گوادر، ماہی گیری اور زندگی کے تھپیڑے!

|رپورٹ:ریڈ ورکرزفرنٹ، بلوچستان|

بلوچستان کی ساحلی پٹی جوکہ 770 کلومیٹر لمبائی پر مشتمل ہے،اور اس ساحلی پٹی کے ساتھ رہتے ہوئے لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے۔ جس میں بالخصوص گوادر (پسنی،جیونی) کے 80 فیصد غریب لوگ دو وقت کی روٹی اور زندگی کا پہیہ جاری رکھنے کے لئے ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ ماہی گیری کا پیشہ انتہائی سخت نوعیت کا حامل ہوتا ہے جس میں اس شعبے سے جڑے ہوئے لوگ سمندر کی بے رحم موجوں سے لڑ کر اپنی روزی کمانے کے ساتھ ساتھ ملکی زرمبادلہ میں اضافہ کرتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ان لوگوں کی زندگی میں کبھی بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ آج کے دور جدید میں بھی یہ لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور زندگی کی تمام تر بنیادی ضروریات اور سہولیات سے یکسر محروم ہیں۔ ایک طرف سمندر میں روزی کی تلاش میں ان کی زندگی محفوظ نہیں ہے جبکہ دوسری طرف زمین کے اوپر بھی ان کی زندگی بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہے۔

بلوچستان کے دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کی طرح ماہی گیر بھی اپنے معاشی حقوق کیلئے برسر احتجاج ہیں اور ان کے احتجاجوں کا محور ماہی گیری کے شعبے میں مختلف طرح کی مداخلت، جن میں تعمیری کام قابل ذکر ہے، اور پابندیوں کے خلاف ہوتا ہے۔

گوادر شہر میں ہونے والے حالیہ احتجاج ایکسپریس وے کی تعمیراتی کام کی وجہ سے ماہی گیروں کی مشکلات میں اضافے کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ جبکہ ایک مقامی رپورٹر کے مطابق گوادر شہر میں ڈپٹی کمشنر کے آفس کے سامنے غریب ماہی گیر پچھلے پندرہ سالوں سے غیر قانونی طور پر ٹرالرز کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں مگر ان کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ واضح رہے کہ بلوچستان کے ماہی گیروں کو سمندر میں ان کے شکار کرنے کی حدود میں غیر قانونی ٹرالنگ کرنے والوں کا سامنا ہے۔ مقامی ماہی گیروں کے مطابق غیر قانونی ٹرالرز سمندر میں آکر ان کے شکار کی حدود کی خلاف ورزی کے ساتھ سمندری حیات کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جس سے کئی اقسام کی مچھلیاں بلوچستان کے ساحل سے نایاب ہورہی ہیں۔ اس کے علاوہ بیس لاکھ مقامی ماہی گیروں کا روزگار شدید خطرے سے دوچار ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے 770 کلومیٹر ساحلی پٹی سے صرف سالانہ طور پر 147000 ٹن مچھلی نکالی جاتی ہے حالانکہ بلوچستان کی ساحلی پٹی کا پانی سندھ کے ساحلی پٹی کی نسبت صاف ہوتا ہے، مگر دوسری جانب سندھ کے 350 کلومیٹر کے ساحلی پٹی سے سالانہ طور پر 346000 ٹن مچھلی نکالی جاتی ہے، جبکہ بلوچستان میں ساحلی پٹی کے اندر اب وہ سکت بھی نام نہاد ترقی کی وجہ سے ختم ہورہی ہے۔ کیونکہ گوادرکی بندرگاہ میں ایک طرف تو توسیع کی جا رہی ہے لیکن دوسری جانب شہر کی اسّی فیصد آبادی جو ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہے سمجھتی ہے کہ اس سے ان کا روزگار خطرے میں پڑ گیا ہے۔ سخت سکیورٹی اور اپنی شکارگاہوں تک نہ پہنچ پانے کے باعث ماہی گیروں کو شکایت ہے کہ یہ ترقی شاید شہر میں تو آ رہی ہے لیکن ان کی زندگیوں میں نہیں۔ دوسری جانب مقامی ماہی گیر کے مطابق غیر قانونی طور پر مچھلیاں پکڑنے والے ٹرالرز مافیا غریب ماہی گیروں کو پکڑ کر ٹارچر کرتے ہیں اور بعض اوقات ان پر فائرنگ تک کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے کئی دفعہ غریب ماہی گیر زخمی ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ سکیورٹی فورسز بھی مختلف مواقع پر اپنے قریبی علاقوں میں غریب ماہی گیروں کو فائرنگ کا نشانہ بنا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے ان ماہی گیروں کو سمندری حدود پار کرنے کی پاداش میں ایران کے سمندری محافظ بھی گرفتار کرلیتے ہیں، جن کی رہائی کیلئے ان ماہی گیروں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ ایک مقامی ماہی گیر نے ٹیلیفونک رابطے میں نام نہ بتانے کی شرط پربتایا کہ ’’ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اپنا قومی شناختی کارڈ اور فشنگ لائسنس اور حتیٰ کہ اپنی کشتی کی فوٹو بھی ساتھ رکھنے کو کہا جاتا ہے، جیسے ہم کوئی دہشتگرد ہیں۔‘‘

مذکورہ ماہی گیر کے مطابق ’’گوادر پورٹ سے منسلک جگہ ہمارا سب سے اہم ماہی گیری کا مقام ہے جہاں ہم صدیوں سے مچھلیاں پکڑتے آئے ہیں اور یہ جگہ چھوڑنے کا کہنا ناانصافی ہے۔ چند چینیوں کی حفاظت کے لیے ہزاروں چھوٹے ماہی گیروں کا ذریعہ معاش نظرانداز کردیا گیا ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی معزز مہمان گوادر کا دورہ کرنے آتے ہیں، اور ایسا اکثر ہی ہوتا ہے، تب ماہی گیروں کے سمندر پر جانے پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ ’’جس دن ہم سمندر پر نہیں جاتے اس دن گھر پہ کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔‘‘

وہ پٹی جہاں بندرگاہ بن رہی ہے، ماہی گیروں کے لیے سونے کی کان ہوا کرتی تھی لیکن اب وہ وہاں نہیں جا سکتے۔ ان مرکزی شکارگاہوں میں مچھلیوں اور لابسٹر کا ذخیرہ قدرتی طور پر موجود ہے جن سے ماہی گیری کی سالانہ آمدن کروڑوں روپے تھی۔

ماہی گیر کہاں جائیں؟

سوال یہ ہے کہ اس وقت ماہی گیر کہاں جائیں گے؟ ایک مقامی ماہی گیر کا کہنا تھا کہ ’’ہم کیا کریں؟ لڑائی تو ان کے ساتھ نہیں کر سکتے، وہ ہمارے جال کاٹتا ہے، بندوقوں سے اپنے پاس سے ہٹاتا ہے، ہم ہٹ جاتے ہیں۔‘‘ گوادر کی بندرگاہ سے جڑے ترقیاتی اور سرمایہ دارانہ نظام کے جال میں شہر کے وہ چھوٹے ماہی گیر بری طرح پھنستے دکھائی دے رہے ہیں جن کے اپنے جال خالی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں آبادی کی اکثریت کو ماہی گیری کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا اور نہ ہی ان کو کوئی متبادل کام سکھایا جا رہا ہے جس کی مدد سے وہ آنے والی ’’ترقی اور خوشحالی‘‘ کا حصہ بن سکیں۔

Embed from Getty Images

اس حوالے سے حکومت یقین دہانیاں تو کراتی رہتی ہے جن میں نئے مواقع، جدید ٹیکنالوجی اور تربیت کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن یہ اقدامات عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتے۔ ماہی گیروں کے لیے متبادل جیٹیاں گزشتہ 12 برسوں سے تعمیر ہی ہو رہی ہیں، مکمل نہیں ہو پائیں۔

ماہی گیروں کے مطابق پورٹ سے قریبی علاقہ بھی اب گوادر بندرگاہ کی انتظامیہ کے کنٹرول میں آ چکا ہے۔ ماہی گیروں نے بتایا کہ ان کی دو تین مارکیٹیں بند ہو چکی ہیں کیونکہ وہاں بندرگاہ سے جڑا تعمیراتی کام شروع ہو چکا ہے۔ مزید یہ کہ ساحل بلوچستان پر ایسی بیشمار کشتی گاہیں ہیں جہاں مچھیرے اپنی کشتیاں کھڑی کرتے ہیں ان جگہوں کو نہ ماہی بندر کہہ سکتے ہیں نہ جیٹی، نہ فشریز نہ بندر گاہ۔ ایسی 35 بستیاں ساحل بلوچستان پر آباد ہیں۔ قابل ذکر بستیوں میں اورماڑہ، پشکان، سور بندر، گبد، سنٹ سر،کپر،گنز، نوخ بر، چْر، رمبرا، گروسنٹ، ماکولا، جافری، ہد، کولمیر سنت، طاق بندر وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام بستیوں سے مچھلی صرف آٹھ جگہ لا کر فروخت ہوتی ہے، یہ ہیں گوادر،پسنی، جیوانی،پشکان، سوربندر، ڈامب گڈانی اور کنڈ ملیر۔ پورے بلوچستان میں صرف تین جگہ فش ہاربر ہیں، جو گوادر پسنی اور گڈانی میں واقع ہیں، جہاں سے مچھلی بس اونے پونے خرید کر اٹھا لی جاتی ہے اور اصل نیلام اس کا کراچی میں ہی ہوتا ہے۔ کراچی تک پہنچانے میں اس کی تازگی میں کمی آ جاتی ہے اس لئے اس کے دام کم ملتے ہیں۔

کیا ماہی گیر محنت کش نہیں ہے؟ 

سندھ بالخصوص بلوچستان کے کنارے پرآباد گوادر اور لسبیلہ اضلاع کے غریب ماہی گیروں کا ایک اہم مسئلہ حکومتی سطح پر ان کو محنت کش کے طور پر تسلیم نہ کرنا ہے جس کے باعث ایک ماہی گیران تمام حکومتی منظور کردہ حقوق سے محروم چلا آرہا ہے جو صنعت میں کام کرنے والے کسی مزدور کو حاصل ہیں۔ جس طرح فیکٹری میں کام کرنے والا مزدور بہت سے خطرات کا سامنا کرتا ہے اسی طرح ایک ماہی گیر نہ صرف سخت جانی سے محنت کرتا ہے بلکہ سمندر کی بے رحم اور بپھری ہوئی موجوں سے مقابلہ کرکے اپنے بچوں کے لئے دو وقت کی رزق حلال کمانے کے لئے روزانہ اپنی زندگی داؤ پر لگاتا ہے۔

Embed from Getty Images

لیکن 70 سالوں پر محیط عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان کی حالت زار بدلنے کے لئے ان کو کسی حکومت اور عوامی نمائندہ نے سماجی تحفظ کی سہولت فراہم نہیں کی۔ پالیسی ساز اداروں کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ ساحلی پٹی پر آباد ماہی گیر وں کو سوشل سکیورٹی کے تحت رجسٹرڈ کرکے انکو وہ حقوق دیتے جو ایک محنت کش کے لئے مختص ہیں لیکن بلوچستان کے امیر اور نااہل حکمرانوں کو غریب ماہی گیروں سے متعلق کبھی عوام دوست پالیسی بنانے کا خیال اس لئے نہیں آیا کہ ماہی گیروں کی اکثریت بلوچستان کے 750 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی پرآباد غریب بلوچوں سے ہے۔ جوکہ اس سرمایہ دارانہ نظام کی خوب عکاسی کرتا ہے۔ حالانکہ کاغذی شکل میں مروجہ لیبر پالیسی کے مطابق مزدور کو بہت سے حقوق حاصل ہیں جس میں مزدورکی حادثاتی موت کی صورت میں ڈیتھ گرانٹ(death grant)، بچیوں کی شادی کے لئے میرج گرانٹ، علاج معالجے کے لئے ہسپتالوں اورتعلیم و تربیت کی خاطر اسکولز کا قیام، پینے کے پانی کی فراہمی، بچوں کے تعلیم کے لئے اسکالر شپ کی فراہمی، رہائش کے لئے کالونیوں کی تعمیر، مزدورں کے بچوں کو ہنر سکھانے کے مراکز کا قیام اور ان کو پائیدار اور محفوظ شکار کے لئے ضروری آلات و مشینری کی فراہمی شامل ہیں۔ لیکن ماہی گیروں کو کاغذوں میں بھی ایسا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ ہم ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ماہی گیروں کو فی الفور ایک عام محنت کش کا درجہ دیا جائے اور وہ تمام حقوق دیئے جائیں جو دیگر محنت کشوں کو حاصل ہیں۔

بجلی اور پانی کا مسئلہ

گوادر پورٹ کے اندر بجلی، پانی اور گیس کی فراوانی ہے۔ پورٹ مہنگے فرنس آئل پر چلنے والے چار اعشاریہ پانچ میگا واٹ کے پاور پلانٹ کے ذریعہ اپنی بجلی خود بناتا ہے۔ تین لاکھ اسی ہزار لیٹر کا ڈی سیلینیشن پلانٹ روزانہ موجودہ ضرویات کے لیے پانی فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہ تمام آسائشیں پورٹ پر دستیاب ہیں یا پھر علاقے کے واحد فائیو اسٹار ہوٹل میں۔ باقی ماندہ علاقہ بجلی کی طویل بندش کے دوران اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔ چاروں طرف سمندر سے گھرے ہونے کے باوجود، پانی گوادر کے لیے ایک قیمتی خزانہ ہے۔ گوادر جیسے شہر میں پانی کا ٹینکر15000روپے کا ملتا ہے تو نواحی علاقوں میں کیا حال ہوگا۔ ریت کے طوفان عام ہیں لیکن ان کے بعد نہانے کا پانی نہیں ہوتا۔

مقامی حکام کے مطابق بلوچستان کا یہ ساحلی شہر 2012ء کے بعد تیسری بار ایک بار پھر پانی کے شدید بحران سے دوچار ہے۔گزشتہ دو برسوں سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے شہر کو پانی کی فراہمی کا واحد ذریعہ آنکڑا ڈیم تقریباً خشک ہو چکا ہے اور گوادر اور اس کے نواحی علاقوں میں تین لاکھ کے قریب آبادی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ بچیاں تعلیم اور ترقی کا سفر طے کرنے کی بجائے گھر سے اس واٹر ٹینک تک کا سفر ہی طے کرتی ہیں تاکہ ان کے خاندان کی پیاس بجھ سکے اور ان کے مطابق بیس دن بعد آنے والا پانی، چند دنوں میں ختم ہو جاتا ہے۔گوادر کے حکامِ بالا کے مطابق آنکڑا ڈیم 1990ء کی دہائی میں 25 ہزار کی آبادی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا لیکن آبادی اب تین لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور ڈیم کی گنجائش 50 فیصد سے کم ہو چکی ہے۔ حکام کے مطابق یہ پانی بھی پینے کے قابل نہیں ہے اور انسانی صحت کے لیے نہایت مضر ہے۔ 

گوادر کے اس ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں جس کے خواب پورے پاکستان کو دکھائے جا رہے ہیں اور وہ خود اس کا حصہ بھی بننا چاہتے ہیں لیکن واویلا کی جانے والی ترقی نے وہاں کے غریب عوام کی زندگی میں کوئی بہتری لانے کی بجائے اس کو مزید اجیرن کر دیا ہے۔ یہ تضاد شہر میں تعمیر کی گئی نئی سڑکوں پر واضح نظر آتا ہے جہاں خچروں پر لاد کر لائے گئے پانی کے کنستر مہنگے داموں فروخت ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

صحت اور انفراسٹرکچر کا مسئلہ

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں بندرگاہ، نئی سڑکوں اور رئیل اسٹیٹ کی شکل میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے لیکن کیا حکومت مستقبل کے ’’میگا سٹی‘‘ کے شہریوں میں بھی کوئی دلچسپی رکھتی ہے؟ روزانہ تقریباً سو مریضوں کا معائنہ کرنے کے لیے گوادر شہر کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ایک ہی فیمیل ڈاکٹر موجود ہے، اسکے علاوہ پورے شہر میں ایک بھی ماہر گائناکولوجسٹ نہیں ہے۔ حاملہ خواتین کو علاج کے لیے ہزاروں میل دور کراچی بھیجنا پڑتا ہے اور فاصلہ زندگی اور موت کے درمیان فیصلہ کر دیتا ہے۔ گوادر شہر کے ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں آپریشن تھیٹر ہے لیکن انیستھیٹسٹ نہیں، میٹرنٹی وارڈ ہے لیکن گائناکالوجسٹ نہیں۔ 

گوادر کے ہسپتال میں روزانہ خواتین کی لمبی قطاروں سے ان کی طبی ضروریات کا اندازہ ہوتا ہے۔ نرسنگ عملے اور ڈاکٹروں کی واضح کمی ہے۔ ماہرین کے مطابق حکومت نے مقامی ڈاکٹروں کے لیے کوئی خاطر خواہ کوٹہ نہیں رکھا۔ باہر سے آنے والے ڈاکٹر زیادہ دیر تک ایسے مشکل حالات میں کام نہیں کر پاتے جہاں صحت اور طبی سہولیات کا بنیادی ڈھانچہ ہی غائب ہے۔اب بھی ڈاکٹروں کی نصف سے زیادہ نشستیں خالی پڑی ہیں اور مریضوں کی قطاریں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔

بی بی سی سے ایک انٹرویو کے دوران گوادر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں خدمات سرانجام دینے والی ڈاکٹر ثمینہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ زنانہ وارڈ میں چند ماہ قبل چھت کا ایک حصہ مریضہ پر ہی گر گیا تھا۔ وسائل کی اس حد تک کمی ہے کہ انتظامیہ نے اس چھوٹے سے حصے کو خالی کرا دیا لیکن بقیہ وارڈ ویسے ہی چل رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہسپتالوں کے چکر لگاتے مجبور لوگ گوادر کے اس تضاد کی بہترین عکاسی کرتے ہیں کہ جہاں ایک طرف میگا سٹی کئی سال سے تعمیر ہو رہا ہے وہاں اس کے شہری اب تک بنیادی طبی سہولیات کے لیے ہی ترستے دکھائی دیتے ہیں۔ اسکے علاوہ گوادر میں بلوچستان کوسٹل ہائی وے نے بڑے شہروں کو تو کراچی سے ملا دیا ہے لیکن چھوٹے چھوٹے قصبے اور بستیاں ابھی تک پختہ سڑک سے بھی محروم ہیں۔ تعلیم اور صحت کی ضروریات کا حال نامناسب ہے۔ کسی بھی ایمرجنسی میں کراچی آنے تک چھ سات گھنٹے تو صرف پختہ سڑک پر سفر کے لئے درکار ہوتے ہیں۔ سواری دستیاب ہی نہیں ہوتی۔ مریض کچے راستوں میں بے انتہا تکلیف اٹھاتے ہیں۔ کتنی ہی بستیاں ہیں جن میں آنے جانے کے لئے سمندر کے اترنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سمندر اسکول کا وقت دیکھ کر تو نہیں اترتا۔ سخت سردی میں صبح صبح اسکولوں کے ننھے طلباء و طالبات کمرکمر پانی سے گزر کر سردی میں بھیگتے ٹھٹھرتے ہوئے اسکول جاتے ہیں، جنہیں دیکھ کر ترس آتا ہے۔ ابھی چند ماہ سے موبائل فون کی سہولت کافی علاقوں میں دستیاب ہو گئی ہے، ورنہ تو حادثے کی صورت میں امداد تلاش کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا تھا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف بلوچستان کے ماہی گیر بلکہ سندھ کے ماہی گیروں سمیت پورے ملک کے محنت کش ایک جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان مسائل کی نوعیت الگ الگ ہے مگر ان کی جڑیں سرمایہ دارانہ نظام کی جڑوں میں ہی پیوست ہیں۔ اور جب تک یہ سرمایہ دارانہ نظام رہے گا تب تک یہ مسائل کم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کریں گے۔کیونکہ اس نظام کے اندر وہ سکت نہیں رہی کہ وہ پیداواری قوتوں کو مزید ترقی دے سکے۔ جس کی بلوچستان کے اندر سب سے بہترین مثال گوادر کے اندر سامراجی سرمایہ کاری کی ہے، گو کہ حکمران طبقہ اس سرمایہ کاری کو بلوچستان سمیت پورے پاکستان کے لیے دودھ اور شہد کی نہروں سے تعبیر کرتا ہے مگر دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ گوادر کے عوام اس تمام تر سرمایہ کاری سے بیگانگی کا شکار ہیں۔ سماج سے ان تمام تر غلاظتوں اور گندگیوں کا صفایا محنت کش طبقے کی آپس میں طبقاتی بنیادوں پر جڑت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

Comments are closed.