ارمان لونی کا قتل: ریاستی جبر اور عوامی مزاحمت!

|تحریر: زلمی پاسون|

بلوچستان میں گزشتہ ایک دہائی سے ایسا کوئی دن نہیں گزرا ہے جس میں ریاستی جبر کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی واقعہ رونما نہ ہوا ہو۔ مگر یہ واقعات کسی بھی طریقے سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت نہیں بنتے کیونکہ ان میں ریاست اور ان کے ادارے ملوث ہوتے ہیں۔ 2 فروری کی شام کو بلوچستان کے پشتون آبادی والے بڑے شہر لورالائی میں ریاستی اداروں پولیس اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کی موجودگی میں جمہوری حقوق کے حصول کیلئے پرامن جدوجہد کرنے والے پشتون تحفظ موومنٹ کے سینئر رہنما اور پشتون تحفظ موومنٹ کے کور کمیٹی ممبر ارمان لونی کے قتل کا واقعہ رونما ہوا۔ واضح رہے کہ ارمان لونی کے ماورائے عدالت قتل کا واقعہ اس وقت رونما ہوا جب پشتون تحفظ مومنٹ کا 29 جنوری کو لورالائی میں DIG پولیس آفس پر دہشت گردی کے واقعے کے خلاف دھرنا چوتھے روز میں داخل ہوچکا تھا۔اس دہشت گردانہ واقعہ میں نو افراد ہلاک اور اکیس کے قریب لوگ زخمی ہوئے تھے۔

بلوچستان سمیت پورے ملک میں دہشت گردی کے واقعات، جن میں ہمیشہ ریاستی سکیورٹی ادارے بلاواسطہ یا بالواسطہ ملوث پائے جاتے ہیں، کا شکار مظلوم محنت کش عوام ہی ہوتے ہیں۔ ساہیوال کا واقعہ ہو یا لورالائی کا یا پھر خیسور (شمالی وزیرستان) میں ریاستی سکیورٹی اداروں کی بد معاشی اور اخلاقی گراوٹ کا اظہار ہو،ان سب واقعات کے پیچھے ریاستی اداروں کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہوتے ہیں مگر ہمیشہ کی طرح انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے مظلوم پر ظلم میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ ساہیوال واقعے میں مقتول ذیشان کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے ریاستی سکیورٹی اداروں نے عدالت عالیہ سے تیس دنوں کی مہلت مانگ لی ہے۔ جبکہ خیسور (شمالی وزیرستان) کے واقعے میں متاثرہ خاندان کو بیانات تبدیل کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کیے جارہے ہیں جن میں روایتی ہتھکنڈے؛ زبردستی، ظلم یا مراعات دینے کے حربے، قابل ذکر ہیں۔ ہر طرف سے متاثرہ خاندان اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہتے ہیں۔ لیکن معاملات کا ناگزیر یا قانونی پیچیدگیوں کے باعث طوالت اختیار کر جانا اکثر ریاستی ہتھکنڈوں کو کارگر بنا دیتا ہے اور اسی دوران واقعات کی تفاصیل کو مسخ کر دیا جاتا ہے۔ 

اس کے علاوہ بلوچستان کے بلوچ اکثریت آبادی والے علاقوں میں تو آئے دن ریاستی جبر کا ایک نیا اور انوکھا کارنامہ سرانجام دیا جاتا ہے جس میں سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی، مسخ شدہ لاشیں اور ٹارگٹ کلنگ تو زبان پر زدِ عام ہے۔ ریاستی جبر کی ان تمام گھناؤنی حرکتوں اور ہتھکنڈوں کے خلاف عوامی مزاحمت اپنے معروضی حالات کے مطابق دیکھنے کو ملتی ہے مگر ان جمہوری حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور ریاستی جبر کے خلاف بولنے والوں کو اس سے بھی بدترین جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جوں جوں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی وجہ سے ریاست پاکستان کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے توں توں ریاست نت نئے محاذ کھول رہی ہے جس میں گزشتہ دو مہینوں میں بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات قابل ذکر ہیں۔ 2018ء کے آخر میں قلعہسیف اللہ میں لیویز فورسز پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے چار لیویز اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ انہی دنوں میں پشین میں لیویز اہلکاروں پر دو خودکش حملے ہوئے اور عین انہی دنوں میں چمن میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے۔ جبکہ لورالائی میں رواں سال کے پہلے مہینے میں دہشتگردی کے بدستور چار واقعات رونما ہوئے جن میں بارہ سے پندرہ کے قریب ہلاکتیں واقع ہوئیں۔ دہشت گردی کی اس پھیلتی آگ کے خلاف پشتون تحفظ موومنٹ نے پرامن دھرنوں اور احتجاجوں کے سلسلے کا آغاز کیا جس پر ریاست کی طرف سے یلغار کے واقعات بدستور رونما ہو رہے ہیں۔ جن میں مذکورہ تحریک کے سیاسی کارکنوں پر جعلی ایف آئی آر کاٹی جا رہی ہیں جن کی ضمانتوں کے لیے پی ٹی ایم کے کارکنان عدالتوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ صرف بلوچستان تک محدود نہیں ہے بلکہ خیبر پختونخوا اور کراچی میں بھی جاری ہے۔ کراچی میں 21 جنوری کو پی ٹی ایم کے بانی رہنما عالم زیب محسود کو دن دیہاڑے ریاستی اداروں کے غنڈوں بالخصوص راؤ انوار کی باقیات نے گرفتار کر لیا، یہ عناصر پورے ملک میں دہشت پھیلاتے دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں اور جس کو چاہے انہیں بغیر کسی عدالتی کاروائی کے اٹھا کر مختلف دفعات لگاکر جیلوں میں پھینک دیتے ہیں۔ ان تمام واقعات کی پیچھے ریاست کا یہ مقصد کارفرما ہے کہ پرامن احتجاجوں اور تحریکوں کو کسی بھی صورت منظم ہونے سے روکا جا سکے۔ جب کہ اسی کراچی شہر میں 444 معصوم افراد کا قاتل راؤ انوار اب تک قانون کی گرفت سے آزاد ہے۔ 

لورالائی کے اندر پیش آنے والا واقعہ ریاستی اداروں کی طرف سے کوئی نیا واقعہ تو نہیں ہے مگر ایسے واقعات سے ریاست پشتون تحفظ موومنٹ کو ایک طرف اگر تشدد پر اکسانا چاہتی ہے تو دوسری طرف یہ ایسے گھناؤنے واقعات کے ذریعے تحریک کو کمزور کرکے پسپا کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں، مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے حربے اس وقت تک ناکام ہوں گے جب تک تحریک تشدد کی طرف راغب نہیں ہوتی یا وسیع عوامی حمایت تحریک کے ساتھ موجود رہتی ہے اور جہاں تک تحریک کے کمزور ہونے اور پسپا ہونے کی بات ہے تو یہ ایک بار پھر تحریک کی قیادت کے اوپر منحصر ہے،کہ وہ تحریک کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں کو کب تک اور کیسے جوڑے رکھتی ہے اور مزید عوام کے اندر اپنی بنیادیں کیسے مضبوط کرتی ہیں۔ تاہم اس تمام بحث کا تعلق ایک بار پھر تحریک کے نظریات اور سیاسی پروگرام کے حوالے سے اہم ہے۔ مگر ایک بات بالکل واضح ہے کہ ایسے واقعات کے ذریعے تحریک کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں کے اندر جذبات بھڑک اٹھتے ہیں جن کو کسی غلط راستے کی طرف بھٹکنے سے روکنے کے لئے قیادت کی سیاسی سمجھ بوجھ انتہائی اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے بصورت دیگر بعض اوقات محض جذباتی اقدامات تحریک کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ سیاست ایک صبر آزما اور برداشت کا عمل ہوتا ہے جہاں پر جذبات سے زیادہ ہوش و حواس اور شعوری فیصلوں سے کام لیا جاتا ہے۔

اس وقت پورے ملک بالخصوص بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے اندر ریاست ہر اس آواز کو دبانا چاہتی ہے جوکہ ریاستی پالیسیوں کے خلاف اٹھتی ہے مگر ریاستی دلالوں کے لیے کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ امریکہ طالبان مذاکرات کے بعد بلوچستان کے پشتون علاقوں میں گڈ طالبان روزانہ کی بنیاد پر شہروں میں مٹرگشت کرتے نظر آتے ہیں اور ریاستی سکیورٹی ادارے بدستور خاموش۔ ایسی صورتحال میں ریاست اور ان کے اداروں کے خلاف عوام کے اندر اشتعال پیدا ہونا ناگزیر ہوتا ہے، اور ریاست کی یہی کوشش ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی، پر امن اور عدم تشدد والی تحریک کو جس کے پھیلاؤ سے ان کی ناہلی ثابت ہو کو اشتعال دلاکر تشدد پر اکسائے تاکہ ریاست کو جبر کرنے کا موقع فراہم ہو۔ اس سے قبل اس ریاست نے تحریک کی دیگر مظلوم قومیتوں اور مظلوم طبقات سے جڑت پر قدغنیں لگائیں جن کا اظہار ہمیں پشتون علاقوں سے ہٹ کر کراچی اور لاہور میں دیکھنے کو ملا جہاں پر ریاست نے اس تحریک کو کاٹنے کی کامیاب کوشش کی۔ مگر کاٹنے کے اس عمل میں تحریک کی قیادت نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا جنہوں نے اس تحریک کو قومی بنیادوں تک محدود کرکے ریاست کے کام کو آسان کردیا۔ گوکہ قوم پرستی کے نظریات کی بھی یہی حدود و قیود ہیں کہ یہ اپنی قومی و لسانی بنیادوں سے باہر نہیں نکل سکتی۔ بلا مبالغہ ارمان لونی کے اندوہناک قتل کی ذمہ دار یہ وحشی اور درندہ صفت ریاستہے۔ لیکن قیادت کی طرف سے ایک طویل وقت سے کسی واضح موقف اور حکمت عملی کی عدم موجودگی اور ایک طرف تحریک میں سرائیت کرتی ہوئی قوم پرستانہ تنگ نظری اور دوسری طرف لبرلزم، جس پر اس وقت قیادت کا انحصار ہے، نے ریاست کو ان انتہائی اقدامات کا موقع فراہم کیا ہے۔ مگر اب بھی تحریک ٹھوس انقلابی لائحہ عمل اور درست نظریات کی متقاضی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت پوری دنیا کے اندر اس ظالم نظام سے لوگ تنگ آچکے ہیں جس میں یہاں کے عوام بھی سامراجی دلال حکمرانوں سے اپنی نفرت کا بار بار اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ عوام ایک سیاسی متبادل کی تلاش میں ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ اس ملک کے اندر وہ تحریک بن سکتی تھی جو طبقاتی موقف کے گرد محکوم قومیتوں اور مظلوم طبقات کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر سکتی۔ اور اس اکٹھ کے بغیر اس ظالم نظام کی قاتل ریاست کے ظلم اور بربریت سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاستی دہشت گردی، ظلم، جبر اور استحصال کے خلاف پشتون تحفظ موومنٹ کو چاہیے کہ وہ پشتون قوم کی محرومی کے مسئلے کو پاکستان اور خطے میں آباد دیگر مظلوم قومیتوں اور طبقات سے جوڑ کر طبقاتی بنیادوں پر اپنی جدوجہد کو منظم کرنا ہو گا کیونکہ یہ جدوجہد اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ملک اور خطے کے دیگر مظلوم طبقات کے ساتھ اس کو جوڑا نہ جائے۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے محنت کشوں سے تعاون اور یکجہتی کی اپیل کرتے ہوئے فیصلہ کن اقدام کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں‘‘ کی بنیاد پر سوچنا ہو گا۔

ریاستی دہشتگردی مردہ باد!
قومی جبر مردہ باد!
مظلوم قومیتوں کی حق خودارادیت زندہ باد!
سرمایہ دارانہ نظام مردہ باد!

Comments are closed.