پنجاب اسمبلی میں وزیر محنت کا حکومت کی نااہلی کا اعتراف۔۔پورے صوبے میں کسی جگہ کم از کم اجرت کا نفاذ نہیں!

|تحریر: ریڈ ورکرز فرنٹ|

چند دن پہلے پنجاب اسمبلی میں پنجاب وزیر لیبر انصر مجید نے اعتراف کیا کہ پورے صوبے میں کسی جگہ بھی کم از کم اجرت قانون کا نفاذ نہیں۔ ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا کہ حکومت محکمہ لیبر اور صنعتی مالکان کے گٹھ جوڑ اور کرپشن کو طاقت کا استعمال کر کے ختم نہیں کر سکتی۔ محکمہ لیبر کے ساتھ صرف 11 لاکھ مزدوررجسٹرڈ ہیں لیکن صنعتوں کی طرف سے اعدادوشمار نہ ملنے کی وجہ سے مزید رجسٹریشن کا کام تعطل کا شکار ہے۔

وزیر موصوف نے کوئی ایسا فلک شگاف انکشاف نہیں کیا۔ پاکستان کا ہر مزدور اس حقیقت کوبخوبی جانتا ہے اورحکمران طبقے کی مزدور دشمنی سے بھی پوری طرح آگاہ ہے۔ یہ ریاست کی کمزوری اور خصی پن، مزدور دشمنی جبکہ سرمایہ دار طبقے کی فرعونیت اور بد ترین لوٹ مارکا اظہار ہے کہ کم از کم 17 ہزار روپے کی قلیل اجرت کا اطلاق بھی اس ظالمانہ نظام میں ناممکن ہو چکا ہے۔ یہاں پر سرمایہ دار طبقہ اتناظالم، رذیل اور غلیظ ہے کہ ٹیکسوں، بلوں اور اجرتوں میں گھناؤنی کرپشن کئے بغیر کوئی فیکٹری یا کارووبار چلا ہی نہیں سکتا۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ ٹیکس چھوٹ، قرضوں کی معافی اور ریاست کی طرف سے بیل آؤٹ پیکج کی لوٹ مار الگ مسلسل جاری ہے۔ کئی مہینوں بغیر اجرت یا آدھی اجرت پر کام سکھانے کے بہانے بارہ گھنٹے اعصاب شکن کام کرانے کے بعد اچانک نوکری سے نکال دینا معمول بن چکا ہے۔ یہ گھن چکر ہر چند ماہ کے بعد دہرایا جاتا ہے تاکہ بغیر اجرت یا آٹھ دس ہزار روپیہ اجرت کے ساتھ شدید استحصال کرکے بے یارومددگار چھوڑ دیا جائے۔ اخراجات بچانے کے لئے کسی بھی حفاظتی سامان کے بغیر مزدوروں کا زخمی ہونا، اپاہج ہونا یہاں تک کہ مر جانا معمول بن چکا ہے۔ جبکہ لیبر ڈیپارٹمنٹ کا کام مزدوروں کے حقوق کا تحفظ نہیں بلکہ یونین سازی روکنا، مزدوروں دشمن قوتوں کی کاسہ لیسی کرناور مالکان کی دلالی کرناہے۔

لیبر ڈیپارٹمنٹ کا کونسا ایسا نمائندہ ہے جو کسی مالک کانمک خوار نہیں؟ وزیر موصوف اگر اپنے ٹھنڈے کمرے سے نکل کر لیبر کورٹ جانے کی زحمت کرے تو اسے معلوم ہو کہ بیسیوں سالوں سے مزدور انصاف کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اسی طرح پولیس اور دیگر اداروں کا کام بھی عوام کو تحفظ اور مزدور کو انصاف دلانا نہیں بلکہ صنعتی مالکان اور کرپٹ اشرافیہ کی حفاظت کرنا ہے۔ صرف پچھلے چند مہینوں میں بیسیوں واقعات ہو چکے ہیں جن میں پولیس نے اپنی اجرتوں کا مطالبہ کرنے والے مزدوروں پر فائر نگ کی۔ اور نہ جانے کتنے ان گنت واقعات ہیں جو کبھی رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔ کسی بھی اسمبلی میں سوال کرنے والے، جواب دینے والے اور سوال جواب کا ڈرامہ دیکھنے والے خود سب ڈاکو لٹیرے سرمایہ دار، بھتہ خور، لینڈ مافیہ اور عوامی پیسے میں خوفناک کرپشن کے مرتکب ہیں۔ قانون کاغذات کا ایک پلندہ ہے جسے اسی اسمبلی کی دہلیز کو مزدوروں کے خون سے صاف کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اسی جابر اور استحصالی ریاست کا ستون عدلیہ خود اتنی بدعنوان، کرپٹ اور بدنام ہے کہ مزدور یا عوام کو انصاف دینے کی بجائے اذیت اور ناکردہ گناہوں کی سزائیں دینے میں مصروف ہیں۔

یہ اعتراف ان تمام سیاستدانوں کے منہ پر بھی زناٹے دار تھپڑ ہے جو عوام کے حقوق کے تحفظ کا راگ الاپتے رہتے ہیں جبکہ ان کے اپنے ہاتھ مزدور دشمن اقدامات سے رنگے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کی موجود حکومت نے اس مزدور دشمنی میں نئے ریکارڈ بنائے ہیں اور پنشن کے خاتمے کا اعلان کرنے کے علاوہ لاکھو ں مزدوروں کی نوکریوں سے جبری برطرفیوں کی راہ بھی ہموار کی ہے۔ کرونا وبا کی آڑ میں سرمایہ داروں کو اربوں روپے کے پیکج دیے گئے ہیں جبکہ مزدوروں کی اجرتوں اور روزگار کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی جس کے باعث سرمایہ داروں نے ملک بھر میں لاکھوں مزدوروں کو جبری برطرف کر دیا ہے اور ان کے تمام تر بقایا جات بھی ہڑپ کر لیے ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت اسے اپنی تاریخی کامیابی قرار دے رہی ہے۔

یہ ریاست سرمایہ دار طبقیکی لونڈی ہے اور اس کا مقصد سرمایہ داروں کی لوٹ مار اور محنت کشوں کے استحصال کا تحفظ ہے۔ ایک کے بجائے ہزاروں صفحے رنگ برنگے قوانین سے رنگ دیے جائیں اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انصاف دینے کا حق بھی تو آخر اسی ریاست نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ نجی ملکیت کی محافظ ریاست کا ہر فیصلہ اور ہر حکم مزدور دشمنی پر مبنی ہے۔ کم از کم اجرت کا تعین پہلے ہی حکومت نے شرمناک حد تک کم رکھا ہوا ہے اور افراط زر میں ہوشربا اضافے کے باوجود اس میں اضافہ نہیں کیا گیا لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ یہ کم ازکم اجرت بھی مزدور کو نہیں مل رہی۔ اسی طرح یہ اجرت آٹھ گھنٹے کام کے لیے متعین کی گئی ہے جبکہ اس سے تقریباً نصف اجرت پر بھی مزدور بارہ سے سولہ گھنٹے روزانہ کام کرنے پر مجبور ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرمایہ دار طبقہ کتنے بڑے منافع بٹور رہا ہے جبکہ حکومت مگرمچھ کے آنسو بہا رہی ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ وزیر لیبر اور محکمہ لیبر کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ اپنی نا اہلی کا اعتراف کرنے پر وزیر موصوف فوری طور پر مستعفی ہو جائیں یا لیبر قوانین پر عملدرآمد نہ کرنے والے مالکان کو فوری طور پر سخت ترین سزائیں دینے کا آغاز کریں۔

پاکستان کے تمام مزدوروں کی رجسٹریشن مکمل کر کے کم از کمتنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کی جائے۔ بیروزگار مزدوروں کو فوری طور پر وزگار فراہم کیا جائے یا 20 ہزارروپے ماہانہ بیروزگاری الاؤنس جاری کیا جائے۔ تمام اداروں میں یونین کے انتخابات فوری طور پر منعقد کروائیں جائیں اورتمام مزدوروں کواپنے مطالبات کے حق کے لیے ہڑتال کا حق استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ نجکاری کی پالیسی کا خاتمہ کیا جائے۔ تمام صنعتوں میں حفاظتی سامان کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور کسی حادثے کی صورت میں مالکان کو سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ اگر کسی فیکٹری یا صنعت میں یہ اقدامات نہیں کئے جاتے تو ان کے تمام کھاتے کھول کر عوام کے سامنے رکھے جائیں ان کو قومی تحویل میں لیاجائے اورمزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے چلایا جائے۔

Comments are closed.