|تحریر: ارسلان دانی|

اس وقت عوام دشمن پنجاب حکومت عوامی اداروں کی نجکاری کر رہی ہے جس میں سر فہرست تعلیم و صحت جیسے بنیادی شعبہ جات شامل ہیں۔ یہ نجکاری پنجاب حکومت آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت کر رہی ہے۔ نجکاری کی اس پالیسی کو حکومت کی طرف سے عوام دوست پراجیکٹ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان عوامی اداروں کے محنت کش ملازمین پر یہ الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں کہ یہ اپنا کام ٹھیک سے نہیں کرتے اور کرپشن کرتے ہیں اور اس وجہ سے ہم ان اداروں کی بہتری کیلئے انہیں ”آؤٹ سورس“ کر رہے ہیں۔
یعنی اب نواز حکومت کہہ رہی ہے کہ ملازمین کرپٹ ہیں یعنی ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“، یہ بات تو مکمل طورپر رد ہے جس پر کوئی بحث نہیں بنتی اور دوسری طرف کام نہ کرنے والی بات کو اگر ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو یوں ہو گا کہ ”یہ محنت کش ملازمین لاکھوں عام لوگوں کا علاج کرتے ہیں، جنہیں مکمل سہولت بھی نہیں دی جاتی اور دوسری طرف ان حکمرانوں کا اصل کام ہی یہی ہے کہ یہ آئی ایم ایف اور سرمایہ داروں اور اپنی جیبیں بھریں تو واقعتا محنت کش ان کی طرح کا عوام دشمن یعنی گھناؤنا کام نہیں کرتے۔“
پنجاب اور ہیلتھ سنٹرز
اب اگر پنجاب کی آبادی کی بات کریں تو پنجاب کی آبادی کا تقریباً 59 فیصد حصہ دیہات میں رہتا ہے اور اس وقت پورے پنجاب میں تقریباً بنیادی ہیلتھ یونٹ اور رورل ہیلتھ سنٹر کی تعداد صرف 2500 ہے۔ اتنی بڑی آبادی کے لیے دستیاب ان چند ہیلتھ یونٹس کو بھی پنجاب حکومت فروخت کر رہی ہے۔
اگر ہم فروخت کے مقصد پر بات کریں تو اس کا مقصدصرف اور صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے نہ کہ سہولت فراہم کرنا۔ حال ہی میں ان ہیلتھ یونٹس میں کام کرنے والے محنت کش ملازمین نے نجکاری کی پالیسی کے خلاف لاہور میں تقریباً ایک ماہ تک دھرنا دیا جسے پنجاب حکومت کی طرف سے تشدد کر کے ختم کر دیا گیا۔ ان میں رحیم یار خان سے آئے ملازمین میں سے ایک محنت کش نے انقلابی کمیونسٹ پارٹی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ”رحیم یار خان میں 106 ہیلتھ سنٹرز ہیں ان میں 4 ہیلتھ سنٹر ٹھیکیدار کو فروخت کر دئیے گئے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ان سنٹرز میں 200 مریضوں کا چیک اپ ہوتا تھا اور فروخت ہونے کے بعد اس سنٹر میں صرف 30 مریضوں کا چیک اپ ہو گا“۔
یعنی جہاں ضرورت تھی کہ 200 مریضوں کیلئے ہسپتال کو بہتر کیا جاتا تاکہ محنت کش عوام کو علاج کی سہولت گھر بیٹھے میسر آتی، وہاں اب 200 مریضوں کی بجائے صرف 30 مریضوں کا چیک اپ کیا جائے گا اور پہلے ہی پنجاب کے چھوٹے اضلاع میں ہیلتھ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے اور مریض بڑے ہسپتال تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔
ملازمین دھرنا کیوں دے رہے ہیں؟
دھرنے میں آئے ملازمین کا کہنا تھا کہ وہ 20,20 سال سے وہاں کام کر رہے ہیں اور اب اچانک سے انہیں نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے یا پھر ہمارا ٹرانسفر کیا جا رہا ہے۔ لیکن ٹرانسفر تو صرف ایک بہانہ ہے کیونکہ 2500 ہیلتھ یونٹ میں سے اب تک 982 سنٹر ٹھیکے پر دے دئیے گئے ہیں۔ ان ہیلتھ یونٹ میں ہزاروں کے قریب ملازمین اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں اورحکومت کا پنجاب کے تمام ہیلتھ سنٹرز کو پرائیویٹ کرنے کا منصوبہ ہے جو کہ دراصل آئی ایم ایف کا منصوبہ ہے تو ان سب ملازمین کو کہاں ٹرانسفر کیا جائے گا؟ تو پنجاب حکومت کی مزدور دشمن پالیسی سب کے سامنے عیاں ہے۔
اگر پاکستان میں بیروزگاری پر بات کی جائے تو اس وقت کروڑوں کی تعداد ہے جو بیروزگاری کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے اور لاکھوں افراد ہیں جو پاکستان چھوڑ کے جا چکے ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد ڈاکٹرز کی ہے تو اس حساب سے پنجاب حکومت کو جہاں نئے ہسپتال بنانے چاہیے تھے اور نئی بھرتیاں کرنی چاہیے وہ ان ہسپتالوں کو بھی بیچ رہی ہے جو پہلے سے موجود ہیں۔ اور جن ملازمین کو نوکریوں سے نکالا جارہا ہے ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کاکا گھر بار ان نوکریوں سے چلتا ہے یعنی اس حساب سے لاکھوں خاندانوں کو تباہ کیا جا رہا ہے اوراس کیساتھ پنجاب میں سکولوں کی نجکاری کے بعد لاکھوں اساتذہ کو بھی نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے، جس سے مزید بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔
اس عمل سے پنجاب حکومت سرمایہ داروں کو فائدہ دے رہی ہے۔ کیونکہ ٹھیکے صرف بینک سٹیٹمنٹ والے افرادکو ہی ملیں گے اور جہاں پنجاب حکومت ایک ہیلتھ سنٹر میں 200 مریضوں کا خرچہ برداشت کر رہی تھی وہاں اب 30 مریضوں کا خرچہ آئے گا اور جہاں ان محنت کش ملازمین کی تنخواہیں تھیں وہاں اب کچھ نہیں دینا ہو گا۔ دھرنے میں موجود ملازمین نے بتایا کہ ”وہ ٹھیکیدار فیک ڈیلیوریز کر رہے ہیں اور اس ڈیلیوری کو کھاتوں میں ڈال کر پیسے لے رہے ہیں، اور ہر مریض کو صرف پیناڈول دی جا رہی ہے پھر چاہے بیماری کوئی اور ہی کیوں نہ ہو“۔ یعنی محنت کش عوام کی بنیادی ضروریات میں سے ایک صحت کو بھی ٹھیکے پر دے کے عام لوگوں کی زندگیوں کیساتھ کھیلا جا رہا ہے، تاکہ ان کی عیاشیاں جاری رہ سکیں۔
اس سے یہ تو ظاہر ہے کہ یہاں اس ریاست کو روزگار، علاج اور تعلیم سے سروکار نہیں بلکہ اس کی پالیسی پیسے والوں کو نوازنا ہے۔ اس حوالے سے یہاں کے محنت کشوں نے اپنے اور محنت کش عوام کیلئے ایک ماہ تک دھرنا دیا اور ان کا دھرنا اس ریاست اور اس کی پالیسی کے خلاف تھا۔
دھرنا کامیاب کیوں نہیں ہو سکا؟
لاہور کے مال روڈ پر یہ دھرنا کوئی ایک اکلوتا دھرنا نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے سرکاری ملازمین نے اگیگا کے پلیٹ فارم سے کئی بار دھرنا دے چکے ہیں اور اس کے علاوہ طلبہ اور کسان اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین نے کئی بار دھرنا دیا۔ لیکن ایک بات جو بار بار نظر آئی ہے جس کی وجہ سے یہ دھرنے کامیاب نہ ہو سکے اس میں ہمیشہ کی قیادت کی نظریاتی و سیاسی کمزوری ہے جس کے باعث یہ دھرنے ہر بار ناکامی کی راہ دیکھتے ہیں۔ اور ہمیشہ نظریاتی و سیاسی کمزوری مفاد پرستی کی کھائی میں گرتی ہے۔
سب سے پہلے محنت کشوں کو یہ جاننا ہوگا کہ یہ لڑائی جو وہ لڑ رہے ہیں کس کے خلاف ہے اور اس لڑائی میں پوری ریاستی مشینری ان کے خلاف کیوں ہوتی ہے۔ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اس میں کسی بھی خطے کی حکومتی پالیسی کو اٹھا کے دیکھ لیں وہ ہمیشہ مزدور و عوام دشمن پالیسی ہو گی اور اس پالیسی میں اگر کسی کو فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے تو وہ ہیں چند ایک سرمایہ دار۔
یہ اس دنیا کا سسٹم ہے جسے سرمایہ داری کہتے ہیں اور ریاستی مشینری کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ سرمایہ داروں کے منافع میں اضافہ ہوتا رہے اور سرمایہ داروں کے منافع کا مطلب ہے محنت کشوں کا نقصان۔ اس وجہ سے جب بھی محنت کش اپنے حق کیلئے جدوجہد کرتے ہیں اور احتجاجات و دھرنے دیتے ہیں تو پوری ریاستی مشینری ان کیخلاف ہوتی ہے جس میں میڈیا، عدالتیں، پارلیمنٹ، پولیس، فوج اور بیوروکریسی وغیرہ۔
اس سارے عمل سے گزرتے ہوئے محنت کش اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنی یونینز بناتے ہیں اور جس کا مطلب سرمایہ داروں اور ان کے گماشتہ ریاستی اداروں کے خلاف جنگ کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی بھی شعبے یا ادارے کی یونین کی قیادت دھرنے یا احتجاج میں کسی دوسرے محنت کشوں کی یونینز یکجہتی کی اپیل نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی ٹھوس لائحہ عمل دیتے ہیں اور اس کی بجائے ہمیشہ ہی دھرنے تک ہی احتجاج کو محدود کر دیا جاتا ہے۔
یہی سب گرینڈ ہیلتھ الائنس کے محنت کش ملازمین کیساتھ اپریل کے دھرنے میں بھی ہوا۔ جہاں تقریباً ایک ماہ تک دھرنے دینے کے بعد ملازمین پر ریاست کی جانب سے پولیس کے کریک ڈاؤن کے ذریعے جبری طور پر دھرنا ختم کرا دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد گرینڈ ہیلتھ الائنس کی قیادت کی طرف سے کوئی بھی ٹھوس لائحہ عمل نہیں دیا گیا۔
قیادت کی جانب سے مختلف سیاسی پارٹیوں کو بھی دھرنے میں بلایا گیا اور اس کے حق میں نعرے بازی کی گئی جس میں سرفہرست پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی ہے جو کہ عوامی اداروں کی نجکاری کی پالیسی میں شامل ہیں۔ جہاں اس قیادت کو واپڈا، ریلوے، اگیگا کو اپنے احتجاج میں شامل کرنا چاہیے تھا کیونکہ ان اداروں کی بھی نجکاری کی جارہی ہے۔ وہاں گرینڈ ہیلتھ الائنس کی قیادت کی طرف سے دھرنے کو کامیاب کرنے کی بجائے سیاسی پارٹیوں کو خوش کیا جارہا تھا جن کا کردار مزدور دشمن ہے۔
محنت کش ملازمین کو کیا کرنا ہو گا؟
ہم انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے گرینڈ ہیلتھ الائنس کے ملازمین کے تمام مطالبات کی حمایت کرتے ہیں اور نجکاری کے خلاف ہم ان کی جدوجہد میں شامل رہیں گے۔ اسی طرح حالیہ دھرنے میں شامل ہوکے محنت کشوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ہم نے محنت کشوں کی جڑت کی بات کی ہے کہ ملازمین کو اکٹھے ہو کے اپنی نمائندوں کا انتخاب کرے اور ان نمائندوں کے ذمہ یہ کام ہو کے وہ واپڈا، ریلوے، ٹیچرز، کلرک، درجہ چہارم کے ملازمین اور ان کیساتھ ساتھ فیکٹری مزدوروں کے پاس جائیں اور انہیں اس جدوجہد میں شامل کریں۔
اسی طرح ہیلتھ کے محنت کش ملازمین کو اپنے مطالبات میں باقی کے محنت کشوں کے مطالبات کو شامل کیا جائے اور ساتھ میں عوام سے اپیل کی جائے اور اس کیلئے اپنی مطالبات میں مہنگی بجلی کے خاتمے سمیت تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ رکھنا چاہیے بلکہ اس سے آگے بڑھتے ہوئے کسانوں کے مطالبات شامل کیے جائیں جس میں مہنگی کھاد سپرے کا خاتمہ کرنے کا مطالبہ شامل کرنا چاہیے اور طلبہ کو اپنے ساتھ جوڑنا چاہیے۔ اسی ایک نکتے پر ہی ہم اپنی لڑائی کامیاب کر سکتے ہیں۔ کیونکہ محنت کشوں کے خلاف پوری ریاستی مشینری ایک ہی نکتے پر اکٹھے ہو کے مزدوروں کے خلاف پالیسی بناتی ہے اور اسے لاگو کرتی ہے اسی طرح ہمارا فرض بھی یہی ہے کہ ہم ان کے خلاف اکٹھے ہو کے لڑائی لڑیں۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے محنت کشوں کی جدوجہد کو اکٹھا کرنے کیلئے ہی ہم اپنے اخبارات شائع کرتے ان کے ساتھ جدوجہد میں شانہ بشانہ شامل ہوتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری لڑائی صرف اپنا حق لینا نہیں بلکہ اس مزدور دشمن نظام،جسے سرمایہ داری کہتے ہیں کا خاتمہ کرنا ہے اور اس کیلئے مزدور، کسان، طلبہ اور مظلوم قومیتوں کی جدوجہد کو ایک پیج پر لانا اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے مزدور ریاست کا قیام عمل میں لانا ہے۔ اسی جدوجہد کیلئے ہم انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر کر رہے اور ہم صحت کے ملازمین اور دیگر محنت کشوں کو انقلابی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔