اداریہ: کرونا اور لاک ڈاؤن میں محنت کشوں پر مسلط کردہ موت ان کا مقدر نہیں!

 

کرونا وبا نے پوری دنیا کے محنت کشوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ ایک طرف حکمران طبقے کی جانب سے صحت کے بجٹ میں ہونے والی مسلسل کٹوتیوں اور نجکاری کے بعد ہسپتالوں اور دیگر سہولیات کی شدید قلت ہے جس کے باعث ہزاروں افراد موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔اس کے علاوہ منافع خوری پر مبنی نظام کے باعث ویکسین بنانے میں کامیابی نہیں مل رہی جس کی وجہ سے وبا پر کنٹرول نہیں ہو پارہا۔ اسی طرح دنیا بھر میں سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے تقریباً ہر ملک میں لاک ڈاؤن میں تاخیر کی گئی جس کی وجہ سے اس جان لیوا وبا کو پھیلنے کا موقع ملا۔ لیکن دوسری جانب جب لاک ڈاؤن کیا گیا تو حکمرانوں کی جانب سے سرمایہ داروں کو تو اربوں ڈالر کے امدادی پیکج دیے گئے، ٹیکسوں میں چھوٹ کے اعلانات کیے گئے اور مراعات دی گئیں جبکہ محنت کشوں کو مزید بھوک، بیماری اور بیروزگاری میں دھکیل دیا گیا۔

اس وقت دنیا بھر میں بیروزگار ہونے والوں کی تعداد کروڑوں سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 1.6ارب محنت کش جو غیر رسمی شعبے میں مزدوری کرتے تھے ان کا روزگار داؤ پر لگ چکا ہے۔ یہ اس شعبے سے وابستہ کُل محنت کشوں کا نصف بنتی ہے۔ اس کے علاوہ کرونا وبا نے پہلے سے جاری عالمی مالیاتی بحران کو ایک معیاری جست دیتے ہوئے عالمی کساد بازاری میں تبدیل کر دیا ہے اور اب یہ کھائی میں گرنے میں جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں بینکوں، مالیاتی اداروں، کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ وسیع پیمانے پر موجود ہے اور پورا نظام ایک ایسے بحران میں داخل ہو چکا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی تاریخی گراوٹ اس صورتحال کی کسی حد تک عکاسی کرتی ہے جو آنے والے عرصے میں مزید گراوٹ کی جانب بڑھے گی۔

اس صورتحال نے محنت کشوں کی زندگیوں کو موت کے مزید قریب لا کھڑا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف انڈیا میں 25کروڑ افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور بھوک کے ہاتھوں موت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے دیگر پسماندہ ممالک میں صورتحال مختلف نہیں اور محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد فاقوں پر مجبور ہو چکی ہے۔ پاکستان میں خوراک کے لیے ہونے والے ہنگاموں کی رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں جبکہ بہت سے ممالک میں بھوک کے باعث ہلاکتوں کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے میڈیا خاموش ہے لیکن واضح ہے کہ جتنے بڑے پیمانے پر صنعتیں اور کاروبار بند ہیں اور محنت کشوں کو بیروزگاری کا سامنا ہے اس حوالے سے یہاں بھی بھوک سے ہلاکتوں کا آغاز ہو چکا ہوگا۔

محنت کش طبقہ یہاں کئی دہائیوں سے مسلسل جبر کا شکار تھا اور اس کے کام کے اوقات کار میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا تھا جبکہ افراطِ زر کے تناسب سے اجرتوں میں مسلسل کمی ہو رہی تھی۔ اجرتوں کی عدم ادائیگی ایک معمول بن چکی تھی اور محنت کشوں کے لیے اپنے حقوق مانگنا سنگین ترین جرم بن چکا تھا۔ کسی نجی ادارے میں یونین بنانے کا مطلب تمام ریاستی اداروں بشمول عدلیہ سے دشمنی مول لینا تھا جس کی بد ترین سزا دی جاتی تھی جس میں محنت کشوں کے بے دریغ قتل بھی شامل ہیں۔ سرکاری اداروں میں بھی نجکاری کے بد ترین حملے جاری تھے اور محنت کشوں کے احتجاج پر گولی چلانے سے بھی گریز نہیں کیا جا تا تھا۔ معاشی بحران کے باعث پہلے ہی بیروزگاری میں تیز ترین اضافہ ہورہا تھا اور انتہائی کم اجرت پر یا صرف تجربے کی خاطر بغیر اجرت پر کئی کئی ماہ تک محنت کشوں سے کام لیا جاتا تھا۔

اس صورتحال میں سرمایہ داروں کے منافعوں میں کئی گنا اضافہ ہوا تھا اور وہ اس سستی لیبر کے ذریعے کام لے کر دولت کے انبار لگا رہے تھے۔ اس کے علاوہ حکمرانوں کی کھلی لوٹ مار بھی جاری تھی اور معاشی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں پر آئے روز نئے ٹیکسوں کی شکل میں ڈالنے کے علاوہ آٹے اور چینی سمیت بنیادی ضرورت کی اشیا کی مصنوعی قلت یا اسمگلنگ کے ذریعے محنت کشوں کی خون پسینے کی کمائی لوٹ کر حکمرانوں کی تجوریاں بھری جاتی تھیں۔ محنت کشوں کے ٹیکسوں سے اکٹھا ہونے والا پیسہ بھی سود خور عالمی مالیاتی اداروں اور کمیشنوں کے حصول کے لیے دفاع پر خرچ کیا جا رہا تھا۔ ملک کے دفاع کے نام پر ہاؤسنگ سوسائیٹیوں سے لے کر سیمنٹ کے کارخانے تک کے کاروبار چلائے جار رہے ہیں جن میں محنت کشوں کا بد ترین استحصال بھی جاری ہے۔

لیکن اب صورتحال پہلے سے بھی بدتر سطح پر پہنچ گئی ہے اور محنت کشوں کو بیماری اور بھوک سے مرنے کے چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکمران طبقے کی عیاشیوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ ابھی بھی پر رونق محلوں میں زندگیاں گزار رہے ہیں، خوراک کی نہ رکنے والی سپلائی موجود ہے، آرام دہ اور وسیع و عریض گھر موجود ہیں جبکہ علاج کے لیے دنیا کی بہترین سہولیات میسر ہیں۔ ان کی خدمت کے لیے ملازمین کی بھی کمی نہیں جبکہ طبیعت بہلانے کے لیے پالتو جانور بھی موجود ہیں جو محنت کشوں کی نسبت کئی گنا زیادہ بہتر زندگی گزارتے ہیں۔ ان پالتو جانوروں کے لیے بھی امپورٹڈخوراک موجود ہوتی ہے اور خوشنما لباس اور خوشبوئیں بھی دستیاب ہوتی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب کروڑوں محنت کش بدبو دار زندگی گزارتے ہوئے تیزی سے موت کے منہ میں گر رہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں یہ امکان موجود ہے کہ حکمران طبقے کی پالیسیوں کے نتیجے میں کرونا وبا سے ہلاکتوں کی تعداد کئی گنا بڑھ سکتی ہے اور ہزاروں سے لاکھوں میں بھی جا سکتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب حکمرانوں کی لوٹ کے لیے دولت موجود ہے لیکن محنت کشوں کو بھوک سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ صحت کی سہولیات نہ ہونے کے باعث اور ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں محنت کش کرونا کے علاوہ دیگر بہت سے بیماریوں سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کے باعث یہاں بچوں کو خسرے اور خناق سمیت دیگر بیماریوں کی ویکسین نہیں لگائی جا رہی جس کے باعث یہ بیماریاں دوبارہ پھیلنے کاخطرہ ہے جس سے لاکھوں کی تعداد میں ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں آنے والے مہینوں اور سالوں میں معاشی صورتحال کے ساتھ ساتھ صحت کی صورتحال بھی مزید ابتر ہو گی۔

ایسی صورتحال میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے محنت کشوں کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ حکمران طبقے کے ظلم اور استحصال کا مکمل خاتمہ کرنے کی جانب بڑھیں اور اس نظام کا خاتمہ کریں۔ تمام تر ذرائع پیداوار اور دولت مزدور طبقے کے اجتماعی کنٹرول میں لی جائے اور بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری کا خاتمہ کیا جائے۔ سماج میں پیدا ہونے والی تمام تر دولت چند افراد کی پر تعیش زندگیوں پر خرچ کرنے کی بجائے عوام کی ضروریات پوری کرنے پر صرف کی جائے اور ہر شخص کو مفت علاج اور تعلیم فراہم کرنے کے علاوہ روٹی، کپڑا اور مکان کی تمام تر ذمہ داری بھی مزدور ریاست اپنے ذمے لے۔ ان اقدامات کا آغاز نجی ملکیت کے اس نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے کیا جا سکتا ہے جس کے لیے حالات تیار ہو رہے ہیں اور آنے والے عرصے میں لاکھوں محنت کش اسی منزل کی جانب رواں دواں ہو ں گے۔ ضرورت ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کی ہے جو اس تمام تر صورتحال میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو اس موت کے رقص سے نجات دلائے اور انہیں ایک نئی اور تازہ دم زندگی دے۔

Comments are closed.