بنیاد پرستی کی نورا کشتی اور پیٹرول کی قیمت میں اضافہ

|تحریر: علی برکت بلوچ|

اگر کوئی محکوم قوم یا محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے حقوق اور وسائل کے تحفظ کی بات کریں تو ان پر آرٹیکل 6 لگانے کی دھمکی دی جاتی ہے اور وہ غدار بن جاتے ہیں ۔ اسی چیف جسٹس نے مزدور یونینوں پر پابندی لگانے کا بھی عندیہ دیا تھا۔لیکن اب ان لوگوں پر کونسا آرٹیکل لگائیں گے جو پاکستان کی آئینی عدالتوں کے قانونی فیصلوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ یہ محب وطن ہی ٹھہریں گے ؟؟؟ یا پھر یہ کہیں کے جان بوجھ کر حکومت اور ادارے پٹرول کی قیمت میں اضافے اور نجکاری جیسے حقیقی ایشوز سے عوام کی توجہ ہٹا کر نان ایشوز میں الجھا رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمت میں پانچ روپے اضافہ کر دیا گیا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پسے ہوئے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے اور اس سے قبل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے، گیس کی بندش اور پاگل پن کی حد تک بڑھے ہوئے ٹریفک چالانوں نے عوام میں شدید رد عمل کو جنم دیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے محنت کش اپنے حقوق کے حصول کی مختلف لڑائیوں میں مصروف ہیں جس میں حال ہی میں یوٹیلیٹی سٹورز کی نجکاری کے خلاف محنت کشوں نے ایک بڑی تحریک منظم کی جس کے نتیجے میں حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز کی نجکاری کے فیصلے پر نظر ثانی کا یقین دلایا۔ سندھ میں نرسنگ سٹاف کی جدوجہد بھی جاری ہے۔ پنجاب میں اساتذہ اور دیگر شعبوں کے محنت کش اپنے حقوق کے لئے منظم ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ صحافی بھی احتجاجوں میں مصروف ہیں اور آزادئ اظہار، محنت کے مناسب معاوضے اور جبری برطرفیوں کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ ان ایشوز سے حکمران جتنا بھاگیں عوام انہیں بھاگنے نہیں دینگے۔ اور صرف یہی نہیں ہر طرف دیکھیں حکومت کی عوام دشمنپالیسیوں محنت کشوں کو بھوک اور بیماری سے موت کے منہ میں دھکیل رہی ہیں۔تحریک انصاف کے لیڈر اعظم سواتی کے حکمپر ایک مظلوم خاندان پر تشدد اور کراچی میں پاکستان کوارٹرز میں رہنے والوں پہ وفاقی حکومت کے حکم پر پولیس کا جارحانہ تشدد ( لاٹھی چارج، آنسو گیس شیلنگ، واٹر پائپ کا استعمال)، جس میں ایک خاتون بھی شہید ہوئی، حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے چیختے ہوئے ثبوت ہیں۔حکومت عوام کو نان ایشوز میں الجھا کر پرائیویٹائزیشن کرنے کا فیصلہ بھی کر چکی ہے جس میں اسٹیٹ لائف جیسے اہم ادارے کی بھی نجکاری کی جا رہی ہے جس سے ہزاروں افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔

کراچی میں ایک غریب رکشہ ڈرائیور نے احتجاجاً رکشے کو آگ لگا دی

لیکن ان تمام حقیقی ایشوز کو پس پشت ڈال کر ایک عدالتی فیصلہ اس وقت مرکز نگاہ بنایا گیاہے۔ اس فیصلے میں ملک کی عدالت اور قانون کے مطابق آسیہ بی بی رہا ہوگئی اور مجرم ثابت نہیں ہوئی۔ لیکن اسی انصاف کا تقاضا ہے کہ اب ان لوگوں کو بھی سزائیں دیں جن کی وجہ سے ایک اقلیتی خاتون نو سال جیل میں قید رہی۔ دوسری طرف اگر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ غلط ہے تو پھر اس ادارے کے باقی تمام فیصلوں کو درست ماننے کا پیمانہ کیا ہے؟اس ملک کے قانون اور آئین کی کیا حیثیت ہے اور آرمی چیف اور ججوں کو دھمکیاں دینا کیوں قابل گرفت نہیں؟کیا قانون کا اطلاق صرف محروم اور مظلوم عوام پر ہی ہو سکتا ہے اور ریاستی اداروں کی پشت پناہی سے چلنے والی غنڈہ گردی کی کوئی سزا نہیں؟ کیا ہر شہر میں موجود چند درجن غنڈوں کو قابو نہیں کیا جا سکتا؟ یا پھر یہ سب کچھ کسی منصوبے کا حصہ ہے؟

یہ سوالات آج اس ملک میں رہنے والے ہر باشعور شخص کے ذہن میں ابھر رہے ہیں اور ان کا جواب دینے کے لیے کوئی سیاسی پارٹی یا ادارہ موجود نہیں۔میڈیا اور سیاست دان بھی خوفزدہ ہیں اور جانتے ہیں کہ اس غنڈہ گردی کی پشت پر موجود عناصر کسی بھی آواز کو سلب کر سکتے ہیں۔لیکن دوسری طرف ریاست کے تمام دھڑوں کی بزدلی بھی نظر آ رہی ہے اور دونوں جانب سے صرف دھمکیاں ہی دی جا رہی ہیں جبکہ عملی کاروائی ابھی تک کسی نے بھی نہیں کی۔یا پھر یہ کسی اسکرپٹ کا حصہ ہے۔ اس عوام دشمن ناٹک کو ختم کرنے کے لیے ایک عوامی تحریک کی ضرورت ہے جو اس تمام تر غلاظت کو بہا لے جائے۔

بہت سے لبرل بھی اس عدالتیں فیصلے پر بغلیں بجا رہے ہیں اور عوام دشمن چیف جسٹس کے تمام گناہوں کی معافی کا اعلان کر رہے ہیں۔ امریکی سامراج کے تلوے چاٹنے والے اور این جی اوز کی دکانیں چلانے والے یہ کاروباری افراد درحقیقت اسی غنڈہ گردی سے پیسے کماتے ہیں۔ انسانی حقوق کے نام پر سامراجی طاقتوں سے فنڈ کھانے والے اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ مذہبی بنیادی پرستی کے بیج خود امریکی اور برطانوی سامراج نے بوئے تھے اور آج بھی وہ اس کا پھل کھا رہے ہیں۔دنیا بھر میں سامراجی جنگوں کو مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب جیسی رجعتی ریاست کی پشت پناہی کرنے تک ہر جگہ امریکی سامراج اور اس کے حواری اس بنیاد پرستی کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ شام کی خانہ جنگی میں یہ واضح طور پر نظر آیا جب امریکی سامراج نے القاعدہ کے ساتھ مل کر وہاں متعدد کاروائیاں کیں اوردہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ یہ لبرل دانشور درحقیقت مذہبی بنیاد پرستی کے حمایتی ہیں اور کئی جگہوں پر ان کا انتخابی اتحاد بھی دیکھا گیا ہے۔یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور اس ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کو جاری رکھنے کے آلہ کار ہیں ۔ محنت کش طبقے کو ان دونوں کیخلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔

مشعل خان

تحریک انصاف بھی اس وقت امریکی سامراج کے ایما پر انصاف پسندی اور قانون کی حکمرانی کا واویلا کر رہی ہے۔ لیکن اسی تحریک انصاف نے پہلے ان بنیاد پرستوں کی حمایت کی تھی اور مردان یونیورسٹی میں مشال خان کے قتل میں بھی تحریک انصاف کے کارکنان شریک تھے۔ ابھی تک ان مجرموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جا سکا جو اس حکومت کے منہ پر ایک زور دارطمانچہ ہے۔یہاں کا بوسیدہ اور رجعتی عدالتی نظام اپنی عوام دشمنی کا ثبوت متعدد دفعہ دے چکا ہے اس لیے یہ کسی بھی قسم کی حمایت کا حق دار نہیں۔ جب پرویز مشرف وردی پہنے ہوئے صدر تھا تب بھی اس آمر کی آمریت کو عدالتوں کے تحت ہی تحفظ فراہم کیا گیا تھا اور بعد ازاں نام نہاد جمہوری ادوار میں بھی ان عدالتوں نے متعددمزدور دشمن فیصلوں سے اپنا کردار واضح کیا تھا۔ اس ریاست اور عدلیہ سمیت اس کے تمام اداروں نے کبھی کوئی ایسا اقدام کبھی نہیں کیا جس سے غریب عوام کی زندگیوں میں بہتری آئی ہو۔اس لیے ضروری ہے کہ مذہبی بنیاد پرستوں کی غنڈہ گردی کیخلاف لڑائی لڑنے کے ساتھ ساتھ ان عوام دشمن ریاستی اداروں کیخلاف بھی لڑائی لڑی جائے اور اس نظام کے خاتمے کی جدوجہد کی جائے۔

واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں وہ درحقیقت ریاست کے ایک دھڑے کی جانب سے بنایا گیا پریشر گروپ ہیں۔ وہ کچھ پیسوں کی خاطر کبھی بھی کسی کے حکم پر انتشار پھیلانے آ سکتے ہیں۔واقعات کی ترتیب سے دیکھا جا سکتا ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے معاملے پر حکومت کو یہ ڈر تھا کے اس فیصلے کے خلاف لوگ سڑکوں پر نہ آجائیں کیونکہ عوام کا غم و غصہ پہلے ہی انتہاؤں کو چھو رہا تھا۔اس کا اظہار کچھ واقعات سے بھی ہوتا ہے۔ چند دن پہلے کراچی میں ایک رکشے والے نے گیس نہ ملنے اور پیٹرول پر رکشا چلاکر گھر کا خرچہ پورا نہ کر سکنے کی وجہ سے احتجاجاً رکشا جلا کر خود کو بھی آگ لگادی اور مر گیا۔ اسی طرح فیصل آباد میں ایک رکشے والے نے چالان اور پولیس کی بھتہ خوری سے تنگ آ کر بجلی کے تاروں سے لپٹ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔ اگر آپ کسی بھی رکشا ڈرائیور سے دریافت کریں کے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہونے جارہا ہے تو آپ کیا کروگے ؟ تو تقریباً سبھی یہ جواب دیتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو ہم احتجاج کریں گے۔ سو پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے معاملے پر سماج میں شدید ردعمل نظر آتا ہے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے معاملے پر اس سے قبل کہ کوئی رکشا ڈرائیور یا دوسرے محنت کش احتجاج کرنے جاتے، جن کو پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ براہ راست تباہ و برباد کر رہا ہے، اس سے پہلے ہی ملاؤں کو ایک نان ایشو دے کر حکومت کی مہنگائی کے اقدامات پر پردہ پوشی کی کوشش کی گئی۔ اور یوں سرمایہ داروں کا میڈیا پورے دن سے یہ دکھانے میں مصروف ہے کہ آج کہاں کہاں احتجاج ہورہے ہیں۔ اس طرح بظاہرحکومت پیٹرول کو مہنگا کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ بحران زدہ حکومت ایسے اور بھی بہت سارے نان ایشوز کو میڈیا کی زینت بنا کر عوام کوگمراہ کرنے کی کوشش کرے گی۔

انقلابیوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ مزدور دشمن حکومت کے ہر وار سے عوام کو آگاہ کریں اور عوام کے خلاف جو ظلم ڈھائے جارہے ہیں اور جو ڈھائے جائیں گے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔بات عدل اور انصاف سے شروع ہوئی تھی اس پر ہی ختم کریں گے۔ پاکستان میں لا قانونیت عروج پر ہے اور آنے والے دنوں میں اور بھی بڑھتی چلی جائے گی۔ یہاں پر قانون طاقتور کو کبھی کیفرکردار تک نہیں پہنچا سکتا۔ سرمایہ دار طبقے اور سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ اور بقا کا فریضہ سرانجام دینا اس کا بنیادی فرض ہے۔ غریب پہلی بات تو یہ کے پیسے کے بنا عدالتوں میں پہنچ ہی نہیں سکتا اور اگر اپنی جمع پونجی یا جائیداد لگا کر پہنچ بھی جائے تو انہی عدالتوں میں انصاف کے حصول کے لئے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتا ہے لیکن کبھی اس کو انصاف دستیاب نہیں ہوتا۔ یہ انصاف اسی کے لئے ہے جو اس کو خریدنے کی سکت رکھتا ہے۔ اور اب تو حالات اس حد تک ابتری کا شکار ہو چکے ہیں کے لوگ ان عدالتوں میں انصاف کے حصول کے لئے جانے کی بجائے علاقائی سطح پر ہی پنچائیتوں وغیرہ کے تحت اپنے مسائل کا حل کر لینا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ یعنی اس عدل کے نظام پر پاکستان کی اکثریت کا اعتماد ہی نہیں رہا۔ ایسے میں یہ سمجھ لینا کہ واقعی یہ عدالتیں کہ پاکستان کے اکثریتی غریب عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری لا سکتی ہیں کسی دیوانے کی بڑ ہی ہو سکتی ہے۔ یہ نظام اور اس کے تمام تر ادارے صرف اس سرمائے کی حکمرانی کے نظام کو دوام بخشنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اب ضرورت ایک ایسے نظام کی ہے جس میں عوام اپنی زندگیوں کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور تبھی ایک ایسا سماج قائم کیا جا سکتا ہے جس میں تمام انسانوں کو حقیقی معنوں میں انصاف دستیاب ہوسکے۔ 

Comments are closed.