کوئٹہ: محنت کش خواتین کے عالمی دن پر احتجاجی ریلی اور مظاہرے کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کوئٹہ|

محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے زیرِاہتمام احتجاجی ریلی اور مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔ ریلی میں کثیر تعداد میں طلبہ، مزدوروں، سیاسی کارکنان اور ٹریڈ یونین کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ریلی میٹروپولیٹن پارک سے شروع ہوئی اور پریس کلب پر پہنچ کر احتجاجی مظاہرے میں تبدیل ہو گئی۔

احتجاجی مظاہرے میں نظامت کے فرائض زاہدہ ملک نے سرانجام دیے جبکہ فیصل خان، سیما خان اور ثانیہ خان نے پروگریسو یوتھ الائنس کی نمائندگی کرتے ہوئے بات کی۔

سیما خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ بات جب محنت کش خواتین کے دن کی آتی ہے تو ذہن میں خود بخود تاریخ کی جھلکیاں آنے لگتی ہیں کہ اس دن کی بنیاد کہاں سے اور کیسے پڑی اور ہمیں مظبوط اور نڈر سائنسی و انقلابی نظریات سے لیس سوشلسٹ خواتین کی جدوجہد یاد آنے لگتی ہے جو انہوں نے اکیلے نہیں بلکہ اپنے مرد محنت کش ساتھیوں کے ساتھ ملکر کی تھی۔ یہ ضروری نہیں کہ صرف عورت کی جنسی ہراسانی کو ہی ہراسمنٹ سمجھا جائے۔ جب طلبہ اور محنت کش اپنے حقوق کے لیے احتجاجوں، دھرنوں یا جلسوں کی شکل میں ان جابر حکمرانوں سے اپنا حق مانگنے نکلتے ہیں تو اس وقت ان کو دھمکیوں، لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ اور مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے تاکہ وہ منتشر ہو جائیں۔ یہ عمل بھی ہراسمنٹ کی ایک قسم ہے۔ پوری دنیا میں ہر سال 8 مارچ خواتین کے عالمی دن کے طور منایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان میں لبرلز اور فیمینسٹ اس دن کو عورت کی آزادی کے نام سے مناتے ہیں جو درحقیقت محنت کش خواتین کا عالمی دن ہے۔ گویا وہ ایک تہوار منا رہے ہیں کیونکہ ان کے مطالبات میں خواتین کے اصل مسائل نہ تو دیکھنے کو ملتے ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ ہمیں محنت کش طبقے کی خواتین نظر آتی ہیں۔

فیصل خان نے اپنی بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی شدت پکڑتی جا رہی ہے اور خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنا اور کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل کے ملزمان اب تک گرفتار نہیں ہو سکے اور تمام الزام یونیورسٹی کے ایک سکیورٹی گارڈ اور انتظامیہ کے افسر پر لگا دیا گیا تاکہ اصل ملزمان کو بچایا جا سکے۔ فیصل خان نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ غریبوں کے بچوں سے تعلیم کا حق چھین رہا ہے۔ اس وقت محنت کش عوام اپنے بچوں کو نہ اچھی تعلیم دے سکتے ہیں، نہ ہی ان کی جائز خواہشات پوری کر سکتے ہیں۔ حکمران طبقے کے ان حملوں کا جواب دینے کیلئے پروگریسو یوتھ الائنس فیسوں میں اضافے، سکالرشپ کے خاتمے، تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں اور تعلیمی اداروں کی نجکاری کے خلاف ملک کے تمام طلبہ کو منظم کر رہا ہے۔ فیصل خان نے مزید کہا کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے تمام طلبہ ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر اس طبقاتی نظامِ تعلیم کا خاتمہ کریں تاکہ محنت کشوں کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہو سکیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پروگریسو یوتھ الائنس جنسی ہراسانی کے خلاف پورے پاکستان میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں بنانے کی کمپئین کا آغاز کر چکا ہے اور ہم بہت جلد بلوچستان میں بھی تمام خواتین تک اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش کریں گے اور خواتین کو اپنے ساتھ جوڑنے کی جدو جہد کریں گے۔

ثانیہ خان نے خواتین کی جدوجہد کے سلسلے میں ایک نظم سنائی۔ مظاہرے میں دیگر مقررین میں قمرالنسا اور مجید زہری نے بھی بات کی۔

مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے رزاق غورزنگ نے آئے ہوئے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی جبر کے نتیجے میں بلوچستان کے مظلوم عوام جن مشکل حالات سے گزر رہے ہیں اس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں اور یہاں پر قومی جبر اور بلوچستان کی ریاستی لوٹ کھسوٹ کے نتیجے میں ریاست کی جو ”مارو اور پھینک دو“ کی پالیسی ہے اس پر ہمارا دوٹوک موقف سب پر واضح ہے۔ لاپتہ افراد اور ان کے لواحقین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے قومی سوال پر ہمارا مارکسی موقف ہے اور جو لوگ بلوچستان میں قومی سوال اور جبر سے انکار کرتے ہیں ان کو ہم مجرم سمجھتے ہیں۔اسی طرح ہماری یہ کوشش ہے کہ بلوچستان میں خواتین پر پدرشاہی، ثقافتی جبر اور نام نہاد قبائلی روایات کے جبر کے خلاف جدوجہد کو محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد سے جوڑ ا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم جہاں ریاستی جبر کی ہر ممکن مذمت کرتے ہیں اور محکوم عوام کے حق خود ارادیت کی مشروط حمایت بھی کرتے ہیں وہیں ہم لبرل اور بورژوا قوم پرستی کی ہر شکل کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہم مزدور تحریک سے لاتعلقی میں ہر مسلح جدوجہد کے طریقے کو بھی ایک زہر قاتل سمجھتے ہیں۔ لبرل قوم پرستی اپنے نظریاتی مواد کی وجہ سے ناگزیر طور پر سامراجی طاقتوں سے خوش فہمیاں پال لیتی ہے اور ہم ان سامراجی طاقتوں کو اس کرہ ارض پر ایک ناسور سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہماری جدوجہد اپنے اختتام پر نہیں بلکہ اپنے آغاز میں ہی اس سامراجی نظام کے خلاف دنیا بھر کے محنت کش طبقے کی مشترکہ جدوجہد ہے۔ ہمارے نظریات مزدور طبقے کے نظریات ہیں جبکہ بورژوا قوم پرست نظریات سرمایہ دار طبقے کے نظریات ہیں۔ ہم نظریاتی اور سیاسی اختلاف کو چھپاتے نہیں بلکہ کھل کر اپنے نظریات کا دفاع کرتے ہیں اور نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر مکالمے اور مباحثے کو ہمیشہ خوش آمدید کہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کسی دوسری تنظیم کے جلسے یا ریلی میں زبردستی اپنے قائد کی تصاویر کو لہرانے کی کوشش کرنا اور روکنے پر بھونڈا اور غلیظ پروپیگنڈا ایک نیم فسطائی عمل ہے اور ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ ان عناصر کو چاہیے کہ اپنے رویوں میں سیاسی تدبر، بردباری اور برداشت پیدا کریں اور اپنے مخصوص نظریات کے ساتھ اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے بہتان تراشی اور گھٹیاپن سے اجتناب کریں۔

Comments are closed.