تیونس: لرزہ خیز عوامی مظاہرے

|تحریر: اینڈریاس نورگارڈ، ترجمہ: یار یوسفزئی|

تیونس میں ایک نئی طاقتور عوامی تحریک پھٹ کر سامنے آئی ہے۔ غصّے کے اس بھرپور اظہار کی وجہ در اصل معاشی بحران ہے، جس نے تیونس کے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے اور ان کو غربت اور مصیبتوں میں دکھیل دیا ہے۔ آج سے دس سال قبل 2011ء کے انقلاب نے بن علی (جو 1987ء سے ملک کا صدر رہا تھا) کا تختہ الٹ دیا تھا، مگر تیونس کے عوام کے مسائل ابھی تک جوں کے توں اپنی جگہ پر موجود ہیں۔

تیونس کو کئی ہفتوں سے حکومت مخالف احتجاجوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، جس کو تجزیہ نگار سیاسی بغاوت کہہ رہے ہیں۔ ملک بھر کے شہروں اور غریب خطوں کے اندر جہاں پر محنت کش طبقہ مقیم ہے، نوجوان سڑکوں پر امڈ آئے ہیں اور معاشی و سیاسی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جن کو ریاستی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔

اس تحریک کا آغاز 15 جنوری بروزِ جمعہ کو سیلیانا میں ہوا تھا جو ایک زرعی قصبہ ہے جو تیونس کے دار الحکومت تونس سے 130 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ گردش کرنے والی ایک ویڈیو، احتجاجوں کے لیے چنگاری ثابت ہوئی جس میں پولیس افسر کے ہاتھوں ایک غریب چرواہے کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا جس کی بھیڑ غلطی سے حکومتی عمارت میں داخل ہو گئی تھی۔ نوجوانوں کے لیے نا انصافی کا یہ نظارہ وہ آخری تنکا تھا جس نے نہ صرف سیلیانا میں بلکہ ملک بھر کے اندر اونٹ کی کمر توڑ دی۔ احتجاجوں کا سلسلہ جلد ہی تونس سمیت دیگر 14 شہروں تک پھیل گیا، خاص کر ملک کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں جہاں پر غربت اور بے روزگار نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

ابھی تک احتجاجی تحریک کی کوئی واضح قیادت اور پروگرام سامنے نہیں آیا مگر ہر جگہ پر بنیادی اصلاحات کے مطالبات مشترکہ ہیں، جن میں روزگار، پبلک سروس میں بہتری اور پولیس تشدد کے خاتمے کے مطالبات شامل ہیں۔ یہ سارے کافی معمولی مطالبات ہیں۔ نوجوانوں نے سالوں تک معاشی بد حالی اور ریاست کے ہاتھوں ذلت برداشت کی ہے، جن کے پاس اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا کہ ایک دفعہ پھر سڑکوں پر نکل آئیں۔ حکومت کو محض سرمایہ داری کا سہارا حاصل ہے جو بستر مرگ پر پڑے اس نظام کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے، اور جو مظاہرین کے مطالبات نہ ماننا چاہتی ہے اور نہ ماننے کی اہل ہے۔

تیونس کی سرمایہ داری کا بحران

تیونس میں سرمایہ داری کورونا وائرس سے کئی سال قبل ہی بحران کا شکار ہو گئی تھی۔ آئی ایم ایف کے ایجنڈے اور احکامات کے مطابق حکومتی اخراجات میں برابر کٹوتیاں جاری تھیں اور لوگوں کا معیار زندگی گر رہا تھا، جس کی وجہ سے مایوسی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے تیونس کی معیشت کا سب سے اہم شعبہ یعنی سیاحت منجمد ہو کر رہ گیا، جس سے حالات مزید بگڑ گئے۔ چنانچہ 2020ء میں تیونس کی جی ڈی پی 9 فیصد سکڑ گئی۔ حکمران طبقے نے بحران کا سارا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔

کئی مہینوں سے ملک کے معاشی حالات تیزی کے ساتھ بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔ 15 سے 24 سال تک کی آبادی میں بیروزگاری 36 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور مایوس کن صورتحال سے تنگ آ کر بہت سے نوجوان ملک سے باہر ہجرت کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 2020ء میں تیونس کے 12 ہزار 883 لوگ اٹلی منتقل ہوئے ہیں، حالانکہ یہ تعداد 2019ء میں 2 ہزار 654 تھی! نوجوان مجبور ہو رہے ہیں کہ یا تو تیونس میں غربت کی زندگی گزارتے رہیں یا پھر سب کچھ پیچھے چھوڑ کر اپنی زندگی داؤ پر لگائیں تاکہ بحیرہ روم کو پار کر سکیں۔ ان دو بھیانک ممکنات کے علاوہ سرمایہ داری تیونس کے نوجوانوں کو کوئی بہتر پیش کش نہیں کر سکتی۔

تیونس کی حکومت نے احتجاجوں کا جواب وحشیانہ جبر کے ساتھ دیا ہے اور تحریک کو بد نام کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب 19 جنوری کو احتجاجوں کے پانچ دن گزر گئے تو وزیراعظم ہشام المشیشی نے ٹی وی پر آ کر قوم سے خطاب کیا اور مظاہرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ”ہم انتشار کو مسترد کرتے ہیں اور ہم قانون کو نافذ کریں گے۔“ البتہ ریاست کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران، مظاہرین کے مطالبات کے ساتھ کتنی ہمدردی رکھتے ہیں۔ دوسری جانب وعدے کے مطابق ’نظم و ضبط‘ کو بھرپور انداز میں مسلط کیا گیا۔ سامنے آنے والی بے شمار ویڈیوز اور تصاویر میں پولیس کو پر امن مظاہرین پر دھاوا بول کر مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ 1 ہزار سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں سے زیادہ تر کی عمر 15 سے 20 سال تک ہے۔ محنت کش طبقے کے بہت سے علاقوں کے اندر مظاہروں کو کچلنے میں پولیس کی معاونت کرنے کے لیے فوج کو تعینات کیا جا چکا ہے۔ مثال کے طور پر 18 جنوری بروزِ پیر حے التضامن کی گلیوں میں، جہاں پر تونس کی محنت کش آبادی کا ایک بڑا حصّہ مقیم ہے، نیشنل گارڈ کی بکتر بند گاڑیاں گشت کر رہی تھیں۔

متکبر اشرافیہ کا عوام کی جانب روایتی بے حسی کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا، جب وزارتِ داخلہ کے ترجمان خالد الحیونی نے حراست میں لیے گئے لوگوں کو مظاہرین ماننے سے انکار کیا اور اس کی بجائے ان پر ”جرائم اور لوٹ مار“ میں ملوث افراد کی تہمت لگائی۔ تیونس کی حکومت اور میڈیا کی بڑی کوشش رہی ہے کہ تحریک کو بد نام کر کے اسے باقی محنت کشوں سے دور رکھے۔ ایسا کرنے کے لیے وہ لوگوں کی توجہ مظاہرین کے مطالبات سے ہٹا کر پولیس کے ساتھ پر تشدد جھڑپوں اور لوٹ کھسوٹ کے واقعات پر مرکوز کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مظاہرین پر الزامات دھرنے والے ریاستی عہدیدار خود ہی ریاستی خزانے اور عوام کی جیبوں کو لوٹ رہے ہیں۔ بہرحال اگر احتجاجوں کے دوران کوئی لوٹ مار ہوتی بھی ہے تو اس کی وجہ غربت، بھوک اور مایوس کن سماجی حالات ہوتے ہیں۔ لوٹ مار کے جو بھی واقعات ہوتے ہیں، اس کے اصل ذمہ دار حکمران اور ان کی مزدور دشمن پالیسیاں ہیں جو لوگوں کی ضروریات پر منافعوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

صدر قیس سعید نے بھی یہ حقیقت واضح کر دی کہ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں، جس نے مظاہرین کو کہا کہ املاک کو نقصان پہنچانے سے باز آ کر واپس گھروں کو لوٹ جائیں۔ سرمایہ داروں کی نمائندہ ہونے کی وجہ سے حکومت کا کوئی ارادہ نہیں کہ عوام کے اہم مسائل پر غور کرے، اس کی بجائے انہیں اپنے آقاؤں کی نجی ملکیت بچانے کی فکر لگی ہوئی ہے۔

2011ء کا تجربہ

حالیہ تحریک کا ابھار اس انقلاب کی دسویں برسی کے موقع پر ہوا جس نے جابر حکمران بن علی کا تختہ الٹ دیا تھا۔ وہ 14 جنوری 2011ء کو ملک سے فرار ہو گیا تھا جس کے بعد انقلابی تحریکوں کی لہر نے پورے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تیونس کی حکومت چونکہ عوام کی امیدوں پر پوری نہیں اتری تھی، اس لیے وہ چاہ رہی تھی کہ 2011ء کے انقلاب کی یادگار منانے سے بچا جائے۔ حکومت اپنے پاؤں تلے زمین کو ہلتے ہوئے محسوس کر رہی تھی اور انہیں ڈر تھا کہ انقلاب کی یادگار منانے کا نتیجہ بڑے پیمانے پر تحریک کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اس لیے انہوں نے 14 جنوری بروزِ جمعرات سے 18 جنوری بروزِ پیر تک قومی سطح پر چار روزہ لاک ڈاؤن نافذ کر دیا۔

البتہ یہ حکمتِ عملی دبائے ہوئے عوامی غصّے کو سطح تک پہنچنے سے روکنے میں ناکام رہی۔ جب سالوں تک بے پناہ غصّہ اور مایوسی جمع ہوتی رہے تو جلد یا بدیر وہ اپنا اظہار کرنے کے لیے راستہ ڈھونڈ نکالتی ہے۔ صرف 2020ء کے پہلے دس مہینوں کے دوران 6 ہزار 500 احتجاج دیکھنے میں آئے۔ یہ سارے احتجاج حکومت کی معاشی و سماجی پالیسیوں کے خلاف تھے۔ ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عوام نے سیاسی اشرافیہ کو مسترد کر دیا ہے؛ یہ تعداد 2014ء میں 68 فیصد تھی جو 2019ء میں 42 فیصد کی قلیل تعداد تک گھٹ کر رہ گئی! نظام کے وجود کا جواز واضح طور پر ختم ہوتا جا رہا ہے۔

2011ء کے انقلاب میں تیونس کے محنت کش طبقے نے اہم جمہوری حقوق جیتے تھے، جیسا کہ آزادی اظہارِ رائے اور بورژوا پارلیمنٹ کا حق، یہ ایسے حقوق تھے جس نے تیونس کے عوام کی جدوجہد کو پروان چڑھانے کے لیے نئے محاذ فراہم کیے تھے۔ البتہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ان جمہوری حقوق کی اپنی محدودیت برقرار رہی۔ تیونس کی سرمایہ داری بہت نازک ہے اور اس کا حکمران طبقہ بہت کمزور ہے جن کا انحصار غیر ملکی سرمائے پر ہوتا ہے، اس لیے وہ عوام کو بڑی رعایتیں دینے کی اہل نہیں ہے۔ تیونس کی سرمایہ داری عوام کی خاطر نہ تو معاشی رعایتیں برداشت کر سکتی ہے اور نہ ہی حقیقی جمہوری حقوق۔

نوجوانوں اور محنت کشوں نے 2011ء میں بن علی کا تختہ الٹ دیا تھا جو خطے اور دنیا بھر کے مظلوم عوام کے لیے ایک حوصلہ افزاء کامیابی تھی۔ مگر آمر اور اس کے قریبی دوستوں کا تختہ الٹنے کے بعد معیشت اور ریاستی مشینری سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہی رہی۔ اسی لیے ان مادی تضادات کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا جس کے نتیجے میں 2011ء کے انقلاب کا جنم ہوا تھا۔ سماجی و معاشی مسائل ابھی تک حل نہیں ہوئے۔

چنانچہ تیونس کے عوام ایک دفعہ پھر اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور ہوئے ہیں تاکہ اپنی زندگی اور اپنے ارد گرد موجود سماج کو بدل سکیں۔ 2011ء کے انقلاب کے تجربات یہ بات واضح کرتے ہیں کہ تمام مسائل کی جڑ سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینک کر ہی محنت کشوں اور نوجوانوں کی اکثریت کے مفاد کی خاطر سماج کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

آگے کا راستہ

2011ء کے انقلاب کو دس سال گزر چکے ہیں، مگر مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عوام کی زندگی کے بنیادی مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔ احتجاج کرنے والے ایک آدمی نے بالکل صحیح کہا کہ: ”سارے نظام کو گرانا پڑے گا۔۔۔ہم سڑکوں پر لوٹ کر اپنے ان حقوق اور وقار کو دوبارہ چھین کر لیں گے جن کو انقلاب کے بعد بد عنوان اشرافیہ نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔“ اس جدوجہد میں نوجوانوں کی ایک نئی نسل داخل ہو رہی ہے۔ یہ نئی نسل 2011ء کے انقلاب کے اسباق سے خوب واقف ہے، اور اس لیے مستقل کے انقلاب میں پچھلی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی بلکہ وہ بڑی کامیابیوں پر مشتمل ہوگا۔

بلاشبہ انقلاب کے اندر نوجوان ایک اہم کردار نبھا سکتے ہیں مگر ایسا محنت کش طبقے کے ساتھ جڑے بغیر ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ محنت کش طبقے کی پیداواری حیثیت کی وجہ سے سماج کی معاشی قوت انہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ اگر محنت کش طبقہ اپنے روایتی طریقوں، یعنی ہڑتال اور کارخانوں پر قبضے کے ذریعے تحریک کا حصہ بن جائے، تو حکومت نتیجتاً ہوا میں معلق ہو کر رہ جائے گی۔

2011ء کے انقلاب کے تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ ریاست کی ظاہری شکل تبدیل کرنا کافی نہیں ہے۔ ضرورت سماج کی معاشی بنیادیں تبدیل کرنے کی ہے؛ یعنی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنے کی۔ جب تک محنت کش اور نوجوان سماج کے سیاسی اور معاشی اختیار کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لے لیتے، اور سوشلسٹ طرز پر سماج کو تبدیل نہیں کر دیتے، تب تک حقیقی جمہوری سماج کا قیام اور اکثریت کے مفاد کا تحفظ ممکن نہیں ہوگا۔ بستر مرگ پر پڑے اس نظام کو محض سوشلسٹ جدوجہد کے ذریعے ہی موت کے گھاٹ اتارا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.