پشاور: بی آر ٹی کے مزدوروں کے سلگتے مسائل؛ یونین بنانے کی ضرورت کیوں ہے؟

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پشاور|

عوام کے پیسوں سے بنائی گئی پشاور میٹرو سروس بی آر ٹی پشاور، جس کو ”ذو پشاور“ بھی کہا جاتا ہے، کو باقاعدہ فعال ہوئے ڈیڑھ سال سے ذائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ 41 ارب روپے کے پراجیکٹ کو 70 ارب سے ذائد کی لاگت میں مکمل کرنے کی کہانی ایک طرف، مگر آج ہم اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں بی آر ٹی کو چلانے والے 4 سو سے ذائد مزدوروں کی حالت زار پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پچھلے سال انہی دنوں میں ”ذو پشاور“ کے مزدوروں نے پشاور بی آر ٹی کو بند کر کے احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔ ان کے مطالبات میں سرفہرست تنخواہوں میں کٹوتیوں کا خاتمہ کرنا تھا۔ آج ایک سال بعد ورکرنامہ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کی تنخواہوں میں، جوکہ حکومت کی مقرر کردہ کم از کم اجرت کے برابر ہے، پچھلے سال کے احتجاج کے بعد کٹوتی تو نہیں کی جاتی مگر جوں جوں وقت گزرتا ہے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

پشاور بی آر ٹی کے ایک مزدور نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندے سے گفتگو کی اور بتایا کہ اس وقت بی آر ٹی کے نچلے مزدوروں کی تنخواہیں 21 ہزار روپے ماہانہ ہیں جس میں ایک مزدور کے گھر کے اخراجات کسی صورت پورے نہیں کئے جاسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ بی آر ٹی کے اکثر مزدوروں کو اپنی ڈیوٹی کے علاوہ بھی کوئی نہ کوئی کام کرنا پڑتا ہے تب جاکر گھر کے اخراجات بمشکل چلائے جا سکتے ہیں۔

تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرنا ان مزدوروں کیلئے نوکری سے ہاتھ دھونے کے برابر تصور ہوتا ہے کیونکہ ’ذو پشاور‘ کے مزدوروں کو کنٹریکٹ بنیاد پر بھرتی کیا گیا ہے۔ لہٰذا ان کو جب چاہے نوکری سے فارغ کیے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ پشاور بی آر ٹی سروس کو تقریباً چھ سات منافع خور پرائیویٹ کمپنیوں کے ذریعے چلایا جاتا ہے جوکہ اپنے اپنے طور پر مختلف شعبوں میں انتہائی کم اجرتوں اور بنا کسی سہولت کے مزدور بھرتی کرکے استحصال کرتی ہیں۔ ایسے میں خیبرپختونخوا حکومت بی آر ٹی کے ذریعے کمائے گئے اربوں روپے میں سے کچھ حصہ ان کمپنیوں کو دیتی ہے اور کچھ منافع اپنے پاس رکھتی ہے۔ مگر محنت کش حکومت اور منافع خور کمپنیوں کے بیچ پستے چلے جاتے ہیں۔

علاوہ ازیں، اس قدر کم تنخواہ پر کام کرنے کے باوجود ان کے مختلف جائز حقوق سلب کر لئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے ساتھ معاہدہ کیا گیا ہے کہ بی آر ٹی کے مزدوروں اور ان کے بیوی بچوں کو علاج کی سہولت کمپنی فراہم کرے گی جس کے لئے تمام مزدوروں سے کاغذات جمع کروائے گئے مگر آج تک ان کو صحت کی سہولت وعدے کے مطابق مہیا نہیں کی گئی۔ پورے سال میں لیبر قانون مزدوروں کو جو 32 چھٹیاں دیتے ہیں، بی آر ٹی کے مزدوروں کو وہ چھٹیاں بھی نہیں دی جاتیں۔ ایمرجنسی کی چھٹیاں، بیماری کی چھٹیاں، گرمی یا سردی کی چھٹیاں بالکل نہیں ہوتیں۔ کسی ایمرجنسی کی صورت میں چھٹی کرنے پر اس دن کی دیہاڑی کاٹ لی جاتی ہے۔

ایسے حالات میں مزدوروں کے پاس ان در پیش مسائل کو حل کرانے کیلئے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں۔ ساڑھے چار سو مزدور اکیلے اکیلے اپنے بوجھ کو کندھوں پر اٹھائے گھسیٹ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ کو ان سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ مگر دوسری طرف بی آر ٹی کے مزدوروں کے مسائل سب کے مشترکہ مسائل ہیں اور یہ مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے کسی ایک مسئلے کے حل کیلئے بھی مزدوروں کو اکھٹے ہوکر اپنی یونین بنانے کی ضرورت ہوگی۔ مثال کے طور پر تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ، صحت الاؤنس، ہاؤس الاؤنس، سالانہ چھٹیاں، اوور ٹائم ادائیگی وغیرہ جیسے مطالبات آخر میں نوکری کی مستقلی کے مطالبے کے ساتھ جڑے ہیں۔ ایک دفعہ اگر نوکری مستقل ہو تو پھر باقی تمام مطالبات کو بے خوف ہوکر سامنے لایا جا سکتا ہے۔ مگر نوکری کی مستقلی کے مطالبے کیلئے ناصرف یہ کہ مزدوروں کو متحد ہوکر جدوجہد کرنی ہوگی بلکہ بی آر ٹی پشاور کی مزدور یونین بنانی ہوگی۔ یونین بنانے کیلئے خواہ جتنا وقت لگے، چاہے جنتی محنت لگے مگر یہ یونین ہی وہ قوت ہوگی جو بی آر ٹی کے محنت کشوں کے تمام مسائل کے حل کی ضمانت دے گی۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اس جدوجہد میں ہر قدم پر بی آر ٹی پشاور کے مزدوروں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔

Tags: × ×

Comments are closed.