|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، اسلام آباد|

قائداعظم یونیورسٹی میں لسانی اور علاقائی بنیادوں پر قائم نام نہاد کونسلیں، جو ملک بھر میں خود کو ترقی پسند اور طلبہ دوست ظاہر کرتی ہیں، پچھلے عرصے میں اپنے اصل کردار کے ساتھ کھل کر سامنے آئی ہیں۔ سعید بلوچ کی بازیابی جیسے سنجیدہ انسانی مسئلے پر ان کونسلز کی طرف سے کوئی عملی کوشش سامنے نہ آئی۔ اس کے برعکس ان کا جھکاؤ اکثر انتظامیہ کی طرف دیکھنے میں آیا۔
یونیورسٹی میں ہر سال فیسوں میں اضافہ، ہاسٹلوں کی کمی، اور طلبہ کے دیگر بنیادی مسائل پر بھی یہی کونسلز ہمیشہ کمپرومائز کرتی رہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے یونیورسٹی کے اندر سے بائی پاس بنانے کے فیصلے پر بھی صرف رسمی احتجاج کیا گیا اور پھر حسبِ روایت خاموشی اختیار کرلی گئی۔
اس کے ساتھ ساتھ، انسانی حقوق اور طلبہ حقوق کی آواز اٹھانے والوں کو انتظامیہ اور خصوصاً پشتون کونسل کی طرف سے مسلسل ہراسانی کا سامنا رہا۔
حال ہی میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ طلبہ نے کیمپس میں ایک اسٹڈی سرکل منعقد کیا، جس کا موضوع ’فلسفے کی تاریخ: ایک مارکسی تناظر‘(History of Philosophy: A Marxist Perspective) تھا۔

اس نشست کا مقصد تنقیدی فکر اور فلسفے کی کلاسیکی بحثوں کو فروغ دینا تھا۔
لیکن پشتون کونسل اور QSF، جنہیں عمومی طور پر انتظامیہ کے قریب سمجھا جاتا ہے، نے اس علمی سرگرمی پر انتہائی قابلِ مذمت ردعمل دیا۔ اسٹڈی سرکل کے منتظمین کو کھلی دھمکیاں دی گئیں، اور کچھ ساتھیوں کو جسمانی طور پر ہراساں کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ طلبہ کی فوری سکیورٹی کے پیشِ نظر متعلقہ پوسٹ پارٹی کے سوشل میڈیا ہینڈل سے ہٹانا پڑی کیونکہ پشتون کونسل کی جانب سے سر پھوڑ دینے اور یرغمال بنانے جیسی سنگین دھمکیاں دی جا رہی تھیں، یقیناً انتظامیہ کی ہی پشت پناہی سے۔
اگر پچھلے چند سالوں میں کونسلز کی باہمی لڑائیوں کو دیکھیں، تو ان کے کردار کی اصلیت مزید واضح ہو جاتی ہے۔ صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ چیئرمین بننے کے لیے امیدوار کو باقاعدہ چند لڑائیاں لڑنا ”ضروری“ سمجھا جاتا ہے۔ ہراسمنٹ کے واقعات پر بھی یہ کونسلز مسلسل خاموشی اختیار کرتی آئی ہیں۔
قابلِ مذمت یہ ہے کہ جس نشست پر اعتراض اٹھایا گیا وہ نہ تو کسی پرتشدد مواد پر مبنی تھی اور نہ ہی کسی انتشار انگیز سوچ کی ترویج کرتی تھی۔ اصل مسئلہ وہ سٹڈی سرکل نہیں بلکہ وہ نظریاتی شناخت تھی جو انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ جڑی ہے۔ اس سرگرمی کو خطرے کے طور پر دیکھا جانا اس بات کی گواہی ہے کہ طلبہ میں کمیونزم کے انقلابی نظریات سے انتظامیہ اور اس کی پالتو QSF میں شامل کونسلیں خوفزدہ ہیں۔ لہٰذا اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔
یاد رہے کہ سعید بلوچ، جو قائداعظم یونیورسٹی کے طالب علم ہیں، انہیں چھ ماہ قبل اسلام آباد ٹول پلازہ سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بلوچ طلبہ اور ان کے خاندان نے کیمپس میں کیمپ لگا کر احتجاج کیا، یونیورسٹی بند ہوئی، لیکن انتظامیہ نے کوئی سہولت دی اور نہ ہی ان کی بازیابی کے لیے سنجیدہ قدم اٹھایا۔ ان مظاہروں میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی نے بھرپور شرکت کی اور طلبہ کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔
مزید یہ کہ بلوچ کونسل پر انتظامیہ کی جانب سے یہ دباؤ ڈالا گیا کہ وہ جبری گمشدگی جیسے سیاسی اور انسانی مسئلے پر “درمیانہ” مؤقف اختیار کرے۔ یہ وہی depoliticization ہے جس کے ذریعے حقیقی ظلم کو غیرسیاسی انتظامی مسئلے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ایک پالیسی جس کی انقلابی کمیونسٹ پارٹی نے سخت مخالفت کی۔
اس کے باوجود پشتون کونسل نے انتظامیہ کے اشارے پر انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبران کو احتجاج میں شرکت اور مؤقف رکھنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی، یہ کہتے ہوئے کہ ”یونیورسٹی میں پارٹی سیاست نہیں ہونی چاہیے“ حالانکہ یہی پشتون کونسل ریاستی جماعت کے سینیٹر محسن نقوی کے ساتھ جلسے اور کلچرل پروگرام کرتی رہی ہے۔ ایک طرف تو خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ریاستی جبر تاریخ کی بدترین شکل اختیار کر چکا ہے جبکہ دوسری طرف سوال تو درکنار مجرموں کے ساتھ محو رقصاں ہیں!!!
یہ صورتِ حال ایک واضح تضاد ہے: ایک طرف خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ریاستی جبر اپنی بدترین شکل میں موجود ہے، اور دوسری طرف یہاں وہی تنظیمیں طلبہ کے اصل ایشوز کو کچلنے کے لیے رقص و سرود میں مگن رہتی ہیں۔ ایسے جبر کے ماحول میں کم از کم نیلو بیگم جتنی جرات تو درکار ہوتی ہے جس پر حبیب جالب نے لکھا تھا:
تُو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
یہ پورا واقعہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ قائداعظم یونیورسٹی میں طلبہ سیاست نظریات کی بحث سے نکل کر طاقت، دھونس، انتظامیہ سے قربت اور خوف کے گرد منظم ہو چکی ہے۔ علمی سرگرمیوں پر دھمکیوں، سنسرشپ اور حملوں کا بڑھنا اس بات کی علامت ہے کہ کیمپس میں آزادیِ فکر کس حد تک محدود ہو چکی ہے۔
اگر یونیورسٹیاں مکالمے کے بجائے خاموشی اور خوف کی جگہ بن جائیں، تو وہاں علم نہیں بلکہ طاقت کا راج قائم ہوتا ہے۔ یہی اس واقعے کا گہرا سیاسی مفہوم ہے۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ طلبہ یونین کی فوری بحالی کی جائے تاکہ جمعیت، کونسلز اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے قائم غنڈہ گردی کا خاتمہ ہو، اور طلبہ سیاست حقیقی معنوں میں پروان چڑھ سکے۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بننے کے لیے رابطہ کریں:
03198401917















In defence of Marxism!
Marxist Archives
Progressive Youth Alliance