خیبر پختونخواہ: سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکومت کی نا اہلی

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، خیبر پختونخواہ|

اس وقت پاکستان شدید مالی بحران کا شکار ہے اور ریاست بحران کا تمام تر بوجھ عوام پر ڈال رہی ہے۔ ایک طرف حکومت عوام کو بنیادی ضروریات جیسے صحت، صاف پانی، تعلیم اور روزگار فراہم نہیں کرسکتی جبکہ دوسری طرف ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے۔ مہنگائی نے پہلے ہی سے عوام کی کمر توڑ دی ہے ایسے میں حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلاب نے لوگوں کے مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اس وقت کراچی پانی میں ڈوبا ہوا ہے جبکہ سندھ کے دوسرے علاقوں میں بھی بارشوں کی وجہ سے لوگ شدید متاثر ہو گئے ہیں اور شدید مسائل کا شکار ہیں۔ اسی طرح خیبر پختو نخواہ میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے مختلف علاقے جیسے سوات، دیر لوئر، دیر اپر، شانگلہ، بونیر، ہزارہ، نوشہرہ، ملاکنڈ اور چارسدہ کے اضلاع شدید متاثر ہوگئے ہیں۔

ان علاقوں میں سیلاب کی وجہ سے اکثر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔ لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے بھی اکثر سڑکیں بند ہوگئی ہیں۔ بہت سارے مکانات، گاڑیاں اور لوگ لینڈ سلائڈنگ کی زد میں آگئے ہیں۔ بڑی تعداد میں کچے مکان منہدم ہوگئے ہیں جن کے ملبے تلے کئی لوگ دب کر ہلاک ہوگئے۔ آسمانی بجلی کے گرنے سے اور بجلی کے کھمبوں کے گرنے سے بھی کئی ہلاکتیں ہوئیں۔ سیلابی ریلوں کے نتیجے میں بے تحاشہ انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ ان سیلابی ریلوں میں جانور اور مال مویشی بھی بہہ کر ہلاک ہوگئے۔ دریاوں اور نالوں کے قریب مکانات، دوکانیں اور دریاوں پر بنے پل بھی بہہ گئے جس کے وجہ سے عام عوام کو کافی نقصان اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

لیکن اس تمام تر صورتحال میں حکومت کہیں پر بھی نظر نہیں آ رہی۔ حکومت کی طرف سے امدادی کاروایاں صرف بیان بازی اور خبروں تک محدود رہیں جبکہ زمین پر حکومت کے طرف سے کوئی امداد مہیا نہیں کی گئی، نہ ہی NDMA کہیں پر نظر آئی۔ کچھ علاقوں میں ابھی تک بجلی منقطع ہے اور لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ دریاوں پر پل ٹوٹنے اور بہہ جانے کی وجہ سے ایسے علاقے بھی ہیں جن کی خوراک کی ترسیل ختم ہوگئی ہے اور اکثر علاقوں کو ابھی تک پینے کا صاف پانی بھی مہیا نہیں کیا گیا۔

اگر دیکھا جائے تو قدرتی آفات میں بھی محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی متاثر ہوتے ہیں۔ ان سیلابوں میں بھی زیادہ نقصانات کا سامنا محنت کشوں کو ہی کرنا پڑا۔ غریبوں کے کچے مکانات گر گئے جس کے نتیجے میں کئی لوگ ہلاک ہوئے اور انکے مال مویشی بھی سیلاب کی نظر ہو گئے۔

اس وقت سائنس اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے اور آج اتنے وسائل موجود ہیں جن کے ذریعے قدرتی آفات سے انسانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ ایسی کئی مشترکہ ہاوسنگ کالونیاں بنائی جا سکتی ہیں جو قدرتی آفات سے انسانوں کو محفوظ رکھیں، ایسی جدید سڑکیں اور ٹرانسپورٹ کا نظام بنایا جا سکتا ہے جس کے ذریعے آفات کے دوران کم سے کم نقصان ہو اور متاثرہ لوگوں کو ہنگامی بنیادوں پر محفوظ مقامات تک منتقل کر کے ان کو ضرورت کی ساری چیزیں فراہم کی جا سکیں۔ لیکن نجی ملکیت اور منافع پر مبنی سرمایہ درانہ نظام کے تحت ایسا ممکن نہیں کیو نکہ اس نظام میں ترقی اس حد تک کی جاتی ہے جس حد تک سرمایہ داروں اور حکمرانوں کو فائدہ ہو۔ سرمایہ داری کے تحت ہاوسنگ سکیموں، سڑکوں اور بازاروں کی منصوبہ بندی لوگوں کی ضروریات کو دیکھ کر نہیں کی جاتی بلکہ سرمایہ داروں کے منافع کو مد نظر رکھ کر کی جا تی ہے۔ سڑکوں، پلوں اور دوسرے ترقیاتی کاموں کے ٹھیکوں میں سیاست دان، جرنیل اور افسر شاہی خوب مال کماتی ہے۔ پاکستان میں تو ویسے بھی ہر ترقیاتی منصوبے میں ہونے والی بے تحاشہ کرپشن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انتہائی ناقص اور غیر معیاری مواد کے استعمال کی وجہ سے کوئی بھی سڑک، پل یا کوئی منصوبہ ایک سال بھی نہیں گزار پاتا اور خراب ہو جاتا ہے۔

ایک غیر طبقاتی نظام اور ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت ہی یہاں پر جدید اور معیاری انفراسٹرکچر تعمیر کیا جا سکتا ہے اور لوگوں کی ضروریات کے مطابق یہاں پر مکانات، سڑکیں اور دیگر تعمیرات کی جا سکتی ہیں جس کا مقصد سرمایہ اکٹھا کرنا اور منافع کمانا نہ ہو بلکہ لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنا ہو اور یہ سب صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

Comments are closed.