|تحریر: صدیق جان|
اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا شدید ماحولیاتی تبدیلیوں کے زد میں ہے۔ اس سال اپریل کے مہینے میں پاکستان میں سب سے زیادہ گرمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بارشوں میں انتہائی کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ اس طرح پچھلے دو تین سال کے دوران مون سون کے سلسلے میں طوالت اور بے ترتیبی آگئی ہے۔ طوفانی بارشوں اور سیلابوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 2020ء میں کراچی میں مون سون کے دوران شدید بارشوں کی وجہ سے پورا شہر پانی میں ڈوب گیا تھا، اسی سال کراچی میں 587.5 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جو پچھلے 90 سال میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ سے کراچی میں کئی اموات ہوئیں اور خصوصاً کچی آبادیوں اور غریب عوام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔ اسی سال لاہور میں بھی یہی کچھ ہوا۔ اس طرح سردیوں میں میدانی علاقوں میں شدید سموگ کی وجہ سے آمد ورفت متاثر ہوتی ہے، ٹریفک حادثات میں اضافہ ہوتا ہے، لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے دو شہر دنیا میں آلودہ ترین شہر قرار دیے گئے ہیں۔
اس سال بارشوں میں بھی انتہائی کمی آئی ہے جس کی وجہ سے فصلیں متاثر ہوئیں اور ہزاروں مویشی پانی کے قلت کی وجہ سے مر گئے، جبکہ انسانوں کیلئے پینے کا پانی ختم ہو گیا ہے اور تھر اور چولستان سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ یہ تمام تر صورتحال اگرچہ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا ہی نتیجہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں پاکستان کے حکمران طبقے کی نا اہلی اور عوام دشمنی کا بھی کلیدی کردار ہے۔
مئی 2022ء کے مہینے میں شیرانی اور موسیٰ خیل کے جنگلات میں آگ لگ گئی تھی۔ یہ دنیا میں چلغوزے کے سب سے بڑے جنگلات ہیں۔ اس آگ کو حکومت نے مکمل طور پر نظر انداز کیا جس کی وجہ سے یہ آگ کئی کلومیٹر تک پھیل گئی اور لاکھوں درخت جل کر راکھ ہو گئے جبکہ کئی اقسام کے جانور اور پرندے لاکھوں کی تعداد میں جل گئے۔ اس آگ کو بر وقت اقدامات سے قابو میں کیا جاسکتا تھا اور ان جنگلات کو بچایا جا سکتا تھا لیکن حکمرانوں کی نااہلی اور بے حسی کی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا۔ جب عوام نے سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی تو اس دباؤ کی وجہ سے حکومت حرکت میں آئی لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
https://www.instagram.com/p/CeYUBbmN5ik/?utm_source=ig_embed&ig_rid=885b77a4-5097-407d-9fef-80448c1d7e3d
اسی طرح خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں جیسے سوات، دیر، شانگلہ، بونیر، ملاکنڈ وغیرہ کے جنگلات اس وقت آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ کئی دن گزرنے کے بعد بھی حکومت نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ حکمران اپنے مفادات اور لوٹ مار کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ کتوں کی طرح لڑ رہے ہیں اور انہیں رتی برابر بھی پرواہ نہیں کہ جنگلات تباہ ہو رہے ہیں۔ ایک طرف تو یہ معاشی بحران کو رونا روتے ہیں، سیاحت کو فروغ دینے کی باتیں کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف جنگلات جیسے قیمتی اثاثے کی تباہی کی انہیں بالکل بھی فکر نہیں۔ دراصل حکومت کے پاس آگ بجھانے کیلئے جدید آلات ہیں ہی نہیں، نتیجتاً ان علاقوں کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اس آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں ہیں۔ چونکہ عام عوام کے پاس آگ بجھانے کیلئے کوئی آلات نہیں ہیں اور وہ آگ پر مٹی ڈال کر یا درختوں کی شاخوں سے آگ بجھانے کی کوششیں کرتے ہیں جس کیلئے انہیں آگ کے بہت قریب جانا پڑتا ہے لہٰذا اکثر اوقات وہ آگ جلس کر مر جاتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت رقبے کے لحاظ سے ایک فیصد رقبے پر جنگلات ہیں جو کہ انتہائی کم ہے۔ اسی طرح ٹمبر مافیا بے دریغ جنگلات کی کٹائی اور لکڑی کی سمگلنگ کر رہا ہے جس کے ساتھ پولیس سے لے کر فوجی اشرافیہ، ضلعی انتظامیہ اور سیاستدان شریک ہیں۔ ہر کوئی اپنا اپنا کمیشن وصول کر رہا ہے جبکہ ٹمبر مافیا کو جنگلات کاٹنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔
2019ء کے ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 27 ہزار ہیکڑ کے جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔ 2018ء کی ایک رپورٹ کے مطابق جنگلات میں لگنی والی آگ کی وجہ سے 12 لاکھ درخت جل گئے تھے جن کی تعداد میں اب یقیناً کئی گنا زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔
جنگلات میں آگ لگنے کی اصل وجہ تو تاحال کسی کو معلوام نہیں البتہ یہ بات زبان زد عام ہے کہ اکثر ٹمبر مافیا اپنی کرپشن کو چھپانے کے لیے خود ہی آگ لگواتا ہے۔ خیر گرمی میں شدید اضافے کی وجہ سے قدرتی طور پر بھی آگ لگ سکتی ہے۔
حکومت نے جنگلات کے تحفظ اور ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کئی منسٹریز، ڈیپارٹمنٹ اور ایکشن گروپ بنائے ہوئے ہیں جو صرف مراعات کھاتے ہیں اور اُلٹا جنگلات کی کٹائی میں ملوث ہوتے ہیں۔ اسی طرح مختلف این جی اوز بھی اس حولے سے پاکستان میں کام کر رہی ہیں جو انتہائی سفاکی کے ساتھ اس کرہ ارض کی تباہی سے اپنا دھندا چمکائے ہوئے ہیں۔ یہ صرف تصویریں کھنچوا کر اور کبھی کبھار چند رپورٹیں بنا کر خوب فنڈ لیتی ہیں۔
کہنے کو تو عمران خان نے بیلین ٹری سونامی کے نام سے درخت لگانے کا ایک پروگرام شروع کیا تھا، مگر درحقیقت اس کا مقصد بھی عالمی سطح پر امیج بلڈنگ اور علاقائی حکمرانوں کی لوٹ مار ہی تھا۔ اس پروگرام سے بھی اربوں روپے کرپشن کی صورت حکمرانوں کی ہی جیبوں میں گئے۔
اس وقت منافع کے حصول مبنی سرمایہ دارانہ نظام عالمی بحران کا شکار ہے۔ سرمایہ دار طبقہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں اپنے منافعوں میں اضافے کے لیے قدرتی وسائل کو تاراج کر رہا ہے۔ سرکاری عداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ 1 لاکھ 28 ہزار لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر محنت کش طبقہ ہی ہوتا ہے جس کے پاس نہ گرمی سے بچنے کیلئے اے سی ہے، نہ پینے کو صاف اور ٹھنڈا پانی ہے، نہ تپتی گرمی میں بغیر کوئی کام کیے ٹھنڈے کمرے میں بیٹھنے کی آسائش ہے، اور نہ ہی طوفانی بارشوں سے بچنے کیلئے پکے اور مضبوط گھر۔ طوفانی بارشوں کے دوران کچے گھر ہی گرتے ہیں اور ہیٹ ویو کے دوران غریب محنت کش ہی مرتے ہیں۔ پانی کی قلت سے بھی صرف غریب ہی متاثر ہوتا ہے جبکہ امیر بڑے بڑے اے سی بنگلوں میں رہتے ہیں جہاں گرمیوں میں سردیوں کا ماحول اور سردیوں میں گرمیوں کا ماحول دستیاب ہوتا ہے۔ ان کے پاس پینے کیلئے منرل واٹر دستیاب ہوتا ہے اور بیمار ہونے کی صورت میں بیرون ممالک کا مہنگا اور جدید علاج۔ جبکہ دوسری طرف ماحولیاتی تبدیلی کے ذمہ دار بھی یہی سرمایہ دار ہیں۔ اعداد و شمارکے مطابق دنیا کے دس فیصد امیر ترین لوگ 50 فیصد گرین ہاؤس ایفکٹ اور زہریلی گیسوں کے اخراج کے ذمہ دارہیں۔ نجی ملکیت پر مبنی یہ نظام پورے سیارے کا ماحول درہم برہم کر رہا ہے۔ اس لیے ماحولیاتی تبدیلی کا نعرہ اس نظام کی تبدیلی کے نعرے سے جڑا ہوا ہے۔ایک منصوبہ بند معیشت (سوشلزم) کے تحت ہی قدرتی وسائل کو ضرورت کے مطابق استعمال کیا جا سکتا ہے اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔