پشاور: دہشت گردی اور ریاستی اداروں کی ناکامی کے خلاف احتجاج، حل کیا ہے؟

|تحریر: صدیق جان|

30 جنوری کو پشاور پولیس لائن کی مسجد میں خودکش دھماکہ ہوا جس میں اب تک 102 لوگوں کی اموات ہو چکی ہیں جبکہ سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں اکثریت پولیس اہلکاروں کی ہے۔ اس دھماکے کی ذمّہ داری ٹی ٹی پی کے خراسانی گروپ نے قبول کی ہے جبکہ ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت کی طرف سے اس سے اظہار لاتعلقی کیا گیا ہے۔

پچھلے ایک سال سے خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں طالبان کی موجودگی کی اطلاعات ہیں جس کے خلاف پختونخوا کے عوام نے مختلف علاقوں میں بڑے بڑے احتجاج کئے ہیں اور ریاستی پشت پناہی میں دہشتگردی اور مذہبی انتہا پسندی کو مسترد کیا ہے۔ لیکن حکومت اور ریاستی اداروں کے طرف سے پختونخوا میں دہشتگردوں کی واضح موجودگی کو محض ”افواہ بازی“ کہہ کر رد کیا جاتا رہا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں سے کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جس میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہیں ہوتا۔

30 جنوری کو جب پشاور پولیس لائن کی مسجد میں دھماکہ ہوا تو اس کے خلاف عوام نے شدید غم و غصّے کا اظہار کیا اور ریاستی پشت پناہی کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی کے خلاف احتجاجوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جس میں جمعہ کے دن پختونخوا کے مختلف علاقوں میں بڑی تعداد میں مظاہرے ہوئے اور 4 فروری کو پشاور میں ا ولسی امن پاسون کے نام سے ایک بڑا احتجاج کیا گیا جس میں پورے پختونخوا سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور ریاستی اور خاص کر جرنیلی پالیسیوں، دہشت گردی کے خلاف اور امن کے حصول کے لیے نعرے لگائے۔

اس وقت دہشت گردی کے خلاف برپا ہونے والی یہ عوامی تحریک تیزی سے پھیل رہی ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے ساتھیوں نے ان احتجاجوں میں بھر پور شرکت کی اور ہر قسم کے قومی و ریاستی جبر اور فوجی اشرافیہ کی پشت پناہی کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی کو مسترد کیا۔ پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ طبقاتی جبر واستحصال کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے قومی، مذہبی، صنفی اور نسلی جبر کے خلاف بھی جدوجہد کر رہے ہیں اور ہر جگہ پر عوامی تحریکوں میں صف اول میں موجود ہوتے ہیں۔

دہشت گردی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اور نہ ہی آخری ہے بلکہ جب تک یہ سرمایہ دارانہ نظام اور کالے دھن اور سامراجی گماشتگی میں لتھڑی ہوئی اس کی نمائندہ ریاست موجود ہے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔ پچھلے چالیس سال سے پاکستانی ریاست نے دہشت گردی کو بطورِ ایک منافع بخش کاروبار پروان چڑھایا ہے اور چالیس سالوں سے یہ ریاست امریکی سامراج اور دیگر سامراجی ممالک سے کبھی ڈالر جہاد، کبھی نام نہاد وار آن ٹیرر، کبھی فوجی آپریشنوں اور کبھی کوئلیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر کئی بلین ڈالر بٹور چکی ہے۔ لیکن اب ایک طرف امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد ڈالرز آنا بند ہوگئے ہیں جبکہ دوسری طرف عالمی معاشی بحران کی وجہ سے پاکستانی ریاست بھی اس وقت شدید معاشی، سیاسی اور ریاستی بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے ریاست کے مختلف اداروں کے اندر اور ان اداروں کے ایک دوسرے کے ساتھ تضادات بھی شدید ہوگئے ہیں۔ اس سب کا نتیجہ ایک طرف مہنگائی، غربت اور بے روزگاری میں تاریخی اضافے کی صورت میں نکل رہا ہے اور دوسری طرف ملک کے دیوالیہ ہونے کا واضح خطرہ موجود ہے جبکہ ریاستی و فوجی اداروں اور حکمران اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کے انہی آپسی تضادات کی وجہ سے خون آشام دہشت گردوں کے ساتھ نام نہاد امن مذاکرات ہوئے، سینکڑوں دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کیا گیا اور انہیں ”ری سیٹل“ کرنے اور ”مین سٹریم“ میں لانے کی پالیسی اپنائی گئی۔

اس ساری کہانی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ چونکہ اس وقت پاکستانی ریاست شدید معاشی بحران کا شکار ہے لہٰذا فوجی اشرافیہ کے پالیسی ساز ایک مرتبہ پھر اس کوشش میں ہیں کہ دہشت گردی کا جواز بنا کر سامراجی ممالک سے مزید ڈالرز بٹورے جائیں اور اسی پس منظر میں دہشت گردوں کو خون کی ہولی کھیلنے کی چھوٹ دی گئی ہے۔

یاد رہے کہ جن کو اب یہ دہشت گرد کہتے ہیں ان دہشت گردوں کو امریکی سامراج اور پاکستانی ریاست نے ہی اس خطے میں اپنے مذموم سامراجی مقاصد کے لئے تخلیق کیا تھا، ان کو اربوں ڈالر کی فنڈنگ کی تھی اور انہیں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا تھا۔ لہٰذا اس دہشت گردی کا ذمہ دار سب سے پہلے امریکی سامراج ہے اور اس کے بعد گماشتہ پاکستانی ریاست، خاص کر اس کے جرنیل اور حکمران طبقہ ہیں۔

اگرچہ اس وقت پختونخوا کے عوام نے ریاستی آشیرباد میں ہونے والی دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے اور اس کے خلاف انتہائی دلیری اور بہادری سے لڑ رہے ہیں اور اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ سب خون ریزی کن کی پالیسیوں کا حتمی نتیجہ ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی بنیادوں کو سمجھا جائے اور اس کے خلاف ایک منظم پروگرام اور طریقہ کار وضع کیا جائے۔ اس کے ساتھ کچھ مزید ایسی چیزیں بھی ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔

ریاست کیا ہوتی ہے؟

فریڈرک اینگلز نے کہا تھا کہ ریاست طبقاتی جبر کا آلہ ہے۔ یہ ایک طبقے (سرمایہ دار) کے ہاتھوں میں دوسرے طبقے (محنت کش) کو دبانے اور کچل کر رکھنے کا آلہ ہوتا ہے۔ ریاست ایسی طاقت ہے جو تاریخی ارتقا میں سماج سے ہی پیدا ہوئی ہے لیکن یہ سماج سے اپنے آپ کو بالا تر کر لیتی ہے اور اس سے بیگانہ ہوتی جاتی ہے۔ ریاست کی یہ طاقت خاص طور پر مسلح افراد کے مخصوص جتھوں پر مشتمل ہوتی ہے جن میں فوج، پولیس، انٹیلی جنس اور جیل خانہ جات وغیرہ شامل ہیں۔

اس بحث سے ریاست کا کردار بالکل واضح ہو جاتا ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ ریاست اور آئین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنا حق حاصل کر سکتے ہیں، دراصل یہ لوگ بالواسطہ طور پر ریاست کو مضبوط کرتے ہوئے اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں کیونکہ بورژوا ریاست صرف سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور بورژوا آئین مکڑی کے جالے کی طرح ہوتا ہے جس میں غریب تو پھنس جاتا ہے لیکن امیر اور طاقتور اس کو چیر کر نکل جاتا ہے۔

اسی طرح پولیس ریاست کا ہی ایک مسلح ادارہ ہوتا ہے جس کا کردار انتہائی رجعتی ہوتا ہے اور جب بھی محنت کش طبقہ اپنے حقوق کے لیے سرمایہ دار طبقے کے خلاف آواز بلند کرتاہے تو یہی پولیس ان پر جبر کرتی ہے اور ان کو کچلتی ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ بطور ادارہ پولیس ا ور عوام کے مفادات ایک ہیں، انتہائی غلط مؤقف ہے۔ اگرچہ ریاست کے بحران، داخلی تضادات اور چار دہائیوں سے جاری جرنیلی پالیسیوں کے باعث پولیس اہلکار بھی دہشت گرد ی کا شکار ہو رہے ہیں اور اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جو کہ اس ریاست کی بنیادوں کے انتہائی کمزور ہونے کی عکاسی کرتی ہے۔ جس ریاست میں پولیس والے کھلے عام فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرے لگانے پر مجبور ہو جائیں، وہ بھلا عوام کو کیسے تحفظ دے سکتی ہے، یہیں سے اس کی ناکامی واضح ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کے حالیہ احتجاجوں کے ساتھ عوام کی ہمدردی نظر آئی گوکہ پولیس کے روز مرہ کے مظالم کے باعث عوام ان سے سخت نفرت بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ واضح ہے کہ دہشت گردی کے باعث پولیس والوں کی ہلاکتیں بھی عوام کی حکمرانوں اور ریاستی اشرافیہ کے خلاف نفرت کو ہی ابھارتی ہیں۔ دہشت گردی میں ہونے والی ہلاکتوں اور مختلف واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن بحیثیت مجموعی پولیس ریاست ہی کا ادارہ ہوتا ہے اور اس کا ایک ادارے کے طور پر کردار عوام دشمن ہی ہوگا۔ ہاں، یہ ضرور ممکن ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام و ریاست کو بنیادوں سے چیلنج کر دینے والی ایک طاقتور انقلابی مزدور تحریک کے دباؤ کے تحت پولیس کے عام ملازمین انفرادی طور پر عوام کے ساتھ جا ملیں لیکن بحثیت ایک ادارے کے اس کا کردار ہمیشہ رجعتی ہی ہو گا۔

کیا سرمایہ داری کے موجودہ عہد میں جدید قومی جمہوری ریاست کا قیام ممکن ہے؟

بہت سے لوگ اس سوال کو قومی مسئلے اور قومی جبر کے ساتھ گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں مظلوم قومیتیں بڑے پیمانے پر ریاستی جبر کا شکار ہیں اور پاکستان بلاشبہ مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ ہے۔ اس قومی جبر کے خلاف جدوجہد کرنا ہر با شعور شخص کا فرض ہے۔ لیکن آج یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کسی ایک قوم کا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی اس مسئلے کو قومی بنیادوں پر حل کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کرنے والوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں میں بھی ایک بڑی تعداد اسی قوم سے ہوتی ہے جس قوم کے افراد اس دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس لیے اس مسئلے کو قومی بنیادوں پر حل کرنے کا پروگرام دینے والے درحقیقت جانے انجانے میں بالواسطہ طور پر دہشت گردوں کی ہی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔

اسی طرح سامراج کے عہد میں سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے قومی آزادی کی جدوجہد کو محنت کش طبقے کی طبقاتی جدوجہد سے جوڑے اور اس کے تابع ہوئے بغیر بغیر منزل کا حصول ممکن نہیں بلکہ محنت کش طبقے سے کٹی ہوئی پیٹی بورژوا عناصر پر مشتمل قومی آزادی کی تحریکیں سامراجی طاقتوں کی آلہ کار بن جاتی ہیں اور سرمایہ دار طبقے کی غلام بن جاتی ہیں۔ ایسے بہت سے لیڈر ہمیں مزدور طبقے سے نفرت کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں اور جہاں وہ دیگر قوموں سے نفرت ابھارتے ہیں وہاں اپنی ہی قوم کے مزدور طبقے سے بھی شدید نفرت کرتے نظر آتے ہیں۔

جدید قومی ریاستیں آج سے تین چار سو سال پہلے سرمایہ دارانہ انقلابات کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئیں اور یہ سرمایہ داری کا تاریخی فریضہ تھا کہ وہ پوری دنیا میں جدید قومی ریاستیں قائم کرے لیکن سرمایہ داری کا ارتقا عالمی سطح پر ایک سیدھی لکیر میں اور یکسانیت کیساتھ نہیں ہوا بلکہ بورژوا انقلابات سے گزرنے والے ترقی یافتہ مغربی ممالک نے سر مایہ دارانہ حرکیات کے تحت ہی نوآبادیاتی پالیسیاں اپنائیں اور پسماندہ ممالک اور براعظموں پر دھاوا بول دیا۔ ان کو محکوم بنایا اور ان کے معدنیات اور وسائل پر قبضہ کیا۔ برطانوی سامراج نے بھی برصغیر کو اپنے طاقت اور دولت میں اضافے کے لیے لوٹا۔ اس مقصد کیلئے یہاں ہونے والے صنعت کاری اور متضاد سماجی ترقی وہ صنعتی انقلاب برپا نہ کر سکی جس کی بنیادوں پر جدید قومی جمہوری ریاستوں کو قائم کیا جاسکتا۔ اسی طرح سامراجی گود میں جنم لینا والا یہاں کا سرمایہ دار طبقہ بھی روز اول سے ہی ایک کمپراڈور یعنی دلال کریکٹر رکھتا تھا اور اپنا کوئی ایک بھی تاریخی فریضہ پورے کرنے سے قاصر تھا۔

اس وقت سرمایہ داری عالمی طور پر شدید بحران کا شکار ہے۔ سرمایہ داری نے اپنے آغاز میں اور اپنی جنم بھومی میں جن ممالک کو ترقی دی تھی آج ان ممالک میں بھی سرمایہ داری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہے اور وہاں پر بھی محنت کش عوام سرمایہ داری کے خلاف تحریکیں چلا رہے ہیں جبکہ سکاٹ لینڈ، کیٹا لونیا، کیوبیک جیسے دبے ہوئے قومی مسئلے بھی واپس سر اٹھا رہے ہیں۔

لہٰذا اس وقت سرمایہ داری میں یہ اہلیت نہیں کہ وہ کوئی بھی قومی اور معاشی مسئلہ حل کر سکے۔ بطور مارکسسٹ ہم ہر قسم کے قومی جبر کے خلاف ہیں اور قومی حق خودارادیت (بشمول ریاست سے علیحدگی) کا دفاع کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آج جو لوگ پختونستان کی بات کرتے ہیں تو کیا سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے ایک جدید قومی ریاست یعنی پختونستان کا قیام ممکن ہے۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ قومی سوال کسی بھی قوم کے حکمران طبقے کے لیے ان کی حکمرانی اور وسائل پر قبضے کا سوال ہوتا ہے جبکہ اس قوم کے محنت کش طبقے کے لیے روٹی اور خوشحال زندگی کا سوال ہوتا ہے۔ سرمایہ دار طبقے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ محنت کش طبقے کو قومی، مذہبی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرتے ہوئے آپس میں لڑائے تاکہ محنت کش عوام کی توجہ اصل لڑائی یعنی طبقاتی لڑائی سے ہٹا سکے۔ اس خطے میں قومی جبر کا خاتمہ اور قومی آزادی کا حصول اس خطے میں موجود پاکستان، افغانستان، ایران اور دوسرے ممالک کے محنت کش طبقے کے انقلابی اور طبقاتی جد وجہد کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

اس طرح اولسی پاسون کے احتجاجوں میں وہ لوگ بھی سٹیج پر موجود ہوتے ہیں جنہوں نے پشتونوں کے نام پر پشتونوں کے سروں، مال اور امن پر سوداگری کی اور اقتدار تک پہنچے۔ وہ آج بھی ان احتجاجوں میں سیاسی سکورنگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن بہت جلد پشتون عوام لیڈروں کے جامے میں چھپے ہوئے ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کاروں اوروفاداروں کو پہچان لیں گے اور ان سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے ایک نئی انقلابی اور جرات مند لیڈر شپ تراش لیں گے۔ یہاں مارکس وادیوں کا بھی فریضہ ہے کہ وہ ایک طرف ریاستی و قومی جبر جبکہ دوسری طرف بورژوا قوم پرستی کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کرتے ہوئے قومی مسئلے کا پرولتاری بین الاقوامیت پر مبنی حل عوام کے سامنے پیش کریں۔

حل کیا ہے؟

اس وقت اگر دہشت گردی کی روک تھام کوئی کرسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف محنت کش عوام اور انقلابی نوجوان ہیں۔ محنت کش عوام کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے خود منظم ہونا ہو گا اور محلے کی سطح پر ایسی دفاعی اور یکجہتی کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی جو مختلف جرائم اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ایسی ہی کمیٹیاں مختلف صنعتی اور عوامی اداروں اور کام کی جگہوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی بنانے کی ضرورت ہے جن کی قیادت ان کمیٹیوں کی جانب سے منتخب کیے گئے نمائندے کریں۔ اگر کوئی نمائندہ درست نمائندگی نہیں کر پاتا تو اس کو واپس بلا کر اس کی جگہ نیا نمائندہ منتخب کرنے کا اختیار بھی کمیٹی کو دیا جائے۔ سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں اور علاقے کے با اثر اور دولت مند افرادپر انحصار کرنے کی بجائے ان کمیٹیوں کو جمہوری انداز میں چلانے کی ضرورت ہے اور محنت کشوں کی اپنی طاقت پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کمیٹیوں میں جمہوری اندازمیں سب کے سامنے اور فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ان میں محنت کشوں کی بڑی تعداد اور بالخصوص مزدور یونینز کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جن کی رائے فیصلہ کن اہمیت کے حامل ہے۔

دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے بنائی جانے والی کمیٹیوں میں حکمران طبقے کے افراد اور ریاستی اہلکاروں کی شمولیت پر پابندی لگانی ہو گی۔ اس وقت پختونخوا اور پورے پاکستان کے اندر مختلف عوامی و پرائیویٹ اداروں کے محنت کش اپنے حقوق کے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ان میں ینگ ڈاکٹرز، اساتذہ، پیرامیڈیکس اور محنت کشوں کی دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔ ان سب کو بھی دہشت گردی کے خلاف عوام کا ساتھ دینا ہوگا کیونکہ دہشت گردی کا مسئلہ صرف میدان یا سوات کا نہیں بلکہ پورے پختونخوا اور پورے ملک کا مسئلہ ہے۔

پہلے بھی سماج کے ہر حصے کے لوگ دہشت گردی سے کسی نہ کسی شکل میں متاثر ہوئے ہیں جس میں ہسپتالوں میں دھماکے کیے گئے، آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا گیا، باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کیا گیا، وکلاء اور عدالتوں پر بھی دہشت گردوں نے حملے کیے۔ اس لیے سب کو مل کر دہشت گردوں اور ان کے پشت پناہوں سے لڑنا ہوگا۔ دہشت گردی کی تمام تر جڑیں اسی سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں اس لیے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے تمام افراد اور تنظیموں کو اپنی حتمی منزل سوشلسٹ انقلاب کو بنانا ہو گا۔ اس کے بعد ہی دہشت گردی کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کا اور ہر قسم کے قومی جبر کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوسکتاہے۔

Comments are closed.