نظم: سوشلسٹ انقلاب

پھٹ رہے ہیں روز دل، ٹوٹتے ہیں روز خواب
ہو رہا ہے صبر کم، بڑھ رہا ہے اضطراب
پھاڑ دے گی نسلِ نو ظلم کے سبھی نصاب
سب فقیہہ، سب امام ہو رہیں گے بے نقاب
انقلاب انقلاب، سوشلسٹ انقلاب

سج رہی ہے قتل گاہ، جوش بھی ہے بے پناہ
آ رہا ہے سرخ دن، جا رہی شبِ سیاہ
نعرہ بن رہی ہے اب غریب کی ہر ایک آہ
زخم سے سجیں بدن تو خون سے کھلیں گلاب
انقلاب انقلاب، سوشلسٹ انقلاب

منزلیں ہیں وجد میں اور راستے بھی وجد میں
سر پھروں کے آ گئے ہیں قافلے بھی وجد میں
پاوں کے لہو سے تر سب آبلے بھی وجد میں
عزم بے شمار ہے، سرکشی ہے بے حساب 
انقلاب انقلاب، سوشلسٹ انقلاب

در بدر جوانیاں، یہ نامراد زندگی
کر رہی ہے مسترد سب اعتقاد زندگی
سب کو چاہیے ہے اب پراعتماد زندگی
عقل و دل میں ہو گیا ہے اشتراکِ انتخاب
انقلاب انقلاب، سوشلسٹ انقلاب

اب غریب و بینوا یہ سب کسان بھی اٹھیں
علم اور ادب کے سارے طالبان بھی اٹھیں
اجرتی غلام، ان کے خاندان بھی اٹھیں
متحد ہوئے تو ہو کے ہم رہیں گے کامیاب
انقلاب انقلاب، سوشلسٹ انقلاب

(پارس جان)

Comments are closed.