پی ٹی سی ایل کے ریفرنڈم میں نئی قیادت کی کامیابی

|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|

 

14جون 2019ء پی ٹی سی ایل میں ریفرنڈم کا دن تھا جس میں تمام پی ٹی سی ایل ورکرز نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور نجکاری کے بعد کافی عرصہ سے چھائی خاموشی اور تنہائی کو توڑ ڈالا۔ اس ریفرنڈم کے دوران اس اہم ادارے کے مزدوروں میں دوبارہ ایک ولولہ دکھائی دیا۔ ہر دفتر اور ایکسچینج میں گہما گہمی اور جوش و خروش دیکھنے کو ملا جو کہ ایک خوش آئند امر ہے۔ اس سے پہلے 2010 ء میں ریفرنڈم ہوا تھا جس کو لائنز یونین نے ضیاء الدین کی قیادت میں جیتا تھا جبکہ مدِ مقابل پانچ یونینز تھیں جو علیحدہ علیحدہ ریفرنڈم لڑ رہی تھیں۔ لائنز یونین نے 8500 ووٹ لے کر CBA ہونے کا اعزاز جیتا تھا جبکہ مدِ مقابل تمام یونینز کے کل حاصل کردہ ووٹ لگ بھگ 15ہزار تھے جو کہ جیتنے والی یونین سے بہت زیادہ تھے لیکن ورکرز کی اس تقسیم کا فائدہ حکومت اور اتھارٹی نے لیا اور جیتنے والے لیڈران کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے ہوئے ورکرز پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے جبکہ ضیاء الدین نے بھی مفاہمتی پالیسی اختیار کرتے ہوئے مزاحمت کی بجائے مجبوری کا رونا رویا۔

جبکہ اس 9 سال کے عرصہ میں 4 دفعہ VSSR یعنی زبردستی رضاکارانہ طور پر ورکرز کو نوکری چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور نہ ماننے پر ٹرانسفرز، تادیبی کاروائیاں، ایکسپلے نیشن لیٹرز دیے گئے اور جبری برطرفیاں بھی کی گئیں۔ یہاں تک کہ نہ ماننے والوں اور ہڑتال کی کال دینے والوں کو اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔ پانچ سال تک تنخواہ بند رکھی گئی۔ ورکرز کوٹہ،ڈیتھ کوٹہ اور سن کوٹہ کا خاتمہ کر دیا گیا۔ سالانہ انکریمنٹس اور پروموشن کا خاتمہ کر دیا گیا۔ ڈیلی ویجز ملازمین 4 سال بعد خود کار نظام کے تحت مستقل ہوتے تھے، اس کا بھی خاتمہ کر دیا گیا اور NCPG جیسا ظالمانہ نظام نافذ کرکے جاب سیکیورٹی ختم کر دی گئی اور ساتھ ساتھ تمام مراعات بھی چھین لی گئیں۔

پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے بعد گورنمنٹ نے 4 دفعہ پے سکیل ریوائز کیے جس کے تحت تنخواہوں میں 20فیصد، 25فیصد اور 50فیصد اضافہ ہونا تھا لیکن پی ٹی سی ایل میں اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ گورنمنٹ سکیل کی جگہ کمپنی سکیل لاگو کیے گئے۔ 460 ورکرز کو برطرف کیا گیا اور بحال کرنے سے یکسر انکار کر دیا گیا۔ 700 ورکرز کی تنخواہ آدھی کر دی گئی اور کچھ کی تنخواہ بند کر دی گئی۔ پینشنرز اور بیواؤں پر ظلم کی انتہا کر دی گئی۔ آج تک کرپشن اور لوٹ مار کا یہ دھندہ اپنے عروج پر ہے۔ ورکروں کے حقوق کے لئے لڑنے اور جدوجہد کرنے والے لیڈران اور ورکرز کو ملازمت سے برخاست اور دہشت گردی کے پرچے کاٹ کر اڈیالہ جیل تک بھیج دیا گیا۔

میڈیا اور عدالت کوخریدنے کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا تاکہ پی ٹی سی ایل ورکرز کی آواز کو دبایا جا سکے اور اپنے سیاہ کارناموں پر پردہ پڑا رہے لیکن ورکرز نے اپنی جدوجہد سے 95فیصد عدالتی کیس جیتے مگر ان پر عملدرآمد ابھی تک نہیں ہو سکا۔ پچھلے تجربے کی روشنی میں اس دفعہ اپوزیشن میں رہنے والی تمام یونینز نے مل کر ریفرنڈم لڑنے کا فیصلہ کیا جس میں انہیں کامیابی ملی۔ تمام ورکرز اور یونین لیڈران اس وقت جشن منا رہے ہیں جو کہ ان کا حق ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حق اور سچ کی جیت ہوئی ہے۔

اس تمام تر صورتحال میں ورکرز نے اپنی جدوجہد سے ریفرنڈم کی تاریخ لی جو کہ 14 جون تھی اور اس کی تیاری میں تقریباً 12 دن ملے جو انتہائی کم وقت تھا لیکن ورکرز اور لیڈران کی دن رات انتھک محنت نے کامیابی کو ان کا مقدر بنا دیا اور اب باقاعدہ سرکاری نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے جس میں ورکرز کی جیت ہوئی اور پی ٹی سی ایل ورکرز اتحاد فیڈریشن نے، جس کا نشان چاند تارہ تھا، ایک تہائی اکثریت کے بڑے مارجن سے یہ ریفرنڈم جیت لیا، جس میں ورکرز اتحاد فیڈریشن نے 8014 ووٹ حاصل کیے جبکہ مخالف یونین کو صرف 3302 ووٹ ملے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ اس تمام جدوجہد اور ریفرنڈم میں کامیابی پر PTCL ورکرز اتحاد فیڈریشن کے تمام محنت کشوں کو دِلی مبارکباد پیش کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ لیڈر ان اپنے کیے گئے وعدے پورے کریں گے جن میں اپنے منشور پر من و عن عمل کرنے، کمپرو مائز نہ کرنے، ورکرز کے حقوق کے لئے آخری دم تک لڑنے، ووٹ دینے اور نہ دینے والوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنے، کسی کے خلاف انتقامی کاروائی نہ کرنے، انتظامیہ کے ٹاؤٹ نہ بننے، ورکرز کے دفاع کی خاطر لڑنے اور دیگر وعدے شامل ہیں۔

پی ٹی سی ایل پاکستان کا ایک منافع بخش ادارہ تھا جس کی 18 جون 2005ء کو نجکاری کی گئی اور اسے گھناؤنے سامراجی عمل کی نذر کر دیا گیا۔ اس کے صرف 26فیصد شیئرز جو کہ اتصالات کو دیے گئے تھے،کے عوض تمام کنٹرول اور ادارہ ان کے حوالے کر دیا گیا جنہوں نے اس ادارے کو گدھ کی طرح نوچ ڈالا۔ یہ سرمایہ دارواجبات کی صرف ایک قسط ادا کرکے تمام اثاثہ جات اور ورک فورس کے مالک بن بیٹھے۔ وہ ادارہ جو نجکاری سے پہلے سالانہ 28 ارب روپے کا خالص منافع دے رہا تھا جس کے اندر 84ہزار سے 90ہزار تک ورکرز کام کرکے اپنا روزگار چلا رہے تھے،اسے برباد کر کے رکھ دیا گیا۔4 دفعہ VSSR کے ذریعے جبری ریٹائر کرکے یا گولڈن ہینڈ شیک کے ذریعے ہزاروں ورکرز کو بے روزگار کیا گیا۔ اب اس ریفرنڈم تک لگ بھگ 13ہزار ورکرز ادارے میں کام کر رہے ہیں۔

نجکاری کے خلاف ورکرز نے ایک طویل جنگ لڑی لیکن قیادت کی غداری نے مشرف آمریت کے سامنے ڈٹ جانے والے ورکرز کو ہارنے پر مجبور کر دیا۔ دوسرے اداروں کی یونینز نے بھی مکمل طور پر ساتھ نہیں دیا اور تن تنہا ایک ادارہ ظالم ریاست اور سامراجی طاقتوں کا مقابلہ نہ کر سکا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نجکاری کے خلاف پورے ملک میں ہر ادارے کے محنت کشوں کو یکجان ہو کر لڑنا پڑے گا اور ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھنا پڑے گا تاکہ اس جبر سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں اس ادارے کی نو منتخب قیادت اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور جس طرح پی ٹی سی ایل کے بکھرے ہوئے ملازمین کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا اب اس سے آگے بڑھتے ہوئے دیگر اداروں کے ساتھ بھی یکجہتی کرتے ہوئے انہیں نجکاری کیخلاف لڑائی میں متحد کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ تمام اداروں کے مزدوروں کی مشترکہ جدوجہد کے ذریعے ہی حکمران طبقات کے مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری اور دیگر حملوں کیخلاف ایک کامیاب لڑائی لڑی جا سکتی ہے اور مزدور اپنے مسائل سے حتمی طور پر نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ آنے والا وقت اس نو منتخب قیادت کے لیے ادارے کے اندر اور باہر ایک امتحان کا وقت ہو گا جس پر پورا اترنے کے لیے ریڈ ورکرز فرنٹ پی ٹی سی ایل کے محنت کشوں سمیت ان کا بھرپور ساتھ دے گا۔

Comments are closed.