|تحریر: آفتاب اشرف|

پاکستان میں حالیہ سالوں میں محنت کش طبقے پر ملکی تاریخ کے بدترین حملے کیے جا رہے ہیں۔ سرمایہ دار حکمران طبقہ اور فوجی وسول ریاستی اشرافیہ آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت معاشی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے پر منتقل کر رہے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر محنت کشوں کے معاشی قتل عام پر مبنی نت نئی پالیسیاں متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ پہلے صوبہ پنجاب میں عام سرکاری ملازمین و محنت کشوں کی پنشن اور لیو انکیشمنٹ پر ڈاکہ ڈالا گیااور اب سندھ کی صوبائی حکومت بھی یہی کر رہی ہے۔ پنجاب میں پچھلے عرصے میں دو ہزار سے زائد بیسک ہیلتھ یونٹس اور ریجنل ہیلتھ سنٹرز کو آؤٹ سورس کر کے نجی ٹھیکیداروں کے حوالے کیا جا چکا ہے جبکہ ان میں دو دہائیوں سے کام کرنے والے 43 ہزار سے زائد طبی محنت کشوں کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا ہے۔ اب صوبائی محکمہ صحت کی نجکاری کے اگلے مرحلے میں تحصیل، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں اور ٹیچنگ ہسپتالوں کی آؤٹ سورسنگ کا شیڈول جاری کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح صوبے میں سرکاری سکولوں کی آؤٹ سورسنگ کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔مزید برآں ریشنلائیزیشن کے نام پر مستقل ملازمت رکھنے والے اساتذہ کے دور دراز علاقوں میں ٹرانسفر کئے جا رہے ہیں تا کہ وہ تنگ آ کر خود ہی ملازمت چھوڑ دیں۔ خبریں ہیں کہ صوبائی محکمہ تعلیم کی نظر میں کوئی 47 ہزار اساتذہ ”فالتو“ ہیں اور انہیں ملازمت سے نکالنے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔ اسی طرح میونسپل ویسٹ مینجمنٹ اور صفائی وغیرہ کے شعبہ جات مکمل طور پر آؤٹ سورس کیے جا چکے ہیں اور یہاں پر ٹھیکہ حاصل کرنے والی نجی کمپنیوں نے دیہاڑی دار محنت کشوں کا شدید استحصال کر رہی ہیں۔ واضح رہے کہ یہی سب کچھ مختلف مرحلوں میں سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں بھی ہو رہا ہے۔
اگر وفاقی محکموں کی بات کی جائے تو ان پر بھی نجکاری اور ڈاون سائزنگ کے تابڑ توڑ حملے جاری ہیں۔ حال ہی میں یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن کو بند کر دیا گیا ہے۔اس کے 6000 کے قریب کنٹریکٹ ملازمین کو برخاست کر دیا گیا ہے جبکہ 5000 مستقل ملازمین کو سرپلس پول میں ڈال دیا گیا ہے جہاں انہیں اتنا خوار کیا جائے گا کہ تنگ آکر ان میں سے بڑی اکثریت ملازمت سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہو جائے گی۔ پی آئی اے کی ”کانٹ چھانٹ“ مکمل ہونے کے بعد اس کی نجکاری کے لیے ایک ناکام بولی لگ چکی ہے اور اگلی لگنے والی ہے۔اسی طرح بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری سے لیکر ٹرینوں، ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ تک مختلف ناموں اور لیبلز کیساتھ نجکاری کا وار کیا جا رہا ہے۔ عوامی اداروں اور محکموں، چاہے وفاقی ہوں یا صوبائی، میں اول تو کوئی خاص نئی بھرتیاں کی نہیں جا رہیں اور ورکنگ سٹاف کی شدید شارٹیج ہے۔ لیکن جو تھوڑی بہت بھرتیاں ہو بھی رہی ہیں وہ ڈیلی ویجز یا ایڈہاک بنیادوں پر ہیں اور یہ محنت کش تمام تر لیبر حقوق سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ اگرچہ ملک میں عملی طور پر لیبر قوانین کا اطلاق پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے مگر اب حکمران نئی قانون سازی کے ذریعے محض کاغذوں کی حد تک محدود ان قوانین میں بھی شدید مزدور دشمن تبدیلیاں کر رہے ہیں جس کا آغاز پنجاب لیبر کوڈ 2024ء سے کیا جا چکا ہے اور آئندہ عرصے میں باقی صوبے بھی ایسا ہی کریں گے۔ ان تمام تابڑ توڑ حملوں کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ حکمران طبقہ اور ریاستی اشرافیہ مزدور تحریک کی کمزوری کو بخوبی بھانپ چکے ہیں اور اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف موجودہ بر سراقتدار عسکری ٹولے اور اس کی لائی ہوئی فارم 47 حکومت کو حکمران طبقے کی اقتدار کی داخلی لڑائی میں حاصل ہونے والی وقتی فتح، بیک وقت چینی اور امریکی سامراج سے ملنے والی تھپکیوں اور خارجہ و فوجی محاذ پر ملنے والی کچھ سطحی کامیابیوں نے بھی ان کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مزدور تحریک کی حالت آخر اتنی دگر گوں کیوں ہے اور وہ ان تمام حملوں کا مقابلہ کیوں نہیں کر پا رہی؟
یہاں ہم پاکستان میں مزدور تحریک کی تاریخی کمزوریوں کی وجوہات پر زیادہ بات نہیں کریں گے جس میں سٹالنسٹ و ماؤاسٹ پارٹیوں کی معیشت پسندی، ٹریڈ یونین تنگ نظری اور ان کی نظریاتی و سیاسی غداریاں، آمر ضیا الحق کے گیارہ سالہ سیاہ دور کی بھیانک سختیاں، دیوار برلن کا گرنا، سوویت یونین کا انہدام اور اس کے بعد سماج کے سیاسی زوال اور نیم رجعت پر مبنی ڈیڑھ دہائی سے زائد کا عرصہ، چین کی سرمایہ داری کی طرف واپسی،ملک میں محنت کشوں کی سابقہ روایت یعنی پیپلز پارٹی کی پے در پے غداریاں اور نتیجتاً بطور روایت اس کا خاتمہ، سب ہی شامل ہیں۔ لیکن اہم یہ ہے کہ ورثے میں ملی تمام تر کمزوریوں کے باوجود مزدور تحریک اور خاص کر پبلک سیکٹر کے محنت کشوں نے 2008 ء کے معاشی بحران سے لیکر ابھی حالیہ سالوں تک بے شمار نہایت شاندار اور جراتمندانہ لڑائیاں لڑی ہیں جن کی تفصیل ہم دیگر تحاریر میں بیان کر چکے ہیں۔ مزدور تحریک کی اس اٹھان کا حتمی نتیجہ 2020ء میں وفاقی اور صوبائی سطح پر عام سرکاری ملازمین اور عوامی اداروں کے محنت کشوں کی بہت سی تنظیموں، ایسو سی ایشنز اور یونینز پر مبنی اگیگا نامی پلیٹ فارم کی تشکیل میں نکلا تھا جس کے ذریعے جدوجہد کرتے ہوئے ہوئے ملازمین و محنت کشوں نے تنخواہوں میں اضافے، کئی محکموں میں کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی سمیت کئی اہم مطالبات منوائے ہیں۔مگر اگر ہم پچھلے دو تین سال کے عرصے میں دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ نہ صرف اگیگا کو اپنے مطالبات کے حصول میں پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ اس عرصے میں اگیگا سے ہی حوصلہ پا کر اٹھنے والی دیگر تحریکوں، جس میں اکتوبر 2023 ء میں پنجاب میں اٹھنے والی اساتذہ اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی شاندار نجکاری مخالف جدوجہد، کے پی کے، پنجاب اور سندھ میں حالیہ بجٹ کے بعد تنخواہوں میں وفاق طرز کے اضافے کے لیے ہونے والی جدوجہد اور گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب کی نجکاری مخالف جدوجہد خاص کر قابل ذکر ہیں، کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان لڑائیوں کی ناکامی اور پسپائی نے بلاشبہ محنت کشوں و ملازمین کے حوصلے کو وقتی طور پر پست کیا ہے اور حکمرانوں کے حوصلے کو تقویت دی ہے جس کا اظہار وہ آنے والے دنوں میں مزید مزدور دشمن کاروائیوں میں کریں گے۔ لہٰذا ان پسپائیوں کی وجوہات کی درست تشخیص اور مسئلے کے حل کے لیے درکار اقدامات وتجاویز مرتب کرنا کمیونسٹوں کا ایک اہم فریضہ ہے اور یہی اس تحریر کا موضوع بحث بھی ہے۔
مزدور تحریک اور کمیونسٹ نظریات
اگر ہم مزدور تحریک کی پچھلی کم و بیش دو دہائیوں پر بالعموم اور گزشتہ چند سالوں پر بالخصوص نظر دوڑائیں تو ہمیں اس میں بہت سی کمزوریاں اور مسائل دکھائی دیتے ہیں۔ پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے محنت کش طبقے کی 90 فیصد سے زائد تعداد، خاص کر نجی شعبے کے محنت کش، تو سرے سے ٹریڈ یونینز میں منظم ہی نہیں۔ بلکہ نجی شعبے میں تو محنت کشوں کی ایسی دو سے تین نسلیں گزر چکی ہیں جنہیں ٹریڈ یونین اور مزدور جدوجہد کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ فیصل آباد کے پاور لوم ورکرز اور گنی چنی دیگر مثالوں کو چھوڑ کر پچھلی دو دہائیوں میں ہونے والی کم و بیش تمام تر جدوجہد سرکاری شعبے کے محنت کشوں پر مبنی رہی ہے۔ اس کی صنعتی بحران اور بیروزگاری کے شدید دباؤ سمیت بہت سی معروضی وجوہات بھی ہیں لیکن یہاں ہمارا مقصد معروضی مشکلات کا نوحہ پڑھنا نہیں بلکہ مزدور تحریک کی داخلی اور موضوعی کمزوریوں کا احاطہ کرنا ہے۔ اسی طرح اگر ہم سرکاری شعبے کی بات کریں، جہاں اس تمام عرصے میں بیشمار لڑائیاں لڑی گئی ہیں، تو ہمیں مزدور اتحاد کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔ واپڈا، ریلوے، پی ٹی سی ایل، پی آئی اے، اسٹیل ملز سمیت وفاقی عوامی اداروں کی ایک لمبی فہرست ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل نجکاری اور دیگر مزدور دشمن حملوں کی زد میں ہیں۔ لیکن ان کی ٹریڈ یونینز، مزدور ایسو سی ایشنز وغیرہ ان تمام مسائل کیخلاف اپنی اپنی علیحدہ لڑائیاں تو لڑتی رہی ہیں لیکن ایک جیسے مسائل ہونے کے باوجود ایک اتحاد قائم کرتے ہوئے مشترکہ لڑائی لڑنے سے قاصر رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں صوبہ پنجاب کی مثال لے لیں جہاں محکمہ صحت اور تعلیم دونوں بیک وقت نجکاری کی زد میں ہیں لیکن دونوں کی یونینز اور ایسو سی ایشنز ایک مشترکہ نجکاری مخالف تحریک چلانے میں ناکام رہی ہیں۔ یہاں تک کہ کسی عوامی ادارے یا سرکاری محکمے کے اپنے اندر بھی ہنر اور اسکیل کے لحاظ سے محنت کشوں اور ملازمین کی علیحدہ علیحدہ تنظیمیں ہیں جو ایک پیج پر آنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ اگیگا اتحاد کی تشکیل اور پنجاب اور کے پی کے میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کا بننامزدور اتحاد کی بڑھوتری کی جانب ایک مثبت پیش رفت تھی لیکن کئی ایک وجوہات کے کارن، جن کا ذکرہم آگے چل کر کریں گے، یہ اتحاد اپنا بھرپور پوٹینشیل حاصل کرنے سے پہلے ہی زوال اور شکست و ریخت کا شکار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

مزید برآں اگر ہم پچھلی تین دہائیوں میں ہونے والی مزدور جدوجہد کے مطالبات کو دیکھیں تو ہمیں مسلسل ایک دائرے کا سفر نظر آتا ہے۔ معاشی حملوں کی تمام تر شدت،سیاسی و جمہوری حقوق کی سلبی، ملک کا گہرا ہوتا عمومی سیاسی،معاشی،سماجی اور ریاستی بحران، ملک کے کئی حصوں میں چلنے والی قومی و جمہوری حقوق کی عوامی تحریکیں، سرمایہ داری کا عالمی معاشی بحران اور عالمی تعلقات میں شدید اتھل پتھل یہ سب عوامل مل کر بھی ٹریڈ یونینز اور مزدور ایسو سی ایشنز کو ان کی مخصوص ٹریڈ یونین تنگ نظری سے باہر نہیں نکال سکے اور پچھلے ایک لمبے عرصے سے ان کے مطالبات انتہائی فوری نوعیت کی آنے ٹکے کی مانگوں یا انتہائی دفاعی نوعیت کے نعروں (جیسے کہ نجکاری مخالفت) تک محدود ہیں۔ یہ تمام فوری نوعیت کے مطالبات اپنی جگہ بالکل درست ہیں اور ہم ان کی بھرپور حمایت کرتے ہیں لیکن اگر مزدور تحریک نے ایک نئی اٹھان لینی ہے اور عوامی کی وسیع تر پرتوں کی حمایت حاصل کرنی ہے تو اسے ان سے آگے بڑھ کر عبوری نوعیت کے سرمایہ مخالف ریڈیکل معاشی مطالبات، سیاسی، قومی و جمہوری حقوق پر مبنی مطالبات اور بالآخر محنت کش طبقے کے حق ملکیت اور حق حکمرانی پر مبنی مطالبات و پروگرام پیش کرنا پڑے گا۔ یہ طویل عرصے سے آنے ٹکے کے فوری مطالبات تک محدود رہنے کا ہی نتیجہ ہے کہ مزدور تحریک سماج اور عوام کی وسیع تر پرتوں سے کٹی ہوئی ہے اور ملک کے سیاسی و سماجی افق پر ایک طاقت کے بطور نظر آنے کی بجائے خلا میں معلق محسوس ہوتی ہے۔ یہ مزدور تحریک کی ٹریڈ یونین تنگ نظری ہی ہے کہ یہ حکمرانوں کی صحت اور تعلیم کی نجکاری جیسی انتہائی عوام دشمن پالیسی کیخلاف جدوجہد میں بھی عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی بلکہ اس کی قیادت نے ایسی کوئی خاص کوشش ہی نہیں کی کیونکہ اپنی مخصوص تنگ نظری کے کارن اسے اس امر کا اندازہ ہی نہیں کہ جدوجہد کی کامیابی کے لیے وسیع تر عوامی حمایت کی کیا اہمیت ہے۔اسی طرح مزدور تحریک کی کسی بڑی یونین، ایسوسی ایشن پلیٹ فارم یا اتحاد کی جانب سے ملک کے مختلف حصوں میں چلنے والی قومی و جمہوری حقوق کی تحریکوں، کسانوں کی جدوجہد، خواتین یا اقلیتوں کے حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے کبھی شاذ و نادر ہی اظہار یکجہتی کیا گیا ہے اور اس حوالے سے کوئی عملی اقدام تو شاید کبھی بھی نہیں اٹھایاگیا۔
لیکن اگر ہم اوپر بیان کی گئی مزدور تحریک کی تمام کمزوریوں کی جڑ میں جائیں تو سارے مسئلے کا جوہر یہ ہے کہ پچھلی تین سے چار دہائیوں میں مزدور تحریک اپنے اساسی نظریات یعنی سائنسی سوشلزم یا کمیونزم سے بالکل کٹ گئی ہے۔ اگرچہ اس سے قبل بھی نظریاتی حوالے سے صورتحال کوئی تسلی بخش نہیں تھی لیکن پھر بھی سوویت یونین کی موجودگی اور سٹالنسٹ و ماؤاسٹ بائیں بازو کے مزدور تحریک پر اثر ورسوخ کے کارن سوشلسٹ نظریات ایک مسخ شدہ شکل میں ہی سہی لیکن کسی نہ کسی حد تک مزدور تحریک تک پہنچتے ضرور رہتے تھے۔ لیکن سوویت یونین کے انہدام، چین کی سرمایہ داری کی طرف واپسی اور سٹالنسٹ و ماؤاسٹ بائیں بازو کی شکست و ریخت نے مزدور تحریک کو مکمل طور پر سرمایہ دارانہ نظریات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور اسی کا نتیجہ تحریک کی ان تمام کمزوریوں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ واضح رہے کہ نظریے اور عمل کا ایک انتہائی گہرا باہم جدلیاتی رشتہ ہوتا ہے اور ایک کے بغیر دوسرے کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ تو پچھلے دو دہائیوں میں عملی جدوجہد تو ہوئی ہے خاص کر سرکاری شعبے کے ورکرز نے تو اپنے حقوق کی خاطر شاندار لڑائیاں لڑی ہیں اور قربانیاں دی ہیں لیکن نظریاتی طور پر مزدور تحریک اپنی اساس سے واپس نہیں جڑ سکی۔ یہی آج پاکستان میں مزدور تحریک کی سب سے بنیادی کمزوری ہے جسے دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مزید برآں آج سرمایہ دارانہ نظام کے شدید عالمی نامیاتی بحران کے عہد میں نظریات کا سوال کل پر نہیں ٹالا جا سکتا۔ اس پر فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ آج کی بحرانی کیفیت میں کمیونسٹ اساسی نظریات کے بغیر ایک ملک گیر سطح کی مزدور تحریک کو منظم کرنا اور سرمایہ دارانہ نظام وریاست کو چیلنج کرنا تو دور کی بات کوئی مزدور یونین، فیڈریشن تک زیادہ عرصہ صحت مند طریقے سے نہیں چلائی جا سکتی اور نہ ہی فوری مطالبات کی جدوجہد میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
ٹریڈ یونین قیادتوں کی مسلسل غداریاں
اگر ہم 2005ء میں پی ٹی سی ایل کی نجکاری مخالف تحریک سے لیکر اکتوبر 2023ء میں پنجاب کے سرکاری سکولوں کے اساتذہ اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی نجکاری مخالف تحریک تک ساری جدوجہد کا احاطہ کریں تو واضح ہو جاتا ہے کہ مزدور تحریک کو جن بھی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ان کی سب سے بڑی فوری وجہ ٹریڈ یونین اور ایسوسی ایشن قیادتوں کی کھلی غداریاں ہیں۔ درحقیقت یہ سمجھوتے باز اور غدار یونین قیادتیں ہی مزدور تحریک میں سرمایہ دار طبقے، حکمرانوں اور ریاست کی سب سے بڑی ایجنٹ اور دلال ہیں۔ ان کا اولین مطمع نظر تو یہ ہوتا ہے کہ محنت کش کوئی جدوجہد کریں ہی نہیں اور چپ کر کے مار کھاتے جائیں۔ اس مقصد کے لیے یہ مزدور تحریک میں بد حوصلگی پھیلانے، محنت کشوں کو مالکان اور ریاستی طاقت سے ڈرانے، انہیں ٹالنے، بہلانے پھسلانے سمیت ہر ہتھکنڈا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اگر محنت کش ان کی تمام رکاوٹوں کے باوجود لڑائی لڑنے پر اتر آئیں اور ان قیادتوں کو بادل نخواستہ اپنی لیڈری قائم رکھنے کی خاطر تحریک کی”قیادت“ کرنی پڑ جائے تو آغاز سے ہی ان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ مالکان،انتظامیہ یا حکومت کیساتھ جلد از جلد کوئی شوگر کوٹڈ سمجھوتے بازی کرکے محنت کشوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے تحریک کو ٹھپ کیا جا سکے۔ اسی طرح یہ نام نہاد مزدور لیڈر تحریک کو گول دائروں میں گھماگھما کر تھکانے اور اسے مخصوص حدود و قیود میں رکھنے کے بھی ماہر ہیں کہ تنگ آ کر محنت کش خود ہی پیچھے ہٹ جائیں اور قیادت کے لیے سمجھوتہ کرنا آسان ہو جائے۔ مثال کے طور پر پچھلے چند سالوں میں اگیگا قیادت کے پاس کئی مواقع تھے کہ وہ احتجاجی دھرنوں سے آگے بڑھ کر ایک ملک گیر عام ہڑتال کی کال دیتے لیکن انہوں نے تحریک کے ”آؤٹ آف کنٹرول“ ہو جانے کے خوف سے ایسا نہیں کیا۔ ایسے ہی بار بار یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ان نام نہاد لیڈروں نے پرلے درجے کے مزدور دشمن حکمرانوں کیساتھ بند کمروں میں ہونے والے ”مذاکرات“ میں جوبن پر پہنچی تحریکوں کیساتھ غداری کی ہے اور بعد ازاں اپنے منہ پر سے کالک مٹانے کے لیے ”ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا!!“ کا واویلا مچایا ہے جیسے یہ تو کوئی معصوم دودھ پیتے بچے تھے اور انہیں حکمران طبقے کی مزدور دشمنی کا کوئی اندازہ ہی نہیں تھا۔
مزید برآں پہلے جہاں ہم نے مزدور تحریک کے اپنے اساسی نظریات سے کٹ جانے اور اس سے ہونے والے نقصانات کی بات کی ہے تو وہیں یہ واضح کرنا بھی نہایت اہم ہے کہ مزدور تحریک میں کمیونسٹ نظریات کی سب سے بڑی دشمن یہی غدار اور سمجھوتے باز قیادتیں ہیں جو مذہبی تنظیموں، سرمایہ دارانہ سیاسی پارٹیوں اور این جی اوزسمیت ہر قسم کے رجعتی نظریات اور عناصر کو تو تحریک میں خوب پروموٹ کرتے ہیں لیکن کمیونسٹ نظریات اور کمیونسٹوں کی راہ میں ہر طرح سے روڑے اٹکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کوششیں کبھی تو ٹریڈ یونین تنگ نظری کا سہارا لیتے ہوئے غیر سیاسی ہونے کے ناٹک کیساتھ کی جاتی ہیں تو کبھی کھلم کھلا رجعتی الزام تراشی اور حملوں کے ذریعے۔ مزدور تحریک کے مطالبات و پروگرام اور جدوجہد کے طریقہ کار کو بلند تر سطح پر لیجانے کی سب سے مخالفت اور مزاحمت بھی انہی یونین قیادتوں کی جانب سے آتی ہے۔اسی طرح اپنے مطالبات کو وسیع تر عوامی مفادکیساتھ جوڑتے ہوئے عوامی حمایت حاصل کرنے کا معاملہ ہو یا ملک میں چلنے والی قومی وجمہوری اور دیگر حقوق کے لئے برسرپیکار تحریکوں کیساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہو، ہر جگہ یہی یونین قیادتیں کبھی معیشت پسندانہ ٹریڈ یونین تنگ نظری کا سہارا لیکر تو کبھی محنت کش طبقے کی پچھڑی ہوئی پرتوں کے پسماندہ تعصبات پر کھیل کر اس حوالے سے رکاوٹ ڈالنے کا کام کرتی ہیں۔ اسکیل، ہنر اور کیٹیگری کے تعصبات کو ابھارنے،مختلف عوامی اداروں و نجی صنعتوں کے محنت کشوں کو ایک دوسرے سے کاٹ کر رکھنے میں بھی یہی قیادتیں پیش پیش ہوتی ہیں اور نہ ہی ان قیادتوں نے کبھی بڑی بڑی یونینز اور ایسوسی ایشنز کی لیڈر شپ پاس ہونے کے باوجود غیر منظم محنت کشوں کو منظم کرنے میں مدد کرنے کے حوالے سے کوئی کردار ادا کیا ہے۔ اور یہ ایسا سب کسی”ناسمجھی“ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے حقیقی آقاؤں کی ایما پر کرتی ہیں اور بدلے میں اپنے مفادات حاصل کرتی ہیں۔
مزید برآں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان غدار یونین لیڈروں کی بڑی اکثریت بغیر کسی الیکشن کے ایک لمبے عرصے سے محنت کشوں کے سر پر مسلط ہے اور ان کیساتھ کھلواڑ کر رہی ہے۔ یہاں اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ ان غیر منتخب قیادتوں کی کھلی غداریوں کے باوجود ورکرز ابھی تک انہیں کیوں برداشت کر رہے ہیں۔ عرض ہے کہ محنت کش اپنے تلخ تجربات سے سیکھتے ہوئے ان کے حقیقی کردار سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں اور ان سے شدید نفرت کرتے ہیں لیکن پہلے بتائی گئی مزدور تحریک کی تاریخی کمزوریوں اور اس کے نتیجے میں تحریک کے اپنے اساسی کمیونسٹ نظریات سے کٹ جانے کے نتیجے میں ہی ان غدار قیادتوں کو تحریک پر مسلط ہونے کا موقع ملا تھا اور ایک لمبے عرصے تک کوئی متبادل نہ ہونے کے کارن نہ چاہتے ہوئے بھی محنت کشوں کو انہیں برداشت کرنا پڑا ہے۔ لیکن اب محنت کشوں کے صبر کا پیمانہ جواب دے چکا ہے اور وہ ان غداروں کو مزدور تحریک سے نکال باہر کرنے کو بیتاب ہیں۔اس ضمن میں ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان بھر کی تمام ٹریڈ یونینز، مزدور ایسوسی ایشنز اور دیگر مزدور پلیٹ فارمز میں فوری طورپر شفاف داخلی انتخابات ہونے چاہئیں تا کہ ایک نئی، دیانت دار اور لڑاکا مزدور قیادت کو ابھرنے کا موقع مل سکے جو کہ عام محنت کشوں کو پوری طرح سے جواب دہ ہو۔لیکن یہ بھی مد نظر رہے کہ یہ غدار قیادتیں کبھی بھی اپنی”لیڈری“ کو یوں آسانی سے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گی اور غیر منتخب شدہ عہدوں پر براجمان رہنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گی لیکن اگر مزدور تحریک نے آگے بڑھنا ہے تو اسے ناگزیر طور پر ان غداروں سے جان چھڑوانی پڑے گی اور اس کے لیے محنت کش طبقے کو ایک داخلی لڑائی لڑتے ہوئے اپنے پلیٹ فارمز میں شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا ہو گا۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا کردار
محنت کش طبقے تک کمیونسٹ نظریات کو لیجانا اور انہیں منظم ہونے میں ہر ممکن مدد فراہم کرنا انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے اولین فرائض میں سے ایک ہے۔ لیکن یہ کوئی آسان کام ہرگز نہیں۔ اس کے لیے جہاں ایک طرف انتہائی جرات اور صبر و تحمل کیساتھ مستقل مزاج جدوجہد درکار ہے وہیں حس توازن کو برقرار رکھتے ہوئے موقع پرستی اور انتہا پسندی، دونوں سے بچنا بھی لازمی ہے۔

اس مقصد کے لیے انقلابی کمیونسٹوں کو جہاں ایک طرف مزدور تحریک میں اپنی واضح شناخت اور پارٹی پروگرام کیساتھ بھرپور مداخلت کرنے کی ضرورت ہے وہیں فوری طور پر اپنی رسائی میں موجود ہر فیکٹری، صنعتی علاقے، عوامی ادارے اور سرکاری محکمے میں عام محنت کشوں و ملازمین کی سب سے لڑاکا پرتوں کو اسٹڈی سرکلز میں منظم کرتے ہوئے انہیں کمیونسٹ نظریات سے متعارف کروانا اب وقت کا ایک فوری تقاضا بن چکا ہے۔ یہی اسٹڈی سرکلز آگے چل کر لڑاکا سیلز میں تبدیل ہوتے ہوئے جہاں ایک طرف مزدور تحریک کو بے انتہا تقویت بخشیں گے اور اسے ایک نئی لڑاکا قیادت فراہم کریں گے وہیں یہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کو مزدور تحریک میں وہ بنیاد بھی فراہم کریں گے جس کے بلبوتے پر وہ مستقبل میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں میں اپنا تاریخی فریضہ سر انجام دیتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام و ریاست کا خاتمہ کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی حتمی نجات کو یقینی بنائے گی۔