لاہور: ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

رپورٹ: |PYA لاہور|
پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) کے زیر اہتمام 24جولائی2016ء بروز اتوار ایک روزہ مارکسی سکول منعقد کیا گیا۔ سکول دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن کا موضوع بحث ’’تاریخ میں فرد کا کردار‘‘ تھا اور اس سیشن کو فرحان گوہر نے چئیر کیا۔ دوسرے سیشن کا عنوان ’’ثور انقلاب اور آج کا افغانستان‘‘ تھا اور اس سیشن کو عدیل زیدی نے چئیر کیا۔
One Day Marxist School Lahore (2)پہلے سیشن میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے ولید خان نے کہا کہ یہ موضوع ہر عہد میں ہی بحث میں رہا ہے اور بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس حوالے سے ہمیں دو بڑے نقطہ نظر دیکھنے کو ملتے ہیں جس ایک طرف تاریخی جبریت کے ماننے والے ہیں جو کہ افراد کی تاریخ کی ان دیکھی قوتیں کے آگے بے بس خیال کرتے ہیں اور ان قوتوں کے آگے مجبور و محض ہیں، تو دوسری طرف فرد کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور پوری انسانی تاریخ میں مٹھی بھر افراد ہی تاریخ کو آگے بڑھاتے اور تاریخ کے دھارے پر اثرانداز ہوتے نظر آتے ہیں۔ مگر یہ دونوں نقطہ نظر فرد اور معاشرے کے آپسی تعلق کو جامد و ساکت دیکھتے ہیں۔ مارکس وادی تاریخ میں نہ فرد کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور نہ ہی افراد کو تاریخ کی ان دیکھی قوتوں کے آگے بے بس خیال کرتے ہیں بلکہ جیسا مارکس نے کہا تھا کہ مرد وزن اپنی تاریخ خود بناتے ہیں مگر وہ ایسا اپنی مرضی سے نہیں کرتے بلکہ دئیے گئے مادی حالات کے مطابق کرتے ہیں۔ فرد اور تاریخ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ افراد چاہے کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوجائیں وہ تاریخ کا عمومی دھارا نہیں بدل سکتے مگر پھر تاریخ میں ایسا وقت بھی آتا ہے جب ایک فرد کا کردار بھی بڑی اہمیت کاحامل ہوجاتا ہے۔ اور ایسے حالات میں اگر وہ افراد تاریخی ضرورت کو سمجھتے ہوئے شعوری طور پر عمل کریں تو وہ تاریخ کا دھارا موڑ سکتے ہیں۔ بحث کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے فرحان، عدیل، زین، قمر، اور آفتاب نے بحث میں حصہ لیا اورزیر بحث موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد شرکاء کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ولید نے بحث کو اختتام تک پہنچایا۔

One Day Marxist School Lahore (7)دوسرے سیشن میں بحث کا آغاز زین العابدین نے کیا اور کہا کہ آج افغانستان کا نام لیتے ہی تباہی، بربادی، ملائیت، دھماکے، پسماندگی اور وحشت کے نقوش ذہن میں ابھرتے ہیں۔ افغانستان کی موجودہ حالت زار کوسمجھنے اور اس کا حل تلاش کرنے کے لئے ماضی میں جھانکنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آج افغانستان میں جو بربادی نظرآتی ہے دراصل ایک سوشلسٹ انقلاب کی ناکامی اور ردانقلاب عہد کی دین ہے۔ زین نے انقلاب اور اس سے پہلے کے افغانستان کی عمومی سماجی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی صورتحال کا تاریخی جائزہ پیش کیا کہ وہ کیا حالات تھے جن میں خلق پارٹی(PDPA) کا جنم ہوا اور کن مراحل سے گزرتی ہوئے خلق پارٹی افغانستان میں ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کرنے کامیاب ہوئی۔ اپریل 1979ء میں خلق پارٹی کی قیادت میں ہونے والے ایک کامیاب انقلاب اور انقلابی حکومت کے قیام کے بعد انقلاب کا راستہ روکنے کے لئے کی جانے والی سامراجی مداخلت اور سوویت بیوروکریسی کے ردانقلابی کردار نے اس نقلاب کو رد انقلاب میں تبدیل کردیا اور اس خطے کو ہیروئن، سمگلنگ، مذہبی انتہا پسندی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ اس کے بعد فرحان اور آفتاب نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے انقلاب کی حاصلات اور خاص طور پر سوویت سٹالنسٹ بیوروکریسی کے مجرمانہ اور ردانقلابی کردار پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد سوالات کی روشنی میں زین نے سیشن کا سم اپ کیا۔
انٹرنیشنل گا کر سکول کا اختتام کیا گیا۔



Comments are closed.