متضاد نظر آتا ہے کیونکہ اس نے ایک خاص صدارتی ایلچی اور کینیڈی سنٹر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر رِک گرینیل (Ric Grenell) کو مادورو کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے کے لیے بھیجا ہوا ہے۔
عمومی طور پر وائٹ ہاؤس کے رہائشی کو عسکری طریقہ کار سے مسائل حل کرنا پسند نہیں ہے۔ اسے ایک معاہدہ کرنے میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ ٹرمپ نے ایک مشہور کتاب بھی لکھی ہے جو ٹرمپ ازم کے نئے مذہب کی روحانی کتاب ہے، ”معاہدہ کا فن“۔
جنگ مخالفت کی وجہ ٹرمپ کی کوئی امن پسند اخلاقیات نہیں ہیں۔ سادہ الفاظ میں جنگیں بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ ایک اچھا معاہدہ بہت سستا ہوتا ہے، اس شرط کے ساتھ کہ معاہدہ ہو جائے۔
اس لئے مسٹر گرینیل کو کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے ایلچی بنا کر بھیجنا فطری تھا تاکہ ناپسندیدہ اور مہنگی عسکری مہم جوئی سے بچا جائے جبکہ امریکی کمپنیوں کی وینزویلا کے تیل تک رسائی برقرار رہے۔
مادورو ایک معاہدہ کرنے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ اس نے پچھلے مہینے ٹرمپ کو ایک خط بھیجا ہے جس میں منشیات کی ترسیل میں ملک کے ملوث ہونے کو رد کیا گیا ہے اور مزید مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے۔
گرینیل کئی مہینوں سے مذاکرات کر رہا ہے اور عوام میں اس کا رویہ بہت زیادہ مدبرانہ ہے۔ لیکن ٹرمپ حکومت میں روبیو (Rubio) اور اس کے اتحادی مادورو کو اقتدار سے بے دخل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
گرینیل حکومت کے راستے میں روڑے اٹکا رہا ہے اور مارکو روبیو جیسے اپنے ہم منصبوں کو مایوس کر رہا ہے جو شکایت کر رہے ہیں کہ مسٹر گرینیل کی کوششیں ”بے فائدہ“ ہیں اور ”ابہام پیدا“ کر رہی ہیں۔
پھر اچانک وائٹ ہاؤس کے رہائشی نے اس کے پیروں تلے زمین نکال دی ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے بیان کیا ہے کہ کیسے ”جمعرات کو سینیئر عسکری قائدین کی ایک میٹنگ میں مسٹر ٹرمپ نے مسٹر گرینیل کو کال کی اور اسے ہدایات دیں کہ تمام سفارتی کوششیں جن میں مسٹر مادورو سے مذاکرات بھی شامل ہیں، ان کو ختم کر دیا جائے۔“
اس اچانک فیصلے کی کیا وجہ تھی؟ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ:
”مسٹر مادورو امریکی مطالبے کے تحت رضاکارانہ طور پر اقتدار نہیں چھوڑ رہا اور وینزویلی نمائندے اصرار کر رہے ہیں کہ ان کا منشیات ترسیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس حوالے سے مسٹر ٹرمپ زچ ہو چکا ہے“۔
کانگریس کو ایک نوٹس میں ٹرمپ حکومت نے اطلاع دی ہے کہ امریکہ منشیات کارٹیلوں کے ساتھ ایک سرکاری ”مسلح لڑائی“ میں مصروف ہے۔ اس کو اگر سفارت کاری کے خاتمے سے جوڑ کر دیکھا جائے تو واضح طور پر امریکہ عسکری آپریشنز کو بڑھانے جا رہا ہے۔
نوٹس میں لکھا ہوا ہے کہ منشیات کارٹیلز دہشت گرد تنظیمیں ہیں اور منشیات اسمگل کرنے والے کارٹیل ممبران کو ”غیر قانونی جنگجو“ نامزد کیا گیا ہے۔
ان الفاظ کا ایک ہی مطلب ہے؛ امریکہ اب سمجھتا ہے کہ وہ وینزویلا کے ساتھ جنگ میں ہے۔
امریکہ کے حقیقی جنگی اہداف
ابھی تک واشنگٹن کوئی ایسا تسلی بخش ثبوت فراہم نہیں کر سکا ہے کہ وینزویلا حکومت ایک ڈرگ کارٹیل کا فرنٹ ہے۔
آپ کے نکولاس مادورو حکومت کے حوالے سے جذبات کچھ بھی ہوں، لیکن اس انتہائی بھونڈے الزام کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔
اس کا امریکی عوام پر یقینا اثر پڑے گا جو شائد ابتدائی مراحل میں وینزویلا پر فوج کشی پر خاموش رہے۔
اگرچہ یہ سب ایک سفید جھوٹ ہے لیکن بہرحال واشنگٹن کو ایک جواز مل جاتا ہے۔۔ جنگ کا جواز۔۔ جس کا واضح اعتراف اس مضمون میں ہے:
”امریکی حکام نے بتایا ہے کہ ٹرمپ حکومت نے شدت بڑھانے کے لیے کئی عسکری منصوبے بنا رکھے ہیں۔ ان آپریشنوں میں مسٹر مادورو کو حکومت سے نکالنے کا منصوبہ بھی ہو سکتا ہے۔ سیکرٹری برائے ریاست (امریکی وزیر خارجہ۔ مترجم) اور قومی سکیورٹی معاون مارکو روبیو نے مسٹر مادورو کو ایک ’غیر قانونی‘ قائد کہا ہے اور اس پر منشیات ترسیل کے حوالے سے مسلسل ایک امریکی فرد جرم کا حوالہ دے رہا ہے۔
”مسٹر روبیو نے مسٹر مادورو کو ’امریکی انصاف کا بھگوڑا‘ قرار دیا ہے اور امریکہ نے مسٹر مادورو کے سر کی قیمت 50 ملین ڈالر مقرر کر دی ہے۔
”وائٹ ہاؤس کے ایک نمائندے کا کہنا تھا کہ ٹرمپ ’امریکی قوت کا ہر ہتھیار‘ مسٹر مادورو کو حکومت سے نکالنے کے لیے استعمال کرنے کو تیار ہے تاکہ امریکہ میں منشیات کی اسمگلنگ کو روکا جا سکے اور وہ وینزویلا منشیات اسمگلنگ کے حوالے سے مسٹر مادورو کو واضح پیغامات دے چکا ہے کہ یہ دھندہ بند کرو۔“
جھوٹ اور مکاری کی گہری دھند کے پیچھے حقیقی اہداف واضح ہو رہے ہیں جس کا مقصد واشنگٹن میں موجود اشرافیہ کے جارحانہ اور درندہ صفت عزائم کو چھپانا ہے۔
ان جملوں میں بنیادی معاملہ بالکل واضح ہو چکا ہے یعنی موجودہ وینزویلا حکومت کا خاتمہ، ”مسٹر مادورو کو حکومت سے نکالنا“ اور اس کام کے لیے ”امریکی طاقت کا ہر ہتھیار“ استعمال کرنا۔
سادہ الفاظ میں وینزویلا میں حکومت کی تبدیلی مقصد ہے تاکہ ایک امریکہ نواز حکومت کاراکس (Caracas) پر مسلط کر دی جائے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ اس فیصلے کا کوئی تعلق وینزویلا حزب اختلاف کی قائد کو نوبل امن انعام نوازنے کے ساتھ ہو سکتا ہے؟ نوبل انعام کمیٹی نے چند دن پہلے ہی یہ فیصلہ کیا تھا اور اسے بعید القیاس نہیں کہا جا سکتا۔
وینزویلا سے مؤقف
ہمیں وینزویلا سے ایک کامریڈ کا حال میں خط موصول ہوا ہے جس کا حوالہ دینا اہم ہے:
”ٹرمپ وینزویلا پر حملے کے لیے ماحول تیار کر رہا ہے۔ اس نے حال میں اعلان کیا ہے کہ وہ کیریبین (Caribbean) میں منشیات کش آپریشن کے ’دوسرے مرحلے‘ پر غور کر رہا ہے اور مادورو کے خلاف اب ہرزہ سرائی صرف ایک منشیات فروش کی نہیں بلکہ اس کے انتخاب پر ہی سوال اٹھا دیا گیا ہے۔
”یہ سوچا جا سکتا ہے کہ مادورو پر کچھ منوانے کے لیے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے لیکن مادورو ہر چیز پر سمجھوتہ کرنے کو تیار ہے (تیل، جلاوطنی کا مسئلہ وغیرہ)۔ میرا خیال ہے کہ ریپبلیکنز نے طے کر لیا ہے کہ مادورو کو کمزور کر کے ایک خارجہ پالیسی فتح حاصل کرنے کے ساتھ چین کو ایک پیغام دیا جائے۔
”پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ حملہ ڈرونز یا ہوائی جہازوں کے ذریعے بمباری تک محدود رہے گا جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مادورو کی حکومت فوراً ختم ہو جائے گی۔ لیکن اس طرح کی بمباری ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو تیز کر دے گی۔“
واشنگٹن مادورو پر مسلسل دباؤ بڑھا رہا ہے جو مسلسل پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ لیکن یہ کمزوری کا اظہار ہے اور کمزوری ہمیشہ جارحیت کو جنم دیتی ہے۔
بری فوج کشی بہت خطرناک ہے اور اس طرح کے کسی بھی حملے کے لیے درکار قوتوں کا واضح فقدان موجود ہے۔ تمام اشاریے یہی ہیں کہ پہلے مرحلے کے بعد کسی قسم کا فضائی حملہ کیا جائے گا۔
اگلا قدم وینزویلا کی قیادت کو نشانہ بنانا ہو سکتا ہے۔ اس حکمت عملی کو اسرائیلیوں نے عروج کمال پر پہنچایا ہے اور اسے ”سر قلم آپریشن“ کا نام دیا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پہلے مرحلے میں یہی کام اسرائیل نے ایران کے ساتھ کیا تھا۔
ان کی کوشش ہے کہ چنیدہ اہداف کو نشانہ بنا کر۔۔ خاص طور پر ریاستی عمارات کو۔۔ حکومت کو بحران زدہ کر دیا جائے۔ ان کو امید ہے کہ اس کے ذریعے کسی قسم کی عسکری بغاوت ہو سکتی ہے جو مادورو حکومت کا خاتمہ کر دے۔
اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے مادورو کے سر کی قیمت 50 ملین ڈالر رکھی ہے۔۔ وینزویلا کی عسکری قیادت کے لیے ایک پرکشش پیشکش جو زندگی، آزادی اور سب سے بڑھ کر ذاتی دولت کے نشے پر بدنام زمانہ ہیں۔
کیا حکومت کی تبدیلی کامیاب ہو سکتی ہے؟
اس سوال کے لیے ایک کامل جواب دینا ناممکن ہے۔ اس کا انحصار کئی اجزاء پر ہے جن میں خاص طور پر سب سے اہم عوام کا حوصلہ ہے جو ماضی میں رجعت کے خلاف ایک طاقتور بند کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ لیکن وقت بدل چکا ہے۔
وینزویلا کی حکومت نے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ اپنی قوتوں کو مجتمع کرنے کی کوششیں کر رہی ہے اور ریزرو قوتوں کو متحرک اور دیگر اسی قسم کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
لیکن کیا وینزویلا امریکی افواج کے حملے برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہے؟ یہ بات واضح نہیں ہے۔ نکولاس مادورو عرصہ دراز پہلے بولیوارین انقلاب کا دفاع کرنے کا ڈرامہ ترک کر چکا ہے جس کا دفاع مرحوم ہیوگو شاویز (Hugo Chávez) نے آخری سانس تک جاری رکھا تھا۔
مادورو کی حکومت میں امراء امیر تر ہو رہے ہیں اور غرباء غریب تر۔
اگرچہ ابھی بھی شاویز اور انقلاب کی میراث کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن اس وقت حکومت ایک بورژوا بوناپارٹسٹ حکومت بن چکی ہے جو مختلف طبقات کے درمیان توازن قائم کر رہی ہے۔ اس کام میں مسلسل رائٹ ونگ کی طرف جھکاؤ جاری ہے جس کے ذریعے انقلاب اور محنت کشوں اور کسانوں کے حقوق پر حملے جاری ہیں۔
صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عوام بیگانہ اور مایوس ہو چکے ہیں، حکومت کی حمایت ختم ہو چکی ہے اور اقتدار پر قبضہ انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے جاری ہے۔
یہ درست ہے کہ امریکی سامراج عرصہ دراز میں وینزویلا کی حکومت تبدیل کرنے کی کئی کوششیں کر چکا ہے اور ناکام رہا ہے کیونکہ عوام کا ایک بڑا حصہ انقلاب کی یاد سے جڑا ہوا تھا۔
لیکن عوام کی وفاداری لامتناہی نہیں ہوتی۔ اور اس وقت عوام شدید تھکاوٹ، مایوسی اور پست حوصلگی کا شکار ہو گی۔
حتمی طور پر ایک بوناپارٹسٹ حکومت کو پتا چلتا ہے کہ اس کی سب سے قابل اعتماد حمایت ریاست ہے اور خاص طور پر فوج اور سکیورٹی فورسز کی بالائی پرتیں۔
یہ شاویز کی پالیسی کا سب سے کمزور پہلو تھا کہ وہ ہمیشہ جرنیلوں کی حمایت پر تکیہ کرتا رہا جسے جاری رکھنے کے لیے ایک طرف وہ حب الوطنی کا پرچار کرتا تھا لیکن بنیادی طور پر ان پر معاشی مراعتوں کی بارش اور ایک مراعت یافتہ زندگی یقینی بنائی گئی تھی۔
حتمی تجزیے میں ایسی حمایت لامتناہی نہیں ہوتی۔ رومن شہنشاہوں نے مراعتوں اور لاڈ پیار سے ایک پریٹورین گارڈ (Praetorian Guard) تشکیل دی تھی لیکن اکثر اوقات ان کے سر اسی گارڈ کے نیزوں پر چڑھے ہوتے تھے۔
جدید تاریخ میں سالویدور الاندے (Salvador Allende) کی کہانی ہمارے سامنے ہے جو پینوشے (Pinochet) جیسے ”وفادار“ اور ”جمہوری“ جرنیلوں پر اکتفاء کرتا تھا۔
واشنگٹن میں تقسیم
ڈونلڈ ٹرمپ کی حرکات و سکنات کا اندازہ لگانا اس لیے تقریباً ناممکن ہے کیونکہ وہ مسلسل پینترے بدلتا ہے، پہلے ایک طرف بھاگتا ہے پھر یکدم دوسری سمت چل پڑتا ہے۔ اس سب کا دارومدار ان مختلف دباؤ پر ہے جو اسے چاروں اطراف سے گھیرے ہوئے ہیں۔
خارجہ پالیسی میں اس کی مسلسل تبدیلیوں اور دھما چوکڑیوں کی یہی وجہ ہے۔ یوکرین اور مشرق وسطیٰ کی طرح وینزویلا پر بھی اسے کئی اطراف سے دباؤ کا سامنا ہے۔
ٹرمپ حکومت میں واضح تقسیم موجود ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق:
”ٹرمپ حکومت میں سفارت کاری کے پرچارک پریشان ہیں کہ وینزویلا میں منشیات مخالف مہم کا مزید پھیلاؤ یا مسٹر مادورو کو حکومت سے نکالنے کی کوئی بھی براہ راست کوشش امریکہ کو ایک وسیع جنگ میں گھسیٹ سکتی ہے۔“
وینزویلا میں عسکری مداخلت کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے؟ یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ لیکن اس وقت ہر اشاریہ اسی کی طرف وضاحت کر رہا ہے۔
پینٹاگون میں کچھ عسکری وکلاء جن میں عالمی قوانین کے ماہرین بھی شامل ہیں، مشتبہ منشیات اسمگلروں پر قاتلانہ حملوں کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
CNNکی ایک رپورٹ کے مطابق ٹرمپ حکومت نے محکمہ برائے انصاف کے دفتر برائے قانونی مشاورت کے ذریعے ایک خفیہ قانونی رائے بنائی ہے جو قانونی جواز فراہم کرتی ہے کہ ”ایک خفیہ اور مسلسل بڑھتی کارٹیلوں اور مبینہ منشیات اسمگلروں“ کے خلاف قاتلانہ حملے کیے جائیں۔
اس رائے میں بحث ہے کہ وسیع پیمانے پر موجود ان کارٹیلوں سے امریکیوں کو فوری خطرات لاحق ہیں اور اس حوالے سے صدر کو حق حاصل ہے کہ قاتلانہ قوت کو استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔
اس قانونی رائے سے معلوم ہوتا ہے کہ گروہوں کی ایک خفیہ فہرست ہے جن کے خلاف ایک لامتناہی جنگ کا حق درست تسلیم کیا گیا ہے اور اس کے تحت صدر کے پاس منشیات اسمگلروں کو دشمن جنگجو قرار دینے اور بغیر کسی قانونی قدغن قتل کرانے کا حق موجود ہے۔
ہمارا رویہ کیا ہے؟
کریبین میں صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ اگرچہ جب ایسا لگ رہا تھا کہ مذاکرات کامیاب ہو رہے ہیں، اسی دوران امریکی فوج متحرک ہو رہی تھی اور وینزویلا کی حکومت کے لیے مبینہ طور پر منشیات اسمگلنگ کرنے والی کشتیوں پر حملے کر کے انہیں تباہ و برباد کیا جا رہا تھا۔
یہ خیال ہی فضول ہے کہ امریکی سامراج نے کیریبین میں ایک طاقتور بحری بیڑا اس لیے بھیجا ہے کہ منشیات ترسیل میں ملوث چند چھوٹی کشتیوں کو دھماکے سے اڑایا جا سکے۔ اس معمولی پروگرام کے برعکس غیر معمولی اور زیادہ سنجیدہ اہداف زیر غور ہیں۔
ہم پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ ہمیں نکولاس مادورو، اس کی پالیسیوں یا اس کی حکومت پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔
یہ سب درست ہے۔ لیکن اس حکومت کے خاتمے کا کام واشنگٹن کے سامراجی بدمعاشوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کو نہیں سونپا جا سکتا جو اپنے رد انقلابی اہداف ”جمہوریت کی بحالی“ جیسے بھونڈے نعروں میں چھپا رہے ہیں۔
واشنگٹن کا حقیقی ہدف واضح ہے۔ ایران کے خلاف ایک نئی جنگ۔۔ یہ ابھی تک ایجنڈہ پر موجود ہے۔۔ مشرق وسطیٰ میں ناگزیر طور پر ایک عمومی بحران کو جنم دے گا جس سے تیل کی پیداوار اور تجارت میں تباہی ہو گی اور توانائی کی قیمتیں پل بھر میں آسمانوں پر جا پہنچیں گی۔
اس کا عالمی معیشت پر تباہ کن اثر پڑے گا اور ظاہر ہے اس میں امریکہ بھی شامل ہے۔ اس لیے وینزویلا کے دیوہیکل تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا ٹرمپ کی تمام چالبازیوں میں سرفہرست ہو گا۔
امریکہ کا مقصد ہے کہ وینزویلا کی تیل کی دولت پر قبضہ کر کے اسے بھیڑیا صفت امریکی اجارہ داریوں کے حوالے کر دیا جائے۔
ایسی صورتحال کبھی بھی وینزویلا کے عوام کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتی۔ اس جارحیت کا ہر ممکن مقابلہ لازم ہے۔
لیکن امریکی جارحانہ پالیسی کی ایک اور بھی زیادہ اہم وجہ ہے۔ امریکہ اس وقت شدید خوف میں مبتلا ہے کہ چین کا تیزی سے بڑھتا اثر و رسوخ لاطینی امریکہ سے امریکہ کو باہر پھینک دے گا۔ امریکی سامراج کو محسوس ہو رہا ہے کہ چین کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے اپنا معاشی اور عسکری وزن دکھانا پڑے گا۔ اس کا مقصد لاطینی امریکہ میں حکومتوں کا خاتمہ، ان کو چین سے تعلقات ختم کرنے پر مجبور کرنا اور واشنگٹن کی غلامی پر آمادہ کرنا ہے۔
ہمارے رجحان نے سب سے پہلے ”وینزویلا پر دست درازی نامنظور!“ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ آج یہ نعرہ وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔
انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے امریکی اور وینزویلی سیکشن ہماری پوزیشن واضح کر چکے ہیں جنہیں کیریبین میں امریکی عسکری نقل و حرکت کے ساتھ ہی شائع کر دیا گیا تھا۔
امریکہ اس وقت ایک خوفناک گھن چکر میں پھنس چکا ہے جہاں سے نکلنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اپنی تمام تر مخالفت کے باوجود ٹرمپ ایک مہلک منطق کے تحت جنگوں کو پھیلانے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
اب اس شخص کا کیا بچا ہے جو امن کا امیدوار ہونے کا دعویدار تھا؟ وہ شخص جو امریکہ کی ”لامتناہی جنگوں“ سے جان چھڑانے آیا تھا؟ اب یہ تمام اعلانات ستم ظریفی کا استعارہ بن چکے ہیں۔
زندگی کی طرح سیاست میں بھی کئی حیران کن موڑ آتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام دینے کے لیے بڑی پرجوش مہم چلائی جا رہی ہے۔ ماضی میں کئی ایسے مواقع آئے ہیں جب نوبل امن کمیٹی نے دو افراد کو اکٹھے انعام دیا ہے۔ کیا اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو گا؟
اگر ایسا ہوا تو یہ کاؤنٹ ڈریکولا (Count Dracula) کو عالمی خون عطیات سروسز کے لیے خدمات سرانجام دینے پر نوبل امن انعام سے نوازنے کے مترادف ہو گا!
میرے خیال میں اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب واقعات ہوتے رہے ہیں۔ ایسے غیر منطقی فیصلے کے لیے ہمیں یورپی قائدین کی عمومی اور سکاندینیوی (Scandinavians) قائدین کی خاص طور پر لامتناہی بزدلی اور غلامی کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔
کیا پتا ایسی صورتحال میں کیا ہوتا ہے؟ لیکن میرا خیال ہے کہ ابھی ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے اوسلو میں اپنا انعام حاصل کرنے کا وقت نہیں آیا ہے۔


























In defence of Marxism!
Marxist Archives
Progressive Youth Alliance